متفرق مضامین

تلاوتِ قرآن کریم کے آداب (قسط اوّل)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔ یعنی جو شخص خداداد استعداد اور توفیق کے مطابق قرآن کریم کو عمدگی سے نہیں پڑھتا گویا اس کا دل پوری طرح اس کی طرف مائل نہیں

قرآں کتاب ِرَحماں سکھلائے راہِ عرفاں

جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں

قرآن کریم ایک نور ہے جوسینوں میں چھپی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا بہترین علاج ہے۔ اس کے عجائبات کی انتہا نہیں اور نہ ہی اس کے فوائد کی کوئی حد مقرر ہے۔ جس نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا وہ محفوظ قلعے میں داخل ہوگیا۔ یہ ہدایت کی آخری راہ اور کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ جوبھی اس راہ پر چلا وہ بالآخراپنی مراد کو پہنچ گیا۔ اس کا کمال یہ ہے کہ اس کا پڑھنا، یاد کرنا اور اس پر عمل نہایت آسان ہے۔ وَلَقَدۡیَسَّرۡنَاالۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَھَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ(القمر: 18)اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ کَلَّآ اِنَّہٗ تَذۡکِرَۃٌ۔ فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہُ۔ (المدثر: 55تا56)خبردار! یقیناً یہ ایک بڑی نصیحت ہے۔ پس جو چاہے اُسے یاد رکھے۔ پس قرآن کریم کو اس یقین کے ساتھ پڑھنا اور سننا چاہیے کہ یہ ہمارے پروردگار کا کلام ہے جس میں سراسر بھلائی اور خیرپنہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَہُدًی وَّرَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔ قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَبِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ۔ (یونس: 58)اے انسانو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت کی بات آچکی ہے اِسی طرح جو (بیماری) سینوں میں ہے اس کی شفا بھی۔ اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت بھی۔ تُو کہہ دے کہ (یہ) محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے۔ پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں۔ وہ اُس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

رسول کریمﷺ نے فرمایا: اِنَّ ھَذَا الۡقُرۡآنَ مَأۡدُبَۃُ اللّٰہِ فَتَعَلَّمُوا مِنۡ مَأۡدُبَۃِ اللّٰہِ مَااسۡتَطَعۡتُمۡ، اِنَّ ھَذَاالۡقُرۡآنَ حَبۡلُ اللّٰہِ وَھُوَ النُّوۡرُ البَیِّنُ وَالشِّفَاءُ النَّافِعُ عِصۡمَۃٌ لِمَنۡ تَمَسَّکَ بِہِ وَنَجَاۃٌ لِمَنۡ تَبِعَہُ لَا یَعۡوَجُّ فَیُقَوَّمُ وَلَا یَزِیۡغُ فَیَسۡتَعۡتِبُ وَلَا تَنۡقَضِی عَجَائِبُہُ وَلَا یَخۡلَقُ عَنۡ کَثۡرَۃِ الرَّدِّ۔ (مُصنّف ابنِ اَبِی شیبہ کِتَابُ فَضَائِلِ الۡقُرآنِ، فِی التّمسّکِ بِالۡقُرۡآن، حدیث: 30631)یہ قرآن اللہ کا دستر خوان ہے پس اس سے اپنی طاقت کے مطابق سیکھو۔ یہ قرآن اللہ کی رسی ہے اور یہ واضح اور روشن نور ہے۔ شفا دینے والا اور نفع پہنچانے والا ہے، اور ہر اُس شخص کے لیے حفاظت کا ذریعہ ہے جو اسے مضبوطی سے پکڑ لے۔ اور ہر اُس شخص کے لیے نجات کا ذریعہ ہے جو اس کی پیروی کرے۔ یہ ٹیڑھا نہیں ہوتا کہ اسے سیدھا کیا جائے۔ یہ عیب دار نہیں ہوتا کہ اس کا عیب دور کیا جائے اور اس کے معانی کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اور بار بار پڑھنے سے یہ پرانا نہیں ہوتا۔

جو انسان قرآن کریم کے پیچھے چلتا ہے وہ گمراہی کے اندھیروں سے نکل کر فلاح، کامیابی اور نجات کی طرف چل پڑتا ہے۔

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ۔ (ابراھیم: 2)أَنَا اللّٰہُ أَرٰی: میں اللہ ہوں۔ میں دیکھتا ہوں۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تیری طرف اُتاری ہے تاکہ تُو لوگوں کو ان کے ربّ کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکالتے ہوئے اس راستہ پر ڈال دے جو کامل غلبہ والے (اور) صاحبِ حمد کا راستہ ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً یَّرۡجُوۡنَ تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ۔ (فاطر: 30)یقیناً وہ لوگ جو کتابُ اللہ پڑھتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اس میں سے جو ہم نے ان کو عطا کیا ہے پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور اعلانیہ بھی، وہ ایسی تجارت کی اُمید لگائے ہوئے ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی۔

قرآن کریم ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے آبِ حیات ہے۔ ابدی زندگی کے خواہاں ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم سے وابستہ ہوکر اس کی تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ قرآن کریم کا ہر بول شیریں، اس کی ہر صدا مسحور کُن اور اس کا پیغام دلوں پر اثر کرنے والا ہے۔ جو انسان دلی محبت اور پورے اخلاص کے ساتھ قرآن کریم کو تھام لیتا ہے وہ اس کی بے پناہ تاثیرات کو اپنے قلب و ذہن میں محسوس کرتا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت اور قوت کا اصل سرچشمہ قرآن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس روشن چراغ کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جائے تاکہ دنیا کی تیرہ وتارظلمتوں سے بچا جاسکے۔ فَاسۡتَمۡسِکۡ بِالَّذِیۡٓ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔ (الزخرف: 44) پس جو کچھ تیری طرف وحی کیا جاتا ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لے۔ یقیناً تُو سیدھے راستہ پر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور کبریائی کا ذکرایسے دلنشین انداز میں کیا گیا ہے کہ اُسے پڑھ اور سن کرمومنوں کی آنکھیں خشیت سے نمناک اور اُن کے دل نورِ ایمان سے منور ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایاہے:

اِنَّمَاالۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُھُمۡ وَاِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡھِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡھُمۡ اِیۡمَانًاوَّ عَلٰی رَبِّھِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ۔ (الانفال: 3)مومن صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اُس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر ہی توکّل کرتے ہیں۔

قرآن کریم کی عظمت شان کا تقاضا ہے کہ کثرت کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے۔ اس کے معانی ومطالب کوسمجھنے اور اُن پر غوروتدبر کی عادت ڈال لی جائے۔ قرآن کریم سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی باطنی کیفیات بھی اس کے شایانِ شان ہوں یعنی بشاشت قلبی سے اس کا مطالعہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یَتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَھُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ۔ (آل عمران: 114) وہ رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدے کر رہے ہوتے ہیں۔ فجر کے وقت قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَقُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِکَانَ مَشۡھُوۡدًا۔ (بنی اسرائیل: 79)سورج کے ڈھلنے سے شروع ہوکر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دے۔ یقیناً فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اُس کی گواہی دی جاتی ہے۔

پاک ہوکر قرآن کو چھؤا جائے

قرآن کریم پڑھنے کے کچھ آداب ہیں اگر اُن کا خیال رکھا جائے تو قرآن کریم کی برکات وتاثیرات بڑھ جاتی ہیں اور اس کے بہترین نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ زیادہ تر آداب کی طرف قرآن کریم اوررسول کریمﷺ نے توجہ دلائی ہے۔ قرآن کریم کا پہلا ادب یہ ہے کہ اسے پاکیزگی کی حالت میں چھؤاجائے۔ اس کے باطنی معانی یہ ہیں کہ قرآن کریم کے حقائق ومعارف سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ اچھے ارادے اور نیک نیت کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ یعنی اپنے خیالات اور ارادوں کو پاک رکھا جائے تاکہ پاکیزہ دماغ میں پاکیزہ خیالات پیدا ہوں۔ نبی پاکﷺ نے مومنوں کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ اِنَّ الۡمُسۡلِمَ لَا یَنۡجُسُ۔ (صحیح البخاری کتاب الغسل بَاعَرَقُ الۡجُنُبِ…حدیث نمبر283)مومن تو ناپاک نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا گُر بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الۡمُطَھَّرُوۡنَ۔ (الواقعہ: 80) کوئی اسے چُھو نہیں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے۔ یعنی جو شخص دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں سے دورہوکراچھی نیت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرے گاوہی اس میں پنہاں حقائق ومعارف سے حسب استطاعت اپنا حصہ لے سکے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہوکر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآن کریم کے معارف کھلیں وہاں صاف لکھا ہے: لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الۡمُطَھَّرُوۡنَ (الواقعہ: 80)۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 553، ایڈیشن 2003ء نظارت نشرو اشاعت قادیان)

جہاں تک قرآن کریم کے ظاہری ادب کا تعلق ہے اسے صاف جسم اور صاف لباس کے ساتھ چھؤا جائے۔ منہ کو مسواک یا برش سے صاف کرلیا جائے کیونکہ منہ قرآن کی ادائیگی کی راہ ہے۔ رسول کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اِن أفواھَکُم طرقُ القرآن فطیبوھا بالسواک۔ (کنزالعمال، الجزء الأول، الفصل الثالث فی آداب التلاوۃ، حدیث نمبر2751)تمہارے منہ قرآن کے راستے ہیں سو اِن کو مسواک کے ساتھ صاف کرلیا کرو۔ طیبوا أفواھَکم بالسواک فانہا طرق القرآن۔ (کنزالعمال، الجزء الأول، الفصل الثالث فی آداب التلاوۃ، حدیث: 2753)اپنے مونہوں کو مسواک کے ساتھ صاف کرو کیونکہ یہ قرآن کے راستے ہیں۔

تعوّذ سے ابتدا کرنا

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ سچائی اور حق بات کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے اپنے جال بچھائے رکھتا ہے اور انسانوں کوخدا تعالیٰ سے دُور کرنے کے لیے ہر حربہ آزماتا ہے۔ قرآن کریم چونکہ ایک متبرک و مقدس کلام ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس کی تلاوت کے وقت اُس کے بندے شیطانی حملوں سے پوری طرح محفوظ رہیں۔ اس لیے اُس نے ہمیں تعوذ سکھا دیاتاکہ اُس کی مدد ہمارے شامل حال رہے اور ہم دھتکارے ہوئے شیطان کے حملوں سے بچے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ۔ (النحل: 99)پس جب تُو قرآن پڑھے تو دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ۔

پس اسی قرآنی حکم کے مطابق تلاوت سے پہلے تعوذ یعنی اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطَانِ الرَّجِیۡمِ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اگر توجہ برقرار نہ رہے یا خیالات منتشر ہونے لگیں تو بار بار تعوذ پڑھ کر اللہ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہیے ایسا کرنے سے اللہ کی مدد شامل حال ہوگی اور شیطان کی چالیں ناکام ہوجائیں گی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام استعاذہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے اپنی عربی تصنیف ’’اعجاز المسیح ‘‘میں فرماتے ہیں: اعلم یا طالب العرفان۔ أنہ من أحلّ نفسہ محل تلاوۃ الفاتحۃ والفرقان۔ فعلیہ أن یستعیذ من الشیطان۔ کما جاء فی القرآن فان الشیطان قد یدخل حِمی الحضرۃ کالسارقین۔ ویدخلل الحرم العاصم للمعصومین۔ فأراداللّٰہ أن یُنجّی عبادہ من صول الخناس۔ عند قراء ۃ الفاتحۃ و کلام رب الناس۔ ویدفعہ بحربۃ منہ و یضع الفاس فی الراس۔ و یُخلّص الغافلین من النعاس۔ فعلّم کلمۃ منہ لطردالشیطان المدحور الی یوم النشور۔ (اعجازالمسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ81تا82)ترجمہ: اے طالب معرفت! جان لے کہ جب کوئی شخص سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگے تو اس پر لازم ہے کہ ’اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم ‘پڑھے جیسا کہ قرآن کریم میں حکم ہے کیونکہ کبھی شیطان خدا کی رکھ میں چوروں کی طرح داخل ہوجاتاہے اور اس حرم کے اندر آجاتا ہے جو معصومین کی محافظ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کی تلاوت کے وقت اپنے بندوں کو شیطان کے حملہ سے بچائے، اسے اپنے حربہ سے پسپا کرے، اس کے سر پر تبر رکھے اور غافلوں کو غفلت سے نجات دے۔ پس اس نے شیطان کو دھتکارنے کے لئے جو قیامت تک راندہ درگاہ ہے، اپنے ہاں سے بندوں کو ایک بات سکھائی۔

اللہ کے نام سے آغاز

اللہ تعالیٰ کے اذن اور اُس کی منشاء سے قرآنی وحی کا آغاز ہوا تو جبریل امین علیہ السلام نے نبی امین علیہ السلام کو جو پہلا پیغام سنایا وہ: اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ۔(العلق: 2)کے الفاظ سے شروع ہوایعنی پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ پس جس کلام کا آغاز اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام سے ہوا ہے اُس کواُسی کے بابرکت نام سے شروع کرناچاہیے۔ قرآن کریم کی ہر سورت کے آغاز پر بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کی تکرار سے بھی واضح ہے کہ کلام اللہ کو پڑھنے سے پہلے بسم اللہ سے آغاز کرنا چاہیے۔ رسول کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس زیادہ مناسب یہی ہے کہ تلاوت کے وقت تعوذ کے ساتھ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ پڑھ لیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہر آن شامل حال رہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’چونکہ اسلام میں یہ سنّت ٹھہر گئی ہے کہ ہر یک کام کے ابتدا میں جس میں خیر اور برکت مطلوب ہو بطریق تبرک اور استمداد اس آیت کو پڑھ لیتے ہیں اس لئے یہ آیت دشمنوں اور دوستوں اور چھوٹوں اور بڑوں میں شہرت پاگئی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص تمام قرآنی آیات سے بے خبر مطلق ہو۔ تب بھی امید قوی ہے کہ اس آیت سے ہرگز اس کو بے خبری نہیں ہوگی۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلداوّل صفحہ 414حاشیہ نمبر11)

نیز فرمایا: ’’دوسری صداقت کہ جو بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ میں مودّع ہے یہ ہے کہ یہ آیت قرآن شریف کے شروع کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے پڑھنے سے مدعا یہ ہے کہ تا اس ذات مستجمع جمیع صفات کاملہ سے مدد طلب کی جائے جس کی صفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ رحمان ہے اور طالب حق کے لئے محض تفضّل اور احسان سے اسباب خیر اور برکت اور رُشد کے پیدا کر دیتا ہے اور دوسری صفت یہ ہے کہ وہ رحیم ہے یعنی سعی اور کوشش کرنے والوں کی کوششوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے جدوجہد پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے اور ان کی محنت کا پھل ان کو عطا فرماتا ہے اور یہ دونوں صفتیں یعنی رحمانیت اور رحیمیت ایسی ہیں کہ بغیر ان کے کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا انجام کو پہنچ نہیں سکتا اور اگر غور کرکے دیکھو تو ظاہر ہوگا کہ دنیا کی تمام مہمات کے انجام دینے کے لئے یہ دونوں صفتیں ہر وقت اور ہر لحظہ کام میں لگی ہوئی ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلداوّل صفحہ 421، حاشیہ نمبر11)

خوش الحانی اور عمدگی سے تلاوت

قرآن کریم ہمارے پروردگار کا کلام ہے جس نے ہمیں انسان بناکر تمام مخلوقات میں ممتاز کردیا۔ انواع و اقسام کی نعمتیں ہمارے لیے پیدا کیں اور تمام مخلوق کو ہماری خدمت پر لگا دیا۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے محبوب رسولﷺ کے ذریعہ اپنے ارادے اور منشاء کو قرآن کریم کی صورت میں ہمارے لیے نازل کردیا۔ پس یہ ہمارے محبوب کا کلام ہے۔ اسے نیک نیتی اور اچھی آوازوں میں پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہمارے ظاہری اور باطنی قویٰ سے ہمارے دلی جوش اور اخلاص کا اظہار ہو۔ قرآن کریم کو حسن صوت اور عمدگی سے پڑھنا مستحب ہے۔ علمائِ ربّانی کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ کلام اللہ کو اس کے مفہوم کے مطابق اور انہی کیفیات کے مطابق پڑھنے کی کوشش کرتے تھے جس طرح رسول کریمﷺ نے قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھا اور انہیں سنایا۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جب قرآن کی تلاوت کیا کرو تو اسے ترتیل کے ساتھ پڑھا کرو۔ حضرت ابن عباسؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ! ترتیل سے کیا مراد ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: حروف اور کلمات کو صحیح طریقے پر ظاہر کرو، خشک کھجوروں کی ماننداسے منتشر نہ کرو اور نہ ہی اشعار کی مانند اسے فر فر اور جلدی جلدی پڑھا کرو جب اس میں عجائبات کا تذکرہ آجائے تو وہاں پر ٹھہر جاؤ اور غوروفکر کرو، دلوں کو اس کے ذریعہ متحرک کرو اور جلدی جلدی سورت ختم کرنا تمہارا مقصد نہ ہو۔ (مجمع البیان زیر آیت وَ رَتِّلِ الۡقُرۡآنَ تَرۡتِیۡلًا)

رسول کریمﷺ کا اپنا عمل اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَرَتِّلِ الۡقُرۡآنَ تَرۡتِیۡلًا۔ (المزمل: 5) اور قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کرکے عین مطابق تھا۔ آپؐ قرآن کریم کو خوب نکھار کر پڑھتے تھے۔ اُمّ المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول کریمﷺ کی تلاوت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو: ثُمَّ نَعَتَتۡ قِرَاءَ تَہٗ فَاِذَا ھِیَ تَنۡعَتُ قِرَاءَ ۃً مُفَسَّرَۃً حَرۡفًا حَرۡفًا۔ (جامع ترمذی ابواب فضائل القرآن بَابُ مَاجَائَ کَیۡفَ کَانَتۡ قِرَاء ۃُ النَّبِیِّﷺ )انہوں نے بتایا کہ رسول اللہﷺ الفاظ کو نرمی وملائمت سے خوب نکھار نکھار کر ادا فرماتے۔ آپﷺ کی تلاوت کا ہر حرف نمایاں اور ممتاز سنائی دیتا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے: سَأَلۡتُ أَنَسَ بۡنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہ عَنۡہُ عَنۡ قِرَاءَ ۃِالنَّبِیِﷺ فَقَالَ: کَانَ یَمُدُّ مَدًّا۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب مَدِّ الۡقِرَاءَۃِ)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نبی کریمﷺ کی تلاوت قرآن کریم کے متعلق سوال کیاگیا تو انہوں نے بتایا: آنحضورﷺ ان الفاظ کو کھینچ کر پڑھتے تھے جن میں مد ہوتا تھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہﷺ کی قراءت کیسی تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ مد کے ساتھ۔ پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور کہا کہ بسم اللہ میں اللہ کے لام کو مد کے ساتھ پڑھتے الرحمن میں میم کو مد کے ساتھ پڑھتے اور الرحیم میں حاء کو مد کے ساتھ پڑھتے۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب مَدِّ الۡقِرَاء ۃِ)

عَبۡدَاللّٰہ بۡنَ مُغَفَّلٍ، قَالَ: رَأَیۡتُ النَّبِیّﷺ یَقۡرَأُ وَھُوَ عَلَی نَاقَتِہِ أَوۡ جَمَلِہِ وَھۡیَ تَسِیرُ بِہِ وَھوَ یَقَرَأُ سَورَۃ الۡفَتۡحُ، أَوۡمِنۡ سُوۡرَۃِ الۡفَتۡحِ قِرَاءَ ۃً لِیِّنَۃً یَقۡرَأُ وَھُوۡ یُرَجِّعُ۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب التَّرۡجِیۡعِ)حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنی اونٹنی یا اونٹ پر سوار ہوکر تلاوت کر رہے تھے۔ سواری چل رہی تھی اور آپ سورۂ فتح پڑھ رہے تھے۔ یا سورۂ فتح میں سے پڑھ رہے تھے، نرمی اور آہستگی کے ساتھ قراءت کررہے تھے اور آواز کو حلق میں دہراتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب التَّرۡتِیۡلِ فِی الۡقِرَاء ۃِ)رسول اللہﷺ کی تلاوت صرف عشق ومحبت سے ہی لبریز نہ ہوتی بلکہ اُس میں عجیب سوزوگداز اور جذب کی کیفیت پائی جاتی تھی گویا آپﷺ کی تلاوت اُس ارشادکے مصداق ہوتی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰھُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ (البقرۃ: 122)وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی درآنحالیکہ وہ اس کی ویسی ہی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو (درحقیقت ) اس پر ایمان لاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایک اور مقام پریہ حکم دیاہے کہ وَقُرۡاٰنًا فَرَقۡنٰہُ لِتَقۡرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکۡثٍ وَّنَزَّلۡنٰہُ تَنۡزِیۡلًا۔ (بنی اسرا ئیل: 107)اور قرآن وہ ہے کہ اسے ہم نے ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تُو اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے بڑی قوّت اور تدریج کے ساتھ اتارا ہے۔

پس قرآن کریم کو خوش الحانی اورعمدہ آواز میں پڑھنا آدابِ تلاوت میں شامل ہے۔ کلام اللہ کو محبت اور دلی جوش کے ساتھ پڑھنے سے دل میں تازگی اور فرحت پیدا ہوتی ہے اور تلاوت کا لطف دوبالا ہوجاتاہے۔ جس کے نتیجے میں گناہ کی کثافتیں دور ہوتی ہیں اور انسان کادل اطمینان بخش کیفیات سے لبریز ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کوبھی عمدہ آواز وں میں تلاوت قرآن کریم بہت محبوب ہے۔

عَنۡ أَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہُ صلَّی اللّٰہ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ مَا أَذِنَ اللّٰہُ لِشَیۡئٍ کَأَذَنِہِ لِنَبِّی یَتَغَنَّی بِالۡقُرۡآنِ یَجۡھَرُ بِہِ۔(صحیح مسلم،کتاب صلَاۃ المسافرین وقصرھا، باب اسۡتِحۡبَابِ تَحۡسِینِ الصَّوۡتِ بِالۡقُرۡآنِ، حدیث نمبر1312)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ کسی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جتنا کہ وہ خوش آواز نبیﷺ کو جب وہ خوش الحانی سے بلند آواز میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا اَبُوۡ ھُرَیۡرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ: مَااَذِنَ اللّٰہُ لَشَیۡئٍ کَاَذَنِہٖ یَتَغَنّٰی بِالۡقُرۡآنِ، یَجۡھَرُ بِہٖ۔ (صحیح ابن حبّان، کِتَابُ الرَّقَائِقِ، ذِکۡرُ اسۡتِمَاعِ اللّٰہِ اِلَی الۡمُتَحَزِّنِ بِصَوۡتِہٖ بِالۡقُرۡآنِ)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کسی بھی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا، جتنی توجہ سے قرآن کی خوش الحانی سے کی جانے والی تلاوت کو سنتا ہے، جو بلند آواز میں کی جاتی ہے۔

عَنۡ فَضَالَۃَ بۡنِ عُبَیۡدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ: لَلَّہُ اَشَدُّ اَذَنَا اِلَی الرَّجُلِ الۡحَسَنِ الصَّوۡتِ بِالۡقُرۡآنِ، مِنۡ صَاحِبِ الۡقَیۡنَۃِ اِلٰی قَیۡنَتِہٖ۔ (صحیح ابن حبان، کِتَابُ الرَّقَائِقِ، ذِکۡرُاسۡتِمَاعِ اللّٰہِ اِلٰی مِنۡ ذَکَرۡنَا نَعۡتَہٗ اَشَدُّ…)حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: جتنے شوق کے ساتھ کوئی شخص کسی کنیز کا گانا سنتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے زیادہ پسندیدگی کے ساتھ اچھی آواز والے شخص کی قرآن کی تلاوت کو سنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کوبھی اچھی آواز میں تلاوت کی تلقین فرمائی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں: زَیِّنُوۡا الۡقُرۡآنَ بِأَصۡوَاتِکُمۡ۔ (صحیح ابن حبّان، کِتَابُ الرَّقَائِق، بَاب: ذِکۡرُ اِبَاحَۃِ تَحۡسِیۡنِ الۡمَرۡئِ صَوۡتَہٗ بِالۡقُرآنِ)قرآن کو اپنی آوازوں کے ذریعے آراستہ کرو۔

خوبصورت اور عمدہ آواز میں کی جانے والی تلاوت نہ صرف پڑھنے والے کے قلب کو روحانی کیفیات سے دوچار کرتی ہے بلکہ سننے والے بھی اس کے صوتی جمال سے لطف اندوز ہوئے بنا نہیں رہتے۔ اسی لیے رسول کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو جہاں ممکن ہو اچھی آواز میں تلاوت کی طرف متوجہ فرمایا ہے: لَیۡسَ مِنَّا مَنۡ لَمۡ یَتَغَنَّ بِالۡقُرۡآنِ۔ (صحیح البخاری، کتاب التوحید الجھمیۃ، بَاب قَوۡلِ اللّٰہ تَعَالَی، حدیث نمبر: 7527)وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔ یعنی جو شخص خداداد استعداد اور توفیق کے مطابق قرآن کریم کو عمدگی سے نہیں پڑھتا گویا اس کا دل پوری طرح اس کی طرف مائل نہیں۔

پس ہر انسان کوقدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی استعداد اورقوت کے مطابق قرآن کریم کو عمدہ آواز میں پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نبی کریمﷺ نے اچھی آواز میں تلاوت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حَسِّنُواالۡقُرآنَ بِأَصۡوَاتِکُمۡ فَاِنَّ الصَّوۡتَ الۡحَسَنَ یَزِیۡدُ الۡقُرۡآنَ حُسۡنًا۔ (سُنَن الدَّارمی، کتاب فضائل القرآن، بَاب التَّغَنِّیۡ بِالۡقُرۡآنِ)قرآن کو اچھی آوازوں سے پڑھو کیونکہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔

ایک اور موقع پر فرمایا: تعلوااللحن کما تتعلمونَ حفظَہ۔ (کنزالعمال، کتاب الاذکار من قسم الاقوال باب السابع فی تلاوۃ القراٰن…حدیث نمبر2808)یعنی قرآن کریم کو پڑھنے کا فن بھی سیکھو جس طرح اس کو حفظ کرتے ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عباد ت ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 162، حاشیہ، ایڈیشن 2003ء۔ نظارت نشرواشاعت قادیان )

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کثیر تعداد نہ صرف حافظ قرآن تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اکثر کو لحن داؤدی سے سرفراز فرمایا تھا۔ نبی کریمﷺ خوش الحان صحابہ کی تلاوت سن کر خوش ہوتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے۔ ایک مرتبہ فرمایا: اِنَّ عَبۡدَ اللّٰہِ بۡنِ قَیۡسٍ أَوِ الۡأَشۡعَرِیَّ أُعۡطِیَ مِزۡمَارًا مِنۡ مَزَامِیۡرِ آلِ دَاوُدَ۔ (صحیح مسلم، کتاب صلَاۃ المسافرین وقصرھا، بَاب اسۡتِحۡبَابِ تَحۡسِینِ الصَّوۡتِ بِالۡقُرۡآنِ، حدیث نمبر1313)عبداللہ بن قیس یا اشعری کو آلِ داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے۔ عَنۡ أَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ قَالَ دَخَلَ رَسُوۡلُ اللّٰہِﷺ فَسَمِعَ قِرَائَۃَ رَجُلٍ فَقَالَ مَنۡ ھٰذَ قِیۡلَ عَبۡدُ اللّٰہِ بۡنُ قَیۡسٍ قَالَ لَقَدۡ أُوۡتِیَ ھٰذَا مِنۡ مَزَامِیۡرِ آلِ دَاؤدَ۔ (سُنَن الدَّارمی، کتاب فضائل القرآن، بَاب التَّغَنِّیۡ بِالۡقُرۡآنِ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ تشریف لائے تو ایک آدمی کو پڑھتے ہوئے سنا فرمایا: یہ کون ہے؟ کہا گیا: عبداللہ بن قیس۔ فرمایا: اس کو داؤد علیہ السلام کی سی اچھی آواز دی گئی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اگرتم مجھے دیکھ لیتے جب گذشتہ رات میں تمہاری قراءت سن رہا تھا ! تمہیں تو آلِ داؤدکے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب صلَاۃ المسافرین وقصرھا، بَاب اسۡتِحۡبَابِ تَحۡسِینِ الصَّوۡتِ بِالۡقُرۡآنِ، حدیث نمبر1314)حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہﷺ نے میری تلاوت سنی، صبح کے وقت نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے ابو موسیٰ گذشتہ رات میں نے تمہاری تلاوت سنی تھی تمہیں آل داؤد کی سی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اگر مجھے آپ کی موجود گی کا پتہ ہوتا تو میں اور زیادہ خوبصورتی کے ساتھ تلاوت کرتا۔ (صحیح ابن حبّان، کِتَابُ الۡمَنَاقِبۡ، ذِکۡرُ قَوۡلِ اَبِیۡ مُوۡسٰی لِلۡمُصۡطَفٰیﷺ اَنۡ لَوَعَلِمَ مَکَانَہٗ لَحَبَّرَلَہ، حدیث نمبر7197)

مزمار کی جمع مزامیر ہے جس کے معنی بانسری کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نہایت خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ اپنی خوبصورت آواز میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے تھے تو آپ کے ساتھ پہاڑ اورچرند پرند بھی اس تسبیح میں شامل ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: وَسَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَالۡجِبَالَ یُسَبِّحۡنَ وَالطَّیۡرَ وَکُنَّا فٰعِلِیۡنَ۔ (الانبیاء: 80)ہم نے داؤد کے ساتھ تسبیح کرتے ہوئے پہاڑوں کو مسخر کردیا اور پرندوں کو بھی۔ اور ہم ہی (یہ سب کچھ ) کرنے والے تھے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز کسی نہ کسی رنگ میں اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کررہی ہے لیکن ہمیں اس کا ادراک نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ القُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ۔ (الجمعۃ: 2)اللہ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ وہ بادشاہ ہے۔ قدوّس ہے۔ کامل غلبہ والا(اور) صاحبِ حکمت ہے۔

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرۡض لَہُ الۡمُلۡکُ وَلَہُ الۡحَمۡدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡئٍ قَدِیۡرٌ۔ (التغابن: 2)اللہ ہی کی تسبیح کررہا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ اُسی کی بادشاہت ہے اور اُسی کی سب حمد ہے اور وہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار واقعات درج ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم سے والہانہ اور بے پناہ محبت کرنے والے افراد ہمیشہ اور ہر دَور میں دنیا میں موجود رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ایک ایسے ہی بزرگ کے عشق قرآن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’شیخ ابن عربی لکھتے ہیں کہ ایک صوفی تھے وہ حافظ تھے اور قرآن شریف کو دیکھ کر بڑے غور سے پڑھتے۔ ہر حرف پر انگلی رکھتے جاتے۔ اور اتنی اونچی آواز سے پڑھتے کہ دوسرا آدمی سن سکے۔ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آ پ کو تو قرآن شریف خوب آتا ہے۔ پھر آپ کیوں اس اہتمام سے پڑھتے ہیں؟ فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میری زبان، کان، آنکھ، ہاتھ سب خدا کی کتاب کی خدمت کریں۔‘‘(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 305)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی صحابہ کو بھی لحن داؤدی عطا فرمایا تھا۔ حضور علیہ السلام نے نمازوں کی امامت کے لیے حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تھا، جو بہت خوش لحن تھے۔ آپؓ کی تلاوت کی اثر انگیزی کا ذکر کرتے ہوئے مولف کتاب ’’مجد د اعظم‘‘ لکھتے ہیں: ’’مولوی عبدالکریم صاحب نماز کی امامت کرایا کرتے تھے۔ اور جب سے قادیان ہجرت کرکے آئے تھے خدا جانے اُن کی آواز میں کیا اثر آگیا تھا کہ نماز میں اُن کی قرآن خوانی واقعی ایک جادو کا اثر رکھتی تھی۔ سیالکوٹ شہر میں وہ اہل حدیث کی مسجد کے امام تھے۔ خاکسار مؤلّف بھی اس زمانہ میں اہل حدیث تھا اور نماز جمعہ پڑھنے کے لیے اہل حدیث کی مسجد میں جایا کرتا تھا۔ مولوی صاحب موصوف خطبہ اچھا پڑھا کرتے تھے اور نماز میں قرآن ایک جذبہ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ مگر آواز میں نہ خوش الحانی تھی نہ کوئی اثر تھا۔ لیکن قادیان آکر خدا جانے کیا معجزہ صادر ہوا کہ قرآن خوانی کے وقت آواز میں وہ خوش الحانی اور اثر آگیا تھا کہ سننے والے کا دل پانی پانی ہوجاتا تھا۔ اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہ پڑتے تھے۔ قرآن نہایت جذبہ کے ساتھ مصری لہجہ میں پڑھتے تھے۔ خاکسار مؤلّف نے مصری لہجہ میں پڑھتے ہوئے بڑے بڑے خوش الحان قاریوں کو سنا ہے لیکن اُن میں وہ بات ہی نہیں دیکھی جو مولوی عبدالکریم صاحب کی قراءت میں تھی۔ وہ تو اپنی قرآن خوانی سے سننے والے کو مبہوت کر دیتے تھے اور تاثیر کا یہ عالم تھا کہ ایسا معلوم ہونے لگتا تھا کہ آج سے تیرہ سو برس پہلے کا زمانہ جب قرآن نازل ہورہا تھا مڑکر دوبارہ آگیا ہے۔‘‘(مجدد اعظم حصہ اوّل صفحہ 591مؤلفہ جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب۔ سن اشاعت دسمبر 1939ء )

حضرت سید محمد سرور شاہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’حضرت مولوی صاحب قرآن کریم کے علم تجوید و قرأت سے بخوبی واقف تھے اور ہمیشہ قراءت کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی قراءت سے مقتدیوں کو ایک خاص وجد اور لطف آتا تھا۔‘‘(اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 20)

پس قرآن کریم کونہایت توجہ، انہماک اورخوش الحانی سے پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہمارے دلی جوش اور محبت کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نگاہیں ہمارے اوپر پڑیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button