حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ ناروے کی (آن لائن) ملاقات

پیسے تو اللہ تعالیٰ دے دیتا ہے، مل جائیں گے۔ تھوڑے سے کم پیسے بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بچوں پہ توجہ ضرور دینی چاہیے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 27؍مارچ 2022ء کو ممبران مجلس خدام الاحمدیہ ناروے سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 148 خدام نے مسجد بیت النصر ناروے سے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ بعد ازاں ممبران مجلس خدام الاحمدیہ کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک خادم نے عرض کی کہ ہم عاجزی میں کیسے بڑھ سکتے ہیں اور تکبر سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟

حضور انور نے فرمایا کہ عاجزی انسان میں پیدا ہونی چاہیے۔ پرسوں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ جب انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا اور دوسرے سب میرے سے کمتر ہیں، میرا علم سب سے زیادہ ہے، دوسرے میرے سے کم ہیں تو اس وقت تکبر پیدا ہوتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہے۔ اگر اللہ پہ ایمان ہے، اللہ پہ یقین ہے اور یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو انسان کی برائیاں ہیں ان سے سخت نفرت ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کی اصلاح ہو تو انسان میں تکبر پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ جب پیدا ہو تو انسان استغفار پڑھے کہ میرے میں غلط خیال پیدا ہوا اور شیطان سے پناہ مانگے۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھے اور عاجزی دکھانے کی کوشش کرے۔ میں نے پچھلی ملاقاتوں میں بھی، اگر آپ لوگ ایم ٹی اے دیکھتے ہوں اور ملاقاتیں دیکھتے ہوں تو کسی کا مَیں نے جواب بھی دیا تھا۔ ایک بادشاہ کی عاجزی کے نمونہ کاحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر کیا ہے کہ اس کے پاس ایک مولوی آیا، وہ اپنے آپ کو قرآن کریم کے علم کا بڑا عالم اور ماہر سمجھتا تھا، اور وہ بادشاہ جو تھا وہ قرآن کریم لکھا کرتا تھا۔ ایک کہانی ہے۔ تو اُس نے کوئی لفظ لکھا تو اس عالم نے جو سکالر تھا، اپنے آپ کو قرآن اور حدیث کا بڑاماہر سمجھتا تھااس نے کہا یہ لفظ آپ نے غلط لکھا ہے۔ بادشاہ نے اس کے اوپر دائرہ لگا دیا، مارک کر دیا، جب وہ چلا گیا تو اس نے اس کو مٹا دیا۔ تو اس کے پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ پہلے آپ نے یہ دائرہ (کیوں) لگایا؟ کہتا ہے مَیں نےتو صرف اس لیے لگایاکہ میں اپنے اندر تکبر نہیں پیدا کرنا چاہتا تھا اور اس بات کی وجہ سے بھی کہ یہ مولوی اپنے آپ کو بہت بڑا عالم سمجھتا ہے، چلو اس کی بات رہ جائے میں نے دائرہ لگا دیا تھا لیکن جو مَیں نے لکھا تھا وہ صحیح لکھا تھا اور یہی اصل لفظ ہے، بیشک دیکھ لو اور اس کے بعد میں نے اس کومٹا دیا ۔ تو انسان اگر ہر وقت یہ سوچتا رہے کہ میںنے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اور اللہ کو تکبر پسند نہیں ہے اور اگر میرے دل میں تکبر والاکوئی خیال آئے تو اس کو میں نے دور کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی ہے، اپنی نمازوں میںبھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تکبر نہ پیدا ہونے دے استغفار بھی کریں۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم بھی پڑھیں۔ چھوٹی چھوٹی دعائیں اتنی مشکل نہیں ہیں کہ آدمی کہے کہ مجھے یاد نہیں ہو سکتیں۔ غور کر کے پڑھو تو ختم ہوجائے گا۔ایک علم کا ہونا اور اس کا جاننا اس میں برائی نہیں ہے۔اگر انسان بحث میں کہے کہ میں ٹھیک ہوں لیکن جہاںیہ تکبر پیدا ہو جائے کہ میں ہی ٹھیک ہوں باقی سب غلط ہیں یا کسی سے کوئی بحث ہوئی اور وہاں آپ کی جو دلیل تھی وہ صحیح ثابت ہوئی اور دوسرے کی دلیل غلط ثابت ہوئی اور لوگوں نے کہا ہاں آپ کی دلیل صحیح ہے تو آپ میں یہ خیال پیدا ہو جائے دیکھو میں کتنا علم والا آدمی ہوں میں نے اس شخص کو نیچا دکھا دیا اور میں اس سے بحث میں جیت گیا۔ میرا علم اس سے زیادہ ہے۔ ان باتوں سے تکبر پیدا ہوتا ہے۔ تو ان سے بچنا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شعر میں فرمایا ہے

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

کہ آدمی کو، دوسروںسے ہر ایک سے اپنے آپ کو کم سمجھنا چاہیے۔ عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اگر انسان کے دماغ میں یہ ہو کہ میں نے اللہ کو راضی کرنا ہے تو پھر تکبر نہیں آتا۔ اگر انسان کو یہ ہو کہ میں نے دنیا کو دکھانا ہے کہ میں کتنا علم رکھتا ہوں یا دنیا کو دکھانا ہےکہ میرے پاس فلاں چیز ہے اور فلاں آدمی کے پاس نہیں ہے تو اس سے پھر تکبر پیدا ہوتا ہے۔

ایک خادم نے عرض کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب Revelation Rationality Knowledge and Truthمیں فرماتے ہیں کہ الہام بھی دراصل انسان کی نفسیاتی کیفیت کا ایک عمل ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ عمل صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے حکم اور ارادے سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم ایک دہریہ یا سائنسدان کو کیسے یقین دلا سکتے ہیں کہ ایک انسان کی کوئی کیفیت اس کی اپنی سوچ ہے یا خدا کا حکم یا مرضی اس میں شامل ہے؟

حضور انورنے فرمایا کہ میرا خیال ہے آپ نے اس کتاب کا اتنا ہی حصہ پڑھ لیا باقی حصہ نہیں پڑھا؟(خادم نے عرض کی کہ شروع کی ہے) حضور انورنے فرمایا پورا پڑھ لو تمہیں وہاںجواب مل جائے گا ۔ سارا پڑھیں گے تو جواب مل جائے گا۔ بات یہ ہے کہ سائنسدان کو بھی الہام ہوتا ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پہ بھی ایک مضمون لکھا ہوا ہے۔ ایک نبی کی چار حالتیں بیان کی ہیں، روحانی جس کا ارتقا ہوتا ہے جس کو روحانی ترقی ملتی ہے اور روحانی معیار حاصل ہوتے ہیں اور ایک غیر نبی کی جس کو دنیاوی لحاظ سے معیار حاصل ہوتے ہیں اور بعض سائنسدان جو چیزیں ایجاد کرتے ہیں ان کے اوپر بھی ایک الہامی کیفیت ہی ہوتی ہے۔ وہ بھی وحی کی صورت میں دماغ میںآتی ہے وہ سوچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پہ راہنمائی کرتا ہے۔ اگر اردو پڑھنی نہیں آتی تو حضرت مصلح موعودؓکے اس مضمون کا انگلش ترجمہ میرا خیال ہے پچھلے سال کے دسمبر کے ریویو آف ریلیجنز میں بھی ہے۔ یہ چھوٹا سا (مضمون)،دو تین صفحے ہیں وہ پڑھ لیں گے تو آپ کو اس میںجواب بھی مل جائے گا کہ غیر نبی کو کس طرح الہام ہوتا ہے اور نبی کو کس طرح ہوتا ہے۔ وہی دلیل آپ دوسروں کو دیں کہ تمہاری جو سوچ ہے، وہ جب سوچتا ہے، انسان اس پہ غور کرتا ہے تو وہ الہامی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ بعض دفعہ قرآن کریم کی آیتیں بھی بعض لوگوں کو الہام ہو جاتی ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ بہت بڑے نیک آدمی کو ہوں، عام آدمی کو بھی ہو جاتی ہیں، اس کو بتانے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے اور نازل کرتا ہے۔ عام جو عقل مند انسان ہے وہ تو سوچ لیتا ہے کہ ہاں اگر مجھے اس طرح وحی ہو سکتی ہے اور نازل ہوا ہے تو نبیوں کو بھی ہوتی ہو گی اور اللہ تعالیٰ بھی اس طرح اپنی شریعت اتارتا ہے اور بتاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف مستقل جھکے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ان کو فکر ہوتی ہے، ان پہ اللہ تعالیٰ وحی کر کے پھر اس کے حل بتاتا ہے جس طرح شریعت اتاری اور وہ کامل شریعت تو اتارنی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ۔ بعض تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی باتیںبتادیں بعض پرانی شریعتوں کی باتیں وضاحت کر کے بتا دیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو سکتا ہے بعض سوال بھی اٹھے ہوں تو ان کے جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرما دیے۔ اسی طرح باقی انبیاء کے ساتھ ہوتا ہے۔ تو وحی اور الہام اسی طرح ہوتا ہے۔ اسی طرح سائنسدان سوچتے ہیں اور سوچنے کے بعد جب غور کر رہے ہوتے ہیں تو اس کے بعد ایک دم ان کے ذہن میں خیال آتا ہے۔ جس طرح ارشمیدس کہتا ہے میں نہا رہا تھا اور ایک مسئلہ اس سے حل نہیں ہو رہا تھا تو اس کو غسل خانے میں نہاتے نہاتے خیال آیا کہ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوتا ہے۔ اس نے کہا پا لیا پالیا اور نعرے مارتے ہوئے غسل خانے سے باہر نکل گیا کہ میں نے مسئلہ حل کر دیا۔ اسی طرح اور سائنسدان ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جب وہ کسی بات کو سوچتے ہیں اور اس پہ غور کرتے ہیں اور وہ فائدے کے لیے ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اور ان کو اس کا حل سمجھاتاہے۔ وہ جو حل اللہ تعالیٰ سمجھاتا ہے اسی کا نام الہام ہے۔ وہ سیکولر لوگوں کے لیے الہام ہے روحانیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس کا دنیا سے تعلق ہے۔ تو یہ چیزیں، ایک روحانیت کی دنیا ایک مادی دنیاساتھ ساتھ چل رہی ہیں ۔ جہاں روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعہ سے سمجھاتا ہے وہاں مادی دنیا میں بھی نئی ایجادیں کرنے والوںکو الہام کے ذریعہ سے سمجھاتا ہے۔ یہی بات ان کو کہنی ہے کہ تم جس کو کہتے ہوکہ تمہارے دماغ نے سوچا ہم اس کو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دماغ میں ڈالا اور یہ الہامی کیفیت ہے۔ اور یہی نفسیات انسان کی ہے جب وہ سوچتا ہے تو اس کا حل اللہ تعالیٰ پھر اس کو بتا دیتا ہے۔ تو بہرحال اس پہ حضرت مصلح موعوؓد کا ایک مضمون ہے وہ بھی پڑھ لو اور اس کو بھی غور سے پڑھو Revelationوالی کتاب کو تو آپ کو تفصیلی جواب بھی وہاں سے مل جائے گا۔

ایک خادم نے عرض کی کہ میر ا نام ڈاکٹر باسل احمد محمود ہے میں وقف نو ہوںاور جنرل میڈیسن آف کارڈیالوجی میں سپیشلائزیشن کر رہا ہوں۔ حضور ایمر جنسی ڈیوٹیز کے دوران میںنماز نہیں پڑھ سکتا تو ڈیوٹیز کے بعد Day shift کے بعد میں نماز اکٹھی پڑھتا ہوں Night shift کے لیے گھر سے پڑھ کر جاتا ہوں تو کیا میری نماز ہو جاتی ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اگر تو ایمرجنسی اس وقت موقع پہ ہو تو پھر نماز چھوٹ گئی اور آپ نے چار نمازیں جمع کرلیں تو ٹھیک ہے۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دفعہ جنگ کی حالت طاری ہو گئی اور سارا دن جنگ کی حالت رہی اور نمازوں کا وقت نہیں ملا تو آپؐ نے شام کو تین نمازیں اکٹھی کر کے پڑھیں۔ ظہر عصر مغرب کے ساتھ یا بعض کہتے ہیں عشاء بھی پڑھی تو بہرحال وہ ایک ہنگامی صورتحال ہے۔ ایمر جنسی ڈیوٹی آپ کی لگی ہے، اور آپ ہسپتال جا کے بیٹھے ہوئے ہیں، ضروری تو نہیں ہے کہ آپ اس وقت ایمر جنسی کام بھی کر رہے ہوں۔ آپ کو بٹھایا ہوا ہے یہاں بیٹھ جاؤ کسی وقت ایمر جنسی ہو سکتی ہے تمہیں بلا لیں گے تو اس وقت آپ ایک مصلیٰ، جائے نماز لے جائیں وہاں بیٹھے ڈیوٹی کے دوران بھی اگر آپ کسی کو کہہ دیں تو آپ کو کوئی نہیں روکے گا تو فرش پہ بچھایا اور نماز کا وقت ہوا تو نمازیں دو جمع کر لیں۔ اگر اس دوران ایمر جنسی آگئی اور اس کےلیےآپ کی بڑی ضرورت ہے توکسی انسانی جان کو بچانے کے لیے نمازیں توڑنا بھی جائز ہے۔ تونماز توڑ کے جا کے وہ کام کر لیا اس کے بعد اگر اس میں دیر لگ گئی تو پھر آکے نمازیں جمع کر لیں تو وہ تو جائز ہے لیکن یہ خیال کر لینا کہ میری ایمر جنسی ڈیوٹی لگتی ہے اس لیے میں چاروں نمازیں اکٹھی پڑھ جاؤں۔ میری جان چھوٹے۔ اکّو واری فارغ ہو جاں۔ یہ غلط ہے۔ آپ وہاں کہہ دیں، میڈیکل روم میں اپنے سٹاف کو بتا دیں دیکھو میں نمازپڑھنے لگا ہوں اگر کوئی ایمرجنسی آتی ہے تو فوری تم مجھے آواز دینا میں نماز توڑ کے آ جاؤں گا۔ انسانی جان بچانے کے لیے نماز توڑنا بھی جائز ہے لیکن یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہو جائے اس لیے میں نمازیں جمع کر لوں اور رات کو ہو سکتا ہے کوئی ایمرجنسی آ جائے اس لیے میں ساری نمازیں اکٹھی پڑھ کے چلا جاؤں یہ طریقہ غلط ہے۔ ہاں اگر آپ ڈیوٹی پہ جائیں مثلاً آپ کی صبح دس بجے ڈیوٹی لگی ہے ۔ اس وقت آپ گئے ہیں اور جاتے ہی آپ کو ایک ایمرجنسی کیس مل گیا اور اس کے بعد دوسرا کیس آ گیا پھر تیسرا آگیااور اس طرح رات کے سات آٹھ بج گئے۔ اور آپ کے چھ آٹھ دس گھنٹے جو ڈیوٹی ہو وہ اسی میں گذر گئی تب آپ نمازیں جمع کر لیں وہ جائز ہے۔ پہلے تو یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ایمرجنسی لائے نہ۔ ہو سکتا ہے آپ کی نمازیں پڑھنے کی وجہ سے آپ ویسے ہی فارغ بیٹھے رہیں ایمرجنسیاں ہی نہ آئیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا سے لوگوں کو نقصان سے محفوظ کر لے۔ تو یہ سوچ جو ہے کہ جی میں پہلے ہی کر لوں precautionary measure لے لوں۔ اور وہ بھی precautionary measure ایسا کہ جس کے ریموٹ چانسز (remote chances)ہیں جس کا آپ کوپتا ہی نہیں ہے آپ کو علم غیب تو نہیںناں۔ غیب کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اس کو پتا ہے کتنے مریض آنے ہیں کتنے نہیں آنے اور بیچ میں کوئی نہ کوئی slot تو اتنی مل ہی جاتی ہے۔ کتنی لمبی آپ نماز پڑھ لیں گے۔ زیادہ سے زیادہ دو نمازیں جمع کریں گے دس منٹ سے زیادہ نہیں لگائیں گے۔ تو اس لیے جب موقع آئے تو نمازیں جمع کر لیں۔ اگر فارغ وقت مل جاتا ہے، اس میں سے پندرہ منٹ بھی مل جاتے ہیں تو ظہر عصر جمع کر لیں ٹھیک ہے کوئی ہرج نہیں، مغرب عشاء جمع کر لیں کوئی ہرج نہیں لیکن یہ کہنا کہ جی کیونکہ ہو سکتا ہے یہ ہو جائے اس لیے میں چاروں نمازیں جمع کر لوں یہ غلط ہے۔

ایک اور خادم نے سوال کیا کہ اگر آپ کے والدین آپ کو زندگی میں کچھ بننے کو کہیں تو آپ کو وہی بننا ضروری ہے کہ آپ اپنی مرضی کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ میرا تو خیال ہے کہ اپنی مرضی کرنی چاہیے لیکن یہ نہیں ہے کہ والدین کہیں کہ شریف آدمی بنوتم کہو نہیں میں نے بدمعاش آدمی بننا ہے۔ یہ مرضی جائزنہیں۔ ہاں اگر والدین کہیں تم ڈاکٹر بنو اور آپ کہیں نہیں میرا دل چاہتا ہے کہ میں lawyer بنوں یا انجنیئر بنوں یا میں اکانومسٹ بنوں یا کوئی ایسی چیز جو آپ کا دل چاہتا ہے اور آپ کی اس طرف tendency ہے، incline ہے، اس طرف زیادہ دماغ(چلتا ہو) تو وہ بننا چاہیے جس میں دلچسپی ہو۔ اس لیے میرے سے جب کوئی پوچھتا ہے کہ میں کیا بنوں، میرے پاس یہ چوائس ہے تو میں کہتا ہوں جس میں آپ کا سب سے زیادہ interestہے وہ پڑھائی کریں۔ پڑھائی کے معاملے میں کسی کو imposeنہیں کیا جاسکتا اپنی اپنی ہر ایک کی ایک tendencyہوتی ہے۔ ہر ایک کے پڑھنے کی inclinationہوتی ہے کس طرف اس نے جانا ہے۔ جہاں زیادہ inclinedہوں وہاں چلے جائیں۔ ماں باپ کو سمجھا دیں ماں باپ کو کیا پتا کہ اب کون کون سے نئے نئے علم آ گئے ہیں۔ ان کو تو یہی ہے پُتر ڈاکٹر بن جاؤ۔ یہی کہتے ہیں ناں؟ دلچسپی جس میں ہو وہ کرنا چاہیے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ جب آپ ایک خادم تھے تو آپ جماعت کی کیسے خدمت کرتے تھے؟

حضور انور نے فرمایا کہ مجھے تو پتا نہیں میں نے کوئی خدمت کی ہے کہ نہیں بہرحال جو ہمیں ہمارا افسر کہتا تھا، جو زعیم کہتا تھا، جو منتظم کہتا تھا ہم کام کر دیا کرتے تھے۔ میں زعیم بھی رہا ہوں، میں منتظم اطفال بھی رہا ہوں، میں ناظم بھی رہا ہوں ربوہ کی مقامی مجلس میں اور مرکز میں بھی رہا ہوں مہتمم کے طور پر بھی رہا ہوں۔ تو جو ہمارے افسر کہتے تھے اس کے مطابق ہم کام کر دیا کرتے تھے یا خود جتنا ہوتا تھا دماغ کے لحاظ سے کوئی پالیسی بنا کے جماعت کی بہتری کے لیے جس طرح کر سکتے ہیں کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ تو یہی کچھ ہوتا تھا۔ باقی کتنی اعلیٰ خدمت کی ہے یہ تو مجھے نہیں پتا۔ کوئی اعلیٰ کام کیا ہے کہ نہیں کیا۔ بہرحال جو بھی کیا جتنا ہو سکتا تھا کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے آپ لوگوں کو بھی چاہیے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے پورے پوٹینشل کے ساتھ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ جو بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو طاقتیں دی ہیں ان کے ساتھ کوشش کریں کہ آپ مجلس کا جتنا کام کر سکتے ہیں کریں اور ساتھ ہی یہ بھی کوشش کریں کہ اپنی نمازوں کو باقاعدہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ کام صحیح طرح کر سکیں۔ تو اللہ سے مدد مانگیں اور نیک نیتی سے کام کریں اس سے کام میں برکت پڑ جاتی ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ اسلام احمدیت کے غلبہ کے سلسلہ میں ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ دعا کریں۔ پانچ نمازیں باقاعدہ پڑھا کریں اور اس میں دعا کیا کریں، نفل پڑھا کریں اور اس میں دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام اور احمدیت کا غلبہ دکھائے اور ہمیں اس کا حصہ بنائے۔ پھر اس کے لیے اپنے دینی علم کو بڑھائیں۔ دینی علم سب سے پہلے تو قرآن کریم کے پڑھنے سے اور اس کو سمجھنے سے بڑھتا ہے۔ پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہیں جس میں قرآن کی بھی تشریح ہے، حدیث کی بھی تشریح آ جاتی ہے۔ وہ علم حاصل کریں۔ پھر علم حاصل کر کے اپنی زندگی کو اس کے مطابق بنائیں۔ آپ کا جو عمل ہے وہ اس کے مطابق ہونا چاہیے جو اسلام کی تعلیم ہے۔ ہمارے عمل اور ہماری باتیں ایک ہونی چاہئیں۔ پھر لوگوں کوہم تبلیغ کریں ۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ ہمارے کام بھی اور ہماری باتیں بھی ایک ہیں تو وہ ہماری بات بھی سنیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی اس میں برکت ڈال دیتا ہے۔ تو یہ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے اور اس کے بعد اس میں برکت ڈالنا اور لوگوں کو اس طرف لے کر آنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ ہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہیے، دعا سے، علم حاصل کر کے، علم پہ عمل کر کے اور اس علم کو پھیلا کر۔ یہ تدبیریں ہیں جس سے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔

ایک اور خادم نے سوال کیا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے نقصانات سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایاکہ مضبوط ارادے سے۔ determinationسے۔ اگر آپ اس بات پہ determined ہیں کہ میں نے بری باتیں نہیں دیکھنی اور صرف اچھی باتیں دیکھنی ہیں تو سوشل میڈیا پہ جو اچھی باتیں ہیں وہ دیکھیں جو بری باتیں ہیں وہ نہ دیکھیں۔ اور سوشل میڈیا کااچھا استعمال بھی تو ہے۔ وہ اچھا استعمال ہونا چاہیے جماعت کی اپنی ویب سائٹس ہیں ان کے اوپر جائیں جماعت کی بھی فیس بک کے اوپر سوال جواب ہوتے ہیں اس کے اوپر جائیں۔ اپنے دینی علم کو بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ جو لغویات چیزیں ہیں، فضول قسم کی باتیں ان سے پرہیز کرو۔ ایک مومن ایک صحیح ایمان لانے والا جو ہے اس کو جو فضول قسم کی باتیں ہیں ان سے بچنا چاہیے۔ آپ عقل مند آدمی ہیں ماشاء اللہ۔ نوجوان آدمی ہیں سوچ سمجھ کے دیکھو کہ کیا چیز اچھی ہے اور کیا بری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیںدماغ دیا ہے دماغ استعمال کرنے کے لیے دیا ہے۔ پھر آپ لوگ پڑھے لکھے بھی ہیں سکول میں جاتے ہیں کالج میں جاتے ہیں۔ اب سیکنڈری سکول ختم کرنے والے ہیں پھر کالج میں چلے جائیں گے یونیورسٹی میں چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے جو دماغ دیا ہے اس کو استعمال کریں، دیکھیں کیا برا ہے کیا اچھا ہے۔ جو برا ہے اس سے ہم نے بچنا ہے اور یہ پورا پکا ارادہ ہونا چاہیے کہ ہم نے برائیوں سے بچنا ہے اور استغفار بھی کرنا چاہیے جیسے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور نمازوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ ہمیں برائیوں سے بچا۔ تو یہی طریقہ ہے نہیں تو آجکل تو سوشل میڈیا میں برائیاں زیادہ ہیں اچھائیاں کم ہیں۔ اچھائیوں کو تلاش کرنے کے لیے بڑی کوشش کرنی پڑے گی۔ تو جب آپ کی توجہ صرف نیک باتوں کی طرف رہے گی اچھی باتوں کی طرف رہے گی سوشل میڈیا پہ بعض سائنس کی سائٹس بھی ہیں ان کو دیکھیں ، علم بڑھانے کے لیے سائٹس ہیں ان کو دیکھیں ۔ صرف جو فضول باتیں ہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا، مذاق اڑانا یا اعتراض کرنا یا جماعت پہ اعتراض کرنا یا اسلام پہ اعتراض کرنا اس قسم کی باتوں پر جانے کی ضرورت کوئی نہیں۔ ہاں اگر آپ کا دینی علم اتنا بڑھ گیا ہے، دین میں پکے ہیں مضبوط ہیں اور قرآن کریم کا بھی علم ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھ کے اعتراضوں کے جواب دینے کا بھی علم ہے۔ جماعت کا لٹریچر پڑھ کے اعتراضوں کا جواب دینے کا علم ہے پھر ان جگہوں پہ جا کے ان کے اعتراضوں کے جواب دے سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے اپنے دینی علم کو بڑھائیں اور اس کےلیے بہتر یہ ہے کہ جو ایسی ویب سائٹس ہیں یا ایسے میڈیاز ہیںجہاں علم میں اضافہ ہوتا ہے یا جو اچھی باتیں کرنے والے ہیں ان کی طرف جائیں۔ جماعتی جو سائٹس ہیںان کی طرف جائیں اس میں دیکھیں آپ کیا سیکھ سکتے ہیں۔ تو یہ تو dependکرتا ہے کہ آپ کی اپنی سوچ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں بتا دیا کہ یہ شیطان کی باتیں ہیں اوریہ میری باتیں ہیں تو آپ نے اب خود فیصلہ کرنا ہے کہ شیطان کی باتیں سننی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں سننی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل تو دی ہوئی ہے ناں ماشاء اللہ۔ اتنا بڑا دماغ ہے۔ بس اس کو استعمال کرو خود فیصلہ کیا کرو۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ گناہ کرنے والوں کو اتنی سزا کیوں نہیں دی جاتی اور اچھے لوگوں کو اس دنیا میں بہت سے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اچھے ہو کر اس بات میں کیا حکمت ہے کہ آپ کو اس دنیا میں مزید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بعض گناہوں کی سزا تو اس دنیا میں دے دیتا ہوں اور بعض جو سزا ہے وہ اگلے جہان میں دوں گا۔ حدیث میں آیا ہے یہ دنیا جو ہے امتحان کی دنیا ہے یہاں امتحان لیا جاتا ہے، examination hall ہے، یہاں سے پیپر حل کرنے ہیں، مشکل مشکل سوال آتے ہیں ان کو حل کرو گے تو ٹھیک ہے۔ اگر ان کو کوالیفائی کر لو گے تو پاس ہو جاؤ گے نہیں تو فیل ہو جاؤ گے اور فیل ہونے کا اعلان یہاںبھی ہو سکتا ہے اور اگلے جہان جا کے بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دنیا ہے یہ تو تمہاری ستر، اسّی، نوے سال کی دنیا ہے، (یعنی)زندگی انسان کی۔ جو ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے جو لمبی ہزاروں سال چلنے والی زندگی ہے اور پتا نہیں کتنا لمبا عرصہ چلنے والی ہے اللہ بہتر جانتا ہے وہ اگلے جہان کی ہے۔ وہاں جا کے اللہ تعالیٰ تمہیں انعام بھی دے گا اور سزا بھی دے گا اور جو گناہ کرنے والے ہیں ان کو جہنم میں ڈالے گا، جو نیک کام کرنے والے ہیں ان کو جنت میں ڈالے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ نبیوں پہ تو سب سے زیادہ امتحان آتے ہیں۔ مشکلات میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ تکلیفیں نہیں آئی تھیں؟ آئی تھیں۔ اس کے مقابلے میں ان کے دشمن دندناتے پھرتے تھے ظلم کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دشمنوں کو اس دنیا میں بھی سزا دے دی۔ بعض دشمن تھے ان کو اس دنیا میں سزا دے دی اور وہ مر گئے۔ ابوجہل وغیرہ جیسے۔ بعض دشمن تھے ابو سفیان جیسے جن کو اس دنیا میں سزا نہیں ملی کوئی ان کی نیکی پسند آ گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دی اور وہ بخشے گئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہے۔ ایک کہتا ہے جی میں جعلی پولیس مین بن کے گیا اور میں نے مرزا صاحب کو بلایا اور مرزا صاحب جلدی جلدی نیچے اتر رہے تھے اور میرے سے ڈر کے مارے ان کا پاؤں پھسلا اور سیڑھیوں سےنیچے گر گئے ۔ حالانکہ یہ واقعہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا ۔ ان کا پاؤں ایک جگہ پھسلا تھا لیکن گرنے کا واقعہ نہیںہوا تھا اور نہ سیڑھیوں سے اتر رہے تھے صاف فرش پہ ہی تھے۔ تو بہرحال وہ جو استہزا زیادہ کیا کرتا تھا دو آدمی تھے وہ۔ ایک کو تو اللہ تعالیٰ نے سزا دی کہ وہ چھت پہ تھا جیسے ہی سو کے اٹھا ایک دم اس کا پاؤں پھسلا اور چھت سے نیچے گرا اور مرگیا۔ تو مذاق اڑانے والے کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سزا دے دی ۔ اور دوسرا جو مذاق اڑانے والا تھا اس کو دوسرے رنگ میں اس طرح عبرت بنا دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ترقی کا زمانہ اس نے دیکھا اور وہ بڑا کڑھتا تھا ،جلتا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے مختلف طریقے ہیں سزا دینے کے بھی اور جزا دینے کے بھی۔ کچھ کو یہاں دے دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی دیتا ہے۔ کچھ کو صرف اگلے جہان میں جاکے دیتا ہے۔ اسی طرح مومنوں کو یہاں تکلیفوں سے گزارتا ہے تو اگلے جہان میں جاکر ان کو جزا بھی بہت دیتا ہے لیکن بہت سارے مومن ہیں جن کو اس دنیا میں بھی نواز دیتا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ بے شمار نعمتوں سے اس دنیا میں نوازتا ہے اگر آپ غور کریں۔ آپ کہاں سے آئے ہیں؟یہاں پیدا ہوئے تھے۔ (خادم نے عرض کی کہ وہ ربوہ سے تین سال پہلے آیا ہے) حضور انورنے فرمایا تو یہاں کوئی نہ کوئی تو سہولت ملی ناں۔ یہاں کم از کم نمازیں آرام سے پڑھ سکتے ہو۔ یہاں اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہو۔ تو ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ابتلا سے نکال دیا ایک سہولت دے دی ۔تو آپ کو یہ ریوارڈ تو مل گیا یہاں بھی۔ ابھی تو آپ جوان ہیں آئندہ زندگی میں اور بھی اللہ تعالیٰ نواز سکتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے رہیں گے تو۔ اور پھر جب قائم رہیں گے اگر حقیقی مومن بن کے رہیں گے تو اگلے جہان میں جا کے اور بھی ریوارڈ ملے گا۔

پھر حضور انور نے اس خادم سے پوچھا کہ وہ ربوہ میں کیا کرتے تھے؟ اس خادم نے عرض کیا کہ وہ کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور یہاں ناروے آکر اپنا ماسٹرز مکمل کیا ہے اور اب جاب بھی مل گئی ہے۔

حضور انورنے فرمایا تو پھر ماسٹرز یہاں آ کے کیا ہے تو پھر یہاں آ کےفائدہ تو ہو گیا۔ ریوارڈ تو مل گیا۔ اللہ تعالیٰ نےبہتر کردیا ۔ وہاں کی محنت کو پھل لگایا یہاں ریوارڈ دے دیا آگے ماسٹر کروا دیا اور جاب بھی مل گئی یہاں…یہ دیکھو اگر وہاں سے محنت کی تھی اتنی اس کا ریوارڈ اللہ تعالیٰ نے یہاں آکےدے دیا۔ تو اگر انسان سوچے تو ہر انسان کا ہر لمحہ جو ہے ہر دن جو چڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہی لے کے آتا ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ نیک آدمی کو اس دنیا میں نہیں ملتا اور بد آدمیوں کو مل جاتا ہے۔ باقی یہ دنیا دار جو ہیں، یہ دنیاداروں کو تو اللہ تعالیٰ نے دینا تھا۔ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے یہ دنیا دار سمجھتے ہیں کہ ان کو ہم نے دولت دے دی، پیسہ دے دیا اور سہولتیں دے دیں، آسائشیں دے دیں تو انہوں نے بڑی ترقی کر لی۔ یہ تومیں ان کو سزا دینے کے لیے، عذاب میں ڈالنے کے لیے ایک سامان کر رہا ہوں جو گناہ یہ کرتے ہیں اس کی ان کو سزا ملے گی چاہے وہ سزا مَیں اس دنیا میںدوں یا اگلے جہان میں جا کے دوں۔ اس لیے تم مومنوں فکر نہ کرو ان کو ضرور سزا ملے گی تم اللہ کو ہمیشہ یاد رکھو۔

ایک اور خادم نے سوال کیا کہ ہم اس طرح کے آجکل کے ماحول میں اپنی اولاد کی نیک تربیت کیسے کریں؟ میں کچھ عرصہ پہلے پاکستان سے آیا ہوں تو یہاں پہ ماحول کافی differentہے بہت openہے تو ہم کیاکریں جس سے ہماری اولاد صراط مستقیم پہ چلے؟

حضور انور نے فرمایا کہ یہاں بھی لوگ رہتے ہیں ان کے بچے اچھے بھی ہیں۔ اس کے لیے یہ ہے کہ ماں باپ جو ہیں وہ خود اپنا نمونہ بچوں کے سامنے پیش کریں۔ اگر باپ نماز پڑھنے والا ہے اگر باپ قرآن پڑھنے والا ہے اور اپنی بیوی کو بھی کہتا ہے اور بچوں کو بھی کہتا ہے تم نماز بھی پڑھو اور قرآن بھی پڑھو۔ اگر باپ اخلاقی لحاظ سے اچھا ہے اپنی بیوی کو بھی کہتا ہے ہمارے اخلاق اچھے ہونے چاہئیںا ور بچوں کو بھی کہتا ہے ۔ اگر باپ یہاں کے ماحول کے مطابق بچوں سے دوستی رکھتا ہے اور ان سے ہر بات شیئر کرتا ہے ان میں یہ confidence پیدا کر دے کہ تم نے جو باہر سے باتیں سننی ہیں مجھ سے آ کے شیئر کرنی ہیں اور پھر ان کو حوصلے سے سننا ہے اور پھر اس کو discuss کرنا ہے پھر ان کے جو doubts ہیں ان کو removeکرنا ہے تو اس طرح آپ تربیت کر سکتے ہیں۔ اگر بچوں کو چھوڑ دیں گے، اپنے کام میں رہیں گے کہ اچھا صرف پیسے کمانے ہیں تو چوبیس گھنٹے میں سے اٹھارہ گھنٹے کام کی دیہاڑی کرو۔ بیوی کو کہو کہ تم بھی دس گھنٹے کام کرو پیسے کماؤ تا کہ ہم گھر لے سکیں اور گھر کی mortgage ادا کر سکیں اور پھر ہم اتنے پیسے جوڑ سکیں۔ تو پھر جب بچے سکول سے آئیں گے ان کو فریج میں سے ڈبل روٹی ملے گی ٹوسٹ نکالیں گے، گرم کریں گے، کھا لیں گے۔ کہیں گے: نہ باپ پوچھتا ہے نہ ماں پوچھتی ہے نہ ہماری نمازوں کے متعلق ان کو کوئی فکر ہے نہ انہوں نے کہنا ہے کہ تم نے نماز پڑھی کہ نہیں پڑھی۔ نہ ہم نے ماں باپ کو نمازیں پڑھتے ہوئےدیکھا ہے ۔ وہ تو پیسے کمانے پہ لگے ہوئے ہیں۔ تو پھر ہم نے کیا کرنا ہے چلو ٹھیک ہے۔ اس دنیا کا ماحول ہی اس طرح کا ہے ایسے ہی رہو۔ تو یہ جو چیلنج ہے تو پھر آپ خود ان کو اس میں دھکیل رہے ہوں گے ۔ یہ تو محنت کرنی پڑتی ہے۔ تو اگر یہاں آئے ہیں۔ پیسے تو اللہ تعالیٰ دے دیتا ہے، مل جائیں گے۔ تھوڑے سے کم پیسے بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بچوں پہ توجہ ضرور دینی چاہیے۔ پھر weekend جو ہے اس پہ بچوں کے ساتھ بیٹھیں اور اگر کوئی جماعتی پروگرام ہے تو ان کو خود لے کر جائیں، وہاں بھی نگرانی رکھیں بچوں کی کہ بچے صحیح ماحول میں رہ کے واپس آ گئے ہیں کہ نہیں۔ وہاں کی انتظامیہ کو بھی پتا ہو کہ ماں باپ ساتھ آتے ہیں اور توجہ دے رہے ہیں۔ وہ بھی محتاط رہیں گے اور صحیح تربیت کریں گے بچوں کی۔ تو اگر بچے کسی دوستوں کے گھر جاتے ہیں تو وہاں بھی آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ ان دوستوں کا ماحول کیسا ہے۔ وہاں جا کے کہیں گندی عادتوں میں نہ پڑ جائیں۔ تو یہ تو آپ کومحنت کرنی پڑے گی ۔ جب یہاں آئے ہیں جس طرح پیسہ کمانے کے لیے محنت کرنی ہے اسی طرح بچوں کی تربیت کے لیے بھی محنت کرنی ہے۔ جب آپ محنت کر لیں گے اور دعا بھی ساتھ کریں گےتو انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ مدد کرے گا ۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے مکرم صدر صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آج کتنے خدام یہاں اس وقت بیٹھے ہیں؟ (صدر صاحب نے عر ض کی حضور 148خدام آئے تھے یہاں) حضور انورنے فرمایا اچھا ماشاء اللہ۔ پھر اللہ حافظ ہو۔ السلام علیکم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button