حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عائلی زندگی میں مسائل کے اسباب

وہ مرد جو عورتوں کے مال پر نظر رکھے رہتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ذمہ داری ان کی ہے اور عورت کی رقم پر ان کا کوئی حق نہیں

مردوں میں حرص اور بے غیرتی

حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور ایسے معاملات سن کر بڑی تکلیف ہوتی ہے، طبیعت بعض دفعہ بے چین ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے بعض کس طرف چل پڑے ہیں۔ بیوی کی ساری قربانیاں بھول جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض تواس حد تک کمینگی پر آتے ہیں کہ بیوی سے رقم لے کر اس پر دباؤڈال کر اس کے ماں باپ سے رقم وصول کرکے کاروبار کرتے ہیں یا زبردستی بیوی کے پیسوں سے خریدے ہوئے مکان میں اپنا حصہ ڈال لیتے ہیں اور پھر اس کو مستقل دھمکیاں ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو حیرت ہوتی ہے کہ اچھے بھلے شریف خاندانوں کے لڑکے بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کچھ خوف خدا کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ ورنہ یہ واضح ہو کہ نظام جماعت، اگرنظام کے پاس معاملہ آ جائے تو، کبھی ایسے بیہودہ لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا، نہ دے گا۔‘‘

مزید فرمایا: ’’وہ مرد جو عورتوں کے مال پر نظر رکھے رہتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ذمہ داری ان کی ہے اور عورت کی رقم پر ان کا کوئی حق نہیں۔ اپنے بیوی بچوں کے خرچ پورے کرنے کے وہ مرد خو د ذمہ دار ہیں۔ اس لئے جو بھی حالات ہوں چاہے مزدوری کرکے اپنے گھر کے خرچ پورے کرنے پڑیں ان کا فرض ہے کہ وہ گھر کے خرچ پورے کریں اور اس محنت کے ساتھ اگر دعا بھی کریں تو پھر اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے اور کشائش بھی پیدا فرماتا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍جولائی 2004ء)

’’اب میں بعض عمومی باتیں بتا تا ہوں۔ اگر علیحدگی ہوتی ہے تو بعض لوگ یہاں قانون کا سہارا لیتے ہوئے بیوی کے پیسے سے لئے ہوئے مکان کا نصف اپنے نام کرا لیتے ہیں۔ قانون کی نظر میں تو شاید وہ حقدار ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگر تم نے بیوی کو ڈھیروں مال بھی دیا ہے تو واپس نہ لو، کجا یہ کہ بیوی کے مال پر بھی ڈاکے ڈالنے لگ جاؤ، اس کی چیزیں بھی قبضے میں کر لو۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

رشتہ کرتے وقت تقویٰ کو مدّنظر رکھنے کی اہمیت کا بیان کرتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:

’’گزشتہ دنوں کسی نے مجھے لکھا کہ میرا رشتہ نہیں ہوتا، نظارت رشتہ ناطہ پاکستان تعاون نہیں کرتا۔ جب میں نے رپورٹ لی تو پتہ لگا کہ رشتے تو کئی تجویز کئے ہیں لیکن پسند نہیں آئے او ر وجہ یہ تھی کہ لڑکے نے کہا کہ رشتہ میری شرط کے مطابق ہونا چاہئے۔ خود یہ صاحب میٹرک پاس ہیں، تعلیم معمولی ہے اور شرط یہ تھی کہ لڑکی پڑھی لکھی ہو، ایم اے ہو اور کام کرتی ہو، کماکے لانے والی ہو، شادی پر مجھے مکان بھی ملے، دس بیس لاکھ روپیہ نقد بھی ملے، میرا خرچ بھی اٹھائے اور پھر یہ کہ صرف خرچ ہی نہ اٹھائے بلکہ مجھے کام کرنے کے لئے نہ سسرال والے اور نہ ہی لڑکی کچھ کہے، جب مرضی ہو کام کروں یا نہ کروں۔ تو ایسے شخص کو ذہنی مریض کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایسے رشتوں اور ایسے لڑکوں پر تورشتہ ناطہ کو توجہ ہی نہیں دینی چاہئے تھی(پتہ نہیں کیوں وہ تجویز کرتے رہے)، کیونکہ اگر ایسے لوگوں سے ہی واسطہ رہا تو رشتے ناطہ کا عملہ بھی کہیں ذہنی مریض نہ بن جائے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر2006ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن برطانیہ)

ناجائز مطالبے

مذکورہ بالا خطبہ میں ہی حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے فریقین کے ناجائز مطالبات کے حوالہ سے فرمایا: ’’افسوس ہے کہ خیر کامطالبہ تو ہوتاہے لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کرتا۔ لیکن عملی صورت بعض جگہ اس طرح نظر آجاتی ہے کہ شادی کے وقت تو کچھ نہیں کہتے اور کوئی شرط نہیں لگاتے لیکن شادی کے بعد عملی رویّہ یہی ہو جاتا ہے، بعضوں کی شکایات آتی ہیں۔ لڑکی والوں سے غلط قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر مرضی کا جواب نہ ملے اور مطالبات پورے نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور فساد اور لڑکیوں کو طعنے وغیرہ ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی عقل دے اور رحم کرے۔ پس ایک بے وقوف اور ظالم کے علاوہ جس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہوتا ہے، (کیونکہ انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ پر ظلم تو کوئی نہیں کر سکتا) ایسا شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے علاوہ جس کو اپنے ربّ کی صفت ربوبیت کا کوئی فہم و ادراک نہیں ہے جس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے ربّ نے ہم پر کیا کیا احسان کئے ہوئے ہیں اور ہم پر احسان کرتے ہوئے جو احکامات دئیے ہیں ان پر عمل کرکے ہم ان دعاؤں سے فیض پا سکتے ہیں جو ہمارے ربّ نے ہمیں سکھائی ہیں، اس کے بغیرنہیں۔ توایک دعا جو سورۃالشعراء کی تین آیات ہیں اس میں یہ سکھائی ہے کہ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ۔ وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ۔ وَ اجۡعَلۡنِیۡ مِنۡ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیۡمِ۔ (الشعراء: 84-86)کہ اے میرے ربّ مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر اور میرے لئے بعد میں آنے والے لوگوں میں سچ کہنے والی زبان مقدر کردے اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔ پس ایسے لوگ جو اپنے ربّ کی پہچان نہیں رکھتے اور عقل سے عاری ہیں ان کی باتیں سن کر یہی دعا ہے جوہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھی۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنے ربّ سے عقل کی اور حکمت کی اور صحیح باتوں کو اختیار کرنے کی اور ان پر قائم رہنے کی دعا مانگنی چاہئے اور پھر اس کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ رہنی چاہئے جس کی اللہ تعالیٰ نے بار ہا ہمیں تلقین فرمائی ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر2006ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن برطانیہ)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 103تا107)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button