حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 19؍ ستمبر 2014ء میں فرمایاکہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 19؍ ستمبر 2014ء میں فرمایاکہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ’’ہر شخص کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کرے اور اللہ تعالیٰ کاخوف اس کو بہت سی نیکیوں کا وارث بنائے گا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی اچھا ہے کیو نکہ اس خوف کی وجہ سے اس کو ایک بصیرت ملتی ہے جس کے ذریعہ وہ گناہوں سے بچتا ہے۔ بہت سے لوگ تو ایسے ہو تے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعام اور اکرام پر غور کر کے شرمندہ ہو جاتے ہیں اور اس کی نافر مانی اور خلاف ورزی سے بچتے ہیں۔ لیکن ایک قسم لوگوں کی ایسی بھی ہے جو اس کے قہر سے ڈر تے ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ اچھا اور نیک تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پرکھ سے اچھا نکلے۔ بہت لوگ ہیں جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہم متقی ہیں۔ مگر اصل میں متقی وہ ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ کے دفتر میں متقی ہو۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسم ستّار کی تجلی ہے‘‘ (یعنی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ستاری فرما رہا ہے) ’’لیکن قیامت کے دن جب پردہ دری کی تجلی ہو گی اس وقت تمام حقیقت کھل جائے گی۔ اس تجلی کے وقت بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو آج بڑے متقی اور پرہیز گار نظر آتے ہیں قیامت کے دن وہ بڑے فاسق فاجر نظر آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمل صالح ہماری اپنی تجویز اور قرار داد سے نہیں ہوسکتا۔ اصل میں اعمال صالحہ وہ ہیں جس میں کسی نوع کاکوئی فسادنہ ہو کیونکہ صالح فساد کی ضد ہے۔ جیسے غذا طیب اس وقت ہو تی ہے کہ وہ کچی نہ ہو، نہ سڑی ہوئی ہو اور نہ کسی ادنیٰ درجہ کی جنس کی ہو بلکہ ایسی ہو جو فوراً جزوِ بدن ہو جانے والی ہو۔ اسی طرح پر ضروری ہے کہ عمل صالح میں بھی کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق ہو اور پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو، نہ عُجب ہو، نہ ریا ہو، نہ وہ اپنی تجویز سے ہو۔ جب ایسا عمل ہو تو وہ عملِ صالح کہلاتا ہے اور یہ کبریتِ احمر ہے۔‘‘ (یعنی بہت بڑی نایاب چیز ہے۔)

اس بارے میں کہ شیطان کس طرح گمراہ کر رہا ہے، ہر وقت مومنوں کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ اس لئے تمام لوگوں کو، ہر مومن کو، اس شیطان سے اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ

’’شیطان انسان کو گمراہ کر نے کے لیے اور اس کے اعمال کو فاسد بنا نے کے واسطے ہمیشہ تاک میں لگا رہتا ہے یہانتک کہ وہ نیکی کے کاموں میں بھی اس کو گمراہ کر نا چاہتا ہے‘‘۔ (یہ نہ سمجھیں کہ شیطان نیکی کے کاموں میں گمراہ نہیں کرتا) ’’اور کسی نہ کسی قسم کا فساد ڈالنے کی تدبیریں کرتا ہے۔ نماز پڑھتا ہے تو اس میں بھی ریا وغیرہ کوئی شعبہ فساد کاملاناچاہتا ہے۔‘‘ (یعنی دکھاوے کی نمازیں ) ’’ایک امامت کرانے والے کو بھی اس بلا میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ پس اس کے حملہ سے کبھی بے خوف نہیں ہو نا چاہئے کیونکہ اس کے حملے فاسقوں فاجروں پر تو کھلے کھلے ہو تے ہیں۔ وہ تو اس کا گو یا شکار ہیں لیکن زاہدوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ نہیں چُوکتا اور کسی نہ کسی رنگ میں موقع پاکر ان پر بھی حملہ کر بیٹھتا ہے۔ جولوگ خدا کے فضل کے نیچے ہو تے ہیں اور شیطان کی باریک درباریک شرارتوں سے آگا ہ ہو تے ہیں وہ تو بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن جوابھی خام اور کمزور ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 425-426۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button