خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ان ایّام سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بھی حاصل ہوتی ہے اور ان میں روزہ رکھنے کی طاقت بھی ہوتی ہے او رماحول بھی ایسا ہوتا ہے جو انہیں روزہ رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کے اس فضل اور احسان سے کہ جوبیمار ہیں وہ روزہ نہ رکھیں وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور بیمار بن جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم سوئے ہوئے کوتو جگا سکتے ہو لیکن جو مَچلا بنتا ہے اور وہ جاگنا نہیں چاہتا اسے نہیں جگا سکتے۔ اس لئے کہ سوئے ہوئے شخص کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص اسے جگا رہا ہے اس لئے جو نہی تم اسے ہاتھ لگاؤ گے وہ جاگ اٹھے گا۔ لیکن جو جان بوجھ کر سویا ہوا بنتا ہے اسے علم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اسے جگا رہا ہے اس لئے وہ نہیں جاگے گا۔ اسی طرح جو لوگ بیمار بنتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے اس فضل اور احسان سے جو بیماروں پر ہے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ان کا تو کوئی علاج ہی نہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں صحت دی ہوتی ہے، ایمان دیا ہوتا ہے وہ رمضان کی قدر و وقعت کو سمجھتے ہیں پھر وہ روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ایک مہینے کے برابر لمبی سُرنگ آجاتی ہے جس میںسے گزرتے ہوئے وہ خداتعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کر لیتے ہیں اور خداتعالیٰ سے اپنی وہ دعائیں منواتے ہیں جن کو قبول کروانے کی صورت پہلے نظر نہیں آتی تھی۔ یہ لوگ جب رمضان میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی حالت اَور ہوتی ہے اور جب رمضان سے نکلتے ہیں توان کی حالت اَور ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ رمضان کے مہینے میں ننگے داخل ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عطا کی ہوئی خلعتوں سے لدے ہوئے نکلتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ روحانی بیماریوں سے مضمحل اور خمیدہ کمر کے ساتھ رمضان میں داخل ہوتے ہیں لیکن چُست و چالاک اور تندرست شخص کی شکل میں نکلتے ہیں۔ کئی لوگ روحانی طورپر اندھے ہوتے ہیں لیکن سجاکھے، دیکھنے والے اور تیز نظر والے نکلتے ہیں۔ کئی لوگ دل کے جذامی اس مہینہ میں داخل ہوتے ہیںلیکن جب یہ مہینہ ختم ہوتا ہے تو ان کے چہروں پر خوبصورتی، رعنائی اور شادابی کا منظر ہوتا ہے جسے ہر شخص دیکھتا ہے اور واہ واہ کرتا ہے۔ پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس کی رحمتوں اور فضلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کے لئے خدا تعالیٰ خود اپنی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھولتا ہے اور وہ منہ پھیر لیتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان پر بھی فضل کرے جو خد اتعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو بھی ہدایت دے جو اپنی طبعی نابینائی کی وجہ سے اس کی رحمتوں اور فضلوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔

(فرمودہ 30 مئی 1952ء بمقام ربوہ۔ الفضل 17 جون 1952ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button