متفرق مضامین

عشق رسولﷺ کا صحیح اظہار (قسط نمبر 3۔ آخری)

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ستمبر 2012ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کوبھی دنیا کے سامنے خوبصورت رنگ میں پیش کریں۔ آج یہ لوگ آزادیٔ اظہار کا شور مچاتے ہیں۔ شور مچاتے ہیں کہ اسلام میں تو آزادیٔ رائے اور بولنے کا اختیار ہی نہیں ہے اور مثالیں آجکل کی مسلمان دنیا کی دیتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں وہاں کے لوگوں کو، شہریوں کو آزادی نہیں ملتی۔ اگر نہیں ملتی تو اُن ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے۔ اسلامی تعلیم کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں تو تاریخ میں لوگوں کے بے دھڑک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہونے بلکہ ادب و احترام کو پامال کرنے اور اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر اور حوصلے اور برداشت کے ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ گو اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جُودو سخا کے واقعات میں بیان کیا جاتا ہے لیکن یہی واقعات جو ہیں ان میں بیباکی کی حد کا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوصلہ کا بھی اظہار ہوتاہے۔

حضرت جبیرؓ بن مطعم کی یہ روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ آپ حنین سے آرہے تھے کہ بدوی لوگ آپ سے لپٹ گئے۔ وہ آپ سے مانگتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو ببول کے ایک درخت کی طرف ہٹنے کے لئے مجبور کر دیا جس کے کانٹوں میں آپ کی چادر اٹک گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور آپ نے فرمایا میری چادر مجھے دے دو۔ اگر میرے پاس ان جنگلی درختوں کی تعداد کے برابر اونٹ ہوتے تو مَیں اُنہیں تم میں بانٹ دیتا اور پھر تم مجھے بخیل نہ پاتے اور نہ جھوٹا اور نہ بزدل۔

(صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب ماکان النبیﷺ یعطی المؤلفۃ قلوبہم و غیرہم … حدیث نمبر3148)

پھر ایک روایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھا اور آپ نے ایک موٹے کنارے والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک بدّو نے اس چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں کے نشان آپ کی گردن پر پڑ گئے۔ پھر اُس نے کہا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے اس مال میں سے جو اس نے آپ کو عنایت فرمایا ہے، میرے ان دو اونٹوں پر لاد دیں کیونکہ آپ مجھے نہ تو اپنے مال میں سے اور نہ ہی اپنے والد کے مال میں سے دیں گے۔ پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر فرمایا۔ اَلْمَالُ مَالُ اللّٰہِ وَاَنَا عَبْدُہٗ کہ مال تو اللہ ہی کا ہے اور میں اُس کا بندہ ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ مجھے جو تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تم سے لیا جائے گا۔ اُس بدو نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا؟ اُس بدو نے کہا اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دی جائیں۔

(الشفاء لقاضی عیاض جزء اول صفحہ 74 الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ …الفصل و اما الحلم… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

تو یہ ہے وہ صبر و برداشت کا مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور جو اپنوں سے نہیں دشمنو ں سے بھی تھا۔ یہ ہیں وہ اعلیٰ اخلاق ان میں جودو سخا بھی ہے اور صبر و برداشت بھی اور وسعتِ حوصلہ کا اظہار بھی ہے۔ …

پھر جذبات کے احترام کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔ باوجود اس علم کے کہ آپ سب نبیوں سے افضل ہیں، یہودی کے جذبات کے احترام کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔

(صحیح البخاری کتاب فی الخصومات باب مایذکر فی الاشخاص و الخصومۃ…حدیث نمبر2411)

غرباء کے جذبات کا خیال ہے اور اُن کے مقام کی اس طرح آپ نے عزت فرمائی کہ ایک دفعہ آپ کے ایک صحابی جو مالدار تھے وہ دوسرے لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کر رہے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ قوت اور طاقت اور تمہارا یہ مال تمہیں اپنے زورِ بازو سے ملے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ تمہاری قومی طاقت اور مال کی طاقت سب غرباء ہی کے ذریعہ سے آتے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الجھاد و السیرباب من استعان بالضعفاء و الصالحین فی الحرب۔ حدیث2896)

آزادی کے یہ دعویدار، آج غرباء کے حقوق قائم کرتے ہیں۔ اُن کے حقوق کے تحفظ کے لئے کوشش کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ کہہ کریہ حقوق قائم فرما دئیے کہ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الرھون باب اجراَلاُجراء حدیث نمبر2443)

پس یہ اُس محسنِ انسانیت کا کہاں کہاں مقابلہ کریں گے۔ بیشمار واقعات ہیں۔ ہر پہلو خُلق کا آپ لے لیں، اس کے اعلیٰ نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آئیں گے۔

…یہ الزام لگا دیا کہ نعوذ باللہ آپ کو عورتیں بڑی پسند تھیں، شادیوں پر اعتراض کیا توپھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ردّ بھی فرمایا۔ اسے پتہ تھا کہ ایسے واقعات ہونے ہیں، ایسے سوال اُٹھنے ہیں تووہ ایسے حالات پیدا کر دیتا تھا کہ اُن باتوں کا ردّ بھی سامنے آگیا۔

اسماء بنت نعمان بن ابی جَون کے بارے میں آتا ہے کہ عرب کی خوبصورت عورتوں میں سے تھیں۔ وہ جب مدینہ آئی ہیں تو عورتوں نے انہیں وہاں جا کر دیکھا تو سب نے تعریف کی کہ ایسی خوبصورت عورت ہم نے زندگی میں نہیں دیکھی۔ اُس کے باپ کی خواہش پر آپ نے اُس سے پانچ صد درہم حق مہر پر نکاح کر لیا۔ جب آپ اُس کے پاس گئے تو اُس نے کہا کہ مَیں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے ایک بہت عظیم پناہ گاہ کی پناہ طلب کی ہے اور باہر آ گئے اور اپنے ایک صحابی ابو اُسید کو فرمایا کہ اس کو اس کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اور پھر یہ بھی تاریخ میں ہے کہ اس شادی پر اُس کے گھر والے بڑے خوش تھے کہ ہماری بیٹی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئی لیکن واپس آنے پر وہ سخت ناراض ہوئے اور اُسے بہت برا بھلا کہا۔

(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعدالجزء الثامن صفحہ318-319ذکر من تزوج رسول اللہﷺ …/اسماء بنت النعمان۔ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996)

تو یہ وہ عظیم ہستی ہے جس پر گھناؤنے الزام عورت کے حوالے سے لگائے جاتے ہیں۔ جس کا بیویاں کرنا بھی اس لئے تھا کہ خدا تعالیٰ کا حکم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو لکھا ہے اگر بیویاں نہ ہوتیں، اولادنہ ہوتی اور جو اولاد کی وجہ سے ابتلا آئے اور جن کا جس طرح اظہار کیا اور پھر جس طرح بیویوں سے حسنِ سلوک ہے، خُلق ہے، یہ کس طرح قائم ہو، اس کے نمونے کس طرح قائم ہو کے ہمیں پتہ چلتے۔ ہرعمل آپ کا خدا کی رضا کے لئے ہوتا تھا۔

(ماخوذ ازچشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ نمبر300)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں الزام ہے کہ وہ بہت لاڈلی تھیں اور پھر عمر کے حساب سے بھی بڑی غلط باتیں کی جاتی ہیں۔ لیکن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ یہ فرماتے ہیں کہ بعض راتوں میں مَیں ساری رات اپنے خدا کی عبادت کرنا چاہتا ہوں جو سب سے زیادہ مجھے پیارا ہے۔

(الدر المنثور فی التفسیر بالماثورلامام السیوطی سورۃ الدخان زیر آیت نمبر4جلد7صفحہ350داراحیاء التراث العربی بیروت2001ء)

پس جن کے دماغوں میں غلاظتیں بھری ہوئی ہوں انہوں نے یہ الزام لگانے ہیں اور لگاتے رہے ہیں، آئندہ بھی شاید وہ ایسی حرکتیں کرتے رہیں، جیسے کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے جہنم کو بھرتا رہے گا۔ پس ان لوگوں کو اور ان کی حمایت کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے۔

(ماخوذ از تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ نمبر378)

اس زمانے میں اُس نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیج کر دنیا کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لیکن اگر وہ استہزاء اور ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی بڑی سخت ہے۔ دنیا کے ہر خطّے پر آجکل قدرتی آفات آ رہی ہیں۔ ہر طرف تباہی ہے۔ امریکہ میں بھی طوفان آ رہے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر آ رہے ہیں۔ معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آبادیوں کو پانی میں ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ ان خطرات میں گھری ہوئی ہیں۔ پس ان حد سے بڑھے ہوؤں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب باتوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرنے والا ہونا چاہئے نہ یہ کہ اس قسم کی بیہودہ گوئیوں کی طرف وہ توجہ دیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زمانے کا امام تنبیہ کر چکا ہے، کھل کر بتا چکا ہے کہ دنیا نے اگر اُس کی آواز پر کان نہ دھرے تو ان کا ہر قدم دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے والا بنائے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام جو بار بار دہرانے والا پیغام ہے، اکثر پیش ہوتا ہے، آج پھر مَیں پیش کردیتا ہوں۔ فرمایا کہ: ’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقینا ًسمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے۔ اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے۔ اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خُون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے۔ اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اُس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی۔ اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی۔ اور اس کے ساتھ اَور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہانتک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیرمعمولی ہوجائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا۔ تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اَور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمّت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں۔ اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدّت سے مخفی تھے ظاہر ہوگئے۔ جیسا کہ خدا نے فرمایا وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنی اسرائیل: 16)۔ اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے۔ اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا۔ یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے…۔ اے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں۔ اور اے ایشیا! تُو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مددنہیں کرے گا۔ مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدّت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چُپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی اَمان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے…‘‘۔ فرمایا ’’نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے۔ توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔ اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ‘‘۔

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ نمبر268-269)

اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی عقل دے۔ مکروہ اور ظالمانہ کاموں کے کرنے سے بچیں۔ اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button