متفرق مضامین

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 11؍ فروری 2022ء

رسول کریمﷺ نے جب صحابہ کرام کو غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو…اس موقع پر جو شخص سب سے پہلے مال لے کر آیا وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ آپؓ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔

سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: فتح مکہ کی بابت حضرت ابوبکرؓ نے کیا خواب دیکھا اور رسول اللہﷺ نےاس کی کیاتعبیربیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: فتح مکہ کے حوالے سے حضرت ابوبکرؓ کی ایک خواب کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں اپنا خواب بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! مجھے خواب دکھایا گیا ہے اور مَیں نے خواب میں آپؐ کو دیکھا کہ ہم مکہ کے قریب ہو گئے ہیں۔ پس ایک کتیا بھونکتے ہوئے ہماری طرف آئی پھر جب ہم اس کے قریب ہوئے تو وہ پشت کے بل لیٹ گئی اور اس سے دودھ بہنے لگا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ان کا شر دور ہو گیا اور نفع قریب ہو گیا۔ وہ تمہاری قرابت داری کا واسطہ دے کر تمہاری پناہ میں آئیں گے اور تم ان میں سے بعض سے ملنے والے ہو ۔ آپؐ نے فرمایا کہ پس اگر تم ابوسفیان کو پاؤ تو اسے قتل نہ کرنا۔

سوال نمبر3: فتح مکہ کے موقع پر اسلامی لشکر کے ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے کی حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: جب اسلامی لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا تو اس کا ذکر کرتے ہوئے سُبُلُ الْھُدٰی وَالرَّشَادمیں لکھا ہے کہ ابو سفیان کے سامنے رسول اللہﷺ کا سبزپوش دستہ نمودار ہوا جس میں مہاجرین اور انصار تھے اور اس میں جھنڈے اور پرچم تھے۔ انصار کے ہر قبیلے کے پاس ایک پرچم اور جھنڈا تھا اور وہ لوہے سے ڈھکے ہوئے تھے یعنی زرہ وغیرہ جنگی لباس میں ملبوس تھے۔ ان کی صرف آنکھیں دکھائی دیتی تھیں۔ ان میں گاہے بگاہے حضرت عمرؓ کی اونچی آواز بلند ہوتی تھی۔ وہ کہتے تھے آہستہ چلو تا کہ تمہارا پہلا حصہ آخری حصہ کے ساتھ مل جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دستہ میں ایک ہزار زرہ پوش تھے۔ رسول اللہﷺ نے اپنا جھنڈا حضرت سَعد بن عُبَادہؓ کو عطا فرمایا اور وہ لشکر کے آگے آگے تھے۔ جب حضرت سعدؓ ابوسفیان کے پاس پہنچے تو انہوں نے ابوسفیان کو پکار کر کہا آج کا دن خونریزی کا دن ہے۔ آج کے دن حرمت والی چیزوں کی حرمت حلال کر دی جائے گی۔ آج کے دن قریش ذلیل ہو جائیں گے۔ اس پر ابوسفیان نے حضرت عباسؓ سے کہا۔ اے عباس! آج میری حفاظت کا ذمہ تم پر ہے۔ اس کے بعد دیگر قبائل وہاں سے گزرے اور اس کے بعد رسول اللہﷺ جلوہ افروز ہوئے اور آپؐ اپنی اونٹنی قَصْوَاء پر سوار تھے اور آپﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ کے درمیان ان دونوں سے باتیں کرتے ہوئے تشریف لا رہے تھے۔

سوال نمبر4: فتح مکہ کے دن امن کے اعلان پر حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں ابوسفیان کے حوالہ سے کیا عرض پیش کی؟

جواب: فرمایا: فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہﷺ نے امن کا اعلان فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! ابوسفیان شرف کو پسند کرتا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ بھی امن میں رہے گا۔

سوال نمبر5: فتح مکہ کے دن ہبل بت کے گرائے جانے پر ابو سفیان نے حضرت زبیربن عوامؓ کی بات کا کیا جواب دیا؟

جواب: فرمایا: مکہ فتح کرنے کے بعد رسول اللہﷺ نے ہُبَل بت کے بارے میں حکم دیا۔ چنانچہ وہ گرا دیا گیا اور آپؐ اس کے پاس کھڑے تھے۔ اس پر حضرت زُبیر بن عَوَّامؓ نے ابوسفیان سے کہا۔ اے ابوسفیان! ہُبَلکو گرا دیا گیا ہے حالانکہ تُو غزوۂ احد کے دن اس کے متعلق بہت غرور میں تھا جب تُو نے اعلان کیا تھا کہ اس نے تم لوگوں پر انعام کیا ہے۔ اس پر ابوسفیان نے کہا اے عَوَّام کے بیٹے! ان باتوں کو اَب جانے دو کیونکہ میں جان چکا ہوں کہ اگر محمدﷺ کے خدا کے علاوہ بھی کوئی خدا ہوتا تو جو آج ہوا وہ نہ ہوتا۔

سوال نمبر6: غزوہ حنین کب ہوا؟

جواب: فرمایا: غزوۂ حُنَین شوال آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا تھا۔

سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ حنین کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ دیکھو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جنگِ حُنَین کے موقع پر جب مکہ کے کافر لشکر اسلام میں یہ کہتے ہوئے شامل ہو گئے کہ آج ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے اور پھر بنو ثقیف کے حملہ کی تاب نہ لا کر میدان جنگ سے بھاگے تو ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریمﷺ کے گرد صرف بارہ صحابی رہ گئے۔ اسلامی لشکر جو دس ہزار کی تعداد میں تھا اس میں بھاگڑ مچ گئی۔ کفار کا لشکر جو تین ہزار تیر اندازوں پر مشتمل تھا آپؐ کے دائیں بائیں پہاڑوں پر چڑھا ہواآپؐ پر تیر برسا رہا تھا مگر اس وقت بھی آپؐ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے تھے بلکہ آگے جانا چاہتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر آپؐ کی سواری کی لگام پکڑ لی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! میری جان آپؐ پر قربان ہو یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں ہے۔ ابھی لشکرِ اسلام جمع ہو جائے گا تو پھر ہم آگے بڑھیں گے مگر آپﷺ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ میری سواری کی باگ چھوڑ دو اور پھر ایڑ لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اَنَا النَّبِی لَا کَذِبْ، اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ یعنی میں موعود نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے۔ جھوٹا نہیں ہوں۔ اس لیے تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں۔ اور اے مشرکو! میری اس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا میں ایک انسان ہوں اور تمہارے سردار عبدالمطلب کا بیٹا یعنی پوتا ہوں۔ آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ کی آواز بہت اونچی تھی۔ آپؐ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا عباس! آگے آؤ اور آواز دو اور بلند آواز سے پکارو کہ اے سورۂ بقرہ کے صحابیو! یعنی جنہوں نے سورت بقرہ یاد کی ہوئی ہے! اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ مکہ کے تازہ نَو مسلموں کی بزدلی کی وجہ سے جب اسلامی لشکر کا اگلا حصہ پیچھے کی طرف بھاگا تو ہماری سواریاں بھی دوڑ پڑیں اور جتناہم روکتے تھے اتنا ہی وہ پیچھے کی طرف بھاگتی تھیں۔ یہاں تک کہ عباسؓ کی آواز میدان میں گونجنے لگی کہ اے سورہ بقرہ کے صحابیو!اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ آواز جب میرے کان میں پڑی تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوں اور اِسْرَافِیلکا صُور فضا میں گونج رہا ہے۔ میں نے اپنے اونٹ کی لگام زور سے کھینچی اور اس کا سر پیٹھ سے لگ گیا لیکن وہ اتنا بِدکا ہوا تھا کہ جونہی میں نے لگام ڈھیلی کی وہ پھر پیچھے کی طرف دوڑا۔ اس پر میں نے اور بہت سے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں اور کئی تو اونٹوں پر سے کود گئے اور کئی نے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور رسول کریمﷺ کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اور چند لمحوں میں ہی وہ دس ہزار صحابہ کا لشکر جو بے اختیار مکہ کی طرف بھاگا جا رہا تھا آپؐ کے گرد جمع ہو گیا اور تھوڑی دیر میں پہاڑیوں پر چڑھ کر اس نے دشمن کو تہس نہس کر دیا اور یہ خطرناک شکست ایک عظیم الشان فتح کی صورت میں بدل گئی۔

سوال نمبر8: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ طائف کے موقع پر رسول اللہﷺ کی کونسی خواب کا ذکر فرمایا؟

جواب: فرمایا: جب رسول اللہﷺ نے طائف میں ثقیف کا محاصرہ کر رکھا تھا تو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا اے ابوبکر! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے مکھن سے بھرا ہوا ایک پیالہ پیش کیا گیا مگر ایک مرغ نے ٹھونگا مارا تو اس پیالے میں جو کچھ تھا سب بہ گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! میں نہیں سمجھتا کہ آپؐ آج کے دن ان سے جس چیز کا ارادہ رکھتے ہیں وہ حاصل کرلیں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہا۔

سوال نمبر9: غزوہ تبوک کب ہوا؟

جواب: فرمایا: غزوۂ تبوک رجب 9؍ ہجری میں ہوا۔

سوال نمبر10: غزوہ تبوک کے موقع پر مالی قربانی کی تحریک پر حضرت ابوبکرؓ نےکس طرح لبیک کہا؟

جواب: فرمایا: رسول کریمﷺ نے جب صحابہ کرام کو غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپﷺ نے مکہ اور دیگر قبائل عرب کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ بھی آپؐ کے ساتھ چلیں اور آپﷺ نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور سواری مہیا کرنے کی تحریک فرمائی۔ یعنی آپﷺ نے اس بات کا انہیں تاکیدی حکم دیا اور یہ آپؐ کا آخری غزوہ ہے۔ چنانچہ اس موقع پر جو شخص سب سے پہلے مال لے کر آیا وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ آپؓ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔

سوال نمبر11: دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے حوالہ سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ الٰہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح نثار کرتے تھے۔ مالوں کا تو کیا ذکر، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا کُل گھر بار نثار کیا حتی ٰکہ سوئی تک کو بھی اپنے گھر میں نہ رکھا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط اور انشراح کے موافق اور عثمان نے اپنی طاقت و حیثیت کے موافق عَلٰی ہٰذَا الْقِیاسِ عَلٰی قَدْرِ مَرَاتِبتمام صحابہ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اس دینِ الٰہی پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ بیعت کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کر جاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم کریں گے مگر مدد اور امداد کے موقع پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑے رکھتے ہیں۔ بھلا ایسی محبت دنیا سے کوئی دینی مقصد پا سکتا ہے اور کیا ایسے لوگوں کا وجود کچھ بھی نفع رساں ہو سکتا ہے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ پھرآپؑ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ کہ جب تک مال جو تمہیں پیارا ہے اس کو خرچ نہیں کرو گے اس وقت تک تمہاری نیکی نیکیاں نہیں ہیں۔

سوال نمبر12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت عبداللہ ذوالبجادین مزنیؓ کی تدفین کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا کہ ایک مرتبہ میں آدھی رات کے وقت اٹھا تو میں نے لشکر کے ایک طرف آگ کی روشنی دیکھی۔ چنانچہ میں اس کی طرف گیا کہ دیکھوں کہ وہ کیا ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہﷺ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ہیں اور میں نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ ذُوالبِجَادَین مُزَنِیؓ فوت ہو گئے ہیں اور یہ لوگ ان کی قبر کھود چکے تھے اور رسول اللہﷺ قبر کے اندر تھے جبکہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ان کی میت کو آپؐ کی طرف اتار رہے تھے اور آپﷺ فرما رہے تھے کہ تم دونوں اپنے بھائی کو میرے قریب کرو۔ پس ان دونوں نے حضرت عبداللہ ذُوالبِجَادَینؓ کی میت کو رسول اللہﷺ کی طرف اتارا۔ جب آپؐ نے انہیں قبر میں رکھ دیا تو آپﷺ نے دعا کی۔ اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَمْسَیتُ رَاضِیا عَنْہُ فَارْضَ عَنْہُ کہ اے اللہ! میں نے اس حال میں شام کی ہے کہ میں اس سے راضی تھا پس تُو بھی اس سے راضی ہو جا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس وقت تمنا کی کہ کاش یہ قبر والا میں ہوتا۔

سوال نمبر13: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت ابوبکرؓ کے امیر الحج بنائے جانے کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ نے 9؍ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیرالحج بنا کر مکہ روانہ فرمایا تھا۔ رسول اللہﷺ جب تبوک سے واپس آئے تو آپؐ نے حج کا ارادہ کیا۔ پھر آپؐ سے ذکر کیا گیا کہ مشرکین دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حج کرتے ہیں۔ وہاں مشرکین بھی ہوں گے اور شرکیہ الفاظ بھی ادا کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں۔ یہ بات سن کے رسول اللہﷺ نے اس سال حج کا ارادہ ترک کر دیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا۔

سوال نمبر14: سورۃ التوبہ کے نازل ہونے پررسول اللہﷺ نےکیاحکم صادرفرمایا؟

جواب: فرمایا: ابوجعفر محمد بن علی سے روایت ہے کہ جب سورۂ براة (سورۂ توبہ) رسول اللہﷺ پر نازل ہوئی تو آپﷺ حضرت ابوبکرؓ کو بطور امیرِ حج بھجوا چکے تھے۔ آپؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ ! اگر آپؐ یہ سورت حضرت ابوبکرؓ کی طرف بھیج دیں تاکہ وہاں وہ پڑھیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ میرے اہلِ بیت میں سے کسی شخص کے سوا کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کر سکتا۔ پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلوایا اور انہیں فرمایا کہ سورت توبہ کے آغاز میں جو بیان ہوا ہے اس کو لے جاؤ اور قربانی کے دن جب لوگ منیٰ میں اکٹھے ہوں تو اس میں اعلان کر دو کہ جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی، نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ہاتھ آنحضرتﷺ نےکوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی۔

سوال نمبر15: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےکس مرحومہ کا ذکرخیرفرمایا؟

جواب: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمحترمہ امة اللطیف خورشید صاحبہ کا ذکرخیرفرمایاجوکہ شیخ خورشید احمد صاحب مرحوم اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ کی اہلیہ تھیں۔ پچانوے سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button