متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعویٰ سے قبل زندگی پر ایک نظر (قسط سوم۔ آخری)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

حضورعلیہ السلام کی سیرت کے واقعات سے اظہر من الشمس ہے کہ بچپن اور شباب سے لے کرماموریت کے اعلان تک آپ کے دل میں امت محمدیہ کی خیرخواہی کا بے پناہ جذبہ موجزن تھا۔

حضور اقدسؑ کا سیالکوٹ میں قیام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے1864ء سے 1868ءکے دوران تقریباً چار سال تک سیالکوٹ میں ملازمت اختیار کی۔ اس دوران آپ مختلف جگہوں پر قیام پذیر رہے۔ یہ زمانہ آپ کے عنفوان شباب کا زمانہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وجیہ شکل و صورت عطا کی تھی اور آپ مردانہ حسن کے نمونہ تھے۔ مگر اس کے باوجود آپ کی زندگی نہایت پاکیزہ اور ہر برائی سے منزہ تھی جس کے معترف وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے آپ کے دعویٰ کو کسی وجہ سے قبول نہیں کیا۔ ان لوگوں میں خاص وعام سبھی شامل تھے۔ اگرچہ آپ کی پیدائش سے لے کر ماموریت سے پہلے کی زندگی کا ہر حصہ اپنے اندر کچھ خصوصیات رکھتا ہے مگر سیالکوٹ میں آپ کاقیام کچھ اور ہی رنگ رکھتا ہے۔ سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران حضور علیہ السلام جس صیغہ میں ملازم تھے۔ اُس جگہ ناجائز کمائی چنداں مشکل نہ تھی لیکن آپ کے اندرپائی جانے والی فطری نیک روش اور تقویٰ وطہارت نے آپ کو اُس سب سے بے نیاز کر رکھا تھا۔ اس ملازمت کے دوران آپ کو ملازم پیشہ لوگوں کی زندگی کو قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس تجربہ سے مجھے معلوم ہؤا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہونگے جو پورے طورپر صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوں اور جو اُن ناجائز حظوظ سے اپنے تئیں بچاسکیں جو ابتلا کے طورپر ان کو پیش آتے رہتے ہیں۔ مَیں ہمیشہ اُن کے منہ دیکھ کر حیران رہا اور اکثر کو ایسا پایا کہ اُن کی تمام دِلی خواہشیں مال و متاع تک خواہ حلال کی وجہ سے ہو یا حرام کے ذریعہ سے محدود تھیں۔ اور بہتوں کی دن رات کی کوششیں صرف اسی مختصر زندگی کی دُنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں۔ مَیں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرکے اخلاق فاضلہ حلم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی مخلوق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پرہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں۔ بلکہ بہتوں کو تکبر اور بدچلنی اور لاپروائی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پایا۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ ہر ایک قسم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو۔ اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا…وہ تمام ایّام سخت کراہت اور درد کے ساتھ مَیں نے بسر کئے۔ ‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 185تا186حاشیہ)

مشہور صحافی جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب بانی اخبار زمیندار جو مولوی ظفرعلی صاحب ایڈیٹر’’زمیندار‘‘ کے والد تھے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ قیام سیالکوٹ سے آپ کے جاننے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے ذاتی تجربہ اور علم کی بنا پر حضور علیہ السلام کے متعلق جو رائے قائم کی اُسے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔ وہ حضورؑ کے قیام سیالکوٹ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ’’مرزا غلام احمد صاحب 1860ء و 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے۔ اُس وقت آپ کی عمر 22، 23سال کی ہوگی۔ اور ہم چشم دید شہادت سے کہتے ہیں کہ جوانی میں نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ ‘‘(حیاتِ احمد جلد اوّل حصہ سوم صفحہ 374۔ کمپوزڈ ایڈیشن۔ مطبوعہ 2013ء)

حضور علیہ السلام سیالکوٹ کی ملازمت چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے تو اس زمانے میں مولوی سراج الدین صاحب کو قادیان آنے کا موقع ملا۔ ان ایام میں حضور علیہ السلام کی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی۔ ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ ‘‘(حیاتِ احمد جلد اوّل حصہ سوم صفحہ 374۔ کمپوزڈ ایڈیشن۔ مطبوعہ 2013ء)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ مولوی سراج الدین صاحب کی مندرج بالا شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ’’یہ اُس شخص کی رائے ہے جو آپ کے دعاوی پر ایمان نہیں لایا۔ مگر ان کے متعلق بھی وہ کہتا ہے کہ ’’آپ کے دعاوی خواہ دماغی استغراق کا نتیجہ ہوں۔ مگر بناوٹ اور افترا سے بَری تھے۔ ‘‘آپ کو مفتری وہ یقین نہ کرتے تھے۔ ایسے شخص کا اپنی ذاتی واقفیت اور چشم دید حالات کی بنا پر مندرجہ بالا شہادت دینا معمولی بات نہیں ہے۔ خود مولوی سراج الدین صاحب سرسیّد کے اتباع میں تھے …سیالکوٹ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق یہی ایک شہادت نہیں۔ بلکہ ان مخلصین اوراَلسَّابِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ کی عملی شہادت بھی ہے۔ جنہوں نے سیالکوٹ میں حضرت کو دیکھا ہوا تھا۔ اور جب آپ نے دعویٰ کیا تو انہوں نے اٰمَنَّاوَصَدَّقۡنَا کہا۔

اگر وہ آپ کی پاکیزہ زندگی، آپ کے زُہد واِتّقاء، آپ کے اسلامی خادم وجاںنثار ہونے کے علیٰ وَجہ البصیرت شاہد نہ ہوتے تو کبھی قبول نہ کرتے۔ حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب اور اُن کے خاندان کا حلقہ ٔ ارادت میں داخل ہونا حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ جیسے عالم اور آزاد خیال عالم کا اخلاص و عقیدت کے ساتھ آپ کو ایسا قبول کرنا کہ ہر قسم کی قربانی کے لیے آمادہ ہوگئے …وہ لوگ آپ کے حالات کو جانتے تھے۔ آپ کی راست بازی، دیانت اور تقویٰ سے واقف تھے۔ انہوں نے اس درد اور جوش کو بچشم خود دیکھا تھا۔ جو آپ اسلام کے لیے رکھتے تھے۔ اس غیرت اسلامی کو انہوں نے محسوس کیا تھا جو تحفّظِ ناموسِ سرورِ عالم کے لیے آپ کے دل میں تھی۔ اس لیے جب آپ نے دعویٰ کیا کہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اُن لوگوں نے اسے صادق سمجھا۔ اور صادق یقین کرکے اس کے ساتھ ہوئے۔ ‘‘(حیاتِ احمد جلد اوّل حصہ سوم صفحہ 374تا375۔ کمپوزڈ ایڈیشن۔ مطبوعہ 2013ء )

سیالکوٹ میں قیام کے زمانہ میں حضور علیہ السلام کا مولانا سید میر حسن صاحب سیالکوٹی سے خاص تعلق رہا۔ اُس زمانے میں وہ حضور علیہ السلام کے ہر وقت کے ساتھی رہے ہیں۔ اگرچہ وہ آخر وقت تک احمدیت کے مخالف رہے لیکن اگر کبھی کسی نے حضور علیہ السلام کی قبل ازبعثت زندگی پر کوئی اعتراض کیا تو انہوں نے ہمیشہ اُس کی تردید کی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سیدمیر حسن صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں قریباً دو سال رہے ہیں اور وہاں کے لوگ جو رات دن آپ کی مجلس میں رہے …سیالکوٹ کے لوگوں پر آپ کی زندگی کا جو اثر تھا وہ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سید میر حسن صاحب جو ایک بہت مشہور شخص گزرے ہیں ڈاکٹر سر اقبال بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں، سیالکوٹ اور پنجاب کا علمی طبقہ ان کی عظمت، صاف گوئی اور سچائی کا قائل ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیامِ سیالکوٹ کے ہر وقت کے ساتھی تھے وہ نیچری تھے اور سرسید کے متبع تھے اور آخر تک احمدیت کے مخالف رہے ہیں۔ مگر جب بھی کسی نے آپ کی قبل از بعثت زندگی پر اعتراض کئے، انہوں نے ہمیشہ اس کی تردید کی اور عَلَی الۡاِعۡلَانۡ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بزرگی اور نیکی اور اسلام سے محبت کا ذکر کرتے رہے …سیالکوٹ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لمبے عرصے تک رہے وہاں کے لوگ تو آپ کی زندگی میں کوئی عیب نہ نکال سکے بلکہ آپ کی بزرگی اور ولایت کے قائل رہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍نومبر 1935ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 16صفحہ 682)

مولانا سید میر حسن صاحب سیالکوٹی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سیالکوٹ کی طرف نظر کرتے ہوئے مزیدلکھتے ہیں کہ’’حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا چونکہ آپ عُزلت پسند اور پارسا اور فضول اور لغو سے مجتنب اور محترز تھے۔ اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے آپ پسند نہیں فرماتے تھے۔ ‘‘(حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل صفحہ 92۔ کمپوزڈ ایڈیشن۔ مطبوعہ 2013ء)

نیز لکھتے ہیں کہ ’’ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔ ‘‘(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 251۔ کمپوزڈ ایڈیشن مطبوعہ 2008ء)

نیز فرماتے ہیں: ’’حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پُر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے۔ عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے۔ کچہری سے جب تشریف لاتے تھے۔ تو قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔ بیٹھ کر، کھڑے ہوکر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے۔ اور زارزار رویا کرتے تھے۔ ایسی خشوع وخضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ‘‘(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 252۔ کمپوزڈ ایڈیشن مطبوعہ 2008ء)

ایک مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ نے سیالکوٹ میں سید میر حسن صاحب سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران انہوں نے حضور علیہ السلام کا ذکر آنے پر چشم پُر آب ہوکر فرمایا: ’’افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کرسکتا۔ ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی۔ بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں۔‘‘(الحکم 7؍اپریل 1934ء صفحہ 3)

سیالکوٹ میں قیام کے دوران حضور علیہ السلام کا معمول تھا کہ آپ گھر سے باہرنکلتے تو اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے اور اپنے چہرے کا صرف اتنا حصہ کھلا رکھتے جس سے آسانی کے ساتھ راستہ دیکھا جاسکے۔ کچہری سے فارغ ہوکر اپنی قیام گاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کرلیتے اور اپنا زیادہ وقت تلاوت قرآن کریم اور ذکر الٰہی میں گزارتے۔ ایک روز کسی متجسس نگاہ نے ٹوہ لگانے کی کوشش کی تو انہوں نے بچشم خود دیکھا کہ آپ مصلیٰ پر رونق افروز ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے اور نہایت عاجزی، رِقت، الحاح اور کرب وبلا سے دست بدعا ہیں کہ ’’ یا اللہ ! تیرا کلام ہے مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 85۔ قیام سیالکوٹ اور تبلیغ اسلام )ان دنوں حضور علیہ السلام کا فضل دین صاحب مرحوم کے ساتھ کافی اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اس لیے ان کے گھر کے افراد آپ کے عادات و اطوار سے خوب واقف تھے۔ ان کی بیٹی حیات بی بی صاحبہ نے حضور علیہ السلام کے بارہ میں بتایا کہ ’’آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔ مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کرلیتے اور اندر صحن میں جاکر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں اور یہاں تک روتے کہ زمین تر ہوجاتی ہے۔ مرزا صاحب عموماً اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے تھے اور سر پر بھی چادر اوڑھ لیتے تھے۔ اور اتنا ہی منہ کھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے۔ میرے والد بتلاتے تھے کہ مکان کے اندر جاکر چادر اتار دیتے تھے۔ جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے، محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کردیتے۔ کپڑے بنوادیتے یا نقد دے دیتے تھے۔ ‘‘(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 93تا94۔ ایڈیشن اوّل مطبوعہ اپریل 1939ء)

جن دنوں حضور علیہ السلام میاں فضل دین صاحب کے چھوٹے بھائی عمرا نامی کشمیری کے مکان میں رہا کرتے تھے۔ اُس زمانے کے متعلق اُن کے عزیزوں میں سے کسی نے بتایا کہ ’’آپ جب کچہری سے واپس تشریف لاتے تھے تو دروازہ میں داخل ہونے کے بعد دروازہ کو پیچھے مُڑ کر بند نہیں کرتے تھے تاکہ گلی میں اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر نہ پڑے بلکہ دروازہ میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ پیچھے کرکے پہلے دروازہ بند کرلیتے تھے اور پھر پیچھے مُڑ کر زنجیر لگایا کرتے تھے۔ گھر میں سوائے قرآن مجید پڑھنے اور نمازوں میں لمبے لمبے سجدے کرنے کے اور آپ کا کوئی کام نہ تھا۔ بعض آیات لکھ کر دیواروں پر لٹکا دیا کرتے تھے اور پھر اُن پر غور کرتے رہتے تھے۔ ‘‘(حیات طیبہ صفحہ 20مصنفہ شیخ عبدالقادرصاحب )

محترم عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی ستمبر 1925ء کو تبلیغ کی غرض سے سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اس موقع پرانہوں نے وہ مکان بھی دیکھا جس میں حضور علیہ السلام ایک عرصے تک فروکش رہے تھے۔ آپ نے اس مکان کے مالک میاں بوٹا صاحب کشمیری سے ملاقات کی اور حضور علیہ السلام کے اخلاق وعادات کے بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا: ’’حضرت مرزا صاحب ہمارے ہی مکان میں رہتے تھے۔ …آپ جب کچہری سے آتے تو اپنے مکان کا دروازہ بند کرلیتے۔ کوئی آدمی ان کے پاس ملنے کے لئے نہیں آتاتھا۔ اور نہ وہ کسی کے پاس جایا کرتے تھے۔ اس کوچہ میں رہنے کے باعث لوگ تو انہیں جانتے تھے مگر وہ کسی کو نہ جانتے تھے۔میاں بوٹا صاحب کشمیری نے یہ بیان کیاکہ میں تو ان کو ولی اللہ جانتا ہوں۔ ایک دفعہ میرے والد بیمار ہوئے تمام ڈاکٹر اور حکیم جواب دے چکے کہ اب یہ نہیں بچے گا۔ اور علاج کرنا فضول ہے۔ لیکن ہم نے حضرت مرزا صاحب کو بلایا۔ آپ نے دعا فرمائی اور کچھ علاج بھی بتایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے میرے والد صاحب کو شفا دی۔ اور بہت سی ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوئیں۔‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخہ 8؍اکتوبر 1925ء صفحہ 6)

ایک اور روایت کے مطابق میاں بوٹا صاحب کشمیری نے حضور علیہ السلام کے بارے میں یہ شہادت دی کہ’’جب حضرت مرزا صاحب ہمارے مکان میں رہتے تھے تو مکان کے صحن میں ٹہلتے رہتے اور قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 85)

دینی غیرت کا ایک دلچسپ واقعہ

بعض اوقات دینی غیرت انسان کے دنیاوی کاموں یا جسمانی اعضاءسے بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ حضرت مولوی محمد اسماعیل شہیدؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ کسی نے ان تک یہ بات پہنچائی کہ فلاں سکھ سپاہی دعویٰ کرتا ہے کہ کوئی شخص تیرنے میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس پر شہید مرحوم کو غیرت آگئی اور انہوں نے اسی وقت تیرنے کی مشق شروع کردی اور اتنی مہارت پیدا کرلی کہ بہت اچھے تیراک بن گئے۔ اور بالآخر کئی ماہ کی تیاری کے بعد انہوں نے اس سکھ سپاہی کو تیراکی کے مقابلہ میں شکست دے دی۔ جن دنوں حضور علیہ السلام ملازمت کے سلسلے میں سیالکوٹ میں مقیم تھے ایک دن آپ کے ساتھ بھی دینی غیرت کا ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ سید میر حسن صاحب سیالکوٹی نے حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کے ایک خط کے جواب میں حضور علیہ السلام کے متعلق لکھا کہ ’’دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیشروی تو عیاں ہے۔ مگر جسمانی دوڑ میں بھی آپ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہوچکی تھی۔ اس کا مفصّل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخاست ہونے کے بعد جب اہل کار گھروں کو واپس ہونے لگے۔ تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہوگیا۔ ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں۔ آخر ایک شخص بلاّ سنگھ نام نے کہا کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہوجائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے۔ آخر شیخ الٰہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے۔ اور یہ امر قرار پایا کہ یہاں سے شروع کرکے اس پُل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حدِّ فاصل ہے۔ ننگے پاؤں دوڑو۔ جوتیاں ایک آدمی نے اُٹھا لیں اور پہلے ایک شخص اس پُل پر بھیجا گیا تاکہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پُل پر پہنچا۔ مرزا صاحب اور بِلا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے۔ اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب پُل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا۔ ‘‘(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 253۔ کمپوزڈ ایڈیشن مطبوعہ 2008ء)

ماموریت سے قبل حفاظت الٰہی کے چند واقعات

اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو مخلوق خدا کی اصلاح اور اُن کی تربیت کے لیے مامور کرنا چاہتا ہے۔ اُس کی تائیدونصرت ہر زمانے میں اُن کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ ہر حال میں ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے لیے خارق عادت نشانات ظاہر فرماکر اپنی قدرت نمائی کا اظہار فرماتا ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نےحضور علیہ السلام کے دعویٰ سے قبل حفاظت الٰہی کے چند واقعات حضور علیہ السلام کی ڈائری سے تحریر فرمائے ہیں۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ

(1)’’حضرت صاحب تیرنا اور سواری خوب جانتے تھے اور سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بچپن میں مَیں ڈوب چلاتھا تو ایک اجنبی بڈھے سے شخص نے مجھے نکالا تھا۔ اس شخص کو مَیں نے اس سے قبل یا بعد کبھی نہیں دیکھا۔ نیز فرماتے تھے کہ مَیں ایک دفعہ ایک گھوڑے پر سوار ہوا اس نے شوخی کی اور بے قابو ہوگیا۔ میں نے بہت روکنا چاہا۔ مگر وہ شرارت پر آمادہ تھا نہ رکا۔ چنانچہ وہ اپنے پورے زور سے ایک درخت یا دیوار کی طرف بھاگا اور پھر اس زور کے ساتھ ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں مرگیا۔ مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے بچالیا…حضرت صاحب بہت نصیحت کیا کرتے تھے کہ سرکش اور شریر گھوڑے پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہیئے۔ اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس گھوڑے کا مجھے مارنے کا ارادہ تھا مگر مَیں ایک طرف گر کر بچ گیا اور وہ مرگیا۔ ‘‘(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 198تا199 روایت 188 کمپوزڈ ایڈیشن فروری 2008ء )

(2)حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا۔ ایک دن بارش ہورہی تھی جس کمرہ کے اندر بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی۔ سارا کمرہ دھوئیں کی طرح سیاہ ہوگیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا۔ اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا۔ بجلی تمام چکروں میں سے ہوکر اندر جاکر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا۔ دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اس کو جلا دیا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی۔

(3)ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات مَیں ایک مکان کی دوسری منزل پر سویا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے۔ رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی۔ میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی چوہا ہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی۔ پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کومکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا۔ ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اور وہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جاپڑی اور سب بچ گئے۔

(4)ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مرا ہوا پایا گیا اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا۔ مگر ہر دو بار خدا نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا۔ ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی مجھے خبر بھی نہ ہوئی۔ ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلایا اور آگ کو بجھا دیا۔ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 216تا217 روایت نمبر188، روایت نمبر 236کمپوزڈ ایڈیشن فروری 2008ء)

مَیں تو نوکر ہوگیا ہوں

حضور علیہ السلام کے والد محترم پدری محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر آپ کی بہت فکر کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ضلع گورداسپور میں ایک ایسا انگریز افسر آیا جو حضور کے والد محترم کا واقف کار تھا۔ انہوں نے چاہا کہ اس انگریز افسر کے ذریعہ آپ کے بیٹے کے لیے کسی اچھے عہدے کا انتظام ہوجائے چنانچہ انہوں نے جھنڈا سنگھ نامی ایک سکھ کو حضورؑ کی طرف بھیجااوراسے کہا کہ ’’جائو غلام احمد کو بلا ئو۔ ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میں آیا ہے۔ اس کا منشاء ہو تو کسی اچھے عہدے پر نوکر کرادوں۔ ‘‘ جھنڈا سنگھ کا بیا ن ہے کہ ’’میں مرزا صاحب کے پاس گیا تو دیکھا کہ چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا کر اس کے اندر بیٹھے ہوئے کچھ مطالعہ کررہے ہیں۔ مَیں نے بڑے مرزا صاحب کا پیغام پہنچا دیا۔ مرزا صاحب آئے اور جواب دیا ’’مَیں تو نوکر ہوگیا ہوں۔ ‘‘بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کہ اچھا کیا واقعی نوکر ہوگئے ہو؟ مرزا صاحب نے کہا ’’ ہاں ہوگیا ہوں۔ ‘‘اس پر بڑے مرزا صاحب نے کہا ‘‘ اچھا اگر نوکر ہوگئے ہو تو خیرہے۔ ‘‘

حضرت مرزابشیر احمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جھنڈا سنگھ کئی دفعہ یہ روایت بیان کرچکا ہے اور وہ قادیان کی موجودہ ترقی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کا بہت ذکر کیا کرتا ہے اور آپ سے بہت محبت رکھتا ہے۔ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ 43 روایت نمبر 52۔ کمپوزڈ ایڈیشن مطبوعہ فروری 2008ء)

عیسائیوں کے ناکام منصوبے

ہندوستان میں جوں جوں انگریز اپنے قدم جما رہے تھے۔ عیسائی پادری انگریزحکومت کی سرپرستی میں پورے ملک کو عیسائیت کی آغوش میں لانے کے لیے دن رات کام کر رہے تھے۔ وہ بڑی سرعت اور تیزی کے ساتھ ہر جگہ اپنے جال پھیلا رہے تھے۔ 1835ء میں عیسائی منادوں نے لدھیانہ میں اپنے تبلیغی مشن کا آغاز کیا۔ یہ ایک عجیب اتفاق اور قدرت خدا وندی ہے کہ اُدھرپنجاب میں عیسائیت کے زہر نے نادان انسانوں کے خون کو زہر ناک کرنا شروع کیا۔ تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے تصرف سے ’’کاسرصلیب‘‘کی پیدائش ہوئی۔ گویا زہر کی پیدائش کے ساتھ ہی اُس کا تریاق بھی پیدا کردیا گیا۔ پھر اسے بھی حسن اتفاق کہیے یا خدا تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے شرفِ مکالمہ مخاطبہ حاصل ہونے کے بعد بیعت اولیٰ کے لیے لدھیانہ شہر کو منتخب فرمایا۔

پہلے پہل پورے ملک کو عیسائیت کے جھنڈے تلے لانے کی پالیسی خفیہ طور پر چلائی گئی۔ اور 1857ء میں برطانوی ایوان میں اس کا چرچا ہوا۔ چنانچہ ایک پارلیمانی ممبرنے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’خداوند تعالیٰ نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہندوستان کی سلطنت انگلستان کے زیر نگیں ہے تاکہ عیسیٰ مسیح کی فتح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لہرائے ہر شخص کو اپنی تمام تر قوت تمام ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہئے اور اس میں کسی طرح تساہل نہیں کرنا چاہئے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 88تا89 مطبوعہ 2007ء)

1862ء میں انگلستان کے وزیر اعظم لارڈ پامرسٹن اور وزیر ہندچارلس وڈ سے… انگلستان کے بڑے پادری آرچ بشپ آف کنٹربری اور دیگر بڑے بڑے لوگوں نے ملاقات کی تو عیسائیت کے خفیہ منصوبے کھل کر سامنے آگئے اور یہ حقیقت سب پر آشکار ہوگئی کہ انگلینڈ کے سب انگریز افسر اپنی حکومت کے استحکام کا راز عیسائیت کے فروغ میں سمجھتے ہیں۔ اس موقع پر وزیر ہند نے اس وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’میرا یہ ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتا ہے انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام کے لیے ایک نیا ذریعہ ہے۔ ‘‘

(The Mission by R Clark London P 234,Printed1904)

انگلستان کے وزیر اعظم لارڈ پامرسٹن نے اس موقع پر کھلے عام یہ اعلان کیا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اپنے مقصد میں متحد ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہی نہیں بلکہ خود ہمارا مفاد بھی اس امر سے وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں تک بھی ہوسکے فروغ دیں اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کو پھیلادیں۔ ‘‘(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 89۔ ایڈیشن 2007ء)

جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ پنجاب کو صلیب کے جھنڈے تلے لانے کے لیے عیسائیوں کا پہلا مرکزی مشن لدھیانہ میں قائم کیا گیا لیکن 1856ء میں سیالکوٹ کو مرکز بنالیا گیا۔ دس سال کے اندر اندر اس مشن نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں اور اس مشن کے تحت عیسائیت کی بکثرت اشاعت کی جانے لگی۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے رسول کریمﷺ کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے نیز عیسائیت کے باطل خیالات کا بطلان ثابت کرنے کے لیے جس مرد مجاہد کو آئندہ مبعوث کرنا تھا۔ اسے سیالکوٹ میں بھیج کر اس عظیم الشان مہم کا آغاز کردیا۔ تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ ’’اس زمانہ میں مسیحی مشن چونکہ نیا نیا پنجاب میں آیا تھا اس لیے مسلمان اس کے علم کلام اور دلائل سے اکثر نا آشنا تھے اور عیسائیت سے اکثر شکست کھا جاتے تھے۔ لیکن اس کے برعکس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے مرد مجاہد سے جس مسیحی کی گفتگو ہوئی اسے خاموش ہونا پڑا۔ آپ صحیح معنوں میں سیالکوٹ کی پوری مذہبی فضاء پر چھائے ہوئے تھے اور عیسائی پادری آپ کے مدلل اور مسکت مباحثوں سے بالکل لاجواب ہوجاتے تھے۔ آپ کی بیٹھک کے قریب ہی ایک بوڑھے دکاندار فضل دین کی دکان تھی جہاں شام کو شہر کے اچھے اچھے سمجھدار لوگوں کا ایک ہجوم سا رہتا تھا۔ گاہے گاہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لاتے اور مشن سکول کے ہیڈ ماسٹر نصراللہ نامی عیسائی سے مذہبی امور پر معلومات افزاء گفتگو فرماتے۔ ان دنوں حاجی پورہ میں ایک دیسی پادری الائشہ صاحب بھی ایک کوٹھی میں رہتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے آپ کا ایک مختصر سا مگر فیصلہ کن مباحثہ بھی ہوا۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 92 مطبوعہ 2007ء)

مورخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب اسی تسلسل میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سیالکوٹ میں جن پادریوں سے مذہبی تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہتا تھا ان میں پادری بٹلر ایم اے ممتاز تھے۔ پادری بٹلر سکاچ مشن کے بڑے نامی گرامی اور فاضل پادری تھے۔ ایک دفعہ حضرت اقدس سے ان کی اتفاقاً ملاقات ہوگئی۔ اثنائے گفتگو میں بہت کچھ مذہبی گفتگو ہوتی رہی۔ آپ کی تقریر اور دلائل نے پادری صاحب کے دل میں ایسا گھر کرلیا کہ ان کے دل میں آپ کی باتیں سننے کا بہت شوق پیدا ہوگیا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ پادری صاحب دفتر کے آخری وقت میں حضور کی خدمت میں آجاتے اور پھر آپ سے باتیں کرتے کرتے آپ کی فرودگاہ تک پہنچ جاتے اور بڑی خوشی سے اس چھوٹے سے مکان میں جو عیسائیوں کی خوش منظر اور عالی شان کوٹھیوں کے مقابلہ میں ایک جھونپڑا سا تھا بیٹھے رہتے اور بڑی توجہ اور محویت وعقیدت سے باتیں سنا کرتے اور اپنی طرز معاشرت کے تکلفات کو بھی بھول جاتے۔ بعض تنگ نظر عیسائیوں نے پادری صاحب کو اس سے روکا اور کہا کہ اس میں آپ کی اور مشن کی خفت ہے آپ وہاں نہ جایا کریں۔ لیکن پادری صاحب نے بڑے حلم اور متانت سے جواب دیا کہ ’’یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتا تم اس کو نہیں سمجھتے میں خوب سمجھتا ہوں۔ ‘‘

پادری بٹلر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پر نور شخصیت، بے مثال متانت و سنجیدگی اور زبردست قوت استدلال کا اس درجہ گہرا اثر تھا کہ جب وہ ولایت جانے لگے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الوداعی سلام کئے بغیر سیالکوٹ سے جانا گوارا نہ کیا۔ چنانچہ وہ دفتر کے اوقات میں محض آپ کی آخری زیارت کے لیے کچہری آئے اور ڈپٹی کمشنر کے پوچھنے پر بتایا کہ صرف مرزا صاحب کی ملاقات کے لیے آیا ہوں اور پھر جہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے۔ اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 92تا93۔ ایڈیشن 2007ء)

ایک غیر احمدی عالم جناب سید میر حسن صاحب نے بھی اپنے ایک مکتوب میں قیام سیالکوٹ کے دوران حضور علیہ السلام کے مذہبی مناظروں کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ’’مرزا صاحب کو اُس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا۔ ایک دفعہ پادری الایشہ صاحب جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے مباحثہ ہوا۔ پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی۔ مرزا صاحب نے فرمایا نجات کی تعریف کیا ہے؟ اور نجات سے آپ کیامراد رکھتے ہیں؟ مفصّل بیان کیجئے۔ پادری صاحب نے کچھ مفصّل تقریر نہ کی اورمباحثہ ختم کر بیٹھے۔ اور کہا: میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا۔

پادری ٹیلر صاحب ایم اے سے جو بڑے فاضل اور محقّق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا۔ یہ صاحب موضع گوہدپور کے قریب رہتے تھے۔ ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سرّ تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور آدم کی شرکت سے جو گنہگار تھا بَری رہے۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے۔ پھر آدم کی شرکت سے بریّت کیسے۔ اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا۔ پس چاہئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بَری رہتے۔ اس پر پادری صاحب خاموش ہوگئے۔

پادری ٹیلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی۔ چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لیے کچہری میں تشریف لائے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا۔ چونکہ میں وطن جانے والا ہوں اس واسطے ان سے آخری ملاقات کروں گا۔ چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کرکے چلے گئے۔ ‘‘(حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل صفحہ 93تا94۔ کمپوزڈ ایڈیشن 2013ء)

اللہ تعالیٰ کے تمام کام حکمت سے پُر اور بہت نرالے ہوتے ہیں جن کی کنہ کو ایک عام آدمی نہیں پہنچ سکتا۔ اُس نے ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھاہے۔ جب وہ مقررہ وقت آپہنچتا ہے تو پھروہ کام کُن سے فَیَکُوْن کے دائرے میں داخل ہوکر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق اپنی تکمیل کے مراحل طے کرنے لگتا ہے اور مکمل ہوکر رہتا ہے۔ جب آسمان پر کسی تبدیلی کا فیصلہ ہوجائے تو زمینی حالات خود بخود سازگارہو جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں صاحبِ بصیرت ہوائوں کے رُخ کو دیکھ کر موسم کی تبدیلی کا اندازہ لگالیتے ہیں۔ حضرت پیر صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی (وفات 27؍دسمبر 1885ء) بھی ایسے ہی صاحب بصیرت لوگوں میں شامل تھے جو آپ کو اپنی امیدوں کا مرکز سمجھتے تھے۔ وہ آپ کی مبارک زندگی اور پاک چہرے کو دیکھ کر جان گئے تھے کہ آپ ہی وہ مقدس وجود ہیں جن کی قیادت میں اسلام کی ڈوبتی نائو کو پار لگایا جائے گا۔ اسی لیے حضور کی خدمت میں عرض کیا کرتے تھے کہ

ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ

تم مسیحا بنو خدا کے لئے

حضرت صوفی صاحب نے 1884ء میں ’’اشتہار واجب الاظہار ‘‘کے نام سے براہین احمدیہ پر اپنا ریویو شائع فرمایا۔ جس میں لکھا کہ ’’سن شریف حضرت کا قریباً 40یا45سال ہوگا۔ اصلی وطن اجداد کا قدیم ملک فارس معلوم ہوتا ہے۔ نہایت خلیق صاحب ِ مروّت وحیا، جوان رعنا، چہرہ سے محبت الہٰی ٹپکتی ہے۔ اے ناظرین میں سچی نیت اور کمال جوشِ صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بے شک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجدّدِ وقت اور طالبانِ سلوک کے لیے کبریتِ احمراور سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لیے خضر اور منکرانِ اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجۃ بالغہ ہیں۔ یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا۔ آگاہ ہوکہ امتحان کا وقت آگیا ہے۔ اور حجتِ الہٰی قائم ہوچکی ہے اور آفتابِ عالم تاب کی طرح بدلائل قطعیّہ ایسا ہادیٔ کامل بھیج دیا ہے کہ سچوں کو نور بخشنے اور ظلمات وضلالت سے نکالے اور جھوٹوں پر حجّت قائم کرے تاکہ حق وباطل چھٹ جائے۔ اور خبیث و طیب میں فرق بیّن ظاہر ہوجائے اور کھوٹا کھرا پرکھا جائے۔ ‘‘(اشتہار واجب الاظہار مطبوعہ 1884ء۔ اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخہ 23؍جون 1931ء صفحہ6جلد 18)

مولانا حسن علی صاحب بھاگلپوری (ولادت 22؍ اکتوبر1852ء وفات 1896ء )شہرۂ آفاق مسلم مشنری تھے، جن کے ہاتھ پر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ آپ 1883ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں لیکچر دینے کے بعد قادیان گئے اور حضورؑ کی زیارت کی۔ آپ اس ملاقات کا نقشہ درج ذیل الفاظ میں کھینچتے ہیں: ’’ اللہ اللہ سر سے پا تک ایک نور کے پتلے نظر آتے تھے۔ جو لوگ مخلص ہوتے ہیں اور اخیر رات اُٹھ کر اللہ کی جناب میں رویا دھویا کرتے ہیں اُن کے چہروں کو بھی اللہ اپنے نور سے رنگ دیتا ہے اور جن کو کچھ بھی بصیرت ہے وہ اس نور کو دیکھ لیتے ہیں۔ لیکن حضرت مرزا صاحب کو تو اللہ نے سر سے پاؤں تک محبوبیت کا لباس اپنے ہاتھوں سے پہنایا تھا۔ ‘‘(رسالہ تائید حق طبع سوم صفحہ 76بحوالہ ماہنامہ الفرقان ربوہ جون 1974صفحہ 17تا18)

میری پاک زندگی پر آسمانی گواہیا ں ہیں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں اور میرا خدا گواہ ہے کہ مجھ پر ثابت ہوگیا ہے کہ حقیقی ایمان اور واقعی پاک زندگی جو آسمانی روشنی سے حاصل ہو بجز اسلام کے کسی طرح مِل نہیں سکتی۔ یہ پاک زندگی جو ہم کو ملی ہے۔ یہ صرف ہمارے منہ کی لاف و گزاف نہیں اس پر آسمانی گواہیاں ہیں۔ کوئی پاک زندگی بجز آسمانی گواہی کے ثابت نہیں ہوسکتی۔ ‘‘(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 342)

حضورعلیہ السلام کی سیرت کے واقعات سے اظہر من الشمس ہے کہ بچپن اور شباب سے لے کرماموریت کے اعلان تک آپ کے دل میں امت محمدیہ کی خیرخواہی کا بے پناہ جذبہ موجزن تھا۔ آپ دن رات اسی فکر میں رہتے تھے کہ کس طرح اسلام اور محمد رسول اللہﷺ کے جھنڈے کو ساری دنیا میں لہرایا جائے۔ اس دلی تڑپ کا اندازہ آپؑ کے ایک مکتوب کے چند لفظوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اگر اس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نورِ محمدیﷺ اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلاویں۔ ‘‘(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 5مکتوب نمبر 4بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی)

پس بہت جلد آپ کی دعائیں ربّ عرش کریم کی بارگاہ میں پہنچ گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین اسلام کے احیائےنواور اُس کی ترویج واشاعت کے لیے منتخب فرماکر اپنے قدیم وعدوں کو پورا کردیا۔ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدّارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گااور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل وجان طیار ہوں گے یہ ربّانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔ ‘‘(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد 2صفحہ470)

پس ان تمام حالات و واقعات سے اظہر من الشمس ہے کہ حضور علیہ السلام نے دعویٰ سے قبل ایک پاکباز کی طرح زندگی گزاری۔ آپ کے دل میں ابتدائی عمر سے ہی خدمت اسلام کا جو جذبہ موجزن تھا وہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید پروان چڑھتا رہا اور بالآخر وہ وقت آگیا جب خدا تعالیٰ کی تقدیر نے آپ کو موعود اقوام عالم بناکر دنیا کی اصلاح کے لیے منتخب فرمالیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button