متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ نئے ارض و سما کا قیام (قسط دوم)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

یہ وہ لوگ تھے جو رؤیا وکشوف میں خدا اور ملائکہ کا دیدار کرتے تھے

پاک جماعت اور نئی زمین کے باشندے

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی قوت قدسیہ۔ سے وہ پاک دل تیار کیے جن کو الہام الٰہی میں نئی زمین قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ کی محبت سے سرشار تھے۔ نماز اور دیگر عبادات کے عاشق تھے۔ شب بیدار تھے اور دست درکار اور دل بایار کے مصداق تھے۔ رسول کریمﷺ کی محبت میں گداز تھے۔ مسیح موعودؑ کے بے لوث عاشق تھے۔ ان پر خدا کا الہام نازل ہوتا تھا۔ معارف قرآنی ان پر کھولے جاتے تھے۔ ان کی دعائیں آسمان پر سنی جاتی تھیں۔ یہ لوگ غریب الطبع اور گدڑی میں لعل تھے۔ دنیا کی نظر میں ان پڑھ اور غیر مہذب، مگر خدا کے دربار میں کرسی نشین تھے۔ مالی طور پر کمزور مگر دل کے سخی تھے اور اپنی ہر صلاحیت اسلام اور احمدیت کے لیے لٹانے پر تیار رہتے تھے۔ خدا کے رسولﷺ نے انہیں صحابہ کا لقب دیا اور مسیح موعودؑ کے الہام میں اصحاب الصفہ قرار دیا گیا۔ پاک کرنے کے لیے انہیں جانی، مالی، وقت کی، عزت کی اور اولاد کی قربانیوں کی طرف بلایا گیا تو بے ساختہ لبیک کہنے لگے۔ نمونے کے طور پرچند نمایاں وجودوں کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔

اس نئی سرزمین کا سب سے پہلا اور سب سے عظیم الشان فرد نور الدینؓ تھا جس کو ماں کے پیٹ میں قرآن سننا یاد تھا۔ اس نے ماں کی گود میں قرآن پڑھا۔ (تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 26) جس کو قرآن کا عشق سانسوں کی طرح نصیب ہوا تھا۔ جو کہتا تھا کہ میں نے دنیا کی ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں مگر قرآن جیسی کوئی کتاب نہیں۔ وہ کہتا تھا خدا مجھے حشر میں بھی پوچھے گا کہ کیا نعمت دوں تو میں کہوں گا کہ صرف قرآن دےدے۔ جسے قرآن سننے اور سنانے کا بھی جنون تھا۔ جس نے جماعت احمدیہ میں باقاعدہ درس قرآن وحدیث کی بنیاد ڈالی۔ جس کا خداداد توکل ضرب المثل ہے۔ جسے مسیح موعودؑ کی بیعت سے پہلے رؤیا میں رسول اللہؐ کی زیارت نصیب ہوتی تھی مگر بیعت کے بعد بیداری میں بھی زیارت نصیب ہونے لگی۔ شدید معاند مولوی ظفر علی خان نے لکھا کہ زمانہ ایسے باکمال افراد سو سال بعد پیدا کرتا ہے۔ ابو الکلام آزاد نے آپ کو علامہ دہر قرار دیا۔ ( تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 523) اور سر سید احمد خان نے کہا کہ جاہل ترقی کر کے عالم پھر حکیم پھر صوفی اور پھر ترقی کر کے نور الدین بنتا ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 534)

اس نئی زمین کا ایک باوقار سردار مسیح موعودؑ کا وہ بیٹا بھی ہے جو دعاؤں سے مانگا گیا جسے خدا نے ’’مصلح موعود‘‘ کہہ کر پکارا۔ جس کا انتظار روحانی کنواریاں ہزاروں سال سے کر رہی تھیں۔ جس کی پاک زندگی اور کردار کا نقشہ خدا نے اپنے الہام سے کھینچا۔ اور 52 صفات عالیہ یا نشانات بیان کر دیے۔ وہ علوم قرآنی کا شناور تھا جس کا محور محبت رسول تھی۔ جسے علوم عربیہ اور علوم اسلامیہ ماں کے دودھ کے ساتھ پلائے گئے۔ جسے ہمہ وقت فرشتوں کی مدد حاصل تھی۔ جس کی دعاؤں نے ہزاروں کی بگڑی بنا دی۔ جس کے متعلق دشمنوں نے لکھا اس کے پاس قرآن کا علم ہے اور اس نے ہر ملک میں اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ اس نے باون سال خلیفہ ثانی کے طور پر جماعت کی قیادت کی اور ایک کمزور پودے کو تناور درخت بنا دیا۔ وہ طویل عرصہ اپنے دشمنوں کو تفسیر قرآنی اور قبولیت دعا میں مقابلہ کا چیلنج دیتا رہا مگر کسی کو تاب مقابلہ نہ ہوئی۔ خدا نے اسے الہام میں ابراہیم کہا اور اس کےذریعہ ربوہ قائم کر کے اور دو بیٹوں اور ایک نواسے کو منصب خلافت پر فائز کر کے ابراہیمی صفات کا حامل ثابت کر دیا۔ اس کی کثیر پیشگوئیاں بھی پوری ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

اس نئی زمین کا ایک صاحب عظمت وجود مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ ہے جسے خدا نے الہام میں مسلمانوں کا لیڈر قرار دیا۔ جو پہلے نیچریت اور فلسفہ کی طرف مائل تھا مگر مسیح موعودؑ کی صحبت نے اس کو خدا کی محبت میں پگھلا دیا۔ وہ پہلے لوگوں کو پر اثر تقریروں سے رلاتا تھا۔ مگر اس جذب کے بعد وہ خود زار زار رونے لگا۔ وہ تقریر اور تحریر کا دھنی تھا جس کی اقتدا میں امام الزمانؑ نے بیسیوں نمازیں اور جمعے ادا کیے۔ جس کی موت ایسی با برکت تھی کہ اس کی تدفین سے بہشتی مقبرہ قادیان کا افتتاح ہوا۔ اور جس کے علم و عرفان کی یاد قائم رکھنے کے لیے دینی علوم کے مدرسہ یعنی جامعہ احمدیہ کا آغاز ہوا۔ اور وہ آج دنیا کے متعدد ملکوں میں مبلغین تیار کر رہا ہے۔

اس نئی زمین کا ایک شہزادہ صاحبزادہ عبد اللطیفؓ بھی تھا۔ وہ کابل کا ایک سرو بلند تھا۔ صاحب وحی و الہام تھا۔ صاحب کرامات تھا۔ اسے بتا دیا گیا تھا کہ اسے قادیان سے واپسی پر جان کا نذرانہ دینا پڑے گا۔ مگر اس شیخ عجم نے بادشاہ کے دربار میں نہایت معزز ہونے، ہزاروں مریدوں کا سربراہ ہونے کے باوجود ہتھکڑیاں اور سنگساری قبول کر لی۔ اور احمدیت میں سید الشہداء کا لقب پایا۔ اس کے بعد اس کا خاندان بھی کثیر ابتلاؤں سے گزرا۔ مگر اس نے اپنے ایمان پر آنچ نہیں آنے دی۔ اسی کے شاگردوں میں سے پہلے مولوی عبد الرحمان نے بھی قربانی دی مگر استقامت کا عظیم نظارہ دکھایا۔ آج دنیا کے متعدد ملکوں مثلاً بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، برطانیہ، امریکہ، ٹرینیڈاڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا اور افریقہ کے کئی ملکوں میں شہید ہونے والے بیسیوں احمدی انہی کی یادوں کوزندہ کرتے رہتے ہیں۔

اسی سر زمین کے باسیوں میں مرزا بشیر احمدؓ بھی ہے جسے خدا نے قمر الانبیاء کے لقب سے نوازا۔ جس کی ظاہری اور باطنی بینائی کو برقی تجلی سے روشن کیاگیا۔ جس کی تحریریں ایک دل موہ لینے والا کلام ہے۔ جس کی تجزیہ نگاری اور علم کلام کے گنجلک مضامین کو آسان کر کے بیان کرنے کی استعداد قابل رشک ہے۔ اس کی کتاب سیرت خاتم النبیینؐ دشمنوں سے بھی خراج تحسین وصول کر چکی ہے۔ اور اس کی کتاب سلسلہ احمدیہ اور سیرت المہدی اپنے موضوع پر چنیدہ کتب ہیں۔

انہی میں وہ مرزا شریف احمدؓ بھی ہے جسے بادشاہ اور حکم اور قاضی کے نام سے الٰہی کلام میں یاد کیا گیا۔ جسے خلاف توقع عمر اور امارت دیے جانے کی پیشگوئی کی گئی۔ مسیح موعودؑ کی بعض پیشگوئیاں باپ، بعض بیٹے، اور بعض پوتے کے حق میں پوری ہو رہی ہیں۔ یعنی سیدی حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق جو اَب سریر آرائے منصب خلافت ہیں۔

اسی زمین میں وہ غلام رسولؓ جوان صالح کراماتی بھی ہے۔ جس کی حیات قدسی واقعہ میں ایک قدسی کی سوانح ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے دعاؤں کا فوری جواب اس کے ساتھ خاص شفقت تھی۔ ایک معمولی دیہاتی وضع قطع کے آدمی کو مشکل اور مغلق علوم دینیہ عطا کر کے جس طرح ظاہری علماء کو عاجز کر دیا گیا۔ وہ اسی کا خاصہ اور مسیح موعودؑ کی قوت قدسیہ کا نچوڑ ہے۔ بیعت سے پہلے رؤیا میں گیارہ انبیاء کرام نے اسے گڑھے سے نکالا اور پھر رؤیا میں رسول اللہﷺ کے لشکر میں شمولیت کی جس کے دامن میں جبریل امین نے چودھویں کا چاند ڈال دیا۔ (حیات قدسی جلد 1صفحہ 9و11)

انہی میں غضنفر احمدیت یعنی احمدیت کا شیر حضرت سید محمد سرور شاہؓ بھی ہیں جو چوٹی کے عالم تھے۔ اس زمانے میں قریباً 150 روپیہ کی ماہوار نوکری چھوڑ کر قادیان آئے، زندگی وقف کی۔ اور 20روپیہ الاؤنس پر گزارہ کرتے رہے۔ آپ درس قرآن بھی دیتے رہے اور تفسیر بھی لکھی۔ آپ نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کو مباحثہ مد میں شکست فاش دی۔ اور انہی کی تعلیم اور تربیت نے جماعت احمدیہ میں متعدد جلیل القدر علماء پیدا کیے۔ شدید بیماری میں بھی نماز باجماعت ادا فرماتے تھے۔ آخری بیماری میں ایک دن بخار کی حالت میں مسجد تشریف لے گئے۔ تھرمامیٹر لگایا گیا تو بخار 105 درجہ تھا۔ آپ کو ڈاکٹری ہدایت تھی کہ پوری طرح آرام کریں آپ کو سخت ضعف تھا مگر پھر بھی مسجد میں ضرور جاتے۔ وفات سے کچھ دن پہلے اپنے بیٹے کے ساتھ اللہ کے گھر جا رہے تھے کہ کمزوری کی وجہ سے رستہ میں دوبار گر گئے۔ (اصحاب احمد جلد 5حصہ دوم صفحہ71)

انہی میں مسیح موعودؑ کا وہ محب صادق مفتی محمد صادقؓ بھی ہے جس نے مسیح موعودؑ سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے امتحان کی اجازت چاہی تو فرمایا ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہت ڈگریاں دے گا۔ چنانچہ بعد میں امریکہ کی چھ یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری اعزاز کے ساتھ پیش کی۔ ( الفضل 28؍مارچ 1921ء) وہ جو مسیح موعوؑد کا مترجم اور افسر ڈاک تھا۔ تبلیغ اور پیغام الٰہی پہنچانے کا عاشق تھا حضور کے ارشاد پر عبرانی بھی سیکھی اور کئی زبانیں جاننے کی وجہ سے دنیا کے کئی مشہور لیڈروں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ چنانچہ امریکہ میں ڈوئی، برطانیہ میں پگٹ، اور روس کے عظیم ناول نگار ٹالسٹائی کو انہوں نے ہی حضور سے متعارف کروایا۔

انہی میں خاندان حضرت میر درد کے گل سرسبد حضرت میر ناصر نوابؓ بھی تھے۔ خواجہ میر درد کے والد حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو حضرت اما م حسنؓ نے بشارت دی کہ ایک خاص نعمت خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی جس کی ابتداتجھ پر ہوئی اور انجام مہدی موعود پر ہو گا۔ انہی کی نسل سے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی بیٹی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ام المومنینؓ حضرت مسیح موعودؑ کے عقد میں آئیں جن کو خدا نے الہام میں ’’خدیجہ‘‘قرار دیا۔ میر ناصر نوابؓ کے دو بیٹے حضرت میر محمد اسحاقؓ اور حضرت میر محمد اسماعیلؓ بھی عالم روحانیت کے روشن ستارے تھے۔ میر محمد اسحاقؓ علم قرآن و حدیث اور موازنہ مذاہب کے ماہر تھے۔ وہ خود اور ان کے دو بیٹے جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل رہے۔ میر ناصر نواب صاحب نے غریب اور نادار لوگوں کے لیے دارالضعفا٫ اور میر محمد اسحاقؓ نے دار الشیوخ کے نام سے ذاتی ذمہ داری پرادارےقائم کیےاور ان کے بیٹے بھی یہ ذمہ داری شوق سے نبھاتے رہے۔

اسی زمین کا ایک شاہکار میر ناصر نواب صاحب کا دوسرا بیٹا ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ تھا۔ جس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کو 1905ء میں الہام ہوا اسسٹنٹ سرجن۔ آپ اسی سال پنجاب میں اول نمبرپر آ کر اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے۔ نہایت خدا رسیدہ، صاحب الہام، اپنے وقت کے صوفی اور صاحب قلم تھےجن کی بیماری کے وقت دعا کرتے ہوئے ایک بزرگ کو بتایا گیا کہ میر محمد اسماعیل ہمارے پیارے ہیں اور ہم خود ہی ان کا علاج ہیں۔

انہی میں و ہ نابغہ روزگار چودھری ظفراللہ خانؓ بھی ہے جو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ، عالمی عدالت انصاف کا صدر اور جنرل اسمبلی یو این او کے صدر کے طور پر عالمی شہرت کا حامل تھا۔ مگر وہ خود اپنی زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ مسیح موعودؑ کی زیارت اور اپنی کامیابیوں کا گُر خلافت کی اطاعت کو قرار دیتا ہے۔ نصف سے زیادہ صدی یورپ میں گزاری مگر کبھی نماز تو کجا تہجد کی نماز بھی نہیں چھوڑی۔ باجماعت نماز کے لیے کوئی ساتھی نہیں ملتا تھا تو اپنے باورچی کی امامت میں نماز ادا کر لیتے۔ (ماہنامہ خالد دسمبر 1985ء صفحہ 89، اصحاب احمد جلد 11 صفحہ 191) ان کے والد حضرت چودھری نصر اللہ خان صاحبؓ اور حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ نے بڑھاپے کی عمر میں قرآن کریم کا حفظ کیا۔ حضرت ابوعبد اللہ صاحبؓ نے 65 سال کی عمر میں حفظ شروع کیا اور مکمل کر کے دم لیا۔ (الفضل ربوہ 8؍ دسمبر2010ء)

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کرنے کی توفیق پائی۔ نماز باجماعت کے عاشق تھے۔ قادیان کے ایک نابینا حافظ کی بیماری کا علاج ایک حکیم صاحب نے دودھ تجویز کیا مگر حافظ صاحب کے پاس رقم نہ تھی۔ مولوی صاحب کو معلوم ہوا تو خفیہ طور پر لمبا عرصہ حافظ صاحب کو روزانہ دودھ خود پہنچاتے رہے اور کبھی اپنا نام ظاہر نہ کیا۔ مولوی صاحب کے ایک بیٹے کا ایک اور احمدی کے بیٹے کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ دونوں چھوٹے تھے۔ تھوڑی دیر بعد کھیلنا شروع ہو گئے مگر عصر کے بعد مولوی صاحب اس احمدی دوست کے گھر پہنچے اور فرمایا میرے بیٹے کی غلطی تھی معافی مانگنے آیا ہوں۔ (سیرت شیر علی صفحہ 260)

انہی میں ایران کے پہلے مبلغ حضرت شاہزادہ عبد المجید صاحب لدھیانویؓ بھی تھے۔ ضعیف العمر اور قدیم صحابہ میں سے تھے۔ انہوں نے عزم کیا تھا کہ جماعت سے کوئی خرچ نہیں لیں گے۔ شدید نامساعد حالات میں ایران میں تبلیغ کا حق ادا کیا۔ بہت مالی تنگی تھی۔ بہت جسمانی دکھ اٹھائے مگر ایک جماعت قائم کر کے دکھائی۔

کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع آسنور گاؤں میں سب سے پہلے حضرت حاجی عمر ڈار صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ قادیان سے واپس آئے تو آپ نے تجارتی شراکت دار کو اس بارے میں بتایا۔ اس نے کہا میری طرف سے بھی بیعت کا خط لکھ دیں۔ آپ نے مجھے دنیاوی معاملہ میں کبھی دھوکا نہیں دیا تو خدا کے معاملہ میں کیسے دھوکا دے سکتے ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل 12؍ستمبر 2014ء صفحہ 18)

انہی میں سیالکوٹ کے لکڑی فروش حضرت منشی شادی خان صاحبؓ بھی تھے۔ حضرت مسیح موعود کی ایک تحریک پر پہلے 150 اور پھر 250 روپیہ بھیج دیے۔ حضورؑ نے فرمایا: انہوں نے ابو بکرؓ کی طرح اپنا سارا مال قربان کر دیا۔ حضرت منشی صاحب نے یہ سن کر گھر کی چارپائیاں بھی فروخت کر کے خدا کی راہ میں پیش کر دیں۔ (تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 126)

یہ وہ لوگ تھے جو رؤیا وکشوف میں خدا اور ملائکہ کا دیدار کرتے تھے۔ چند نام اور حوالے درج ہیں۔ حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوریؓ (حیات بقا پوری جلد 3صفحہ144، جلد 1 صفحہ 198)حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ (میری یادیں جلد 1 صفحہ 237)حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ نے رؤیا میں شق صدر جیسا واقعہ دیکھا۔ (رجسٹر روایات جلد 12 صفحہ 322 بحوالہ الفضل انٹر نیشنل30؍مارچ 2021ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے 1944ء میں وقف جائیداد کی تحریک فرمائی۔ سرگودھا کے ایک صحابی حضرت میاں خدا بخش صاحبؓ نے حضورؓ کی خدمت میں لکھا کہ میری جائیداد اس وقت 2 لاکھ روپیہ مالیت کی ہے۔ سب حاضر ہے اور میرا سر بھی حاضر ہے۔

حضرت حکیم فضل الرحمان صاحبؓ 1923ء میں تبلیغ کے لیے گھانا بھجوائے گئے۔ 6 سال بعد 1929ء میں واپسی ہوئی اور 1933ء میں پھر افریقہ چلے گئے۔ متواتر 14سال بیوی اور سب رشتہ داروں سے دور رہے۔ اسی عرصے میں آپ کے والدین خدا کو پیارے ہو گئے مگر کبھی وطن واپسی کا تقاضا نہیں کیا۔

حضرت عبد الرحیم شرما صاحبؓ ہندوؤں سے احمدی ہوئے تو ان کی والدہ مسلسل روتی رہتیں اور دور دور تک ان کے رونے کی آواز سنائی دیتی مگر اپنے بیٹے کو ایمان سے ہٹا نہ سکیں۔ (اصحاب احمد جلد 10 صفحہ61و64)

حضرت سید حامد شاہ صاحبؓ کے لڑکے سےایک شخص قتل ہو گیا مگر زیادتی مقتول کی تھی سیالکوٹ کا ڈپٹی کمشنر انگریز تھا۔ اُسے خیال آیا کہ میر حامد شاہ صاحب میرے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ اگر میں ان کے لڑکے کو سزا دوں گا تو میرے انصاف کی دھوم مچ جائے گی۔ اس لیے شاہ صاحب کو بلایا اور پوچھا کہ کیا واقعی آپ کے لڑکے نے قتل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ میں تو وہاں موجود نہ تھا لیکن سنا ہے کہ کیا ہے۔ پھر آپ نے اپنے لڑکے کو بلا کر کہا کہ تم نے اس شخص کو مارا ہے۔ تو سچی بات کا اقرار کر لو۔ لوگوں نے کہا کیوں اپنے جوان لڑکے کو پھانسی دلوانا چاہتے ہو۔ مگر آپ نے فرمایا کہ اس دنیا کی سزا سے اگلی دنیا کی سزا زیادہ سخت ہے، بیٹے نے اقرار کر لیا۔ لیکن خدا کی قدرت کہ جس مجسٹریٹ کے پاس مقدمہ تھا، اُسے معاملہ کی حقیقت معلوم ہو گئی اور اُسے رہا کر دیا۔ (الفضل26؍اگست1936ء)

حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ کو ایک عرصہ تک حضرت مسیح موعودؑ کا امام الصلوٰة ہونے کی توفیق ملی۔ آپ نماز کے لیےاذان دینے اور اول صف میں کھڑے ہونے کے انتہائی دلدادہ تھے۔ آپ نابینا تھے مگر ہر حال میں نماز کے لیے اول وقت میں پہنچتے۔ اور ان کا وجود سارے دوسروں کےلیے نماز کا وقت بتانے والی گھڑی کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ بارش ہو، آندھی ہو، کڑکڑاتا جاڑا ہو، تیز دھوپ ہو، وہ اول وقت پر پہنچتے۔ اذان بلند کرتے اور اول صف میں جگہ پاتے۔ حتی الوسع اس مقام پرکھڑے ہوتے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ہی جگہ مل سکے۔ (اصحاب احمد جلد 13صفحہ290)

حضرت ملک خدا بخش صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’خاکسار کی برات جانے کے لئے میرے مکان پر جمع ہوچکی تھی۔ اور فرنی، زردہ اور قورمے کی دیگیں برات کے لئے پک چکی تھیں کہ حضرت مسیح موعوؑد کا ایماء پہنچا کہ یہاں شادی نہ کرو۔ میں نے فوراً باراتیوں کو اپنے والد صاحب کی معرفت کہلا بھیجا کہ آپ سب چلے جائیں اورحکمت سے معاملہ ٹلا دیا۔‘‘(الفضل 4؍مئی 2016ء)

حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ فرماتے ہیں: ’’میں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ 1905ء میں بوقت بیعت جو وعدہ میں نے حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے کیا تھا اور پھر 1906ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ نے مدرسہ احمدیہ کے قیام کی غرض یہ فرمائی تھی کہ ایسے مربی ہوں جو اپنی زندگیاں تبلیغ کے لئے وقف کریں۔ میں نے اپنی زندگی اسی وقت تبلیغ کے لئے وقف کی۔ چنانچہ اب تک حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں بحیثیت وقف کنندہ مربی کے کام کرتا رہا ہوں ‘‘۔ قبول احمدیت کے ابتدائی ایام کے ذکر میں لکھتے ہیں: ’’عموماً تین پارے روزانہ پڑھتا تھا اور ان مصروفیات روحانی پر میرے پانچ چھ گھنٹے روزانہ صرف ہو جایا کرتے تھے۔ ان دنوں میں میری مخالفت کم ہوگئی تھی کیونکہ لوگ مجھے دن کو قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول دیکھتے اور رات کو نوافل میں گریہ و زاری کرتے دیکھتے تھے۔ چک 99,98 سرگودھا میں مجھے چھ سال تک ٹھہرنے کا موقع ملا کیونکہ وہاں کی جماعت نے یہ شرط کی تھی کہ ہم رخصتانہ اس شرط پر کرائیں گے کہ دو سال یہاں ٹھہر کر ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ اور مطالب سکھا دیں۔ میں نے اس شرط کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی قبول کیا۔ میں مردوں کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ پڑھاتا تھا اور بچوں کو میری بیوی ناظرہ قرآن مجید پڑھایا کرتی تھی ‘‘۔(حیات بقاپوری صفحہ33)

حضرت مولوی غلام نبی مصریؓ مدرسہ احمدیہ قادیان کے پروفیسرتھے اورسلسلہ کے اکثر جید علماء ان کے شاگرد تھے۔ حضرت مولوی نور الدینؓ کے شاگرد خاص تھے۔ حضورؓ کتابوں کے عاشق تھے۔ کسی کتاب کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کتاب کا اکیلا نسخہ صرف مصر کے کسی کتب خانہ میں موجود ہے۔ اور اس خواہش کا اظہار کیا اے کاش یہ کتاب ہمیں دستیاب ہو جائے۔ شاگرد نے استاد کی بات سنی سفر کی اجازت چاہی اور مصر روانہ ہو گئے۔ نہ زادراہ پاس موجود نہ زاد راہ کی فکر ، توکل کا دامن پکڑا اور چل پڑے۔ راہ میں کسی مریض کا علاج کرنے کا موقع میسر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو شفایاب کیا تو اس کے والی وارثوں نے ایک قیمتی کمبل ان کی نذر کیا۔ بمبئی پہنچے تو ایک جہاز عدن جا رہا تھا۔ کمبل بیچا تو کرایہ کی رقم میسر آگئی۔ عدن پہنچ گئے، وہاں سے قافلے حجاز ومصر کی جانب سے چلتے تھے، ایک قافلہ کے ساتھ چل پڑے۔ پا پیادہ چلتے جاتے تھے ایک مسافر کا سامان اٹھانے اونٹوں پر لادنے اتارنے کا کام کرتے تھے۔ کھانا میسر آ جا تا کبھی کبھار وہ انہیں اونٹ پر سوار ہو جانے کی اجازت بھی دے دیتا۔ مصر جا پہنچے۔ کھجوروں کی گٹھلیاں چنتے بیچتے تو دو وقت کا کھانا میسر آ جاتا۔ کتب خانہ میں کتاب موجود تھی مگر اس کو قلم سے نقل کرنے کی اجازت نہ تھی پنسل سے نقل تیار کرتے گھر پہنچ کر سیاہی سے اسے روشن کرتے اور اپنے مرشد حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں بھیج دیتے۔ کئی سالوں میں کام مکمل ہوا۔ درمیان میں یہ آزمائش بھی آئی کہ کتب خانہ والوں نے کتاب کوپنسل سے نقل کرنے کی اجازت منسوخ کر دی، مولوی صاحب نے کتاب حفظ کرنا شرو ع کر دی۔ جتنا حصہ حفظ کرتے گھر پہنچ کر لکھ لیتے غرض اس خدا کے بندے نے کئی برسوں میں یہ کام مکمل کیا۔ مرشد کا حکم ہوا مصر کے علمائے دین سے استفادہ کرو۔ چنانچہ مصری علماء سے زبان و بیان کا درس لیتے رہے۔ و اپسی کا حکم ہوا تو اسی طریق سے واپس آ گئے۔ (الفضل 4؍جولائی 2015ء)

حضرت منشی عبدالرحمٰن صاحبؓ پہلے محکمہ مال میں نائب تحصیلدار تھے۔ پھر محکمہ دفاع میں تبدیل کرکے آپ کو کمانڈر انچیف کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ آپ نے 55 سال ملازمت کی۔ منشی صاحب ایک طویل عرصہ تک ناظر محکمہ جنگی رہے۔ لاکھوں روپے کا حساب کتاب تھا۔ کئی کمانڈر انچیف آئے، سب حضرت منشی صاحب کی دیانت اور خدمت گزاری کے قدردان تھے۔ روزنامچہ لکھنے کی عادت تھی۔ اس کی پڑتال کرتے ہوئے کوئی 40 سال قبل کا ایک واقعہ درج تھا۔ یعنی منشی صاحب نے ایک غیر از جماعت سے مل کر ایک معمولی سی تجارت کی تھی۔ اس کے نفع میں سے 40 روپے کے قریب منشی صاحب کے ذمہ نکلتے تھے۔ آپ نے یہ رقم حقدار کے نام بذریعہ منی آرڈر بھجوا دی۔ وصول ہونے کے بعد وہ اپنی مسجد میں گیا اور لوگوں سے کہا کہ تم احمدیوں کو برا تو کہتے ہو لیکن یہ نمونہ بھی تو کہیں دکھاؤ۔ 40 سال قبل کا واقعہ ہے اور خود مجھے بھی یاد نہیں کہ میری کوئی رقم منشی صاحب کے ذمہ نکلتی ہے۔ (الفضل 23؍ستمبر 2010ء صفحہ 3)

حضر ت ماسٹر فقیر اللہ صاحبؓ کا رشتہ احمدیت قبول کرنے سے پہلے ایک جگہ طے ہو چکا تھا مگر جب احمدی ہوئے تو ان لوگوں نے کہا کہ ہمارا تعلق آپ سے تب رہ سکتا ہے کہ احمدیت سے توبہ کریں۔ انہوں نے کہا: ’’یہ تو آپ کی ایک لڑکی کی بات ہے اگر ایسا سو رشتہ بھی ہو تو میں احمدیت پر قربان کردوں گا۔‘‘(اصحاب احمد جلد نمبر10صفحہ19)

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ سابق ہریش چندر کی والدہ بھی ان کے قبول احمدیت سے سخت ناراض تھیں۔ ماں ایک بار قادیان میں اس طرح روتی ہوئی آئیں کہ احمدیہ بازار میں شور مچ گیا۔ لیکن ماں کی محبت ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکی۔ (اصحاب احمد جلد 9صفحہ80) ان کے والد دھوکے سے انہیں قادیان سے لے گئے اور تحریر دی کہ والدہ، اور بھائی بہنوں سے مل کر واپس آجائے گا۔ تو حضرت مسیح موعودؑ نے کس اعتماد سے اس پر لکھا: ’’اگر ہمارا ہے تو آ جائے گا‘‘ ( اصحاب احمد جلد 9صفحہ48) چنانچہ باوجود ان کے والد کی عہد شکنی کے یہ کسی نہ کسی طرح پھر قادیان پہنچ گئے۔ اور پھر حضورؑ کے قدموں میں ہی رہے۔

حضرت سید فقیر محمد صاحبؓ کابلی افغان فرمایا کرتے تھے کہ میں نے 18 سال کی عمر میں نماز تہجد شروع کی ہے اور اخیر عمر تک باقاعدگی سے پابند رہا ہوں۔ آپ صاحب کشف و رؤیا صالحہ تھے۔ اَن پڑھ تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد 21صفحہ 585)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button