مضامین

اے ہمارے ربّ ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے

(نعیم احمد باجوہ۔ مربی سلسلہ برکینا فاسو)

سورت آل عمران کی آیت نمبر9میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔اے ہمارے ربّ ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکاہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناًتُو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والاہے۔

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے افراد جماعت کواس خوبصورت دعا کو بار بار پڑھنے کی تحریک فرمائی ہے۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ نومبر2008ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس دعا کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ اس خطبہ جمعہ میں سےچند اقتباسات دعا کے ساتھ ہدیہ قارئین ہیں اس کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ رکھے اور کبھی بھی ہدایت کے بعد گمراہی میں نہ ڈالے۔ آمین

اللہ تعالیٰ کی صفت وَہَّاب کا واسطہ دے کر اپنے دین کی مضبوطی کی دعا مانگی گئی ہے

’’یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے…اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت وَہَّاب کا واسطہ دے کر اپنے دین کی مضبوطی کی دعا مانگی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ زمانے کے امام کو ماننے کی جو ہمیں توفیق دی آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کی تصدیق کرنے کی اے اللہ جو تُو نے ہمیں توفیق دی۔ اے اللہ تو نے اپنے پیاروں کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی امت میں آخرین میں جو آنحضرتﷺ کا غلام صادق مبعوث فرما کر ہمیں اپنے فضل اور رحم سے اس کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور پھر آنحضرتﷺ جو اے اللہ! تیرے سب سے پیارے بندے ہیں ان کی پیشگوئی جو یقینا ًآپﷺ نے تجھ سے اطلاع پا کر کی تھی کہ مسیح موعود کے بعد خلافت کا نظام جاری ہو گا جو دائمی نظام ہے، جس سے جڑے رہنے سے وہ برکات حاصل ہونی ہیں جو اِس مسیح و مہدی کی جماعت سے وابستہ ہیں، اے اللہ! تُو نے ہم پر رحم فرماتے ہوئے اس نظام سے بھی منسلک کر دیا۔ اب ہماری کو تاہیوں، ہماری لغزشوں، ہماری غلطیوں کی وجہ سے ان تمام انعامات سے جو تُو نے ہم پر کئے محروم نہ کرنا۔ ”

ہماری شامت اعمال ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر دے

“انسان غلطیوں کا پتلا ہے، اس سے غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ ہم تیرے آگے جھکتے ہوئے، تیرے سے یہ التجا کرتے ہیں کہ کبھی اس وجہ سے یا کسی تکبر، غرور اور نخوت کی وجہ سے یا کسی بھی صورت میں ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہمیں کبھی وہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوں جو ہمارے دلوں کو ٹیڑھا کر دیں، یا ہمارے اندر اتنی کجی پیدا ہو جائے جو ہمارے ان اعمال کی وجہ سے جو تیری نظر میں ناپسندیدہ ہیں، ہمیں تیری رحمت سے محروم کر دیں۔ پس ہمیں ہمیشہ ایسے بُرے اور بدنصیب وقت سے بچا۔ ”

جامع دعا

’’… اس جامع دعا میں صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے محروم نہ رہنے کی دعا ہی نہیں سکھائی بلکہ یہ دعا ایک مومن بندے کو سکھائی کہ اس ہدایت پر ہم صرف قائم ہی نہ رہیں بلکہ یہ دعا کریں کہ اپنی طرف سے رحمت عطا کر، اپنی اس رحمت کی چادر میں لپیٹ لے جو ہمیشہ ہر شر سے محفوظ رکھے اور ہمارے ایمان میں اضافہ کرتی رہے۔ ہم ایمان میں ترقی کرتے رہیں، ہم ایقان میں ترقی کرتے رہیں، ہم تقویٰ میں ترقی کرتے رہیں، ہمارا ہر آنے ولا دن ہمیں ایمان اور تقویٰ میں گزشتہ دن سے آگے بڑھانے والا ہو۔ ”

ہر احمدی کا روزمرہ کا معمول

“…یہ خوبصورت دعا ہمیشہ ہر احمدی کا روزمرہ کا معمول ہونا چاہئے اور اگر حقیقی رنگ میں یہ ہمارا معمول ہو گی تو ہم اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنے میں بھی شعوری کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اپنی عبادتوں کی طرف بھی دیکھنے والے ہوں گے۔ اپنی عبادتوں اور نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور نتیجۃً نمازیں بھی ہماری حفاظت کر رہی ہوں گی۔ ایسے اعمال بجا لانے کی کوشش کرنے والے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ اعمال ہیں کیونکہ یہی اعمال ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، ہدایت پر قائم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہْدِیْہِمْ رَبُّہُمْ بِاِیْمَانِہِمْ (سورۃ یونس آیت نمبر10) یعنی یقیناًجو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اور مناسب حال عمل کئے انہیں ان کا ربّ ان کے ایمان کی وجہ سے ہدایت دے گا۔ ”

ایمان کے ساتھ نیک اعمال ہدایت کا راستہ دکھانے کا باعث بنتے ہیں

“پس جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ نیک اعمال ہدایت کا راستہ دکھانے کا باعث بنتے ہیں تو ایک مومن جب رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا کی دعا پڑھے گا تو اس کی برکات سے فیض پانے کے لئے، اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے، ہر کجی اور ٹیڑھے پن سے بچنے کے لئے، دعا کے ساتھ اپنے عمل بھی اسی طرح ڈھالنے کی کوشش کرے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے۔ اپنے ایمان کو بچانے کے لئے جو دعائیں ہم کرتے ہیں، تبھی قبولیت کا درجہ پائیں گی جب اس کے لئے ہم اپنی عبادتوں میں بھی تسلسل رکھیں گے اور اعمال صالحہ بجا لانے کی بھی کوشش کریں گے۔ نظام جماعت سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ چھوٹی چھوٹی دنیاوی باتوں کو اپنے ایمان پر ترجیح نہیں دیں گے۔ کسی جماعتی کارکن کے ساتھ معمولی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے نظام جماعت کو اعتراض کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔

اگر شکوے پیدا ہو نے شروع ہوں تو پھر یہ بڑھتے بڑھتےجماعت سے دُور لے جاتے ہیں

“پس جب انسان یہ دُعا کرتا ہے تو ہر وقت ایک کوشش کے ساتھ راستے کی ٹھوکروں سے بچنے کی کوشش بھی کرنی ہو گی۔ ایک توجہ کے ساتھ یہ کوشش کرنی ہو گی۔ اگر کسی کے خلاف اس کے اپنے خیال میں جماعتی طور پرکوئی غلط فیصلہ بھی ہوا ہے تو جہاں تک اپیل کا حق ہے اسے استعمال کرنے کا ہر ایک کو حق ہے، اسے استعمال کرکے پھر معاملہ خداتعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے بجائے اس کے کہ پورے نظام پر بدظنی کرے۔ دنیاوی نقصان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان سمجھ کر برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ اگر شکوے پیدا ہو نے شروع ہوں تو پھر یہ بڑھتے بڑھتے جماعت سے دُور لے جاتے ہیں، خلافت سے بھی بدظنیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ ایک تو کبھی ایسا موقع ہی پیدا نہ ہو کہ ہمارے دل میں کبھی نظام جماعت کے خلاف مَیل آئے۔ ہمارے اعمال ہی ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ کی منشاء اور حکموں کے مطابق ہوں اور نظام کو ہمارے سے کبھی شکایت پیدا نہ ہو۔ اور اگر کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جو ہماری کسی بشری کمزوری کی وجہ سے کسی امتحان میں ڈال دے تو کبھی ایسا نتیجہ نہ نکلے جس سے ہمارے ایمان کو ٹھوکر لگے اور نظام جماعت یا نظام خلافت کے بارے میں کبھی بدظنیاں پیدا ہوں اور یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت نہ ہو۔ ”

بدظنیاں اور شکایتیں اتنی دُور لے جاتی ہیں کہ آدمی دین سے بھی جاتا ہے

“حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ کی دُعابہت پڑھا کرتے تھے۔ پھر ایک حدیث میں یہ بھی روایت ہے کہ جو حضرت شَھر بن حَوشب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مَیں نے اُمّ سلمہؓ سے پوچھا کہ اے اُمّ المومنین! آنحضرتﷺ جب آپ کے یہاں ہوتے تھے تو کون سی دعا کرتے تھے۔ اس پر اُمّ سلمہؓ نے بتایا کہ آنحضرتﷺ یہ دعا پڑھتے تھے کہ یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ کہ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ اُمّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے آنحضرتﷺ سے اس دعا پر مداومت کی وجہ پوچھی کہ آپؐ باقاعدگی سے اس کو کیوں پڑھتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اے اُمّ سلمہ! انسان کا دل خداتعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جس شخص کو ثابت قدم رکھنا چاہے اس کو ثابت قدم رکھے اور جس کو ثابت قدم نہ رکھنا چاہے اس کے دل کو ٹیڑھا کر دے۔ (سنن ترمذی)

پس دیکھیں کس قدر خوف کا مقام ہے اور ہمیں اپنے دل کو ٹیڑھا ہونے سے بچانے کے لئے کس قدر دعا کی ضرورت ہے کیونکہ بدظنیاں ہیں، چھوٹی چھوٹی شکایتیں ہیں جو پھر اتنی دُور لے جاتی ہیں کہ آدمی دین سے بھی جاتا ہے۔ کیا آنحضرتﷺ کا دل نعوذ باللہ ٹیڑھا ہو سکتا تھا۔ یقیناً نہیں اور کبھی نہیں ہو سکتا تھا۔ آپؐ کا دل تو خداتعالیٰ کی یاد کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں۔ آپؐ سے تو خداتعالیٰ نے یہ اعلان کر وایا کہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (آل عمران: 32) یعنی میری اتباع کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ پس آپؐ کا دل ٹیڑھا ہونے کا کیا سوال ہے۔ آپؐ کی پیروی تو گناہوں کی بخشش کے سامان کرنے والی ہے۔ آپؐ کا اوڑھنا بچھونا، جینا مرنا خداتعالیٰ کے لئے تھا۔ آپؐ نے ایک دفعہ فرمایا کہ نیند میں بھی میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن دماغ میں اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی یاد ہوتی ہے۔

پس آنحضرتﷺ کی دُعا ہمارے لئے نمونہ قائم کرنے کے لئے تھی جو آپؐ کیا کرتے تھے اور اُمّت کے لئے تھی کہ ان کے دل کبھی ٹیڑھے نہ ہوں اور جب مسیح و مہدی کا زمانہ آئے تو آنے والے مسیح موعود کو مان لیں۔ کاش کہ مسلمان اس اہم نکتہ کو سمجھیں۔ ’’

اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ سچائی کو دیکھ لینے کے بعدپھر انسان راستے سے بھٹک جائے

“اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ سچائی کو دیکھ لینے کے بعد، ان لوگوں کی نسلوں میں پیدا ہونے کے بعد جنہوں نے سچائی کو پایا اور اس کی خاطر قربانیاں دیں پھر انسان راستے سے بھٹک جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھنے اور ان سے حصہ لینے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں۔ یہ مسلمان بھی سوچیں اور غور کریں۔ آج کل بھی دیکھ لیں کیا مسلمانوں کے حالات انہی باتوں کی نشاندہی نہیں کر رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آنحضرتؐ کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کے طور پر جو مسیح موعود آیا اس کو مسلمان اس لئے نہیں مانتے کہ اب ہمیں کسی ہادی کی ضرورت نہیں۔ دراصل یہ آج کل کے نام نہاد علماء اور مولوی کے مفاد میں نہیں ہے کہ اُمّت مسلمہ مسیح موعود کو مانے کیونکہ اس سے ان کی دکانداری ختم ہوتی ہے۔ اور بہانہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی یا مصلح نہیں آ سکتا کیونکہ آپؐ کی خاتمیت نبوت پر حرف آتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ قرآن کریم ہمارے سامنے ہے ہمیں کسی مسیح مہدی یا مصلح کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ مَیں اس پہ کافی تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں خلافت کی ضرورت کا انکار نہیں کرتے۔ لیکن جاہل یہ نہیں سمجھتے کہ مسیح موعود کے بغیر خلافت کا کوئی تصور پیدا ہو ہی نہیں سکتا اور مسیح موعود کا آپؐ کی اُمّت میں سے آناہی آنحضرتﷺ کے خاتم النبییّن ہونے کا ثبوت ہے۔ لیکن ان لوگوں کا قرآن سمجھنے کا دعویٰ تو ہے لیکن یہ چیز ان کو سمجھ نہیں آتی اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کایہی فہم قرآن کریم ہمارے سامنے ہے کہ کسی ہادی کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم بھی اُنہی پر کھلتا ہے یا اُنہی پر اس کی تعلیم روشن ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہوں اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی اللہ تعالیٰ کے وہ چنیدہ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے اسرار ہمیں کھول کر بتائے، اُن راستوں کی نشاندہی کی جن سے اس کا فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ ”(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 50 مورخہ 12؍دسمبر2008ء صفحہ 5تا7)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button