حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نشان دیکھتے ہیں پھر بھی اثر نہیں ہوتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 8؍ ستمبر 2006ءمیں فرمایا:

آج ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی جماعت میں ایسے بہت سے لوگ دیکھتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کے نشانات دکھا کر دوسروں کے لئے اتمام حجت یا ہدایت یا ایمان میں زیادتی کا باعث بنایا۔ …مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ …کہتے ہیں … موضع جاموں بولا جو ہمارے گاؤں سے جانب شمال دو کوس کے فاصلہ پر واقع ہے وہاں کے اکثر زمیندار ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے۔ جب انہوں نے جیون خاں ساکن دُھدرہ کی بیماری اور معجزانہ صحت یابی کا حال سنا تو ان میں سے خان محمد زمیندار میرے والد صاحب کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی جان محمد عرصہ سے تپ دق کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ آپ ازراہ نوازش میاں غلام رسول صاحب کو فرمائیں کہ وہ کسی وقت ہمارے گھر ٹھہریں اور جان محمد کے لئے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی صحت عطا فرما دے۔ چنانچہ ان کی درخواست پر والد صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا۔ مَیں وہاں چلا گیا وضو کرکے نماز میں اس کے بھائی کیلئے دعا شروع کر دی۔ سلام پھیرتے ہی مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ اب جان محمد کی حالت کیسی ہے۔ گھر والوں نے جواب دیا کہ بخار بالکل اتر گیا ہے اور کچھ بھوک کی حالت بھی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد چند ہی دنوں کے اندر اس کے کمزور ناتواں جسم میں طاقت آ گئی اور چلنے پھرنے لگ گیا۔

آپ فرماتے ہیں کہ اس نشان کو دیکھ کر اگرچہ ان لوگوں کے اندر احمدیت کے متعلق کچھ حسن ظنی پیدا ہوئی مگر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلقہ بیعت میں کوئی شخص نہ آیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ اس مریض کو جو صحت دی گئی ہے وہ ان لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے ہے اور اگر انہوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا تو یہ مریض اسی شعبان کے مہینے کی اٹھائیسویں تاریخ کی درمیانی شب قبر میں ڈالا جائے گا۔ چنانچہ مَیں نے بیدار ہوتے ہی قلم اور دوات منگوائی اور یہ الہام الٰہی کاغذ پر لکھا اور اسی گاؤں کے بعض غیر احمدیوں کو دے دیا اور تلقین کی کہ اس پیشگوئی کو تعیین موت کے عرصے سے پہلے ظاہر نہ کریں۔ اس کے بعد مَیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں قادیان چلا آیا اور یہیں رمضان مبارک کا مہینہ گزارا۔ خداتعالیٰ کی حکمت کہ جب جان محمد بظاہر صحت یاب ہو گیا اور جابجا اس معجزہ کا چرچا ہونے لگا تو اس مرض نے دوبارہ حملہ کیا اور وہ ٹھیک شعبان کی انیسویں رات(میرا خیال ہے یہ شایدغلطی ہے۔ اٹھائیس یا انیسویں جو بھی رات تھی۔ یا وہاں غلط ہے یا یہاں غلط ہے) اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اور اس کے مرنے کے بعد جب ان غیر احمدیوں نے میری تحریر لوگوں کے سامنے رکھی تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مگر افسوس ہے کہ پھر بھی ان لوگوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا۔(حیات قدسی حصہ اول صفحہ28تا 30)

نشان دیکھتے ہیں پھر بھی اثر نہیں ہوتا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button