متفرق مضامین

حضرت مصلح موعودؓ کی عظیم الشان اور دائمی اثرات والی پیشگوئیاں (قسط دوم۔ آخری)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

حضرت مصلح موعودؓ …نے اعلان کیا کہ میں مر جاؤں گا مگر میرا نام اور کام کبھی نہیں مٹے گا۔ وہ 1965ء میں اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور آج 57 سال بعد واقعات اقرار کررہے ہیں کہ اس کی پیشگوئیاں سچی نکلیں اور اس کے دعاوی آسمان پر تابندہ ہیں

12۔ خلفاء کو بشارت

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیاجائے گا اور تباہ کیا جائے گا‘‘۔ (خلافت حقہ اسلامیہ، صفحہ17)

حضرت مصلح موعودؓ نے 17؍مارچ 1919ء کو جلسہ سالانہ پر فرمایا: ’’پہلے خلفاء میں سے بعض جیسے عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دکھ دیا گیا۔ مگر میں امید کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اس کا بھی ازالہ کرے گا۔ اور ان کے خلفاء کے دشمن ناکام رہیں گے۔ کیونکہ یہ وقت بدلہ لینے کا ہے۔ اور خدا چاہتا ہے کہ اس کے پہلے بندے جن کو نقصان پہنچایا گیا ان کے بدلے لئے جائیں ‘‘۔ (انوارالعلوم جلد4صفحہ415)

13۔ مخالفین پر غلبہ

آغاز جوانی میں آپؓ کو یہ الہام بھی ہوا انَّ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔ یعنی جو لوگ تیرے متبع ہوں گےوہ تیرے مخالفین پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ آپؓ کا ایک نام آپ کے الہام میں مظفر بخت بھی رکھا گیا ہے۔ (الفضل3؍اگست 1944ء رؤیاوکشوف سیدنا محمود صفحہ 247)

چنانچہ یہ بات سچ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے متبعین، مبلغین اور مناظرین نے ہمیشہ مخالفین کو شکست دی ہے اور دیتے چلے جا رہے ہیں۔ صرف مولوی ظفر علی خان کا ایک اعتراف اس مقصد کے لیے کافی ہے جو انہوں نے احراریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’احراریو! کان کھول کر سن لو تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے۔ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے۔ تمہارے پاس کیا خاک دھرا ہے۔ تم میں سے کوئی ہے جو قرآن کے سادہ حرف بھی پڑھ سکے۔ تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا۔ مرزا محمود کی مخالفت تمہارے فرشتے بھی نہیں کر سکتے۔ ‘‘(ایک خوفناک سازش مصنفہ مظہر علی اظہر صفحہ 196)

پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے خلیفہ کی مدد کرے گا وار اس کی دعاؤں کو سنے گا اور اس کے لیے دو فضلوں کے دروازے کھولے گا۔ یعنی مادی بھی اور روحانی بھی اور وہ اس کے مردہ کاموں کو زندہ کرے گا اور ناامیدی میں سے اس کے لیے امید کی راہیں نکالے گا۔ (الفضل 25؍نومبر 1949ء رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 436)اس کے مردہ کاموں کو زندہ کرنے کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس کے وہ منصوبے اور سکیمیں جو اس کی زندگی میں مکمل نہیں ہو سکیں وہ اس کے بعد بھی تکمیل پاتی رہیں گی۔ اس کی سب سے بڑی مثال مسجد برلن کی ہے جس کی تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے کی مگر بوجوہ پروان نہ چڑھ سکی اور خلافت خامسہ میں اس کی تکمیل ہوئی۔

14۔ تحریک احرار 1934ء کی ناکامی

1930ء کی دہائی میں احرار نے جماعت کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کی جو 1934ء میں عروج کو پہنچی اور انگریز حکومت اور عام مسلمان بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اس وقت حضورؓ کو کئی رؤیا میں دشمنوں کی ناکامی کی خبر دی گئی آپ نے دیکھا کہ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ آئے ہیں اور حضورؓ کو بوسے دے رہے ہیں۔ (الفضل 9؍نومبر 1934ء) یعنی حضورؓ کو فتح کی بشارت دی گئی اور آپ نے فرمایا کہ اس فتنہ کے نتائج جماعت کے لیے بہت زیادہ کامیابی اور ترقیات کا موجب ہوں گے۔ (الفضل 17؍فروری 1935ء) پھر فرمایا زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں کے تلے سے نکل رہی ہے۔ (الفضل 30؍مئی 1935ء)چنانچہ ایسا ہی ہوا اور تھوڑے ہی عرصہ میں احرار کی صف لپیٹ دی گئی۔

لوٹنے نکلے تھے جو امن و سکون بے کساں

خود انہی کے لٹ گئے حسن و شباب زندگی

اس تحریک کے نتیجے میں حضورؓ نے تحریک جدید کی بنیاد رکھی جس نے دنیا میں جماعت کے حق میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا کر دیا اور وہ جماعت جو محض ہندوستان اور چند ملکوں میں ابتدائی طور پر کمزوری کے عالم میں تھی اس نے نشوونما پانی شروع کی اور آج وہ دنیا کے بیسیوں ملکوں میں کامیابی کے ساتھ اپنے جھنڈے گاڑ چکی ہے۔

حضورؓ نے انگریز حکومت کو یہ بھی انتباہ کیا تھا کہ تمہاری نا انصافیوں کی وجہ سے تمہیں خدا کی نا راضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (الفضل 29؍اگست 1944ء)

چنانچہ انگریز حکومت دوسری جنگ عظیم میں شدید کمزوری کے بعد ہندوستان اور دوسرے مقبوضات کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئی اور آج وہ چند جزیروں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔

15۔ احمدیت کی فجر

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے سورت الفجر کی ابتدائی آیات وَالفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَ الشَّفْعِ وَالوَتْرِ وَالَّیلِ اِذَا یَسْر سے استنباط کرتے ہوئے ٹھوس دلائل کے ساتھ احمدیت کی ترقی کے کئی ادوار کاذکرکیا اور 1945ء میں پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا: ’’آخر ی ترقی خواہ کچھ لمبے عرصے کے بعدہو احمدیت کی ایک فتح یاآج سے آٹھ سال بعد ہوگی یا آج سے 34سال بعد ہو گی یا آج سے37 سال بعد ہوگی یاآج سے 46سال بعد ہوگی یاان سالوں کے لگ بھگ وہ فتح ظاہر ہوجائے گی کیونکہ پیشگوئیوں میں دن نہیں گنے جاتے بلکہ ایک موٹا اندازہ بتایا جاتاہے۔ اور جیساکہ میں نے بتایاہے یہ بھی ہو سکتاہے کہ ان چاروں اوقات میں چار مختلف قسم کی فتوحات ظاہر ہوں۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 529)

1945ء میں جب حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے بیان کردہ سالوں کوجمع کیاجائے تویہ علی الترتیب 1953ء، 1979ء، 1982ء اور 1991ء قرار پاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے بعد جماعت ترقیات کے نئے ادوار میں داخل ہوتی ہے۔

1945ء8+=1953ء: پاکستان میں فسادات کے بعدجماعت احمدیہ ایک نئی عظمت کے ساتھ ظاہر ہوئی۔

1945ء34+=1979ء: یہ وہ سال ہے جب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے فزکس میں نوبیل انعام حاصل کیا اور جماعت کو غیر مسلم قرار دینے والے مخالف ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

1945+37 = 1982ء: میں خلافت رابعہ قائم ہوئی۔ تبلیغ اور پھر ہجرت کے بعد عالمی ترقیات کا دور شروع ہؤا۔

1945+46 = 1991ء: میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ قادیان کے صد سالہ جلسہ سالانہ میں تشریف لے گئے جس سے بھارت میں جماعت کے نئے دَور کا آغاز ہوا۔ اور اگست 1992ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے خطبات چار براعظموں میں نشرہونے شروع ہوئے۔ اس طرح چاروں پہلوؤں سے سورت الفجر کے باریک اشارے اظہر من الشمس ہو گئے۔

16۔ جامعہ احمدیہ میں وسعت کی پیشگوئی

حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں دعوت الی اللہ کا بیکراں جذبہ موجزن تھا۔ آپ جماعت کے ہر فرد کو داعی الی اللہ بنانا چاہتے تھے۔ واقفین کی تعداد بڑھانے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے دیکھتے داعیان الی اللہ کو 20لاکھ تک پہنچا دیتے تھے۔ (الفضل 28؍اگست 1959ء) حضرت مصلح موعودؓ نے 1945ء میں بیرونی ممالک میں مدرسے جاری کرنے کی سکیم پیش کرتے ہوئے فرمایا: ’’خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی تبلیغ کے نئے رستے جلد کھولنے والا ہے اور ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہوگی …اس لئے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں تا انہیں جلد سے جلد کام پر لگایا جاسکے…اس کا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہم ایسے ہی مدرسے جاری کریں گے۔ اور پھر مختلف ملکوں میں عرب، مصر، فلسطین، شام اور دیگر ممالک میں اسی طرز پر اور اسی کورس پر مدرسے جاری کئے جائیں گے…حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ میں بھی۔ ‘‘(خطبات محمود 1945ء صفحہ 17)

پھر حضورؓ نے خطبہ جمعہ 12؍اپریل 1946ء میں فرمایا: ’’ہمیں دنیا کے گوشہ گوشہ میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ قائم کرنے پڑیں گے۔ بلکہ ہر براعظم میں ہمیں ایک بہت بڑی یونیورسٹی قائم کرنی پڑے گی جو دینیات کی تعلیم دینے والی ہو اور جس سے تبلیغ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جاسکے۔ ‘‘(خطبات محمود جلد 27 صفحہ 166)

چنانچہ آپؓ نے مدرسہ احمدیہ کو ترقی دیتے ہوئے جامعہ احمدیہ کو مضبوط بنیادوں پر قائم فرمایا۔ بیرون ہند اس کی شاخیں کھلنی شروع ہوئیں اور اب ان کی دنیا بھر میں تعداد 14 ہوچکی ہے۔ سینکڑوں بچے ان سے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ 1987ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے تحریک وقف نو کی بنیاد ڈالی اس میں اب تک 60 ہزار سے زیادہ بچے شریک ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔ خلافت خامسہ میں جامعہ احمدیہ کینیڈا کا آغاز 2003ءمیں ہوا، جامعہ احمدیہ یوکےکا افتتاح یکم اکتوبر 2005ءکو ہوا۔ 20؍اگست 2008ء کو جامعہ احمدیہ جرمنی کا افتتاح ہوا۔

17۔ لنگرخانوں میں وسعت

جماعت کی تاریخ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب حضرت مسیح موعودؑ کا لنگر بند ہوا ہو یا کوئی کمی آئی ہو۔ پہلے صرف مرکز خلافت میں یہ لنگر تھا۔ اب تو ہر بڑی جماعت اور ہر بڑے شہر میں یہ لنگر وسعت پذیر ہے۔ جماعت کی افرادی قوت اور سرگرمیوں کی وجہ سے لنگر بڑھ رہے ہیں۔ اس وسعت کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ کے رؤیا میں بھی ہے۔ یہ رؤیا غالباً فروری 1954ء کی ہے۔

فرمایا: ’’مَیں نے دیکھا کہ قادیان میں ایک نیا لنگر خانہ بنا ہے نہایت وسیع اور شاندار ہے میں اس کے معائنہ کے لئے گیا ہوں۔ سامان کا کمرہ اتنا وسیع ہے کہ بندرگاہوں کے بڑے گودام بھی اس کے سامنے ہیچ معلوم ہوتے ہیں کوئی دو اڑھائی سو گز لمبا اور کوئی ڈیڑھ سو گز چوڑا وہ کمرہ ہے۔ سامان کو گردوغبار سے بچانے کے لئے چھت سے زنجیروں سے بندھے ہوئے پھٹے لٹکے ہوئے ہیں جن پر اجناس کی بوریاں دھری ہیں شاید لاکھوں کی ضیافت کا سامان ہے اس کے علاوہ دور تک تنوروں اور چولہوں کے لئے جگہ بنی ہوئی اور دیگر اشیاء کے سٹور ہیں۔ ایک بڑے قصبہ کے برابر وہ لنگرخانہ ہے۔ اس وقت میں کہتا ہوں کہ موجودہ ضرورتوں کے مطابق میں نے یہ لنگرخانہ بنوایا ہے جب ضرورت بڑھ جائے گی میں اسے اور بڑھا دوں گا۔ اس وقت معاً مجھے خیال آیا کہ اور جگہ کہاں ہے مگر پھر ذہن میں آیا کہ اور جگہ ہے اور اس لنگر کو اس طرف بڑھایا جاسکتا ہے۔ ‘‘(الفضل 24؍ستمبر 1954ء صفحہ3 رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ524)

چنانچہ قادیان اور ربوہ میں لنگرخانوں میں وقت کے ساتھ بے پناہ وسعت پید اہوئی ہے۔ ربوہ میں 7منزلہ نئی عمارت اس رؤیا کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب تو اللہ کے فضل سے قادیان، ربوہ، اورانگلستان میں روٹی پلانٹ بھی لگ گئے ہیں۔ جو صرف احمدیوں کی نہیں کثیر تعداد میں آنے والے مہمانوں کی ضرورت بھی پوری کر رہے ہیں۔

18۔ عالمی سیاسی حالات کے متعلق خبریں

حضرت مصلح موعودؓ کو دنیا میں رو نما ہونے والے عظیم سیاسی حالات اور انقلابات کی خبریں بھی دی گئیں۔ جو آپ کے زمانے میں بھی پوری ہوئیں اور اب بھی پوری ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

1۔ 1908ء میں آپ کو یہ خبر دی گئی کہ دنیاہلائی جائی گی کیونکہ اس نے خدا کو چھوڑ دیا ہے۔ یہ پیشگوئی جنگ عظیم اوّل کے ذریعہ پوری ہوئی جب گویا دنیا ایک لحاظ سے تہ و بالا کر دی گئی۔

2۔ دوسری جنگ عظیم کے متعلق آپ کو 14بڑے بڑے واقعات کی خبر خوابوں اور الہامات کے ذریعہ سے دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ اس کے بعد ہند وستان سے انگریزوں کا انخلا ہو گا اور ان کی طاقت بہت محدود ہو جائے گی۔ چند نہایت عظیم الشان خبریں یہ ہیں:

1۔ جرمنی اور برطانیہ میں نہایت خون ریز جنگ ہو گی۔ 2۔ فرانس اس جنگ میں انگریزوں کا حلیف ہو گا اور شکست کھائے گا۔ 3۔ وہ شکست اس طرح کی ہو گی کہ وہ انگریزوں سے قطع تعلق کر کے دشمن سے صلح کا معاہدہ کرنے پر تیار ہو جائے گا۔ 4۔ اس وقت برطانیہ جرمنی کی وجہ سے سخت خطرہ میں گھرا ہو گا۔ 5۔ اس مرحلے پر برطانیہ فرانس کو حکومتی الحاق کی پیشکش کرنے پر مجبور ہو گا۔ 6۔ اس پیشکش کے چھ ماہ بعد برطانوی حکومت کی حالت بدل جائی گی۔ 7۔ جنگ میں اٹلی کی شکست ہو گی۔ 8۔ اتحادی جیتے گیں اور محوری طاقتیں شکست کھائیں گی۔ 9۔ یہ جنگ 1945ء تک ختم ہو جائے گی۔ آپ کو بیلجیم کے بادشاہ لیوپولڈ کا ہتھیار ڈال دینا اور تخت سے دستبردار ہونا بھی دکھایا گیا تھا۔ 10۔ امریکہ کی فوجیں ہندوستان میں اتریں گی اور یونان بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ 11۔ برطانیہ کی فضائی قوت کو مستحکم کرنے کے لیے امریکہ 2800 جہاز برطانیہ کو دے گا۔ شمالی امریکہ میں انگریزی فوجوں کو ایک لمبی مہم جاری رکھنی پڑے گی اور آخر کار برطانیہ کو مکمل فتح ہو گی۔

یہ سب تفصیلی رؤیا اور الہامات مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی کتاب المبشرات میں موجود ہیں اور طوالت کی وجہ سے یہاں درج نہیں کیے جا رہے۔ برطانیہ کے دو مشہور اخبارات لیوشم جرنل ایڈ برونیوز اور گزٹ اینڈ برونیوز نے 28؍ ستمبر 1945ء کی اشاعتوں میں حضورؓ کی یہ پیشگوئیاں پورے ہونے کا اعتراف کیا۔ (المبشرات صفحہ 263) اس کے علاوہ آپؓ نے کمیونزم کے خلاف مغربی قوموں کی منظم تحریک کے متعلق پیشگوئی کی۔ ( اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 79)

انگلستان کی سیاست میں غیر معمولی اختلاف اور مسٹر ماریسن کی پارٹی برسراقتدار آنے کی پیشگوئی کی۔ پھر آپؓ نے روس کے مرد آہن موسیو سٹالن کی بیماری کی پیشگوئی کی۔ مسلمانان ہند کی سیاسی جد و جہد اور مسلم لیگ کی فتح یعنی قیام پاکستان کی پیشگوئی کی۔ نیز یہ بھی بتایا کہ اس موقع پر سخت فسادات ہوں گے اور خون کی ندیاں چلیں گیں اور اس میں فوج بھی ملوث ہو گی۔ آپؓ کو یہ بھی بتایا گیا کہ قادیان تقسیم ہند کے وقت بھارتی حکومت میں شامل ہو جائے گا۔ آپؓ کو انڈین لیڈر گاندھی جی پر قاتلانہ حملہ کے متعلق واضح خبر دی گئی۔ آپؓ کو قائد اعظم کی وفات اور سقوط حیدر آباد کے متعلق بھی خبر دی گئی۔ اسی طرح آپؓ کو فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی خبر بھی دی گئی۔

19۔ عالمی آفات

فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے بار ہا بتایا۔ دنیا میں ایسی ایسی آفات آنے والی ہیں کہ وہ قیامت کا نمونہ ہوں گی اور بسااوقات ان آفات کو دیکھ کر انسان یہ خیال کرے گا کہ اب دنیا میں شاید کوئی انسان بھی باقی نہیں رہے گا۔ ‘‘(الفضل 6؍اکتوبر 1934ء، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 145)

حضورؓ کی زندگی میں اور بعد میں عظیم زلزلے آئے۔ دو عالمی جنگیں ہوئیں اور بعد میں بھی کثرت کے ساتھ غیر معمولی عالمگیر وبائیں پھوٹیں۔ ان میں ایک بہت اہم وبا انفلوئنزاکی تھی جو ہندوستان میں بھی کثرت سے ظاہر ہوئی۔ گذشتہ دو صدیوں میں ہیضہ کی سات بڑی وبائیں دنیا میں پھیلیں جن میں سے چھٹی وبا 1899ء سے 1923ء تک ہندوستان پر چھائی رہی۔ اور ساتویں وبا 1961ء میں انڈونیشیا سے شروع ہوئی اور ترقی پذیر ممالک میں اب تک جاری ہے۔ 2019ء میں دنیا بھر میں ملیریا کے 229 ملین کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ گذشتہ بیس سالوں میں 5.1بلین لوگ متاثر ہوئے اور 7.6 ملین لوگ مارے گئے۔ ان کے ساتھ ہیضہ، ٹائیفائیڈ، سپینش فلو، ایشین فلو، رشین فلو، ہانگ کانگ فلو، برڈفلو، سارس کورونا وائرس، سوائن فلو، ڈینگی۔ زیکا وائرس، ایبولا، Hiv ایڈز، اور حال ہی میں آنے والی وبا Covid -19ہے جس نے 2 سالوں میں دنیا بدل دی ہے۔ (تفصیلات کے لیے الفضل انٹر نیشنل 19، 30؍مارچ 2021ء)

20۔ تقسیم ہند۔ قیام پاکستان، جماعت کی ہجرت اور ربوہ کا قیام

حضرت مصلح موعودؓ کو قیام پاکستان سے متعدد سال قبل کئی رؤیا میں ہندوستان تقسیم ہونے، قادیان کے پاکستان میں شامل ہونے کی بجائے بھارت میں شامل ہونے، حضورؓ کی ہجرت کرنے اور نیا مرکز بسانے کی خبریں بھی دی گئی ہیں۔ یہ سب رؤیا المبشرات میں اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ بنتا ہے۔

1۔ قادیان اور اس کے گرد و نواح میں دشمن یکدم حملہ کر کے آئے گا۔ 2۔ قادیان سے جالندھر تک بڑی خوفناک تباہی آئے گی اور لوگ نیلا گنبد یعنی آسمان تلے پناہ لیں گے۔ 3۔ قادیان میں بھی دشمن غالب آئے گا۔ مگر مسجد مبارک کا حلقہ اس کا بہادری سے مقابلہ کرے گا اور محفوظ رہے گا۔ 4۔ اس دَور میں امام جماعت احمدیہ اپنے خاندان اور جاںنثاروں کے ساتھ قادیان سے کسی دوسری جگہ چلے جائیں گے۔ 5۔ ہجرت کے بعد امام جماعت احمدیہ ایک پہاڑی کے دامن میں نیا مرکز تعمیر کریں گے۔ جہاں پہلے فوجی بارکوں کی طرز پر مکان بنائے جائیں گے۔ 6۔ اس مرکز کی بنیاد 1948ء میں رکھی جائے گی۔ 7۔ اس مرکز سے جماعت احمدیہ کو ایک خاص عظمت اور شوکت نصیب ہوگی۔ 8۔ ابتدا میں پانی کی سخت کمی ہوگی مگر پھر حضورؓ کی دعاؤں سے پانی کے چشمے بہ پڑیں گے اور یہ علاقہ سرسبز و شاداب ہو جائے گا۔

چنانچہ آغاز میں قادیان پاکستان میں شامل تھا مگر پھر غیرمعمولی طور پر ایک ظالمانہ فیصلے کے نتیجے میں قادیان ہندوستان میں شامل کر دیا گیا۔ قادیان پر دشمنوں نے چاروں طرف سے حملے شروع کر دیے حتی کہ بم بھی پھینکے اور قادیان میں شہادتیں بھی ہوئیں۔ جب حالات بہت بگڑ گئے تو حضرت مصلح موعودؓ قادیان سے 31؍اگست 1947ء کو نکلے اور لاہور میں ڈیرہ لگایا۔ اس کے فوراًَ بعد آپؓ نے جماعت کے نئے مرکز کے لیے جد و جہد شروع کر دی اور بہت تلاش کے بعد آپؓ کو رؤیا کے مطابق ربوہ کی وہ سر زمین نظر آ گئی جس نے جماعت کا عالمی مرکز بننا تھا۔ ربوہ کی بنیاد 20؍ستمبر 1948ء کو دعاؤں سے رکھی گئی۔ وہاں پانی کی سخت کمی تھی لیکن حضورؓ کی دعاؤں سے میٹھا پانی نکل آیا اور وہ بنجر اور ویران علاقہ گل و گلزار بن گیا۔ اس کو حضورؓ نے اپنے ایک الہامی شعر میں یوں بیان کیا:

جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب

پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا

21۔ نیک انجام کی بشارت

حضورؓ کے دل پر یہ الفاظ نازل ہوئے’’ ملک بھی رشک ہیں کرتے‘‘۔ آنکھ کھلنے کے بعد آپؓ نے اس مصرع کو مکمل کیا اور پوری نظم لکھی جو یہاں سے شروع ہوتی ہے:

ملک بھی رشک ہیں کرتے وہ خوش نصیب ہوں میں

وہ آپ مجھ سے ہے کہتا نہ ڈر قریب ہوں میں

حضورؓ نے اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ فرشتوں کو میری تائید اور نصرت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کر دیا گیا ہے۔ (الفضل 21؍ستمبر 1945، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 291)

حضورؓ کو کشفی حالت میں الہام ہوا ’’السلام علیکم ‘‘جس میں آپؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی اور حفاظت کا وعدہ دیا گیا۔ چنانچہ باوجود دشمن کی طرف سے بارہا قتل کی کوششوں کے دشمنوں کے ہاتھوں سے بچائے رکھا۔ قاتلانہ حملہ بھی ہوا مگر آپ اس کے بعد بھی گیارہ سال جماعت کی قیادت فرماتے رہے۔ (الفضل 6؍اپریل 1949ء رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 423)فرماتے ہیں: ’’یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے یہ خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے کاموں کو پورا کرے گا۔ اور میرا انجام نہایت خوشکن ہو گا۔ چنانچہ 1942ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً فرمایا: موت حسن موت حسن فی وقت حسن۔ کہ حسن کی موت بہترین موت ہو گی اور ایسے وقت میں ہو گی جو بہتر ہو گا۔ اس الہام میں مجھے حسنؓ کا بروز کہا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ذات کے ساتھ تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں کو پورا کرے گا اور میرا انجام بہترین انجام ہو گا اور جماعت میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہو گی۔ (تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 571)آپؓ کی وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے بعض منافقین اور خلافت کے مخالفین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے جماعت بہت پریشان تھی مگر آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی کہ مخالفین بے بس ہو کر رہ گئے اور خلافت ثالثہ کا انتخاب انتہائی پر امن ماحول میں ہوا۔

صفت علیم کا مظہر

الغرض خدائے علیم اور علام الغیوب نے حضرت مصلح موعودؓ کے ذریعہ پھر اپنے وجود کا ثبوت دیا۔ تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں وہ موت کے پنجہ سے نجات پاویں۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی قوت قدسیہ کے منکروں کو ایک کھلی نشانی دی تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔ اور وہ جو مسیح موعود سے اسلام کی سچائی کا نشان چاہتے تھے انہیں ایک آفاقی نشان عطا فرمایا جو ہزاروں نشانوں کا مجموعہ ہے۔ تا انہیں یقین ہو کہ خدا مسیح موعودؑ کے ساتھ ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے خدا سے خبر پا کر دنیا کو خوش خبریاں بھی دیں اور انذار بھی کیا۔ اپنے دوستوں اور جماعت کو عظیم فتوحات، عزت و شہرت اور مخالفین کو ناکامی اور نامرادی کی خبریں دیں۔ اس کا تذکرہ نبیوں کی زبانوں پر بھی تھا اور صلحاء کے کلام میں بھی ظاہر تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ میں مر جاؤں گا مگر میرا نام اور کام کبھی نہیں مٹے گا۔ وہ 1965ء میں اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور آج 57 سال بعد واقعات اقرار کررہے ہیں کہ اس کی پیشگوئیاں سچی نکلیں اور اس کے دعاوی آسمان پر تابندہ ہیں۔ 1914ء میں جب اس نے جماعت کی قیادت سنبھالی تو دل دھڑک رہے تھے اور جماعت خوف سے لرزاں تھی۔ یہ زندگی اور موت کی کشمکش تھی۔ مگر وہ خدا کی قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان بنا۔ وہ جلال الٰہی کے ظہور کا موجب بنا۔ اس نے زمین کا سینہ چیرا اور سمندروں کو پھاڑا اور خدا کے فضل اور رحم کے سائے میں آگے بڑھتےہوئے فرشتوں کی تائید سے ہر میدان میں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا اور اب اس کے جاںنثار ہر سرزمین اور ہر خطہ زمین کو اپنا چکے ہیں۔ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پا چکا ہے اور قومیں اس سے برکت ڈھونڈ رہی ہیں۔ ایم ٹی اے پر اس کا غلغلہ ہے۔ اخبارات میں اس کا تذکرہ ہے۔ خلیفۂ وقت کے خطبات میں اس کے بیانات جاری ہیں۔ اس کا مقدس خون اس کی جسمانی نسل میں رواں دواں ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ واقعہ میں اس میں خدا کی روح بولتی تھی اور خدا کا سایہ اس کے سر پر تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button