متفرق مضامین

نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 15)

(’م م محمود‘)

مجلس مشاورت میں صحابہ کی نمائندگی

’’گزشتہ سال کے فیصلہ جات جو تعیین نمائندگان کے متعلق تھے اس میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں مثلاً صحابہؓ کی نمائندگی کے متعلق ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ 1900ء سے پہلے کے صحابہ سارے کے سارے بطور حق کے ممبر ہیں اس میں جو مضمون ہے وہ بتاتا ہے کہ اس میں درحقیقت صحابہؓ کی اہمیت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت حاصل کی اور استفادہ کیا۔ ان کے شوریٰ میں بلانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کی صحبت کے اثر سے برکت لی جائے لیکن صحابہؓ کا لفظ بولتے وقت ایسی تشریح نہیں کی گئی جس میں یہ سارا مضمون آجائے۔ صحابہ کو بطور حق ممبر بناتے وقت یہی بات مدنظر تھی کہ ایسے لوگوں کو شمولیت کا موقع دیا جائے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت حاصل کی ہو اور اس سے فائدہ اٹھایا ہو لیکن محض صحابہؓ کے لفظ میں وہ بچہ بھی شامل ہے جو 1898ء، 1899ء، یا 1900ء میں پیدا ہوا۔ بہرحال صحابی کے لفظ کی تشریح ہونی چاہئے۔ صحابہ کی یہ تعریف بھی کی جاتی ہے کہ وہ شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں مسلمان ہو گیا اور اس نے اپنی زندگی میں چاہے کفر کی حالت میں ہی ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا ہو تو وہ صحابی ہے۔ پھر ایک تعریف یہ بھی ہے کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا ہو یا آپؐ نے اسے دیکھا ہو۔ غرض صحابیؓ کی کئی تعریفیں ہیں، مختلف ضرورتوں کے ماتحت اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں لیکن محض دیکھ لینے سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا، ہمیں فائدہ تو اسی صورت میں ہو گا کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت حاصل کی ہو اور پھر اس سے استفادہ کیا ہو۔ پس یہ بتانا چاہئے کہ صحابہؓ سے کون سے صحابہ مراد ہیں۔ چونکہ اس بات کی پہلے تشریح نہیں کی گئی تھی اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ شوریٰ کے لئے بعض ایسے صحابہ کے نام بھی آگئے جن کے متعلق مَیں قطعی طور پر یہ سمجھتا تھا کہ وہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔ جب ان پر یہ سوال کیا گیا کہ ان میں سے وہ کون سے صحابہ ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت حاصل ہوئی ہے؟ تو بعض ایسے لوگ بھی نکل آئے جنہیں صحبت نصیب ہی نہیں ہوئی تھی۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے تین دن تک کاغذات اپنے پاس رکھے کہ تحقیقات ہو رہی ہے حالانکہ بعض معروف صحابہ تھے مثلاً ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کو ہم جانتے ہیں لیکن انہیں بھی اِسی بناء پر محروم کر دیا گیا کہ ابھی تحقیقات ہو رہی ہے حالانکہ یہ ایسی چیز نہیں تھی جو ہم نہیں کر سکتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ کے لئے اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ صحابی کی تعریف اس حق کے حاصل کرنے کے لئے کیا ہو گی۔ آیا صحابی کی یہ تعریف ہو گی کہ وہ شخص جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کسی حالت میں بھی دیکھا ہو اور اس زمانہ میں یا بعد میں ایمان لایا ہو۔ یا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھ لیا ہو۔ یا اس کی یہ تعریف کی جائے گی کہ اس سے وہ صحابی مراد ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ صرف دیکھا ہو بلکہ آپ کی صحبت بھی حاصل کی ہو اور پھر استفادہ بھی کیا ہو۔

دوسری غلطی یہ ہوئی کہ یہ قانون تو بنا دیا گیا کہ 1900ء کے بعد کے صحابہ میں سے پندرہ صحابہ لے لئے جائیں لیکن کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ ان کے انتخاب کی کیا صورت ہو گی اور نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ربوہ کے صحابہ کی فہرست دے دی گئی۔ میں نے کہا کیا ربوہ کے صحابہ کو کوئی خاص فوقیت حاصل ہے کہ صرف انہیں حق دے دیا گیا ہے اور باہر کی جماعتوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ میں رات کو اِس بات پر غور کر رہا تھا لیکن میرے ذہن میں کوئی صورت نہیں آئی کہ کس طرح سارے صحابہ کا خیال رکھا جائے۔ آیا سارے صحابہ کی ایک فہرست بنالی جائے اور پھر ان میں قرعہ ڈال کر نام منتخب کئے جائیں یا کوئی اور صورت نکالی جائے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ شوریٰ میں نمائندگی کا حق لاہور، سیالکوٹ،گجرات، گوجرانوالہ اور دوسری جگہوں کے رہنے والے صحابہ کو نہ دیا جائے۔ مثلاً اپنی سہولت کے لئے یہ قاعدہ بنا سکتے ہیں کہ ہر جماعت جو ایک نمائندہ منتخب کر سکتی ہے اگر اسے ایک نمائندہ کا حق ہے تو اسے ایک زائد نمائندہ بھیجنے کا حق ہو گا جو صحابی ہو گا کیونکہ ہم ایک کے ٹکڑے نہیں کر سکتے۔ یا مثلاً یہ رکھا جائے کہ 25 فیصدی نمائندگی پر ایک زائد نمائندہ صحابی آئے، اس طرح ہر جماعت کو نمائندہ بنانے کا حق حاصل ہو جائے گا اور کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ بظاہر پچیس فیصدی نمائندگی کا حق دے کر ہم نے صحابہ کو کوئی زائد نمائندگی نہیں دی بلکہ پہلے انہیں 100 فیصدی نمائندگی حاصل ہوا کرتی تھی وہ ہم نے پچیس فیصدی کر دی ہے۔ صحابہ ویسے ہی نمائندگی کے حقدار ہیں جیسے دوسرے لوگ۔ صرف یہ علیحدہ نمائندگی کا حق اس لئے دیا گیا ہے تاصحابہ کا عنصر کم نہ ہو۔ اگر کسی جماعت کو 12 نمائندے بھیجنے کا حق ہے تو اسے تین صحابہ بھیجنے کا بھی حق ہو گا۔ اگر کسی جماعت کے نمائندے چار سے کم ہوں تب بھی وہ ایک صحابی بطور نمائندہ بھیج سکتی ہے۔

یہ تجاویز ہیں، آپ ان پر غور کرلیں۔ پہلے دن مجلس شوریٰ میں صحابہ کی نمائندگی مفقود تھی۔ آج 1900ء سے قبل کے صحابہ کو تو نمائندگی مل گئی ہے لیکن 1900ء سے بعد کے صحابہ میں سے جن پندرہ صحابہ کو نمائندگی کا حق ملنا تھا وہ نہیں ملا کیونکہ ان کے انتخاب کا ذریعہ نہیں بتایا گیا تھا۔ ‘‘(خطاب فرمودہ 12؍اپریل1952ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 510تا512)

مجلسِ مشاورت میں حصہ لینا بہت بڑے اعزازکا کام ہے

بعض امور کی تحقیق کے لیے مجلسِ مشاورت میں کیے گئے فیصلہ کے مطابق ایک کمیشن مقرر کیا گیا۔ ممبران کی سستی کی وجہ سے اس کا اجلاس جلد نہ ہو سکا۔ اس سلسلہ میں نصیحت کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا: ’’ناظر صاحب اعلیٰ نے ابھی رپورٹ فیصلہ جات سال گزشتہ پڑھ کر سنائی ہے۔ افسوس ہے کہ مجلس شوریٰ 1955ء کے فیصلہ کے مطابق صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر میں نظم ونسق اور ملازمین وپنشنرز کے حقوق ومفاد کے بارہ میں تحقیقات کرنے کے لئے جو کمیشن مقرر کیا گیا تھا اس کا دو دفعہ اجلاس بلایا گیا لیکن دونوں دفعہ اس کمیشن کا کورم جو تین ممبران پر مشتمل تھا پورا نہ ہو سکا اور اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ تیسرے اجلاس میں کورم پورا ہؤا اور کارروائی کی جا سکی لیکن کمیشن کی کارگزاری کے متعلق کوئی رپورٹ ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ جماعت کے دوستوں کو کام کی طرف توجہ نہیں۔

ہماری جماعت میں تو مشورہ لینے کا کام چونتیس سال سے شروع ہے لیکن انگلستان میں یہ کام ایک ہزار سال سے ہو رہا ہے۔ وہاں یہ خبر کبھی نہیں آئی کہ اجلاس میں ممبران حاضر نہ ہوئے۔ وہ لوگ ان اجلاسوں میں شریک ہونے کو موجبِ فخر سمجھتے ہیں اور بڑے شوق سے ان کاموں میں حصہ لیتے ہیں لیکن یہاں یہ حال ہے کہ جماعت کے دوست سلسلہ کے ایک اہم کام کے متعلق جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے اجلاس میں بھی نہیں آئے۔ گویا وہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کو تو عزت سمجھتے ہیں لیکن سلسلہ کے اجلاسوں میں شمولیت کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ حالانکہ مومن کو چاہئے کہ وہ سلسلہ کی کمیٹیوں کو پارلیمنٹ کی ممبری سے بھی زیادہ موجب عزت خیال کرے۔ جب تک جماعت میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا وہ اپنا کام کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتی۔ آخر کاموں کو تواتر سے چلانے کے لئے ضروری ہے کہ افراد کو بھی مشورہ میں شریک کیا جائے لیکن اگر انہیں سلسلہ کے کاموں میں دلچسپی ہی نہ ہو تو گو کام پھر بھی ایک حد تک چلتا رہے گا لیکن اسے ترقی نہیں دی جا سکے گی۔ مثلاً یہی کام جس کے لئے مشورہ طلب کیا گیا تھا، ایک ناظر کر رہا تھا لیکن صدرانجمن احمدیہ نے خیال کیا کہ ناظر کے ساتھ جماعت بھی مشورہ میں شریک ہو تا یہ کام ایک آدمی کا کام نہ رہے لیکن جماعت نے یہ نمونہ دکھایا کہ جو ممبر کمیشن کے طور پر مقرر کئے گئے تھے وہ اجلاس میں حاضر نہ ہوئے اور دو دفعہ کمیشن کا کورم پورا نہ ہو سکا۔ اگر ان لوگوں کو گورنر لاہور میں چائے پر بلاتا اور یہ لوگ پشاور میں ہوتے تب بھی وہ اس دعوت میں شریک ہونے کے لئے چل پڑتے اور اس شرکت کو اپنے لئے موجبِ عزت خیال کرتے مگر سلسلہ کی کمیٹیوں میں شامل ہونا ان کے نزدیک موجبِ عزت نہیں۔

تم جو چاہو کر لو لیکن یاد رکھو وہ دن آنے والا ہے جب احمدیت کے کاموں میں حصہ لینےوالے بڑی بڑی عزتیں پائیں گے لیکن ان لوگوں کی اولادوں کو جو اِس وقت جماعتی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے دھتکار دیا جائے گا۔ جب انگلستان اور امریکہ ایسی بڑی بڑی حکومتیں مشورہ کے لئے اپنے نمائندے بھیجیں گی اور وہ اسے اپنے لئے موجبِ عزت خیال کریں گے، اس وقت ان لوگوں کی اولاد کہے گی کہ ہمیں بھی مشورہ میں شریک کرو لیکن کہنے والا انہیں کہے گا کہ جاؤ، تمہارے باپ دادوں نے اِس مشورہ کو اپنے وقت میں ردّ کر دیا تھا اور جماعتی کاموں کی انہوں نے پرواہ نہیں کی تھی اِس لئے تمہیں بھی اب اس مشورہ میں شریک نہیں کیا جا سکتا۔

پس اِس غفلت کو دور کرو اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ جو شخص سلسلہ کی کسی میٹنگ میں شامل ہوتا ہے اس پر اس قدر انعام ہوتا ہے کہ امریکہ کی کونسل کی ممبری بھی اس کے سامنے ہیچ ہے اور اسے سَو حرج کر کے بھی اس میٹنگ میں شامل ہونا چاہئے اگر وہ اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے سلسلہ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن وہ خود الٰہی انعامات سے محروم ہو جائے گا۔

جب شوریٰ نہیں تھی تب بھی کام چلتا تھا اور اب شوریٰ بلائی جاتی ہے تب بھی کام چل رہا ہے پس تم حصہ لو یا نہ لو سلسلہ کا کام چلتا رہے گا۔ ہاں اگر تم اس وقت جماعتی کاموں میں حصہ نہیں لیتے اور انہیں اپنے لئے موجبِ عزت خیال نہیں کرتے تو تمہاری اولادیں آئندہ انعامات سے محروم ہو جائیں گی لوگ اپنی زندگیوں میں اپنی اولادوں کے لئے ہزاروں ہزار روپیہ کی جائیدادیں بنا جاتے ہیں تا ان کے کام آئیں۔ تم بھی اگر سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتے رہو گے تو تمہارا ایسا کرنا تمہاری اولاد کے لئے ایک بڑی بھاری جائیداد ثابت ہو گا۔

یاد رکھو اگر تم میں سے کسی کو سلسلہ کے کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے تو اس کا اس سے بھاگنا سخت غلطی ہے۔ تم سلسلہ کے کام کی سر انجام دہی میں ہرگز کوتاہی نہ کرو بلکہ اسے اپنی عزت کا موجب سمجھو۔ اگر تم سلسلہ کے کاموں کو عزت والا قرار دو گے تو خداتعالیٰ بھی تمہیں عزت والا بنا دے گا۔ گو اس وقت جماعتوں کے پاس دولت نہیں، اسے دنیا میں کوئی اہمیت حاصل نہیں لیکن تھوڑے عرصہ میں ہی احمدیت دنیا پر غالب آنے والی ہے اور اس کے آثار خداتعالیٰ کے فضل سے نظر آرہے ہیں۔ بڑے بڑے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف ہو رہی ہے۔ یہ بڑے بڑے لوگ جس علاقہ سے بھی آئیں گے وہ احمدیت کو زیادہ معزز سمجھیں گے اور احمدیت کی وجہ سے انہیں اور عزت حاصل ہو گی لیکن جو لوگ سلسلہ کے کاموں میں شریک ہونے کو ذلّت اور وقت کا ضیاع سمجھیں گے ان کے علاقہ میں عزت دیر سے آئے گی۔ اور اگر وہ عزت آگئی تو جن لوگوں نے اپنے وقت میں سلسلہ کی خدمت میں کوتاہی کی ہوگی ان کی اولادیں اس عزت سے محروم کر دی جائیں گی۔ پس آئندہ کے لئے احتیاط کرو اور ہمیشہ سلسلہ کے کاموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو۔ تم میں سے کسی کو سلسلہ کے کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے تو وہ سمجھے کہ خداتعالیٰ نے اسے بہت بڑے خطاب سے نوازا ہے۔ ‘‘(خطاب فرمودہ 30؍مارچ 1956ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 601تا603)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button