متفرق مضامین

اشاعت فحشا ایک سنگین جرم

(’در مکنون‘)

’’قومیں اس سے بنتی اور قومیں اس کی خلاف ورزی سے بگڑتی ہیں‘‘

قوموں کی اصلاح یا بگاڑ کے عوامل پر قرآن کریم تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے۔ ان میں سے ایک حسن ظن اور بد ظنی ہے۔ اگرلوگ حسن ظن کرنے لگیں تو معاشرے کی اخلاقی اقدار ترقی کرنے لگتی ہیں اور اگر لوگوں میں بدظنی پیدا ہو جائے تو معاشرہ گراوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ (الحجرات: 13)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ یعنی بدظنی گناہوں میں شامل ہے۔

اسی طرح اگر اچھی اور نیکی کی باتیں ہونے لگیں تو معاشرہ پاکیزہ ہونے لگتا ہے اور برائیاں دبنے لگتی ہیں۔ قرآن کریم نصیحت فرماتا ہے کہ وَقُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا(البقرۃ: 84)کہ لوگوں سے اچھی باتیں کیا کرو۔ اچھی باتوں کو پھیلانے سے اچھا ماحول جنم لیتا ہے۔ ا س کے برعکس اگر بُری باتیں پھیلائی جائیں تو برا ماحول پیدا ہوتا ہے۔

غیبت اور چغلی

کسی کی بُری بات کرنے کو غیبت کہتے ہیں۔ قرآن و حدیث نے غیبت کرنے کو ایک بہت بڑا جرم قرار دیا ہے غیبت کرنے والوں کے لیے نارِجہنم کا وعدہ ہے۔ اس لیے غیبت سےروکاہے۔ فرمایا: وَلَا تَجَسَّسُوۡا وَلَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا (الحجرات: 13) کہ تجسس نہ کیا کرو کیونکہ تجسس کرنے والے کے دل میں اپنے بھائی کے خلاف کوئی بُری بات تلاش کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اگر ا س کی کوئی بُرائی ہاتھ لگ جائے تو اسے دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے جسے غیبت کہتے ہیں۔ فرمایا: تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ غیبت کتنی ناپسندیدہ چیز ہے، عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایک مثال بیان کی۔ فرمایا: کسی کی غیبت کرنے والا اسی طرح ہے جیسے وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو۔ کس قدر کراہت والی مثال بیان ہوئی ہے۔ دنیا میں گندے سے گندا شخص بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے پر تیار نہ ہو گا۔ پس اللہ کی نظر میں غیبت کرنا اتنا ہی مکروہ کام ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ غیبت اورچغلی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ دوزخ میں جائے گا۔ اس لیے اس سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور ا س کے لیے ہمیشہ استغفار کرتے رہنا چاہیے۔

اپنی برائی بھی نہیں بتانی چاہیے

دوسروں کی برائی تو دور کی بات اسلام تو اپنی بدی کی تشہیر سے بھی منع کرتا ہے۔ بلکہ ایسے لوگ جو دوسروں کو اپنے گناہ بتاتے ہیں اتنے گناہ گار ہیں کہ قیامت کے روز ا ن کی بخشش بھی نہیں ہو گی۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا المُجَاهِرِينَ(بخاری کتاب الادب بَابُ سَتْرِ المُؤْمِنِ عَلَى نَفْسِهِ و المعجم الصغیر) کہ میری امت کے تمام لوگ معاف کر دیے جائیں گے سوائے مجاہرین کے۔ صحابہ نے عرض کی یہ مجاہرین کون ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جو رات کو ایک گناہ کرتے ہیں اللہ ا ن کی ستاری فرماتا ہے۔ وہ صبح اٹھ کر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہم نے رات کو یہ یہ کیا۔ اس طرح جس بات پر اللہ نے رات کو پردہ ڈال دیا تھا وہ صبح اللہ کے پردے کو چاک کر دیتے ہیں۔ پس اپنی بُری باتیں ہوں یا غیر کی، دونوں کو آگے بیان کرنا سخت گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی ستاری کی ہتک کرنا ہے۔

اگر بدقسمتی سے کسی کو بُری باتوں کو آگے کرنے کی عادت پڑ جائے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اشاعت فحشا کے سنگین گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اشاعت فحشا سے مراد کسی کی برائی اور گناہ کو معاشرے میں پھیلانا، بے حیائی کی باتوں کو پھیلانا ہے۔ دراصل ایسا کرنے والا خود حیا سے عاری ہو جاتا ہے۔

حیا اسلام کا بنیادی خلق ہے

حیا ایک ایسا پاکیزہ خلق ہے جس کو نبی کریمﷺ نے اسلام کا بنیادی خلق قرار دیا ہے۔ فرمایا: إِنَّ لِكُلِّ دِيْنٍ خُلُقًا، وَإِنَّ خُلُقَ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ (سنن ابن ماجہ) ہر دین کا ایک خاص خلق ہوتا ہے اسلام کا خلق حیا ہے۔ فرمایا: الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ۔ (صحیح مسلم)کہ حیا تو سراسر خیر اور بھلائی ہے۔ حیا کا الٹ بےحیائی ہے جو سراسر شراور فساد ہے۔ اسی لیے فرمایا جس میں حیا باقی نہ رہے وہ جو چاہے کرتا رہے۔

’’بے حیاء باش ہر چہ خواہی کن ‘‘

بے حیا گویا مجسم شیطان بن جاتا ہے۔ کوئی نصیحت اس پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ پس ایک حیا دار شخص اگر کسی کی بے حیائی کی بات سنے گا تو اس سے کراہت کرے گا اور ایسی بُری بات کا ہرگز کسی سے ذکر نہیں کرے گا۔ اس کی حیا اس بات کی مانع ہو گی کہ ا س کی زبان سے ایسی بے ہودہ اور بےحیائی کی بات نکلے۔ لیکن ایک بے حیا شخص ایسی بات سن کر خوش ہو گا اور دوسروں کو بتائے گا۔ جتنا وہ بے حیا ہو گا اسی قدر دوسروں تک پہنچائے گا اور اس میں لذت اور سرور محسوس کرے گا۔ اس طرح وہ اشاعت فحشا کا مرتکب ہو گا۔

اشاعت فحشا کا جرم

اشاعت فحشا ایک متعدی بیماری کی طرح معاشرے کو بیمار کر دیتی ہے۔ انسانی نفسیات اس طرز پر واقع ہوئی ہے کہ اگر فحش باتیں پھیلنے لگیں تو لوگ فحاشی پر دلیر ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ جب نوجوان سنتے ہیں کہ فلاں فلاں ایسے کام کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ بھی ایسے کام کرنے لگ جائیں۔ پس اسلام نے منع کیا ہے کہ بُری باتیں مجالس میں نہ کی جائیں ورنہ وہی برائیاں لوگوں میں پھیل جائیں گی۔ مثلاً عموما ًسب لوگ چوری ڈاکے وغیرہ جیسے بُرے افعال سے نفرت کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے اگر ان کا ذکر لوگوں میں کثرت سے ہونے لگے تو تھوڑے ہی دنوں میں چوری اور ڈاکے کی وارداتیں زیادہ ہونے لگیں گی۔ مغربی میڈیا اور اب مشرقی میڈیا بھی بے حیائی کی خبروں کو خوب اچھالتا ہے۔ ا س سے بے حیائی کے جرائم کم ہونے کی بجائے اَور زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ہر سال کے اعداد و شمار پہلے سال سے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سب اشاعت فحشا کے بداثرات ہیں۔

حدیث مبارکہ میں یہ مضمون ایک اور رنگ میں بھی بیان ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ إِذَا قَالَ الرَّجُلُ هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ۔ (مسلم کتاب البر والصلہ) کہ جب کوئی کہتاہے کہ لوگ ہلاک ہو گئے تو دراصل وہ خود لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ بعض لوگ خود احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں یا ا ن کے اندر منافقت پائی جاتی ہے۔ وہ جب مومنوں میں کوئی بات دیکھتے ہیں تو شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں لوگ اپنی بدعملی میں تباہی کی حد کو پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح وہ لوگوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہلاکت کا بیج بونا چاہتے ہیں۔ اگرچہ وہ بعض اوقات مظلوم کی مددکے نام پر ایسی بے حیائی کی باتیں کرتے اور معاشرے میں پھیلاتے ہیں لیکن پس پردہ وہ خود بعض کمزوروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ کوئی کمزور شخص ا ن کی باتوں میں آ کر اپنا ایمان کھو دے اور ہلاک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسی باتیں کرنے والے بھی اس کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔ اس حدیث مبارکہ میں لفظ أَهْلَكُهُمْ کو اگر پیش سے پڑھیں تو اس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ ایسی بے چینی کی باتیں پھیلانے والے دراصل خود ہلاک شدہ ہوتے ہیں۔ ان کے دل مردہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی ایمان سے بے نصیب کر کے ا ن کے دلوں میں نفاق کا بیج بو دیں۔

شریعت اس موقع پر یہ تعلیم دیتی ہے وَاِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَلَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَاِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ (النساء: 84) اور جب بھی ان کے پاس کوئی امن یا خوف کی بات آئے تو وہ اُسے مشتہر کر دیتے ہیں۔ اور اگر وہ اسے (پھیلانے کی بجائے) رسول کی طرف یا اپنے میں سے کسی صاحبِ امر کے سامنے پیش کر دیتے تو ان میں سے جو اُس سے استنباط کرتے وہ ضرور اُس (کی حقیقت) کو جان لیتے۔

یعنی اگر کسی کے علم میں کوئی بُری بات آئے تو اسے چاہیے کہ اولی الامر، حکام بالا یا ذمہ دار افسران تک پہنچا دے جو اصلاح احوال کی تدابیر کرنے والے ہیں یاسزا دینے کے مجاز ہیں۔ اور خود خاموش رہے اورایسی بات کو آگے مت پھیلائے۔ اس طرح بدی کی تشہیر نہیں ہو گی، قوم کا کردار محفوظ رہے گا اور لوگوں کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔ اگر ایسا نہ کیا جائے اور ہر شخص کو اجازت ہو کہ وہ دوسرے کا جو عیب بھی سنے اسے بیان کرتا پھرے تو ا س کے نتیجے میں دلوں سے بدی کا احساس مٹ جاتا اور برائی پر دلیری پیدا ہو نے لگتی ہے۔

اشاعت فحشا کا جرم کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ شریعت نے اسے سنگین جرائم میں شمار کیا ہے۔ کسی پاکدامن پر بغیر چار گواہوں کے الزام لگانے پر حد قذف یعنی 80کوڑوں کی سزا مقرر ہے جو زنا کی سزا کے قریب قریب ہے۔ اسی طرح ایسی باتوں کو پھیلانے پر یعنی اشاعت فحشا کا ارتکاب کرنے پر بھی یہ سزا دی جا سکتی ہے۔ چنانچہ واقعہ افک جس میں حضرت عائشہؓ پر رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول نےجب نعوذ باللہ بدکاری کا الزام لگایا توجن لوگوں نے ا س کی تشہیر کی ا ن کو رسول اللہﷺ نے 80۔ 80کوڑے لگوائے۔ اگر ایسے لوگ توبہ نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا موجب بنتے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَالۡاٰخِرَۃِ ؕ وَاللّٰہُ یَعۡلَمُ وَاَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔ (النور: 20) یقیناً وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں جو ایمان لائے بے حیائی پھیل جائے اُن کے لیے دردناک عذاب ہوگا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔

منافقوں کی نشانی

منافق لوگ جو مومنوں کے اندر رہ کر ان کے ایمان کے درپے رہتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ مومنوں کی جماعت مضبوط ہو اور ان کاایمان ترقی کرے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان میں اطاعت کا جذبہ پروان چڑھے اور ا ن کا نظام مستحکم رہے۔ اس لیے ا ن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بُری باتوں کے تجسس میں لگے رہیں اور جونہی ان کے ہاتھ کوئی خبر لگے ا س کی خوب تشہیر کرنے لگیں۔ ا ن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بے حیائی کی بات کومومنوں میں پھیلائیں۔ خاص طور پر جب کسی عہدیدار یا بڑی شخصیت کے بارے ایسی بات سننے کو ملے تو اس کا خوب چرچا کرتے ہیں۔ چنانچہ نبی کریمﷺ کے زمانےمیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب بہتان لگایا گیا تو ا س کی خوب تشہیر کی گئی۔ کیونکہ حضرت عائشہؓ ایک طرف نبی کریمﷺ کی مقدس زوجہ تھیں دوسری طرف آنحضورﷺ کے سب سے قریبی صحابی حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی تھیں جو بعد میں پہلے خلیفہ بنے۔ اس لیے منافقوں نے اس بہتان کی خوب اشاعت کی۔

اللہ تعالیٰ نے اس پر قرآن کریم میں متعدد آیات نازل فرمائیں اور اپنی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسی تہمت لگانے والےا ور اسے پھیلانے والوں کے لیے بہت بڑا عذاب مقدر ہے۔ فرمایا: جب تم نے ایسی بے حیائی کی بات سنی تو اپنے مومن بھائی اور مومن بہنوں کے متعلق کیوں نیک گمان نہ کیا اور کیوں یہ نہ کہا کہ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ اگر تہمت لگانے والے سچے تھے تو اس پر کیوں چار گواہ نہ لائے۔ پس وہ سب جھوٹے ہیں۔ جب تم ایک دوسرے سے سن سن کر ایسی باتیں کر رہے تھے جن کاتمہیں حقیقی علم نہ تھا، تم اسے بہت آسان سمجھ رہے تھے مگر اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ تھا۔ جب تم نے ایسا سنا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ ہمارا کام نہیں کہ اس موضوع پر بات کریں یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنۡ تَعُوۡدُوۡا لِمِثۡلِہٖۤ اَبَدًا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (النور: 18) اللہ تعالیٰ نصیحت فرماتا ہے کہ ایک بار تو تم سے غلطی ہو گئی اگر تم مومن ہو تو خبردار آئندہ ایسی غلطی کو مت دہرانا۔ گویا بین السطور اس میں ایک پیشگوئی بھی فرما دی کہ آئندہ بھی ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو ایسے گندے الزامات لگائیں گے اور ا ن کو پھیلائیں گے مگر اے ایمان لانے والو! تم ا ن کی باتوں میں نہ آنا۔ اپنے ایمان کی حفاظت کرنا۔ تمہاری زبانیں پھسل نہ جائیں۔ تمہارے قدم نہ لغزش کھا جائیں۔ ایسی باتوں کو ہرگز ہلکا نہ سمجھنا۔ یہ اللہ کے نزدیک گناہ عظیم ہے۔ اپنے دلوں کو پاک صاف رکھنا اور اپنی حیا کی حفاظت رکھنا۔ کسی بھی صورت اشاعت فحشا کے سنگین جرم میں حصہ نہ لینا اور منافقوں سے الگ رہنا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’انسان اس قسم کی باتیں کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے مگر بہت ہیں جو ایسی باتیں سنتے ہیں۔ اور سنتے ہی نہیں آگے پہنچاتے ہیں اور جب پوچھا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ یونہی بات منہ سے نکل گئی تھی حالانکہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنا دیتی ہے۔ پس اس بہت بڑے گناہ سے بچواور کوشش کرو کہ کبھی تمہارے منہ سے کسی کے متعلق ایسی بات نہ نکلے۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 274)

فرمایا: ’’پس یاد رکھو کہ نیکی کی تشہیر اور بدی کا اخفاء یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ بلکہ قومیں اس سے بنتی اور قومیں اس کی خلاف ورزی سے بگڑتی ہیں۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ276)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button