متفرق مضامین

’’لجنہ اماء اللہ‘‘: حضرت مصلح موعودؓ کی اولوالعزمی کا منہ بولتا ثبوت

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

’’کسی بھی قوم کے بنانے یا بگاڑنے میں عورت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ‘‘

مالی قربانیوں کے چند لازوال نمونے

روحانی احیاء اور دنیا کی محبت سرد ہونے کا ایک ثبوت جماعت احمدیہ کی عظیم مالی قربانیاں ہیں۔ جن کی بنا حضرت مسیح موعودؑنے ڈالی اور جن پر ایک عالیشان عمارت حضرت مصلح موعودؓ نے تعمیر کی جس کا ہر کمرہ احمدیوں کے پر خلوص مال سے لبریز ہے۔

حضورؓ نے 52سالہ دَور میں ایک اندازے کے مطابق 56مالی تحریکات کیں اور ان میں سے ہر ایک کا دامن چھلکا پڑتا ہے۔ تحریک جدید اپنے وقت کا بہت بڑا مطالبہ تھا جس کی مالیت 27؍ہزار تھی مگر جماعت نے ایک لاکھ روپیہ پیش کر دیا۔

ایک پٹھان عورت حضورؓ کی خدمت میں دو روپے لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یہ دوپٹہ دفتر کا ہے یہ پاجامہ دفتر کا ہے۔ یہ جوتی دفتر کا ہے۔ میر ا قرآن بھی دفتر کا ہے۔ میری ہر ایک چیز مجھے بیت المال سے ملا ہے۔ (الفضل 15؍فروری 1923ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’جب تقسیمِ ملک ہوئی اور ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی۔ رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپنا زیور نکال کر کہنے لگی کہ حضور میرا یہ زیور چندے میں دےدیں۔ مَیں نے کہا: بی بی! عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے۔ تمہارے سارے زیور سکّھوں نے لوٹ لئے ہیں۔ پارٹیشن کے وقت سکّھوں نے مسلمانوں کا سارا سامان لوٹ لیا تھا۔ تو یہی ایک زیور تمہارے پاس ہے۔ تم اسے اپنے پاس رکھو۔ اس پر اس نے کہا حضور! جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو میں اپنا یہ زیور چندہ میں دےدوں گی۔ اگر سکھ باقی زیورات کے ساتھ یہ زیور بھی چھین کر لے جاتے تو میں کیا کر سکتی تھی۔ جس کی نیت کی تھی کہ چندہ میں دےدوں گی وہ بچ گیا اور باقی سارا زیور لوٹا گیا اور سارا سامان لوٹا گیا اس لئے میں مجبور ہوں، آپ میری اس بات کو ردّ نہ کریں اور اس کو وصول کرلیں۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار حصہ دوئم صفحہ 175مطبوعہ قادیان)

قربانی و ایثار کے باب میں مردوں کے دوش بدوش احمدی مستورات نے بھی کئی اہم سنگ میل نصب کیے ہیں۔ مسجد فضل لندن، مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) اور مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن (ڈنمارک) کی تعمیر کے تمام تر اخراجات خواتین نے ہی برداشت کیے ہیں۔ جبکہ نائیجیریا میں چار مساجد احمدی مستورات کے چندوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ نیز بشمول جرمن، دو زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت بھی خواتین کے چندے سے کی گئی ہے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد فضل لندن کی تعمیر کے لیے چندے کی تحریک فرمائی تو کئی خواتین نے اپنا تمام تر زیور بلاجھجک حضورؓ کے قدموں میں نچھاور کردیا۔ ایک مخلص خاتون محترمہ کریم بی بی صاحبہ زوجہ محترم منشی امام الدین صاحب پٹواری نے اپنی والدہ کی نشانی کے طور پر صرف ایک زیور اپنے پاس رکھ کر باقی سارا زیور پیش کردیا جو ترازو میں سیروں کے حساب سے تولا گیا۔

(اصحاب احمد جلد اول صفحہ125)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جرمنی میں ایک مسجد بنانے کی تحریک فرمائی جس کے خرچ کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ تھا۔ یہ تحریک گو تمام جماعت کے لیے تھی، لیکن جماعت کی مخلص اور قربانی کرنے والی خواتین نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اس تحریک میں شامل ہونے والوں کے لیے کم از کم ڈیڑھ صد روپے دینے کی شرط تھی۔ اس مسجد کی بنیاد 22؍فروری1957ء کو رکھی گئی اور 22؍جون 1957ء کو اس کا افتتاح ہوا جس کے لیے مرکز سے حضرت مصلح موعودؓ نے خاص طور پر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو ہمبرگ بھجوایا۔

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 464، ایڈیشن 1972ء)

شدھی کے خلاف جہاد میں احمدی مستورات کی شمولیت

1923ء کے شروع میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شدھی تحریک کے خلاف خصوصی جہاد کا اعلان فرمایا۔ ہندوستان کے علاقہ یوپی میں ارتداد کی تحریک اُٹھی تھی۔ ملکانہ راجپوت کہلانے والی مسلمان قوموں کو آریہ دوبارہ شُدھ کرنے لگے تھے۔ احمدی عورت دینی اغراض کے لیے بڑھ کے قربانی کے لیے ایسی تیار ہو چکی تھی کہ فوراًا پنے پیارے امام کی خدمت میں خطوط لکھے۔ جس پر 13؍مارچ 1923ءکے درسِ قرآن میں آپؓ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا: ’’راجپوتوں میں تبلیغ کے متعلق تحریک کی گئی ہے۔ اس کو سُن کر عورتوں کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ اس موقع پر ہمیں بھی خدمتِ دین کا موقع دیا جائے۔ ان کو اس خدمت دین میں شامل کرنے کا سوال تو الگ ہے۔ اور اس کے متعلق پھر فیصلہ کیا جائے گا ۔مگر اس سے یہ تو ظاہر ہےکہ مستورات میں بھی قربانی اور ایثار کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اور وہ بھی ہر خدمتِ دین میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں۔‘‘

(الفضل قادیان 15؍مارچ1923ءصفحہ11)

ایک خاتون محترمہ سعیدہ صاحبہ نے لاہور سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھا: ’’عاجزہ نے پرچہ اخبار زمیندار میں پڑھا ہے کہ بیس مسلمان عورتیں ہندو ہوچکی ہیں۔ عاجزہ کی عرض ہے کہ یہ واقعہ پڑھ کر میرے دل کو سخت چوٹ لگی ہے میرا دل چاہتا ہے کہ اسی وقت اُڑ کر چلی جاؤں اور اُن کو جاکر تبلیغ کروں اگر حضور پسند فرمائیں اور حکم دیں تو عاجزہ تبلیغ کے واسطے تیار ہے۔ ‘‘

ایک خاتون محترمہ سردار بیگم صاحبہ دختر شیخ محمد حسین صاحب سب جج زیرہ ضلع فیروز پور نے لکھا: ’’مرد اکثر اوقات کسی نیک کام کرنے سے اس لئے بھی رُک جاتے ہیں کہ اُن کی عورتیں راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ پیاری بہنو اور بزرگو! خبردار ! اس کام کے کرنے میں ہرگز حائل نہ ہونا ورنہ جہنم کا منہ دیکھنا پڑے گا تم خود مردوں سے کہو کہ نکلو اسلام کی عزت رکھنے کا وقت ہے …جو بہنیں اپنے مردوں کو بھیجنے کے ذریعے سے مدد نہیں کرسکتیں وہ اپنے مال سے مدد کریں۔ ‘‘(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 121، ایڈیشن 2009ء)

محترمہ محمودہ خاتون صاحبہ(اہلیہ عبد الرحیم صاحب مالیر کوٹلہ ) نے مردوں کی خدمات کے مواقع پر رشک کے جذبات کا اظہار کیا اور میدانِ عمل میں ایک مربی کو بھجوانے کا خرچ اُ ٹھانے کا وعدہ کیا۔ محترمہ امۃ الرحمٰن صاحبہ( ہمشیرہ قاضی عبد الرحیم صاحب) اور محترمہ عمر بی بی صاحبہ والدہ محمد عبدالحق صاحب آ گرہ نے اپنے آپ کو خدمت کے لیے تین ماہ کےلیےوقف کرنے کے خطوط لکھے۔ لجنہ اماء اللہ کی طرف سے حضرت سیّدہ امۃا لحئی صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عید کے موقع پر ان راجپوت عورتوں کے لیے دوپٹوں کے تحفے بھیجے جنہوں نے فتنہ ارتداد کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ چھ سالہ صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ نے بھی ایک چھوٹا دوپٹہ تحفے میں بھیجا۔ محترمہ زینب صاحبہ زوجہ فقیر محمد صاحب رائے پور نے اپنے سارے گھر کا اسباب چندہ میں دے دیا اور دونوں میاں بیوی نے میدان ِ ارتداد میں خدمات کے لیے خود کو پیش کیا۔ سکندرآباد اور حیدر آباد دکن کی 75خواتین نے ایک جلسہ کیا۔ اہلیہ صاحبہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے ارتداد سے بچانے کے لیے مربیان بھجوانے اور اُن کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے اپیل کی۔ (ماخوذ ازتاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 123,122، ایڈیشن2009ء)

احمدیت کی ترقی میں احمدی عورتوں نے بھی بےشمار قربانیاں دی ہیں اپنے ایمان کو بچایااور مخالفین اسلام کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔

تحریک تحفظ ناموسِ رسولؐ

1927ء میں لجنہ اماء اللہ کو مضبوط انداز میں تحریک ِتحفظ ناموسِ رسولؐ میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ آریہ سماجی راجپال نے رنگیلا رسول جیسی اشتعال انگیز کتاب لکھ کر اہل غیرت کو للکارا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےپُر زور تحریک چلائی اور خواتین سے اپیل کی کہ وہ چندہ جمع کریں۔ خواتین نے بہت جلد مطلوبہ رقم جمع کی، اس کے علاوہ 22؍جولائی 1927ء کو حضرت سیّدہ سارہ بیگم حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زیر صدارت ایک جلسہ کر کے نَو ریزولیوشنز (RESOLUTIONS)پاس کیں جس کی نقل ہزایکسی لینسی گورنر صاحب پنجاب کو بھی بھیجی گئی۔ یہ ریزولیوشنز خواتین کی بیدارمغز ی، بہادری، جرأت اور دلیری کی آئینہ دار ہیں۔ (الفضل قادیان26؍جولائی1927ءصفحہ10کالم3)

خواتین کا جوش تبلیغ اسلام

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے مبارک عہد خلافت میں جماعت ميں تبلیغ کی روح اس طرح سےپھونک دی تھی کہ ان کے سر پر ہر وقت یہی دھن سوار تھی کہ ہر لمحہ تبلیغ میں صرف ہو۔ ان يوم التبليغ کی رپورٹس اور بيعتوں کی تعداد الفضل ميں باقاعدگی سے شائع ہوتی جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس جوش و خروش سے ان دِنوں تبليغ کی جاتی تھی۔ مرد تو مرد خواتين بھی اس کارِخير ميں کسی سے پيچھے نہ تھيں۔ 20؍فروري 1934ء کے الفضل ميں حضرت سيدہ اُمّ طاہرؓ کی جانب سےا يک رپورٹ شائع ہوئی جس ميں آپ تحرير فرماتی ہيں کہ’’لجنہ کو خدا کے فضل سے تبلیغی کام کی طرف خاص توجہ ہے اور ممبرات اپنے اپنے حلقہ ميں تبلیغ کا کام کرتی رہتی ہيں۔ سال زير رپورٹ ميں حسبِ دستور سيرت النبیؐ کا جلسہ قاديان ميں زيراہتمام لجنہ منعقد ہوا۔ اور خدا کے فضل سے بہت کامياب رہا۔ حاضرات کی تعداد جن ميں غيرمسلم عورتيں بھی کثرت سے شامل تھيں۔ سات آٹھ سو کے قريب تھی۔ يوم التبلیغ ميں بھی لجنہ نے خاص طور پر حصہ ۔ ہندو اور سکھ خواتين کے ہاں جانے کے علاوہ اچھوت کہلانے والی قوم کے محلہ ميں بھی ممبرات اور دوسری بہنوں نے جا کر انفرادی طور پر تبلیغ کی۔ جس کے نتيجہ ميں خدا کے فضل سے بہت سی عورتوں نے اسلام قبول کيا۔ اور کئی غيراحمدی عورتوں نے بيعت کی، فالحمدللّٰہ عليٰ ذالک۔‘‘

(الفضل قادیان 20؍فروری1934ءصفحہ5کالم2)

یہ تو اپنوں کی رپورٹس ہیں۔ آیئے ایک غیر اخبار کی رائے اس بارے میں پڑھتے ہیں۔ اخبار آریہ مسافر25؍مارچ 1934ء کے شمارے میں ایک آریہ اپدیشک احمدیوں کے یوم التبلیغ کاآنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے لکھتا ہےکہ’’…میں 4؍ مارچ 1934ء کو قادیان گیا۔ اسٹیشن سے اتر کرجب شہر پہونچا۔ تو سارا شہر سنسان تھا۔ وردیاں پہنے ہوئے مسلمان والنٹیر ہاتھوں میں لٹھ لئے گھوم رہے تھے۔ اور برقعہ والی عورتوں کے جھنڈ ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ میں نے ان والنٹیروں سے پوچھا آج کیا ہے؟ جواب ملا ’’تبلیغی ڈے‘‘۔ یہ سن کر آ گے بڑھا۔ آگے بھی عورتوں کے غول کے غول ادھر ادھر جا رہے تھے۔ اتنے میں آریہ سماج کے پردھان مل گئے۔ ان سے تبلیغی ڈے کے متعلق بات چیت ہونے لگی۔ انہوں نے کہا۔ مرزائی انجمن ہر سال تبلیغی ڈے مناتی ہے۔ اب کے تو کھلے طور پر ہندوئوں میں تبلیغ کرنے کے لئے یہ دن رکھا گیا ہے۔ میں سارا دن ان کےجوش اور مستعدی کاادا سنیتا سے وچار کرتا رہا۔ نانا پرکار کے خیال میرے دل میں آتے جاتے تھے۔ چت اداس رہا۔ سائینگ کال کے سمے باہر گھومنے کے لئے جب نکلا۔ تو کیا دیکھتا ہوں۔ کہ باہر سے لوگوں کے غول اتنے خوشی میں اور امنگوں سے بھرے ہوئے۔ کہ پائوں پر دھول پڑی ہے۔ چہروں پر پسینہ کے نشان ہیں۔ چاروں طرف سے آ رہے ہیں۔ پوچھا کہاں گئے تھے۔ جواب ملا۔ تبلیغ کے لئے۔ عورتیں بھی سارا دن ہندو محلوں میں پھرتی رہیں ۔‘‘(الفضل قادیان یکم اپریل 1934ءصفحہ 4)

دین کی خاطر جان کا نذرانہ

قربانی کرنے والوں کی مثالوں میں ایک احمدی خاتون کا ذکر جماعت کی تاریخ میں ملتا ہے جن کا نام پھوپھی سید صاحبہ تھا۔ 1946ء میں یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت مصلح موعودؓ کی تصویر دیکھ کر احمدی ہوئی تھیں۔ اس وقت اس خاتون کی عمر80سال تھی۔ بیوہ اور بےاولاد تھیں اور گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی تھیں۔ بہت سارے بچے بچیاں ان کے پاس پڑھتے تھے۔ بیعت کرتے ہی لوگوں نے ان سے بچے پڑھائی کرنے سے اٹھوا لیے کہ تم احمدی ہو گئی ہو، کافر ہو گئی ہو اب قرآن کریم تم سے نہیں پڑھوانا اور وہ اپنے گاؤں میں بالکل بے سہارا ہو گئیں۔ آپ کے قبول احمدیت کی شہرت ہوئی تو ان کے بھائی وزیر علی شاہ ان کو اپنے پاس رَن مل شریف گجرات میں لے گئے اور ایک کمرے میں وہاں لا کر ان کو بند کر دیا اور ان کا کھانا پینا بند کردیا۔ اس طرح یہ بھوکی پیاسی کئی دنوں کے فاقے اور بھوک اور پیاس کی وجہ سے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ انہوں نے کوئی آہ و بکا نہیں کی۔ کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی احمدیت چھوڑی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے بھوکی پیاسی مر جاؤں گی لیکن احمدیت نہیں چھوڑوں گی۔ (ماخوذ ازجلسہ سالانہ جرمنی 2018ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب)

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مضامین کا سلسلہ

جب ہندوؤں کی طرف سےکتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ اور رسالہ ’’ورتمان‘‘میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک کے خلاف گستاخیاں انتہا کو پہنچ گئیں اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہایت خطرناک شکل اختیارکرگئی تو حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اورحرمت کی حفاظت کے لیے 1927ء کے آخر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے القا کی گئی ایک تحریک اور مہم ملک کےطول وعرض میں جاری فرمائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کےحالات، پاک سیرت کے درخشاں واقعات اور عالمگیر احسانات کے تذکروں کے لیے جلسوں کے علاوہ نظم و نثرپر مشتمل ایک خاتم النبیینؐ نمبر بھی اس بابرکت سکیم میں شامل فرمایا۔

اس نمبر میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کےمتعلق کل 35مضامین شائع کیےگئےجن کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ، احمدی و غیراحمدی علماءومستورات اور غیر مسلم احباب نے بڑے جوش اورمحبت سےتحریرکیا۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 29تا34)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کےارشاد پر ادارہ الفضل قادیان نے12؍جون1928ءبمطابق23؍ذی الحجہ1346ہجری کو بہتّر(72) صفحات پر مشتمل ایک نہایت شاندار شمارہ ’’خاتم النبیینؐ نمبر‘‘شائع کیا جس میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کےمتعلق حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں سےاقتباسات، حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور دوسرے ممتاز بزرگان احمدیت و علمائے سلسلہ اور احمدی و غیر احمدی مستورات کے مضامین کے ساتھ ساتھ بعض مشہور غیر احمدی زعماء اور غیر مسلم اصحاب کے بھی نہایت بلند پایہ مضامین شامل تھے۔ ان مضامین کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مصلح موعودؓ کی نعتوں کے ساتھ بعض دیگر احمدی احباب کا کلام بھی درج کیا گیا۔

اس خاص نمبر میں 14 احمدی خواتین کےمضامین شائع کیےگئےجن میں اکثر مضامین کاموضوع بانی اسلام حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں کےحقوق اورحسن سلوک قائم فرمانےکےمتعلق تھا۔ یہ مضامین غیرمسلم دنیا کے اسلام پر عورتوں کے حقوق کےمتعلق اعتراض کےجواب میں بےمثال ہیں۔ (الفضل قادیان 12؍جون 1928ء)

محترمہ امۃ الحق صاحبہ بنت حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے اپنے مضمون ’’صنف نازک سےبانی اسلام کاحسن سلوک‘‘ میںلکھا کہ’’غرض میں بصیرت سے علی الاعلان یہ بات کہنے کےلیےتیارہوں کہ مذہب اسلام کےبانی محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صنف نازک کو حیات روحانی اورجسمانی عطاکرنےمیں بےنظیرہیں۔‘‘(الفضل قادیان 12؍جون 1928ءصفحہ 61کالم3)

دین اسلام کے لیے جذبات کی قربانی

تبلیغ میں واقفین زندگی کی بیویوں کا کردار اس پھول کی طرح ہے جس سے عطر بنتا ہے۔ عطر کی خوشبو تو محسوس ہوتی ہے لیکن پھول کسی کو نظر نہیں آتا۔ واقفین زندگی کی بیویوں کی زندگی بھی وقف ہوتی ہے۔ وہ ہرگرم اور سرد میں ان کا ساتھ دیتی ہیں، مشکلات کے وقت حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور اپنے خاوند کے کام کو خوش اسلوبی سے جاری رکھنے میں اپنے خلوص اور اعلیٰ اخلاص سے خاصا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی خاموشی میں ایک گو یائی ہو جاتی ہے، ایسی گو یائی جو حیرت انگیز طور پردلوں پر اثر کرنے والی ہوتی ہے۔ ہماری جماعت ایسی مثالوں سے منور ہے۔ مبلغین اسلام کی بیویوں نے شروع میں جب حالات اچھے نہیں تھے، بڑی بڑی قربانیاں دیں اور بغیر خاوندوں کے رہیں اور بچے اس طرح پالے جیسے یتیمی میں پالے جاتے ہیں۔

حکیم فضل الرحمٰن صاحب مبلغ افریقہ کی زندگی بہت لمبا عرصہ باہر گزری۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حکیم فضل الرحمٰن صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہ شادی کے تھوڑاعرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ کے لیے چلے گئے تھے اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے بال سفید ہو چکے تھے اور ان کے بچے جوان ہو چکے تھے‘‘(محسنات صفحہ 120)

مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوٹی کے بارے میں اسی کتاب میں لکھا ہے کہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نکاح کے بعد رخصتانہ سے قبل ہی افریقہ چلے گئے تھے اس زمانے میں مبلغین کی بھی اتنی کمی تھی …پھر جنگ کی وجہ سے واپس نہ ہو سکے وہ لکھتے ہیں کہ اب ان کو 9,8سال کے قریب ہوگئے ہیں اور ابھی عزیزہ موصوفہ کا رخصتانہ نہیں ہوا۔ مجھے یاد نہیں کہ کتنی مدت کے بعد آئے تھے تو وہ کنواری دلہن بوڑھی ہو چکی تھی اور اس عمر میں داخل ہوگئی تھی کہ جس کے بعد پھر بڑھاپے کے انتظار کے چند سال ہی رہ جاتے ہیں انہوں نے اکثر وقت تنہائی اور جدائی میں کاٹا۔ (محسنات صفحہ 121)

حضرت فضل عمرؓ نے 1956ءمیں لجنہ کے سالانہ اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہمارے کئی مربی ایسےہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ ان عورتوں کے بال اب سفید ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے بعد چھوڑ کر لمبے عرصے کے لیے باہر چلے گئے تھے۔ ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ چلے گئے تھے۔ ان کے واقعات سن کر انسان کو رقت آ جاتی ہے۔ایک دن انکا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہا کہ امی ابا کسے کہتے ہیں؟ ہمیں پتہ نہیں ہمارا بابا کہاں گیا ہے؟ کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لیے چلے گئے اور جب واپس آئے تو وہ بچے 17،17، 18،18 سال کے ہو چکے تھے۔ اب دیکھو یہ ان کی بیوی کی ہمت اور اس بیوی کی ہمت ہی کا نتیجہ تھاکہ وہ ایک لمبے عرصے تک تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتیں تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلے کو مجبور کرتے کہ انہیں بلا لیا جائے۔ ‘‘(محسنات صفحہ122تا123)

احمدی خواتین کی ملی قربانیاں

تحریک پاکستان کی نامور مجاہدہ اور برصغیر کی پہلی مسلمان صحافی خاتون محترمہ قریشہ سلطانہ المعروف بیگم شفیع احمد نے 1920ء میں احمدیت قبول کی۔ جب مسجد فضل لندن کےلیے چندےکی تحریک ہوئی تو بیگم شفیع احمد نے اپنا پنج لڑا ہار پیش کردیا۔ 18؍اپریل1927ء کو دہلی میں لجنہ اماء اللہ کا قیام حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ذریعے ہوا تو بیگم شفیع احمد پہلی سیکرٹری مال مقرر ہوئیں۔ آپ بہت اعلیٰ مقررہ بھی تھیں۔ خواتین کے جلسہ سالانہ 1934ء میں بھی آپ کو تقریر کرنے کا موقع ملا۔ 31؍ اکتوبر 1941ء کو حضرت سید شفیع احمدؓ وفات پاگئے تو گھریلو رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ پر نظر ڈال کر آپ کے مونہ سے بے ساختہ نکلا ’’یا اللہ اب ہمارا کیا بنے گا؟ ‘‘اسی لمحے ایک جلالی آواز آپ کے کانوں میں آئی کہ ’’تیرا خدا تو نہیں مرا وہ تو ہمیشہ زندہ رہے گا‘‘۔ …پھر ایک روز آپ نے خواب میں اپنے خاوند کو دیکھا جو کہہ رہے تھے کہ آپ اخبار ’’دستکاری‘‘جاری کریں۔ یہ اخبار 1913ء سے حضرت سید شفیع احمد صاحبؓ کی وفات تک جاری ہوتا رہا تھا۔ اس خواب کے بعد 1943ء میں بیگم شفیع احمد بھی میدان صحافت میں آگئیں اور ہفتہ وار ’’دستکاری‘‘جاری کردیا۔ آپ کے کئی اداریوں نے نہ صرف آپ کو شہرت کی منزل پر پہنچا دیا بلکہ آپ کو دہلی کی کئی انتظامی کمیٹیوں کا ممبر بھی بنادیا گیا۔ اس سے پہلے سے آپ مسلم لیگ کی پرجوش رکن بھی تھیں۔ 1938ء میں آپ کو محمد علی جناح صاحب نے مقامی شعبہ خواتین کا نگران بنادیا اور بعد میں ورکنگ کمیٹی کا ممبر بھی نامزد کردیا۔ آپ پریس کانفرنسوں اور میٹنگوں میں پردے کی رعایت کے ساتھ اور اپنے بیٹے کے ہم راہ شامل ہوتیں۔ ایک موقع پر مسز سروجنی نائیڈو نے آپ کو گلے سے لگا کر برملا اعتراف کیا کہ واقعی برقع آپ کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنا۔ بیگم شفیع احمد نے شملہ کانفرنس اور 1946ء میں عارضی حکومت کی افتتاحی تقریب میں بھی بطور نامہ نگار شرکت کی۔ تقسیم ملک کے بعد مسلمانوں اور قادیان کی حفاظت کے سلسلے میں بھی آپ نے جرأت کے ساتھ نمایاں خدمت انجام دی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے قرون اولیٰ کی خواتین کی قربانیوں کی مثالیں پیش کیں اور پھر احمدی عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ’’اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اسلام کو عزت دینے کے لئے ایک اسلامی علاقہ (پاکستان) قائم کردیا … لیکن ہر نعمت کے لئے کچھ قربانی دینی پڑتی ہے… جب ملک ہمارے پاس آچکا ہے تو اس کو بچانا ہمارا کام ہے۔ اب انگریزوں کے خون سے اس ملک کو بچا یا نہیں جا سکتا بلکہ خود مسلمانوں کے خون سے اس ملک کو بچا یا جائے گا …میں نے بار بار جماعت احمدیہ کے افراد کو توجہ دلائی کہ وہ اٹھیں اور ملک کی خدمت کریں۔ … میں بتاتا ہوں کہ تم میں سے بعض عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھا یا ہے۔ اگر وہ اَن پڑھ جاہل اور غریب عورتیں ایسا اچھا نمونہ دکھا سکتی ہیں تو آسودہ حال اور پڑھی لکھی عورتیں کیوں ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتیں۔ ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے کے لیے ہمارے آدمی گئے انہوں نے جلسہ کیا اور تحریک کی کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے کے لئے لوگ اپنے نام لکھوائیں …جن قوموں میں لڑائی کی عادت نہیں ہوتی اس کے افراد ایسے موقع پر عموما ًاپنے نام لکھوانے سے ہچکچاتے ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا ۔تحریک کی گئی کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر چاروں طرف خاموشی طاریرہی اور کوئی شخص اپنا نام لکھوانے کے لیے نہ اٹھا۔ تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک ہی بیٹا تھا اور جو پڑھی ہوئی بھی نہیں تھی اس نے جب دیکھا کہ باربار احمدی مبلغ نے کھڑے ہوکر تحریک کی ہے کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر وہ ہچکچانےکی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے تو وہ عورتوں کی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اس نے اپنے لڑکے کو آواز دے کر کہا’’او فلانے تو بولتا کیوں نہیں تو نے سنا نہیں کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے تمہیں جنگ کے لئے بلایا جا رہا ہے۔‘‘اس پر وہ فوراً اٹھا اور اس نے اپنا نام جنگ پر جانے کے لیے پیش کردیا تب اس کو دیکھ کر اَورلوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور انہوں نے بھی اپنےنام لکھوانے شروع کر دیے۔ وہ عورت زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ غیر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتی تھی۔ جس کے متعلق زمیندار بڑی حقارت سے یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ لڑنا نہیں جانتے مگر اس نے غیر زمیندار ہو کر اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور ایسی حالت میں محسوس کیا جب کہ وہ بیوہ تھی اور اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا اور آئندہ اسے کوئی بیٹا ہونے کی امید نہیں تھی۔ اس نے کہا جب خدا اور اسلام کے نام پر ایک آواز اٹھائی جارہی ہے تو پھر میرا کوئی بیٹا رہے یا نہ رہے مجھے اس آواز کا جواب دینا چاہیے۔ شدید جذبات مقابل میں ویسے ہی جذبات پیدا کردیاکرتے ہیں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو کئی بزدل جو اپنے آپ کو پہلے بچا رہے تھے انہوں نے بھی اپنے ارادوں کو پیش کرنا شروع کر دیا اور جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی اور خط میں مَیں نے یہ واقعہ پڑھا تو پیشتر اس کے کہ میں اس خط کو بند کرتا میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہا ’’اے میرے ربّ! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے ملک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے۔ اے میرے ربّ!اس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے۔ میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر انسانی قربانی کی ضرورت ہو تو اے میرے ربّ! اس کا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا مارا جائے۔‘‘

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 108، 109، ایڈیشن 1972ء)

بہادری اور دلیری کے نمونے

1958ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی خطاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے خواتین کی دلیری کے واقعات بیان کرتےہوئےفرمایا: ’’اب تو ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں جو مردوں سے زیادہ دلیر ہیں۔ ضلع جھنگ کے چنڈ بھروانہ اور منگلہ کے لوگ نئے احمدی ہوئے ہیں۔ وہاں کی ایک عورت یہاں آیا کرتی ہے وہ جب بیعت کرنے کے لئے ربوہ آئی تو مہمان خانہ میں ٹھہری رات کو اس کی بیٹی بھی آ گئی۔ اس نے کہا اماں تو نے مجھے کس قبیلہ میں بیاہ دیا ہےوہ تو احمدیت کی بڑی سخت مخالفت کررہےہیں۔ بہتیری تبلیغ کرتی ہوں مگروہ سنتے ہی نہیں۔ اس کی ماں کہنے لگی، بیٹی تو میری جگہ آ جا اور اپنے باپ اور بھائیوں کا کھانا پکا میں تیرے سسرال جاتی ہوں اور میں دیکھتی ہوں کہ وہ کس طرح مخالفت کرتے ہیں اور احمدیت کی تبلیغ نہیں سنتے۔ تو اب ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ لوگ ہماری تبلیغ کیسے نہیں سنتے۔ ‘‘(الفضل قادیان 8؍جنوری 1958ءصفحہ 4کالم3)

بہادری اور جرأت کو خراج تحسین

1936ءمیں خاتونِ خانہ کی بہادری سے گھریلو ڈکیتی کو ناکام بنانےکا ایک واقعہ پیش آیا جو خلیفۂ وقت سے خراج تحسین کا باعث بنا اور تاریخ احمدیت میں جگہ پاگیا۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک احمدی بھائی بشیر محمد صاحب لدھیانوی (ضلع مظفر گڑھ) کی عدم موجودگی میں مسلح ڈاکوؤں نے رات کے وقت مکان میں گھس کر مال و اسباب لوٹنا چاہا اور تلوار دکھا کر ان کی اہلیہ غلام فاطمہ صاحبہ اور اُن کے بچوں کو قتل کی دھمکی دی مگر غلام فاطمہ صاحبہ نے بہادری سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا اور اُن کو بھگا دیا۔

حضرت خلیفۃ ا لمسیح ا لثانیؓ نے اس کے متعلق اپنے قلم سے تحریر فر مایا: ’’گو یہ خطرہ تھا، مگر آپ کی اہلیہ نے جس بہادری سے اور عقلمندی سے کام کیا ہے وہ اس واقعہ کو ایک مبارک واقعہ بنا دیتا ہے۔ میری طرف سے بھی اُنہیں مبارک باد دے دیں۔ ‘‘(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 302)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ ایک اور احمدی خاتون کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔ اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سکھ یا ہندو حملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکھوں ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور ان کی سردار بنائی گئی تھی۔‘‘(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 25، ایڈیشن 1972ء)

1948ء میں فرقان فورس کے احمدی مجاہد آزادئ کشمیر کی جنگ میں بہادرانہ کارنامے سر انجام دے رہے تھے۔ یہ امر احمدی مستورات اور بالخصوص لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے لیے باعث فخر ہے کہ احمدی خواتین نے ان مجاہدین کے لیے وردیوں اور کپڑوں کی تیاری میں شبانہ روز محنت اور بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیا اور اس طرح ان صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق پائی جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مختلف غزوات میں اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے اہم جنگی خدمات ادا کرتی رہیں۔ …اس کے علاوہ پانچ صد روپیہ نقد بھی لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے مجاہدین کے لیے پیش کیا جس میں ایک سو روپے کے تولیے اور چار سو روپے کی جرابیں خریدی گئیں۔ بیرونی لجنات نے بھی چندہ دیا۔ (تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ88تا90، ایڈیشن 1972ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے۔ اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں۔ اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا ۔اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے۔ ‘‘ (الفضل 17؍فروری 1960ء صفحہ 2بحوالہ تاریخ احمدیت جلد8صفحہ 153تا154)

خدا کی مددگار لونڈیوں کی یہ بے مثال جماعت عہد رفتہ کی خواتین کے نمونوں کو زندہ کیے ہوئے ہے۔ دَور حاضر میں خلافت کے زیر سایہ بلاشبہ صرف مسیحِ محمدیؐ کی خدمت گار بندیاں ہیں جو اس پُر آشوب دور میں قرون اولیٰ کی قربانیوں کو تازہ کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کی خدمت گار بندیوں کی یہ جماعت اپنے مولائے حقیقی کو ہر حال اور ہر قیمت پر راضی رکھنے کی کوششوں میں آج بھی سر گرمِ عمل ہے۔ آج کی مسلمان احمدی عورت دنیا کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کے بہت سے میدانوں میں مردوں سے مسابقت اختیار کرچکی ہے اور یہ اعزاز صرف ہمارے خطے کی خواتین تک محدود نہیں بلکہ اس مغربی معاشرے اور نامساعد ماحول میں رہنے کے باوجود ہماری خواتین ناصرف عائلی زندگی میں بطورماں، بیٹی، بیوی اپنا کردار خوبصورتی سے نبھا رہی ہیں بلکہ بحیثیت استاد، ڈاکٹر، وکیل، صحافی، آرکیٹیکٹ اور مختلف شعبوں میں اپنی تمام تر تعلیمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مصروف عمل ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ مالی قربانی، تبلیغ، خدمت خلق، مہمان نوازی اور رفاہِ عامہ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ یعنی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوں اور معاشرے کی فلا ح و بہبود میں اپنا مرکزی کردار نہ ادا کر رہی ہوں۔ وہ عورتیں جن میں آج بھی یہ جذبہ ہےکہ وہ اپنی کوکھ میں پلنے والی اولادیں راہ خدا میں اور دین اسلام کی سر بلندی کے لیے پیش کرنے کو بخوشی تیار ہیں۔ تحریک وقف نو اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کتنی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنے واقفین شوہروں کے ساتھ نہایت تنگی ترشی کے حالات دیکھے، شوہروں کی اسیری دیکھی، جوان بچوں کو اپنے ہاتھ سے مولا کے سپرد کیا جو آج بھی حضرت ام عمارہؓ اور حضرت خولہؓ کا سا جگر اور حوصلہ رکھتی ہیں اور کامل اخلاص و وفا سے اپنے عہد کو بھی نبھانے والی ہیں۔ جنہیں آج بھی اس بات کا احساس کھائے جاتا ہے کہ ان کی اولاد کو ایمان نصیب ہوجائے چاہے اس کے بعد ان کی جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔ جو آج بھی اپنے دودھ کے ساتھ خدا کی محبت کا جام پلانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ آج بھی اپنے سپوتوں کو تیار کرکےمیدان تبلیغ میں جہاد عظیم کے لیے تیار کرتی ہیں۔ آج بھی اپنے علم و عمل کو بروئے کار لا کر خلیفہ ٔوقت کی سلطان نصیر بن کر کھڑی ہیں۔ پھر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے اس شعر کے مصداق

نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست

ہاتھوں سے جن کے دین کو نصرت نصیب ہو

اپنی اولاد کی ایسی بہترین تربیت کر رہی ہیں کہ ان کی گودوں میں پروان چڑھنے والےبچے خلیفہ ٔوقت کے کامل اطاعت گزار، سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاکہنے والے اور کسی بھی مشکل میں ہار نہ ماننے والے ہیں۔ یہی وہ لگن، وہ جذبہ ہے جس کا تقاضا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’’مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے… میں سمجھتا ہوں کہ جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگروہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آجائے۔ اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہو جائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے تو ہماری فتح کا دن بہت قریب آجائے۔ ‘‘(الازھار لذوات الخماریعنی اوڑھنی والیوں کے لیے پھول، حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ410تا411)

اے فضل عمر تجھ کو جہاں یاد کرے گا

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی بتاریخ 11؍ جون 2006ءمیں مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’لجنہ کی تنظیم کے قیام سے آپ کو، احمدی عورت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مواقع میسر فرمادیئے جہاں آپ اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مزید چمکا سکتی ہیں۔ پس اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کے آپ کویہ موقع مہیا فرمانے پر شکرگزار بندی بن جائیں اور اُس اُولوالعزم موعود بیٹے کے لئے بھی دعا کریں جس کی دُور رَس نگاہ نے جماعت کے ہر طبقے پر نظر رکھتے ہوئے اُسے جماعت کا مفید وجود بنانے کی کوشش کی۔ …اس شکرگزاری کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے یا بندی کو اس کے احسانوں پر اُس کی کرنی چاہئے، بہترین ذریعہ اُس کی یاد اور اُس کا ذکر ہے۔ اور اُس کے ذکر اور عبادت کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق نمازوں کی ادائیگی ہے۔ اِس میں پانچ وقت کی نمازیں بھی ہیں اور نوافل کی ادائیگی بھی ہے۔ …اگرآپ عبادت کر رہی ہیں اور نمازوں کی ادائیگی کر رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان عبادتوں کے طفیل آپ کے بچوں کے مستقبل بھی روشن کردے گا اور آپ پر بے شمار فضل فرمائے گا، بہت سی کامیابیوں سے نوازے گا۔ یہی اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے و عدہ ہے کہ عاجزی سے نمازیں پڑھنے والے، اُس کے آگے جھکنے والے، کسی کو اُس کا شریک نہ بنانے والے، اُس کے فضلوں کے وارث ٹھہرتے ہیں۔ …پس آپ جن کے ہاتھ میں مستقبل کی نسلوں کو سنوارنے کی ذمہ داری ہے آپ کا کام ہے کہ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کریں۔ اپنے آپ کو بھی ایک خدا کی عبادت کرنے و الا بنائیں اور اپنے بچوں کے لئے یہ نیک نمونے قائم کرتے ہوئے ان کی بھی نگرانی کریں کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہورہا ہے۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل19؍جون2015ءصفحہ20)

جلسہ سالانہ ماریشس کے موقع پر 3؍دسمبر 2005ء کوخواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انور فرماتے ہیں: ’’کسی بھی قوم کے بنانے یا بگاڑنے میں عورت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ مستقبل کی نسلیں اس کی گود میں پرورش پارہی ہوتی ہیں۔ ‘‘

اولاد میں اپنی قوم اور ملک کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’بچہ کی سب سے اعلیٰ تربیت گاہ اس کی ماں ہے۔ پس اس لئے مائوں کو بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہماری ساری عورتیں یہ ذمہ داری ادا کرنے والی ہو جائیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ’’پچاس فیصد بھی ہو جائیں تو نسلوں کی حفاظت کی وہ ضمانت بن جائیں گی۔ ‘‘ (ماخوذ از لجنہ اماء اللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے، انوار العلوم جلد17 صفحہ296) ان کے دین کو سنوارنے والی بن جائیں گی۔ ان کاخدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والی بن جائیں گی۔ اسی طرح اپنی اولاد میں اپنی قوم اور ملک کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا بھی مائوں کا کام ہے اور یہ بھی عہد ہے۔ آپ کے عہد میں شامل ہے۔ ان کے ذہنوں کو مکمل طور پر قوانین کی پابندی کے لئے تیار کرنا مائوں کا کام ہے۔ برائی اور اچھائی میں تمیز پیدا کروانا مائوں کا کام ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا، اس کی طرف توجہ دلانا مائوں کا کام ہے۔ ‘‘

(الفضل انٹرنیشنل21تا27؍اکتوبر2016ءصفحہ6)

احمدی خواتین کی ذمہ داریاں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی بچی اور ایک احمدی عورت کا ایک تقدس ہے اس کی حفاظت اس کا کام ہے کوئی ایسا کام نہ کریں جو دین سے دور لے جانے والا ہو۔ کوئی ایساکام نہ کریں جس سے آپ کے تقدس پر حرف آتا ہو عورتوں کو کام کرنا ہے… اس لئے ایسا کام کریں پڑھائی میں ایسی لائن احمدی بچیاں چنیں جو اُن کو فائدہ دینے والی ہو اورا نسانیت کو بھی فائدہ دینے والی ہو… وہ علم حاصل کیا جائے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا یعنی علم الابدان و علم الادیان۔ احمدی بچیاں پڑھائی میں عموماً ہوشیار ہوتی ہیں انہیں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ اور دین کی تعلیم تو ہر احمدی مرد و عورت کے لئے لازمی ہے۔ اس سے دنیا کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں گی۔ بچیوں کے لئے ان کے لئے زبانیں سیکھنا بڑی اچھی بات ہے اس سے بہت فائدہ ہو گا جماعت کوبھی فائدہ ہو گا ترجمہ کرنے والی میسر آ جائیں گی دنیا کو بھی فائدہ ہو گا۔ آپ کی نسلوں کو بھی فائدہ ہو گا۔ تو بچیوں کو ایسے مضامین لینے چاہئیں جو ان کے لئے انسانیت کے لئے آئندہ نسلوں کے لئے فائدہ مند ہوں اور سب سے بڑھ کر دین سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔‘‘ (’’الازھار لذوات الخمار‘‘جلد سوم حصہ دوم صفحہ10-11 جلسہ سالانہ برطانیہ2006ء مستورات سے خطاب)

خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج احمدی خواتین اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور اپنے عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے نہ صرف اپنی آئندہ نسلوں کی بہترین رنگ میں تربیت کرنے والی ہیں بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی زندگیاں وقف کرکے معاشرے اور ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود میں بھی نہایت مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں۔

جن میں شعبہ ہیومینٹی فرسٹ کے تحت مختلف منصوبوں کی تکمیل میں امداد ہے۔ گذشتہ برسوں میں شعبہ خدمت خلق لجنہ اماء اللہ کے تحت خون کے عطیات اکٹھا کرنے کا انتظام ہے، جس میں کافی تعداد میں خواتین بھی حصہ لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی غریب بچیوں کی شادی کے لیے جہیز و بنیادی اشیاء کی فراہمی میں مدد کے لئے ’’مریم شادی فنڈ‘‘ کے نام سے بھی اس شعبے کے تحت بھرپورکام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بوڑھوں کے لئے قائم کردہ اداروں میں وقتاً فوقتاً خواتین اور بچیاں اکٹھی ہوکر پھول اور ہاتھ سے نیک خواہشات کے کارڈز وغیرہ بناکر لے جاتی ہیں۔ اور خاص مواقع پہ اظہار یک جہتی کے طور پر پھول اور کارڈز کے ساتھ چھوٹے چھوٹے تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب کبھی کسی غیر متوقع صورت حال یا ہنگامی حالات کا سامنا ہو اور کسی بھی قسم کی مدد اور تعاون کی ضرورت پڑی تومردوں کے شانہ بشانہ خواتین نے بھی اس میں بھرپور حصہ لیا اور تعاون کیا۔ اللہ کے فضل سے بہت سی احمدی خواتین اپنے بچوں کے سکول اور کنڈر گارڈن میں والدین کی نمائندہ کے طور پر منتخب ہوکر اچھا کام کررہی ہیں۔ پھر بہت سے ایسے اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا جاتا ہے جو بطور سوشل ورکر بے سہارا عورتوں کی مالی امداد، اور خواتین کی بہبود کے لیے عطیات اکٹھے کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کورونا کی وبا کے آغاز میں شعبہ صنعت وحرفت اور خدمت خلق کے تحت لجنہ اماء اللہ نے ہزاروں کی تعداد میں فیس ماسک، کارڈز، پھول اور گفٹ پیک تیار کرکے مختلف اداروں میں رضاکارانہ طور پہ پیش کیے ہیں جس میں سینکڑوں احمدی خواتین نے بھر پور حصہ لیا۔ الحمدللہ۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بے شمار معمولات ہیں جہاں یہ خدا تعالیٰ کی لونڈیاں خاموشی سے اپنا کام سر انجام دے ر ہی ہیں اور ان سب سے نہ صرف وہ اپنے سچے وعدوں والے خدا کو خوش کرنے کا باعث بن رہی ہیں بلکہ معاشرے کی اور وطن کی وہ گمنام مجاہدات ہیں جن کا شاید آج کسی کواعتراف نہ ہو مگر آنے والا وقت یہ ثابت کرے گا کہ انہوں نے ملک و قوم کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے۔

خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ ہمیں احسن رنگ میں اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین

اے فضل عمر تیرے اوصاف کریمانہ

بتلا ہی نہیں سکتا میرا فکرِ سخندانہ

ہر روز تو تجھ جیسے انسان نہیں لاتی

یہ گردشِ روزانہ یہ گردش دورانہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. محترمہ درثمین صاحبہ نے حضرت مصلح الموعود رضی اللہ تعالی کے خواتین پر جو احسانات ہیں جن میں سب سے اہم "لجنہ اماء اللہ” کا قیام ہے وہ نہایت احسن رنگ میں بیان کیے ہیں اور بہت خوبصورت واقعات سے اپنے مضمون کو مزین کیا ہے۔ اللہ تعالی بہترین جزاء دے۔ آمین ثم آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button