متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ نئے ارض و سما کا قیام (قسط سوم۔ آخری)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

مسیح موعودؑ نے اس علمی اور سائنسی دَور میں سارے تقاضوں کے ساتھ ایک جدید نظام بنایا جو قرآن و سنت نبویﷺ کی عملی اور ادارتی تفسیر ہے۔ آج جماعت کے ہر منصوبے کی بنیاد مسیح موعودؑ کی زندگی اور سیرت سے میسر ہے۔ اور دنیا اس کی نقالی کی کوشش کرتی ہے۔

(گذشتہ سے پیوستہ)الحاج حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند تھے۔ 10؍فروری 1905ء کو پیدا ہوئے۔ گھانا اور سیرالیون میں شاندار خدمات سرانجام دیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو ایک مجلس عرفان میں کامیاب جرنیل کے خطاب سے نوازا اور آپ کو مغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ نامزد کیا۔ 1945ء میں آپ نے قادیان سے روانگی سے قبل ایک الوداعی تقریب میں فرمایا: ’’آج ہم خداتعالیٰ کے لئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جارہے ہیں۔ ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دُور دراز حصہ ہے۔ جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے۔ احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اور اس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہوگا۔‘‘ آخری بار 11؍اپریل 1954ء کو ربوہ سے سیرالیون پہنچے اور شہر بو میں 19؍مئی 1955ء کو انتقال کر گئے۔ آپ سلسلہ احمدیہ کے چھٹے جاں نثارمبلغ تھے جنہوں نے بعہد خلافت ثانیہ ممالک غیر میں دعوت الی اللہ کے فرائض بجالاتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی۔(تاریخ احمدیت جلد18صفحہ265تا266)

حضرت مسیح موعودؑ کے داماد حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کو الہام میں ’’حجۃ اللہ‘‘کہا گیا ہے آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں قادیان میں اپنا مکان بنانے کا ارادہ کیا۔ جب مکان کے لیے آپ کے کارکنان نے حدیں قائم کیں تو ایک کونہ ایک بزرگ کی زمین میں چلا گیا اور اس بزرگ کی ناراضگی کا موجب ہوا۔ حضرت نواب صاحبؓ کے قلب سلیم میں بزرگوں کا اس قدر احترام تھا کہ آپ نے وہاں مکان بنانے کا ارادہ ہی ترک کردیا کہ اس میں ابتدا میں ہی تنازعہ ہوا ہے یہ جگہ میرے لیے مبارک نہیں ہوسکتی۔ (اصحاب احمد جلد2صفحہ497)

امیر علی نام ایک شخص حضرت سیٹھ حسن صاحبؓ کے پاس ملازم تھا۔ حسن صاحبؓ نے اپنے کام میں شریک کرلیا اور پھر وہ کاروبار عملاً اسی کو دے دیا تیس برس تک وہ حسن صاحبؓ کا نمک خوار تھا۔ لیکن جب اس کی حالت ایک کارخانہ دار کی ہوگئی تو اس نے حضرت حسنؓ پر تجارت میں دھوکا دہی کا ایک جھوٹا فوجداری مقدمہ حیدرآباد میں دائر کردیا۔ سیٹھ صاحبؓ پر اس مقدمے کا کچھ بھی اثر نہیں تھا۔ وہ عدالت میں ایک طرف اسی طرح بیٹھے رہتے جیسے اپنی مسجد میں بعد نماز بیٹھا کرتے تھے۔ آخر مقدمہ خارج ہوگیا اور سیٹھ حسنؓ عزت کے ساتھ بری ہوگئے۔ ان کو یہ قانونی حق تھا کہ امیر علی پر دیوانی اور فوجداری دونوں قسم کے دعویٰ کریں اور ان کے قانونی مشیروں نے بھی کہا مگر حضرت حسنؓ نے اپنے مشیروں کو کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ خود اس کو سمجھا دے گا یا اس کا بدلہ دے گا۔ (حیات حسن صفحہ96)

حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ قرآن مجید کے حافظ تھے اوراحمدیہ سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ آپ نے سکول میں قرآن مجید حفظ کرنے کا اس طرح انتظام کررکھا تھا کہ کلاسوں کے لحاظ سے قرآن مجید کے پاروں کو حفظ کرنے کے لیے تقسیم کیا ہوا تھا۔ چھٹی سے لے کر کلاس دہم تک پانچ کلاسیں تھیں۔ ہر کلاس کے ذمہ چھ چھ پارے حفظ کرنے کے لیے لگا دیے جاتے تھے۔ اسی طرح سکول کے سارے طلباء اگر جمع ہوں تو سارا قرآن مجید زبانی سنا جاسکتا تھا۔ (سید محمود اللہ شاہ صاحب صفحہ87)ہر طالب علم کے ذمہ ایک رکوع تھا اس طرح ساری کلاس مل کر پورا پارہ یاد کرلیتی اور سارے سکول نے مل کر پورا قرآن پاک حفظ کرلیا۔ (الفضل28؍فروری2011ء)

حضرت میاں محمد رمضان صاحبؓ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ ان پڑھ تھے۔ پچاس سال کے قریب عمر ہونے پر قرآن شریف اور اردو پڑھنا شروع کیا۔ کریانہ کی دکان تھی گاہکوں سے سبق لے لیتے، بعض غیر اس پر طنز کرتے لیکن انہوں نے باقاعدہ اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور آخر کامیاب ہوگئے۔ (الفضل12؍ستمبر2014ء)

حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ مبلغ ماریشس محلہ دارالرحمت قادیان کی مسجد کے امام الصلوٰة بھی تھے۔ اگست 1933ء سے روزانہ قرآن کریم کے ایک رکوع کا درس دینا شروع کیا جو 13؍جنوری 1938ء کو ختم ہوا۔ (الفضل 20؍جنوری1938ء)

حضرت منشی عبدالکریم صاحب بٹالویؓ کارخانہ بیلنا ریاست ناہن شاخ لدھیانہ میں منشی تھے۔ انہوں نے ایک بار حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کی درخواست کی کہ میں کارخانہ کا انچارج بن جاؤں اور میرا تبادلہ بٹالہ ہوجائے تاکہ میں آتے جاتے مسافروں کی خدمت کیا کروں۔ حضورؑ نے دعا کی، پہلے وہ انچارج ہوگئے اور 1915ء میں بٹالہ آگئے اور سات سال بٹالہ رہ کر قادیان آنے جانے والے مہمانوں کی خدمت کرتے رہے۔ (رجسٹر روایات جلد 5 صفحہ 155)

کپورتھلہ کے علاقہ شیرانوالی میں طاعون پھیلی تو ایک بزرگ مہتاب احمدی نے گاؤں والوں سے کہا جس نے طاعون سے بچنا ہے میرے گھر آ جائے خدا کا وعدہ پورا ہوا جو لوگ ان کے گھر آ گئے سب بچ گئے اور باہر بہت لوگ مر گئے۔ (رجسٹر روایات جلد 1 صفحہ 213 بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 30؍مارچ 2021ء)

حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی ایک برکت یہ بیان فرماتے ہیں کہ نشوں سے نجات مل گئی۔ فرماتےہیں۔ ا س نالائق کو تیس برس سے ایک قابل نفرت یہ بات بھی تھی کہ حقہ پیا کرتا تھا۔ بارہا دوستوں نے سمجھایا خود بھی کئی بار قصد کیا لیکن روحانی قویٰ کمزور ہونے کی وجہ سے اس پرانی زبردست عادت پر قادر نہ ہوسکا۔ حضرت مرزا صاحبؑ کی باطنی توجہ کا یہ اثر ہوا کہ آج قریب ایک برس کا عرصہ ہوتا ہے کہ پھر اس کمبخت کو منہ نہیں لگایا۔ (اصحاب احمدجلد14صفحہ56)

حضرت حاجی محمد الدین صاحب تہالویؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے سفر جہلم کے موقع پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اس پربعض شر پسندوں نے آپ کوقتل کی دھمکیاں بھی دیں اور بعد میں گاؤں جانے پر آپ کو بہت سے مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک بار قریبی بارہ دیہات سے لوگ اس نیت سے اکٹھے ہو گئے کہ آپ کو قتل کردیں گے۔ آپ نے ان سے کہا کہ اگر مارنے ہی آئے ہو تو میں دو نفل نماز پڑھ کردعا کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ آپ قریبی مسجد میں چلے گئے اور اس طرح دعا میں مشغول ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس نہ رہا۔ باہر لوگوں نے سمجھا کہ آپ ڈر گئے ہیں۔ جب کافی دیر کے بعد آپ باہر نکلے تو ایک گھڑ سوار آتا دکھائی دیا اور للکار کربولا کہ کوئی اس شخص کو ہاتھ نہ لگائے۔ اس شخص کا دبدبہ اتنا تھا کہ مجمع منتشر ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ (الفضل انٹرنیشنل6؍اپریل2001ء)

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ دفتری اوقات میں نماز کےلیے جاتے تھے۔ ہندو اور سکھ کلرکوں نے اس کی شکایت کر دی۔ بڑے افسر نے بلا کر سمجھایا مگر آپ نے فرمایا میں نماز ضرور پڑھوں گا اور اگر آپ کو یہ بات ناگوار ہے تو میں ملازمت سے استعفیٰ دیتا ہوں چنانچہ آپ نے اس نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ (اصحاب احمد جلد 3صفحہ68)

’’حضرت میاں محمد دین صاحب بچپن میں پنجوقتہ نمازوں اور تہجد کا اہتمام کرتے تھے مگر پھر اپنے ماحول کے زیر اثر تارکِ صلوٰة ہو گئے اور دہریت کا شکار ہوتے گئے۔ تقدیر الٰہی کے تابع آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب براہین احمدیہ پڑھنے کی توفیق ملی اور ہستی باری تعالیٰ کے دلائل پڑھ کر دہریت کے سارے زنگ اتر گئے۔ فرماتے ہیں: ’’ میری آنکھ ایسی کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے۔ اسی وقت کپڑے دھوئے اور گیلے کپڑے پہن کر ہی نماز پڑھنی شروع کی۔ محویت کے عالم میں ایک طویل نماز پڑھی۔ فرماتے ہیں یہ نماز براہین نے پڑھائی اور بعد ازاں آج تک کوئی نماز میں نے نہیں چھوڑی۔ ‘‘تھوڑے عرصہ بعد بیعت کا خط لکھ کر امام الزمان سے مکمل طور پر وابستہ ہوگئے۔ ‘‘(رجسٹر روایات جلد7صفحہ 46تا47)

یہ ان پاک وجودوں کا مختصر تذکرہ ہے جنہوں نے براہ راست مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی اور نئی روحانی زندگی پائی۔ ان کے کردار کی تعریف کرنے پر مخالف بھی مجبور ہیں۔ ان کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین کا سلسلہ ہے۔ نیکی اور عظمت کردار کا ایک بہتا دھارا ہے جو ہر بد خلقی پر فتح پانے اور اپنے ساتھ ملانے کی طاقت رکھتا ہے۔

جدید اور مستقل نظام

حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ چونکہ اسلام کا عالمگیر اور دائمی غلبہ مقرر تھا اس لیے ضرورت تھی کہ اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق محض وقتی اور ہنگامی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو نسلاً بعد نسلٍ اسلام کی آخری فتح تک اس کام کو آگے بڑھاتے رہیں۔ اس پہلو سے حضرت مسیح موعودؑ نے تبلیغی، تربیتی، اشاعتی، اور مالی نظام کو اس حسن اور خوبی سے تشکیل دیا ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے اس کے تمام پہلوؤں کی تخم ریزی کر دی اور اب یہ شجر خلافت احمدیہ کے سائے تلے تناور درخت بن چکا ہے۔

اس نظام کی بنیاد انہی اصولوں پر رکھی گئی ہے جن پر حضرت محمد رسول اللہﷺ نے دور اول میں رکھی تھی۔ اور جس کی طرف حدیث مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔ (جامع ترمذی کتاب الایمان باب فی افتراق ہذہ الامۃ۔ حدیث نمبر 2641) اشارہ کرتی ہے یعنی بنی اسرائیل 72فرقوں میں بٹ گئے تھے مگر میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ان میں سے 72 ناری ہوں گے اور ایک جنتی ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا یا رسو ل اللہ وہ کون سا فرقہ ہو گا فرمایا وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والا ہو گا۔ دوسری حدیث میں اس کی علامت الجماعۃ بیان کی گئی ہے۔ ( سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب افتراق الامم حدیث نمبر 3992)یعنی بکھرا فرقہ نہیں، اما م کے تابع منظم جماعت ہو گی فرق صرف یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کو آخری دَور میں اور آپ کے خلفا٫کو وراثت میں ظاہری حکومت بھی عطا کی گئی تھی مگر اب اس کا دوسرا رخ دکھانے کا زمانہ ہے اس لیے مسیح موعودؑ کا نظام خالص روحانی ہے اور جب احمدیت کو عددی غلبہ نصیب ہو گا تب بھی خلافت حکومتوں سے بالاتر ہو کر انسانیت کی روحانی راہنمائی کرتی رہے گی۔

کارخانہ احمدیت کی پانچ بنیادی شاخیں

حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت احمدیہ کے قیام کے ساتھ ہی تبلیغ حق کو متعدد شعبوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اور اپنی کتاب فتح اسلام (تصنیف 1891ء) میں ان کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد اس وقت تک کی مساعی کو بھی بیان کر دیا تھا۔ آپ نے ابتدائی پانچ شاخوں کا ذکر کیا۔ وہ یہ ہیں:

1۔ اشاعت کتب اور تصنیف و تالیف 2۔ اشتہارات 3۔ مہمانوں کی خدمت اور تبلیغ و تربیت4۔ مکتوبات 5۔ مریدین اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ۔

یہ ساری شاخیں حضورؑ کی زندگی کے آخر تک نشوونما پاتی رہیں اور ضرورت کے مطابق ان میں اضافہ ہوتا رہا اور بعد میں خلافت احمدیہ کے تابع انہوں نے بہت وسعت اختیار کر لی اور ایک عظیم الشان نظام معرض وجود میں آیا جس کی گذشتہ تیرہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آیئے ان کی کسی قدر تفصیل دیکھیں:

1۔ اشاعت کتب: حضرت مسیح موعودؑ نے اردو، فارسی اور عربی زبان میں 88کتب تصنیف فرمائیں جو 11 ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ انہیں 23 جلدوں پر مشتمل روحانی خزائن کے سیٹ کی شکل میں شائع کیا گیا۔ حضورؑ کے بعد خلفاء اور جماعت کے علماء نے بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا اور آج احمدیت کا دامن بےشمار علمی اور تحقیقی کتب سے بھرپور ہے جس کا ایک نظارہ جماعت کی مرکزی ویب سائٹalislam. org سے کیا جا سکتا ہے۔ صرف حضرت مصلح موعودؓ کی کتب 200سے زائد ہیں جو انوار العلوم کی شکل میں39جلدوں میں موجود ہیں۔ ان کتب کی اشاعت اور تراجم کے لیے متعدد ادارے قائم ہیں۔ کئی ممالک میں جماعت کے اپنے کئی پریس قائم ہیں جو سالانہ لاکھوں کی تعداد میں اشاعتی کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت کا ایک بہت بڑا اعزاز تراجم قرآن کا ہے جو72 زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اشاعت کتب کی ایک ذیلی شاخ دنیا بھر سے نکلنے والے احمدی اخبارات و رسائل اور جرائد ہیں جو قریباً ہر ملک کی مقامی زبانوں میں شائع ہو رہے ہیں۔

2۔ اشتہارات: فتح اسلام کی تصنیف تک حضورؑ متعدد اشتہار شائع کر چکے تھے۔ حضورؑ نے 300کے قریب اشتہار لاکھوں کی تعداد میں شائع کیے۔ بعض اشتہارات اپنے حجم کے لحاظ سے کتابوں کی شکل میں ہیں جیسے نور القرآن اور اربعین وغیرہ۔ یہ سب بعد میں مجموعہ اشتہارات کی تین جلدوں کی شکل میں شائع کر دیے گئے۔ اشتہارات اور مکتوبات کے حوالہ سے حضورؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ دعویٰ بفضلہ تعالیٰ و توفیقہٖ میدانِ مقابلہ میں کروڑ ہا مخالفوں کے سامنے کیا گیا ہے اور قریب تیس ہزار کے اس دعویٰ کے دکھلانے کے لئے اشتہارات تقسیم کئے گئے۔ اور آٹھ ہزار انگریزی اشتہار اور خطوط انگریزی رجسٹری کرا کر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اور پھر اس پر اکتفا نہ کر کے انگلستان اورجرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کئے گئے۔ چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز ولی عہد تخت انگلستان اور ہندوستان، اور گلیڈ سٹون وزیر اعظم اور جرمن کا شہزادہ بسمارک ہے۔ چنانچہ تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھرا ہوا ہے۔ ‘‘(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 649)

خلافت اولیٰ اور ثانیہ میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ شائع ہونے شروع ہوئے۔ خلافت ثالثہ سے فولڈر ز کا آغاز ہوا۔ اور اب ہر سال خلافت خامسہ میں لاکھوں لیف لیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اشتہارات کا یہ سلسلہ بل بورڈز کی شکل میں جاری ہے۔ دنیاکے کئی ممالک میں معروف مقامات اور سڑکوں کے کناروں پر حضرت مسیح موعودؑ کی بہت بڑی تصویر نصب کی جاتی ہے جس میں آپؑ کا نام، مقام، دعویٰ اور متعلقہ جماعت کا ایڈریس اور فون نمبر درج کیا جاتا ہے۔ سینکڑوں لوگ اس کو پڑھ کر رابطہ کرتے ہیں۔ دنیا کے ہزاروں اخبارات میں جماعت کی اعلیٰ کارکردگی کی رپورٹس، پیغامات اور تصاویر بھی جماعت کا اشتہار ہی تو ہیں۔

3۔ مہمانوں کی خدمت: آغاز میں قادیان آنے والے تمام مہمانوں کی تواضع حضورؑ کے گھر سے کی جاتی تھی۔ بعد میں مرکزی لنگر خانہ یعنی دار الضیافت بنایا گیا جو اب قادیان، ربوہ اور لندن کے علاوہ دنیا کے متعدد ملکوں میں جماعت کے مرکزی نظام کے ساتھ موجود ہے۔ دنیا بھر میں بیسیوں گیسٹ ہاؤسز موجود ہیں اور آنے والے مہمانوں کی خدمت ہی ایک عظیم الشان تبلیغ کا روپ دھار جاتی ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ 1884ء تا 1891ء سات برسوں میں 60 ہزار کے قریب مہمان آئے۔ (فتح اسلام ) اس سے 1908ء تک آنے والے مہمانوں کی تعداد کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان مہمانوں کے ساتھ حضورؑ کی تبلیغی اور تربیتی گفتگو اور سوال و جواب کا ایک بڑا حصہ ملفوظات کی دس جلدوں کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اور یہ سلسلہ اب خلفاء کے ساتھ جاری ہے۔ مہمانوں کے ساتھ ملاقاتوں کی رپورٹس، ویڈیوز اور سوال و جواب کی مجالس پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان سے کئی کتب بھی تشکیل پا چکی ہیں۔

4۔ مکتوبات: حضورؑ نے اپنے ہاتھ سے موافقین اور مخالفین کو کثرت سے خطوط لکھے۔ فتح اسلام میں لکھا ہے کہ صرف 1891ء تک 90ہزار خطوط کا جواب دیاجا چکا تھا۔ اور ہر ماہ خطوط کی تعداد ایک ہزار تک پہنچتی تھی۔ ان میں سے جو خطوط محفوظ رہ گئے اور جماعت کو دستیاب ہوئے وہ 1223کے قریب خطوط مجتمع کر کے مکتوبات احمد کی 4 جلدوں میں شائع کیےجا چکے ہیں۔ یہ خطوط 4 طرح کے ہیں:

1۔ آریوں، برہمو سماج اور عام ہندوؤں کے نام۔ ان میں سے بعض اتنے ضخیم ہیں کہ ان کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ہے۔

2۔ عیسائی پادریوں کے نام جن میں فتح مسیح، آتھم، ڈوئی اور پگٹ وغیرہ شامل ہیں۔

3۔ غیر احمدی علما٫ جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی، رشید احمد گنگوہی، غلام دستگیر قصوری اور عبد الجبار غزنوی وغیرہ شامل ہیں۔

4۔ اپنے صحابہ اور بعض منحرفین کے نام۔ صرف حضرت مولانا نورالدینؓ کے نام جو خطوط محفوظ کیے گئے ہیں وہ 94 ہیں۔ سیٹھ عبد الرحمان مدراسیؓ کے نام 96، نواب محمد علی خان صاحبؓ کے نام 100، چودھری رستم علی صاحبؓ کے نام 278اور منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ کے نام 83خطوط ہیں۔ میر عباس علی جو مرتد ہو گئے ان کے نام 62 خطوط ہیں۔

یہ سب حضورؑ کے اپنے ہاتھ کے ہیں اور اکثر اس زمانے کے ہیں جب آپ کے ساتھ کوئی مددگار نہ تھا۔ اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے ان کا محفوظ رہنا بھی خدا کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں یہ بھی حضور کی سچائی کا نشان ہے۔ ان میں ذاتی امور کے علاوہ بے شمار علمی اور تربیتی امور پر راہ نمائی کی گئی ہے۔ خصوصاً علم کلام اور علم تصوف کا تو یہ بے بہا خزانہ ہے۔ خطوط کا یہ سلسلہ خلفاء کے ذریعہ ترقی پذیر ہے اوربڑھتا جا رہا ہے۔ متعدد ملکوں، قوموں اور بیسیوں زبانوں کے جاننے والے ہزاروں لوگ اپنے نجی معاملات میں دعا کی درخواستوں کے علاوہ متعدد علمی معاملات حتی کہ شاعری پر بھی راہ نمائی کے طالب ہوتے ہیں اور خلفاء ان کی تشفی کرتے ہیں۔ خطوط کے تراجم کے لیے کئی زبانوں کے ڈیسک قائم ہیں اور مرکزی نظام کے تابع بیسیوں رضاکار مرد و زن اس کام میں شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ حضور ہر روز قریباً ایک ہزار خطوط پر دستخط کر کے بھجواتے ہیں۔

اس ضمن میں ان تبلیغی خطوط اور تحائف کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے کتابوں کی شکل میں تحریر فرمائے۔ مثلاً تحفہ قیصریہ، ستارہ قیصرہ، تحفۃ الندوہ، تحفہ بغداد، تحفہ غزنویہ، تحفہ گولڑویہ وغیرہ۔

حضرت مصلح موعودؓ کی کتابیں دعوت الامیر، تحفۃ الملوک اور تحفہ لارڈ ارون بھی اسی کی مثالیں ہیں۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کئی بار عالمی سربراہوں کو خطوط لکھ کر امن قائم کرنے اور دنیا کو جنگ سے بچانے کی تلقین کی ہے۔ اسی طرح حضورنے 2020ء میں کوروناCovid 19کی وبا کے دوران لیڈروں کو خط لکھ کر اپنی ذمہ داری کی طرف متوجہ کیا۔

5۔ سلسلہ بیعت: حضر ت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں بیعت کا سلسلہ دو طرح جاری تھا۔ ایک وہ جو دستی بیعت کرتے تھے اور دوسرے وہ جو خطوط کے ذریعہ بیعت کرتے تھے۔ اس طرح بیعت کرنے والوں کی تعداد حضورؑ کی زندگی میں چار لاکھ کے قریب پہنچ چکی تھی اور حضورؑ نے پیشگوئی فرمائی کہ میری جماعت کروڑوں تک پہنچے گی۔ چنانچہ آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے سلسلہ بیعت جاری رکھا۔ 1993ء میں اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے عالمی بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا جس میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نئے لوگ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے MTA کے ذریعہ بیعت کی توفیق پاتے ہیں۔

ان 5 شاخوں کے سائے میں مزید کئی نظام پھل پھول رہے ہیں ۔

تبلیغی نظام

حضورؑ اپنے زمانے میں سب سے بڑے داعیٔ اسلام تھے اور حسب ضرورت حضرت مولانا نور الدینؓ، حضرت مولوی عبد الکریمؓ، حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ و غیرہ سے کام لیتے تھے۔ احمدی بچوں کو دینی خدمات کے لیے تیار کرنے کی غرض سے آپؑ نے مدرسہ احمدیہ جاری کیا۔ 1906ء میں دینیات کلاس کا اجرا فرمایا جو 1909ء میں باقاعدہ ایک دینی مدرسہ کی شکل اختیار کر گیا اور ترقی کرتے کرتے 1928ء کو جامعہ احمدیہ کے نام سے موسوم ہوا اور آج دنیا کے متعدد ممالک میں اس کی شاخیں قائم ہیں اور ہر سال سینکڑوں بچے تبلیغ کے میدان کارزار میں اترتے ہیں۔

تبلیغ اور تربیت کا نظام ایک مستقل توجہ اور پائیدار پالیسیاں چاہتا ہے۔ اس کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ محض اسی کام کے لیے سر گرم عمل رہیں۔ اس کے لیے حضورؑ نے1907ء میں وقف زندگی کی باقاعدہ تحریک جاری کی جس پر13افراد نے لبیک کہا۔ یہ سلسلہ بڑھتا رہا اور اب صرف تحریک وقف نو کے ذریعہ سے70ہزار خدام زندگی کے مختلف میدانوں میں جماعتی خدمات بجا لا رہے ہیں۔ اور ہزاروں ایسے ہیں جو اڑنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ وقف عارضی کی سکیم اس کے علاوہ ہے جس میں احباب سال میں 15 دن وقف کر کے تعلیم و تربیت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ گذشتہ 1400 سال میں بزرگان امت نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر یہ سب انفرادی یا وقتی کوششیں تھیں۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ تبلیغ کا جو نظام قائم ہؤا ہے وہ ایک مربوط اور دائمی نظام ہے جو مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔

تربیتی نظام

روحانی تربیت کا سب سے اہم اور اعلیٰ طریق صحبت صالحین اور خدا کے مامور کا قرب ہے۔ اس لیے حضرت مسیح موعودؑ نہ صرف بار بار قادیان آ کر اپنی صحبت میں رہنے کی ترغیب دیتے تھے بلکہ کئی مواقع پر مختلف قسم کی تقریبات اور اجلاسات منعقد کر کے روحانی فیض بانٹتے تھے۔ 1891ء میں آپ نے ایک قسم کی مجلس شوریٰ بلائی جو بعد میں جماعت احمدیہ کے سالانہ اجتماع کی پہلی اینٹ قرار پائی۔ آپؑ نے حکم الٰہی سے مستقل جلسہ سالانہ کی بنیاد ڈالی جو پہلے قادیان اور ہجرت کے بعد قادیان اور ربوہ اور اب مرکزی طور پر لندن میں منعقد ہوتا ہے جہاں خلیفہ وقت جماعت سے مخاطب ہوتا ہے۔ نیز دنیا کے قریباً تمام ممالک میں جہاں جہاں ممکن ہے احمدی جماعتیں ایسے جلسے منعقد کرتی ہیں جن سے روحانی تربیت و اصلاح اور تبلیغ کا نظام ترقی کرتا ہے اور دیکھنے اور سننے والوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہو کر نئے زمین و آسمان کی جھلک دکھاتی ہیں۔ ذیلی تنظیموں کے قیام کے بعد یہ سب بھی اپنے اپنے سالانہ اجتماعات منعقد کرتی ہیں اور بعض ممالک میں خلیفۃ المسیح بھی شریک ہوتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران جب دنیا کے رابطے منقطع ہو گئے تو خلیفۃ المسیح نے آن لائن ملاقاتیں اور سوال و جواب شروع کر دیے اور بیشتر ممالک کے احمدی اس سے فیضیاب ہو چکے ہیں۔

مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کا نظام

جماعت احمدیہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے تمام جدید سائنسی ترقیات سے استفادہ کرتی ہے زمانہ حال میں انسان نے جو بھی ایجادات کی ہیں وہ سب اعلیٰ مقاصد کے لیے ستعمال کی جا رہی ہیں۔ انہی میں اخبارات و رسائل کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا بھی شامل ہیں۔ مسیح موعودؑ کے زمانے میں ایک عالمی مواصلاتی نظام کے ذریعہ آسمانی پیغام پہنچنے کے متعلق صحف سابقہ اور بزرگان امت کی پیشگوئیاں موجود ہیں۔ مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کا باقاعدہ قیام 1994ءمیں ہوا۔ یہ جماعت کا officialچینل ہے جس کی نگرانی براہ راست حضرت خلیفۃالمسیح کرتے ہیں۔ امام وقت کے جماعت سے رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ پہلے تو خطوط اور اخبارات تھے پھر مربیان اور مبلغین بھی اس میں شامل ہو گئے۔ 1992ءمیں جماعت احمدیہ ایک نئے عہد میں داخل ہوئی۔ اور مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ MTA کے ذریعہ براہِ راست امامِ وقت کی زبان سے ہدایات وصول کرنی شروع کیں۔ خطبہ جمعہ اور امام کے خطابات و تقاریر ایم ٹی اے کا سب سے مقبول پروگرام ہے۔ جس کے تراجم دنیا کی کچھ زبانوں میں Live اور بہت سی زبانوں میں فوری تراجم کر کے احباب کو پہنچا دیے جاتے ہیں۔ اور تمام دنیا کی احمدی انتظامیہ اس کی مکلّف اور ذمہ دار ہے۔ یہ چینل اسلام اور احمدیت کی سچی تعلیمات پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اس وقت اس کے 8 چینل کام کررہے ہیں اور دنیا کی بہت سی زبانوں میں اس کے پروگرام نشر ہو رہے ہیں۔

مالی نظام

اسلام میں ایک زبردست مالی نظام موجود ہے۔ پہلے زمانے میں جہاد بالسیف اور جانی قربانی کی زیادہ ضرورت تھی۔ مگر موجودہ زمانے میں عالمگیر تبلیغی اور تربیتی مساعی کے لیے وسعت اور ادارتی نظام کی شکل پانا لازمی تھا۔ اس لیے حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو تدریجاً ترقی دیتے ہوئے عظیم بنیادوں پر قائم فرمایا۔

1۔ حضورؑ نے مختلف ضرورتوں کے تابع مالی قربانی کی بےشمار تحریکات کیں اور یہ بھی اجازت دی کہ ہر شخص اپنی مرضی سے جو چاہے ادا کرے۔ مثلاً لنگر خانہ، تعلیم الاسلام سکول، ریویو آف ریلیجنز اور متفرق کتابوں کی اشاعت۔

2۔ 1902ء میں حضورؑ نے اگلے مرحلے میں فرمایا کہ ہر احمدی مختلف مدات کی ضروریات کے لیے اپنے اوپر کچھ ماہواری چندہ مقرر کر لے۔ مرکز میں اس کی اطلاع دے اور ہر ماہ باقاعدگی سے بھیجتا رہے۔

3۔ 1905ء میں آپؑ نے حکم الٰہی سے نظام وصیت کی بنیاد ڈالی اور فرمایا کہ ہر وصیت کرنے والا اپنی جائیداد کا10/1 سے لے کر3/1 تک سلسلہ کو پیش کرے۔

4۔ خلافت اولیٰ کے آغاز میں باقاعدہ بیت المال کا محکمہ قائم کیا گیا۔

5۔ خلافت ثانیہ میں مجلس شوریٰ کے باقاعدہ قیام کے بعد چندہ عام اور جلسہ سالانہ کی شرح مقرر کی گئی اور بجٹ اور اس کے تمام مراحل مجلس شوریٰ میں پیش ہونے لگے۔

6۔ حسب ضرورت تبلیغ، تربیت اور خدمت خلق کے ذریعہ نئی نئی سکیمیں بنتی رہیں مثلاً تحریک جدید، وقف جدید، وغیرہ کے ذریعہ احمدیوں کو مالی قربانی کے ایک عظیم الشان نظام کا حصہ بننے کا شرف عطا ہوا جس کے نتیجہ میں آج دنیا کے 213 ممالک میں احمدیت پھل پھول رہی ہے۔

تنظیمی ڈھانچہ

حضرت مسیح موعودؑ نے 1905ء میں نظام وصیت کا اعلان کرتے ہوئے صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد ڈالی جو آغاز میں محض چند اداروں اور مالی امور کی نگرانی کے لیے مقرر تھی مگر بعد میں جگہ جگہ قائم ہونے والی تمام انجمن ہائے احمدیہ کو اس کے تابع کر دیا گیا۔ اور اس انجمن نے خلافت احمدیہ کے تابع جماعت کے بڑھتے ہوئے تمام تربیتی اور تبلیغی امور پر نظر رکھنی شروع کر دی۔ حسب ضرورت اس کے شعبوں میں وسعت پیدا ہوتی رہی اور اب یہ ایک بہت بڑے سیکرٹریٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جو دینی اور مذہبی امور کے علاوہ احمدیوں کے تعلیمی، اقتصادی، صنعتی اور جسمانی صحت کے معاملات میں بھی مدد کرتی ہے۔

خلافت احمدیہ میں ایک اور پہلو سے یہ جدت پیدا کی گئی اور وہ یہ کہ تمام احمدیوں کو عمر کے اعتبار سے ایسے گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا جہاں وہ اپنی عمر اور ضرورت کے مطابق باہمی مشاورت کے ساتھ تعلیمی اور تربیتی پروگرام بناتے ہیں۔ صدر انجمن احمدیہ نظام کی نمائندہ ہے اور یہ ذیلی تنظیمیںعوام کے نمائندے۔ اور یہ دونوں حصے ایک دوسرے کو مستعد رکھتے ہیں۔ میری مراد خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ ہیں۔ جن کے تابع اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ بھی ہیں۔ یہ سب تنظیمیں ہر ملک میں پوری شان کے ساتھ قائم ہیں اور خلافت کی راہ نمائی میں تربیت اور خدمت کے نئے نئے سنگ میل رقم کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ احمدیوں کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے دارالقضا٫ اور نئے فقہی مسائل پر غوروفکر اور اجتہاد کے لیے دار الافتا٫ اور مجلس افتا٫قائم ہیں۔

تعلیمی نظام

اوپر بیان کردہ تمام امور مذہبی اور روحانی تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس زمانے میں مادہ پرست اقوام کو سائنسی اور سماجی علوم میں شکست دیے بغیر ان کو اسلام کی خاطر جیتنا ممکن نہیں اس لیے حضرت مسیح موعودؑ نے روحانی علم کے ساتھ ساتھ مادی علوم کی بھی اپنی جماعت میں تخم ریزی فرمائی۔ آپ نے قادیان کے سکولوں میں ہندوؤں اورآریوں کے اثرات دیکھ کر مدرسہ تعلیم الاسلام کاآغاز 1898ء میں فرمایا جو مارچ 1901ء میں ہائی سکول بن گیا۔ 1903ء میں تعلیم الاسلام کالج کی بنیاد28؍مئی کو رکھی گئی۔ مگر مالی تنگی کی وجہ سے کالج بندکر ناپڑا۔ جس کا احیا 1944ء میں ہوا۔ خلافت ثانیہ میں مدرسوں اور سکولوں کا جال بچھا دیا گیا۔ تعلیمی وظائف جاری کیے گئےعورتوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ کی گئی۔ خلافت ثالثہ میں افریقن اقوام بھی نصرت جہاں سکیم کے ذریعہ اس سے مستفید ہونے لگیں۔ سینکڑوں سکولوں اور کالجوں کے ساتھ ان اقوام کی ترقی کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ افریقہ میں جماعتی خدمات کے اعتراف کی ایک جھلک سیرالیون میں نظر آتی ہے جب ملک کے 60 ویں یوم آزادی کے موقع پر صدر مملکت نے 100 سالہ خدمات کے اعتراف میں جماعت کو ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز Comannander of the order of the rokel سے نوازا۔ (روزنامہ الفضل آن لائن لندن 26؍مئی 2021ء)

جماعت کی تعلیمی کاوشوں کا ایک شیریں ثمر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب تھے جو اسلامی دنیا میں پہلے نوبیل پرائز حاصل کرنے والے تھے۔ احمدی طلبہ کی اپنی تنظیم بھی موجود ہے جو ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں مددگار ہے۔

صحت اور علاج اور خدمت خلق کا نظام

حضرت مسیح موعوؑد خاندانی طور پر ایک حاذق طبیب تھے۔ اور غرباء کے لیے ادویہ مفت فراہم کرتے تھے۔ بعد میں قادیان میں شفا خانہ اور پھر ہسپتال بنایا گیا۔ نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ میں کثیر ہسپتالوں اور میڈیکل سنٹرز کے علاوہ گوئٹے مالا میں بھی ایک اعلیٰ درجہ کا ہسپتال موجود ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ خود ایک مشہور طبیب تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور بعد کے سب خلفاء ہومیو پیتھی سے خاص شغف رکھتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس سلسلے میں ایک عظیم الشان کتاب بھی تصنیف فرمائی۔ آج بھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے نسخے بڑی برکت کے حامل ہیں۔ اور ساری دنیا میں شفا بانٹتے ہیں۔ خاص مواقع کورونا وغیرہ کے دنوں میں آپ خصوصی ادویہ تجویز کرتے ہیں جن سے غیر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جماعت کے مرکزی نظام کے علاوہ خدمت خلق کے لیے باقاعدہ ادارے قائم ہیں جو اپنی توفیق سے بڑھ کر انسانیت کے مختلف طبقات کی مدد کرتے ہیں مثلاً کفالت یتامیٰ فنڈ، نادار مریضوں کی امداد، مستحق طلبہ کی امداد، مریم شادی فنڈ(غریب بچیوں کی شادی کے لیے) بیوت الحمد سکیم(بےگھروں کے لیے)بلال فنڈ(اسیران اور شہدا٫ کے لواحقین کے لیے )Humanity First کا مقصد بلا تفریق مذہب و ملت ہر قوم کی خدمت ہے۔ یہ دنیا کے تمام غریب ممالک میں بالعموم اور امیر ممالک میں قدرتی آفات کے موقع پر زبردست خدمات سرانجام دیتی ہے اور بیسیوں ممالک میں رجسٹرڈ ہے۔ ان سب امور کے لیے اموال صرف اور صرف احمدیوں کے چندہ سے اکٹھے ہوتے ہیں۔

نظام کی امتیازی خصوصیات

حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ جدید نظام کی سب سے منفرد خوبی اور اعزاز یہ ہے کہ اس نظام کا مرکز ہر زمانے میں ایک ہی شخص ہوتا ہے۔ مسیح موعودؑ کے بعد اُسے خلیفۃ المسیح اور امام جماعت احمدیہ کہتے ہیں۔ وہ تمام دنیا میں بلا اختلاف جماعت احمدیہ کا سربراہ ہوتا ہے اس لیے آج تمام مسلمان فرقوں میں صرف جماعت احمدیہ ہی امت واحدہ ہے۔

جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ مگر انتخاب انسانوں کے ساتھ ایک مخفی خدائی تجلی کے اظہار سے ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی معیت، قبولیت اور نشانوں کے ذریعہ اپنا انتخاب ثابت کرتا ہے۔ اس انتخاب کے لیے باقاعدہ مجلس انتخاب قائم ہے۔ جس میں تمام خدمت کرنے والوں کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ یہ مجلس ایک خلیفہ کے فوت ہوتے ہی متحرک ہو جاتی ہے۔ اور انتخاب کے بعد پھر ساکت ہو جاتی ہے۔ اس انتخاب میں کسی کو امیدوار بننے کی اجازت نہیں۔ ممبران مجلس جس کو مستحق خیال کرتے ہیں اس کا نام پیش کرتے ہیں۔ اور کثرت رائے سے انتخاب کا اعلان ہوتا ہے۔

جماعت احمدیہ کا امام تمام مقنّنہ انتظامیہ اور عدلیہ کی آخری کڑی ہے۔ وہ تاحیات اس منصب پر فائز رہتا ہے۔ معزولی کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس لیے کوئی حزبِ اقتدار اور اختلاف بھی نہیں اور پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ جس کے لیے آج دنیا ترستی ہے۔ گذشتہ ایک سو تیرہ سال کے عرصے میں کسی خلیفہ نے کسی سابقہ خلیفہ کی مرکزی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا۔ ہاں بہتری کر کے آگے بڑھایا ہے۔ اس لیے کل عالم میں جماعت کی ایک ہی پہچان، ایک ہی شکل و صورت ہے۔ اور ایک ہی سلیقہ نظر آتا ہے۔

خلیفہ محض سربراہ نہیں ہے۔ بلکہ عقیدت کامحور بھی ہے۔ اس لیے دو طرفہ محبت تمام دنیا کے لیے ناقابلِ یقین ہے۔ احمدی اپنے نجی معاملات، نکاح، شادی، بچوں کے نام، تعلیم، کیریئر، ملازمت اور جنازہ کے سلسلہ میں بھی اُسی سے راہ نمائی اور برکت لیتے ہیں۔ اس نظام میں ہر احمدی کا اپنے امام سے براہِ راست رابطہ ہے۔ اور درمیان میں کوئی روک حائل نہیں۔ اس لیے احمدی دنیا بھر سے اپنے امام کو ہر قسم کی اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور یہی اُس کی معلومات کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

جماعت کے 99 فیصد عہدے دار رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور انہی لوگوں کو چنا جاتا ہے جو دیانت دار اور اعلیٰ روایات کی پاسداری کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کو کچھ رقم دی جاتی ہے وہ بھی صرف اعزازیہ کہلا سکتا ہے، خدمات کی قیمت نہیں۔ جماعت میں ذیلی تنظیموں کے علاوہ مختلف پیشہ ور ماہرین کی تنظیمیں بھی قائم ہیں۔ مثلاً ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور اساتذہ جو امام وقت کی ہدایات کے تحت دنیا بھر میں جماعت اور انسانیت کی خدمت کے کاموں کو منظم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جماعت کا مالی نظام بھی محض امانت دار لوگوں سے وابستہ ہے۔ جو بغیر کسی معاوضہ کے افرادِ جماعت سے رابطہ کر کے چندہ اکٹھا کرتے ہیں۔ اور آڈٹ کے سخت نظام کے ساتھ ہر آمد و خرچ کو چیک کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہر چندہ دہندہ کو اپنے اموال کی حفاظت کا اطمینان ہوتا ہے۔

اس نظام میں جہاد کا تصور زندگی کی آخری سانسوں تک خدا کی خاطر اپنی ذات اور معاشرہ کو پاک کرنے کا نام ہے۔ اور جس قسم کے ہتھیار دشمن استعمال کرتا ہو اسی قسم کے ہتھیاروں سے اس کا جواب دینا ہی حقیقی جہاد ہے۔ خواہ وہ قلم سے ہو، تلوار سے ہو، زبان سے ہو یا تنہائی میں ذکر الٰہی سے یا امر بالمعروف سے یا نہی عن المنکر سے یا اولاد کو وقف کرنے سے۔ مذہب کو پھیلانے کے لیے کسی قسم کا جبر یا ظلم کرنا خلافِ اسلام اور فساد کے دائرہ میں آتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی ساری زندگی اسلام کے قلمی و لسانی دفاع میں گزری اور یہی آپ کے خلفاء اور تمام نظام کا مطمح نظر ہے۔ جماعت کی ساری کاوشیں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔

اس نظام کے مطابق دنیا کا ہر احمدی اپنے اپنے ملک کا وفا دار ہے۔ اور اس کی بہتری کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ ہر قسم کے فتنہ و فساد سے مجتنب رہتا ہے۔ اس کا ماٹو Love for all hatred for none ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کا یہ Motto غیر معمولی طور پر معروف اور زبان زد عام ہے۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے خواب کو سچا کر دکھایا۔ اس کو صفت رحمانیت سے قرآن سکھایا۔ اس کے علوم سے بہرہ مند کیا۔ اس کی برکات سے متمتع فرمایا۔ اجرامِ فلکی میں نشانات دکھائے۔ سورج، چاند، ستارے، پیشگوئیوں کے مطابق صف آراء ہو گئے۔ اور ایسی کیفیات پیدا ہوئیں جو اس سے پہلے کسی مامور کے لیے ظاہر نہیں ہوئیں۔ خدا نے آسمان کے دروازے اس پر کھولے اور علم غیب برستارہا۔ زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیشگوئیاں اس کو عطا کیں۔ قرآن کریم اور صحف سابقہ کی پیش خبریاں، اس کے وجود اور زمانے میں پوری ہوئیں اور اس کی اپنی پیشگوئیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔

خدا نے فرشتے اس کے ہمراہ کیے جو پاک دلوں اور سعید روحوں پر اترتے رہے اور ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ وہ چوروں سے قطب اور ابدال بن گئے۔ وہ خاک سے عرش نشین ہو گئے۔ ابدی زندگی کے جام پی گئے۔ انہوں نے جان دے کر اگلا جہان حاصل کر لیا۔ مال دے کر جنت کے وارث ہو گئے۔ اولاد دے کر نہ ختم ہونے والی روحانی نسلوں کی بنیاد ڈالی۔ وہ عزت دے کر آسمان پر معززین اور صالحین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ یہ اس نئی زمین اور نئے آسمان کے ستارے ہیں۔ ان میں سے گویا ہر ایک ستارہ احمدیت ہے جو زمین کو اپنے رب کے نور سے روشن کر رہا ہے۔

مسیح موعودؑ نے اس علمی اور سائنسی دَور میں سارے تقاضوں کے ساتھ ایک جدید نظام بنایا جو قرآن و سنت نبویﷺ کی عملی اور ادارتی تفسیر ہے۔ آج جماعت کے ہر منصوبے کی بنیاد مسیح موعودؑ کی زندگی اور سیرت سے میسر ہے۔ اور دنیا اس کی نقالی کی کوشش کرتی ہے۔ اس عظیم سر بفلک نظام کے اوپر لوائے احمدیت یا لوائے اسلام لہرا رہا ہے۔ ایک نئی زمین ہے اور ایک نیا آسمان ہے۔ ایک نیا نظام شمسی ہے۔ ایک نئی گلیکسی ہے جو محمد مصطفیٰﷺ کی روحانی کشش ثقل کے ساتھ نئی بلندیوں اور نئے زمانوں کی طرف تیز رفتاری سے گامزن ہے۔ کوتاہ بین نگاہوں سے یہ بات آج اوجھل ہے مگر وہ وقت دور نہیں جب اس کا جلوہ آنکھوں کو خیرہ کر دے گا انشاءاللہ۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور ادا کرنا ہو گا۔

اپنے رہبر سے قدم ہم کو ملانے ہوں گے اب عبادات کے معیار بڑھانے ہوں گے

ساری دنیا کو خدا پاک کا رنگ دینا ہے اب نئے ارض و سما ہم کو بنانے ہوں گے

جو دیا مولا نے سب اس کو ہی لوٹانا ہے خود کو بیچا ہے تو اقرار نبھانے ہوں گے

سُست گامی سے تو منزل نہیں ملنے والی

کھو گیا وقت تو پھر اشک بہانے ہوں گے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button