سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

پھر اس کے ساتھ

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

کانشان ہے۔ یہ بہت پرانا الہام ہے اور اس وقت کا ہے جبکہ میرے والد صاحب مرحوم کا انتقال ہوا۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

نوٹ:

حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی تاریخ وفات

(حصہ سوم)

حقیقۃ الوحی کے عربی حصہ جوکہ الاستفتاء کے نام سے لکھاگیااس میں فرمایا:

’’وکما ذکرت، کان ذالک الوقت وقتَ العُسرِ وأنواعِ الحاجات، وبشّرنی ربّی بتسہیل أموری وتیسیر مناہجی، وتکفُّلِہ بکلّ حوائجی۔ فعند ذالک وفی زمنٍ أبعد مِن أمنٍ أمرت أن یُصنَع خاتمٌ فیہ نقوش ہٰذہ الأنباء، لیکون عند ظہورہا آیة للطُّلباء، وحُجّة علی الأعداء۔ والخاتم موجود وہذا نقشہٗ: یا أہل الآراء۔ ثم فَعَلَ اللّٰہ کما وَعَدَ، ومَطَرَ سحابُ فضلہ کما رَعَدَ، وجعل اللّٰہُ حبّةً صغیرة أشجارًا باسقة و أثمارًا یانعة۔ ولا سبیلَ إلی الإنکار، ولو اتّفق فِرَق الکفّار‘‘۔(الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 28، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 649)

ترجمہ: ’’اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے یہ وقت بڑی تنگی اور طرح طرح کی حاجات کا وقت تھا۔ (ایسے وقت میں) میرے رب نے میرے تمام امور اور میری راہوں میں سہولت اور آسانی پیدا کرنے کی اور میری تمام ضرورتوں کا خود کفیل ہونے کی مجھے بشارت دی۔ سو اس وقت اور امن سے دور زمانےمیں مجھے حکم دیا گیا کہ ایک ایسی انگوٹھی بنائی جائے جس میں ان پیشگوئیوں کے نقوش ہوں تا کہ وہ ان (خوشخبریوں )کے ظہور کے وقت متلاشیان حق کے لئے ایک نشان اور دشمنوں پر حجت ہو۔ اے اہل رائے!یہ انگوٹھی موجود ہے اور یہ اس کا نقش ہے پھر اللہ نے اپنے وعدہ کے موافق کیا اور اس کے فضل کا بادل جیسے گرجا ویسے ہی برسا اور اللہ نے چھوٹے سے بیج کو اونچے درخت اور پکے ہوئے پھل بنا دیا اور اس سے کوئی جائے انکار نہیں خواہ کافروں کے تمام فرقے باہم متحد ہو جائیں ‘‘(اردوترجمہ الاستفتاء صفحہ68۔ 69)

اوراس کے حاشیہ میں فرمایا:

’’قد مضی علی صُنْعِ ہٰذا الخاتم أزیَدُ من ثلاثین سنة، وما ضاع إلی ہذا الوقت فضلًا من اللّٰہ ورحمۃ۔ وما کان فی ذالک الزمن أثرٌ من عزّتی، ولا ذکرٌ من شہرتی، وکنتُ فی زاویة الخمول، محروما من الإعزاز والقبول۔‘‘(الاستفتاء، ضمیمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 649حاشیہ)

ترجمہ: ’’اس انگوٹھی کو بنے ہوئے تیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں اور وہ اب تک خدا کے فضل اور رحمت سے ضائع نہیں ہوئی۔ اور اس زمانہ میں میری عزت کا کوئی نشان اور میری شہرت کا کوئی ذکر تک نہ تھا اور میں گمنامی کے گوشہ میں اعزاز اور قبولیت سے محروم تھا۔‘‘(اردوترجمہ الاستفتاء صفحہ 68حاشیہ)

حضوراقدسؑ نے اپنے والدصاحب کی وفات کاواقعہ ایک اَورجگہ بھی بیان فرمایاہےجوملفوظات میں درج ہے۔ اس میں سنہ وغیرہ تودرج نہیں البتہ وفات کادن بیان ہواہے۔ اوروہ ہفتہ کادن ہے۔ فرماتے ہیں: ’’پھر اس کے ساتھ

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

کانشان ہے۔ یہ بہت پرانا الہام ہے اور اس وقت کا ہے جبکہ میرے والد صاحب مرحوم کا انتقال ہوا۔ میں لاہور گیا ہوا تھا۔ مرزا صاحب کی بیماری کی خبر جو مجھے لاہور پہنچی میں جمعہ کو یہاں آگیا۔ تو دردِ گردہ کی شکا یت تھی۔ پہلے بھی ہواکرتا تھا۔ اس وقت تخفیف تھی۔ ہفتہ کے دن دوپہر کو حُقہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھاکررہا تھا۔ مجھے کہا کہ اب آرام کا وقت ہے تم جا کر آرام کرو مَیں چوبارہ میں چلا گیا۔ ایک خدمتگار جمال نام میرے پاؤں دبا رہا تھا۔ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا۔

وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ…

اس الہام کے ساتھ ہی پھر معاً میرے دل میں بشریّت کے تقاضے کے موافق یہ خیال گزرا اور میں اس کو بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے سمجھتا ہوں کہ چونکہ معاش کے بہت سے اسباب ان کی زندگی سے وابستہ تھے۔ کچھ انعام انہیں ملتا تھا اورکچھ اور مختلف صورتیں آمدنی کی تھیں۔ جس سے کوئی دو ہزار کے قریب آمدنی ہوتی تھی۔ میں نے سمجھاکہ اب وہ چونکہ ضبط ہوجائیں گے۔ اس لیے ہمیں ابتلاء آئے گا۔ یہ خیال تکلف کے طور پر نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے میرے دل میں گزرا۔ اور اس کے گزرنے کے ساتھ ہی پھر یہ الہام ہوا۔

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

یعنی کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ الہام میں نے ملاوامل اور شرمپت کی معرفت ایک انگشتری میں اسی وقت لکھوا لیا تھا۔ جو حکیم محمد شریف کی معرفت امرتسر بنوائی تھی اور وہ انگشتری میں کھدا ہوا الہام موجود ہے۔‘‘(ملفوظات جلد3صفحہ 355تا356)

یہ کم ازکم سات کتب کے اقتباسات ہیں۔ ان اقتباسات کوزمانی اعتبارسے دیکھیں تو کیفیت کچھ یوں بنتی ہے:

1: ’’نزول المسیح‘‘میں خودحضورؑ فرماتے ہیں: آج تک جو دس10 اگست 1902ء ہے مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو اٹھائیس28 برس ہو چکےہیں۔ گویااس حساب سے 1874ء وفات کاسال بنتاہے۔

2: ’’تریاق القلوب‘‘ میں فرمایا: ’’ میرے والدصاحب مرحوم کے انتقال کو چوبیس برس آج کی تاریخ تک جو 20 اگست 1899ء اور ربیع الثانی 1317ھ ہے گذرگئے…‘‘اور اس حساب سے 1875ء وفات کاسال ہوناچاہیے۔

3: ’’قادیان کے آریہ اورہم‘‘ جو کہ جنوری 1907ءکی تصنیف ہے اور اس میں دسمبر1906ء کی تقریرکاخلاصہ درج کیاگیاہے جس میں فرمایا: ’’ تب یہ الہام ہوا

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ …

چنانچہ اس الہام کے مطابق غروب آفتاب کے بعد میرے والدصاحب فوت ہوگئے…انہیں دنوں میں جن پرپینتیس برس کاعرصہ گزرگیا ہے۔ میں نے اس الہام کویعنی

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

کومہرمیں کھدوانے کے لئے تجویز کی… یہ الہام قریباً پینتیس یاچھتیس برس کاہے‘‘اس حساب سے 1872ء سنہ وفات ہوگا۔

4:’’ضمیمہ تحفہ گولڑویہ‘‘ جوکہ 1900ء کی تصنیف ہےمیں فرمایا: ’’اورنیزالہام

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

جو میرے والدصاحب کی وفات پرایک انگشتری پرکھوداگیا تھا…اور جیساکہ انگشتری سے ثابت ہوتاہے یہ بھی چھبیس برس کازمانہ ہے۔ ‘‘یہ سال 1874ء بنتاہے۔

5: ’’اربعین نمبر3‘‘جوکہ 1900ء کے وسط کی تصنیف ہےمیںفرمایا:’’اورنیزالہام

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

جو میرے والدصاحب کی وفات پرایک انگشتری پرکھوداگیا تھا…اورجیساکہ انگشتری سے ثابت ہوتاہے یہ بھی چھبیس برس کازمانہ ہے۔‘‘ گویاسال 1874ء بنتاہے۔

6: اور’’کتاب البریہ‘‘ جوکہ1897ءکی تصنیف ہےمیں فرمایا: ’’میری عمر قریباً چونتیس یا پینتیس برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا…تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے… اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے… میں نے اس الہام کو ان ہی دنوں میں ایک نگینہ میں کھدوا کر اس کی انگشتری بنائی جو بڑی حفاظت سے ابتک رکھی ہوئی ہے۔ غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری…‘‘

اس بیان میں حضوراقدسؑ اپنی عمرکاتخمینہ بتارہے ہیں اور ایک ہی اقتباس میں صاف نظرآرہاہے کہ ایک موٹااندازہ ساہے، شروع میں فرمایا کہ چونتیس یاپینتیس برس اور آخرپرفرمایاکہ قریباً چالیس برس، اب اگرتاریخ پیدائش 1835ء مانی جائے تو 1870ء سے 1875ء کے درمیان کوئی سنہ وفات ہوناچاہیے۔ اور اگر: سنہ وفات 1874ء تھا تو تاریخ پیدائش 1834ء ہوگی چالیس سال منفی کرنےسے، اور اگر34/35سال منفی کریں تو 1839ءیا1840ءسنہ ہوگا۔ اور اگر1876ء سنہ وفات ہوتو تاریخ پیدائش کاسنہ 1836ء یا 1841ء یا1842ء ہوگا۔ اور اگر سنہ وفات 1872ء فرض کریں تو تاریخ پیدائش کاسنہ 1832ء یا1837ء کے قریب ہوگا۔

7: ’’حقیقۃ الوحی‘‘اردوحصہ میں فرمایا: ’’عرصہ تخمیناً تیس برس کا ہوا ہے، اور عربی حصہ میں فرمایا:

قد مضی علی صُنْعِ ہٰذا الخاتم أزیَدُ من ثلاثین سنة‘‘

حقیقۃ الوحی کی تصنیف1905/1907ء کی ہے، اس اعتبار سے 1873ءسے 1875ء بنے گا۔

لیکن جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ یہ سب قیاس اور تخمینے تھے اب تخمینوں کے اوپر سنہ کا تعین کرنا اور حتمی سمجھناایک مشکل امرہے۔ ہاں یہ ہوسکتاہے کہ ہم نسبتاً قوی قرائن کی بدولت قدرے قریب ترکسی تاریخ یاسنہ کاتعین کرسکیں لیکن کسی حتمی تاریخ یاسنہ کا تعین ایساتحقیق طلب کام ہے کہ مضبوط ترین اور ٹھوس ترین دلائل کے بدوں مشکل ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ دیکھنایہ ہے کہ حضورؑ کےوالد صاحب کی وفات کاسال کس طرح معین کیاجاسکتاہے۔ یا کس طرح اس سنہ کے قریب تر پہنچاجاسکتاہے۔ خاکسارکے نزدیک سنہ وفات معین کرنے کے کچھ اورقرائن بھی ہیں۔ جومزیدراہ نمائی کاباعث بن سکتے ہیں۔

الف: حضرت اقدسؑ کے والدماجدؒ کی وفات سے پہلے دوالہام ہونے کاذکرمسلسل ملتاہے ایک

وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ

اور دوسرا

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

اوریہ دونوں الہامات عین اس روزکے ہیں جس روزان کی وفات ہوئی ہے۔

ب: حضرت اقدسؑ کے والدماجدؒ کی وفات کے بعد کثرت مکالمات ومخاطبات کا آغازہونا۔ جیساکہ حضرت اقدسؑ بیان فرماتے ہیں: ’’ایک طرف ان کادنیاسے اٹھایاجانا تھا اورایک طرف بڑے زورشور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کامجھ سے شروع ہوا۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ195حاشیہ)

شرف مکالمہ ومخاطبہ کے سنہ کی تعیین کااشارہ بلکہ ایک قسم کی حتمی تعیین کا ذکر حضور اقدسؑ اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں یوں فرماتے ہیں: ’’ایک ہزاردوسونوے1290سال ہوں گے جب مسیح موعودظاہرہوگا۔ سواس عاجزکے ظہور کایہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چندسال بعدمیرے ماموراورمبعوث ہونے کے چھپ کرشائع ہوئی ہے۔ اوریہ عجیب امرہے اورمیں اس کوخداتعالیٰ کاایک نشان سمجھتاہوں کہ ٹھیک بارہ سونوے1290 ہجری میں خداتعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ ومخاطبہ پاچکا تھا۔ پھرسات سال بعدکتاب براہین احمدیہ جس میں میرادعویٰ مسطور ہے تالیف ہوکرشائع کی گئی…اس کتاب براہین احمدیہ میں جس میں میری طرف سے ماموراورمنجانب اللہ ہونے کااعلان ہے صرف سات برس اس تاریخ سے زیادہ ہیں۔ جن کی نسبت میں ابھی بیان کرچکاہوں کہ مکالمات الٰہیہ کاسلسلہ ان سات برس سے پہلے کاہے۔ یعنی بارہ سونوے 1290کا۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 208)

اب جب ہم 1290ہجری کاشمسی کیلنڈردیکھتے ہیں تو یکم مارچ 1873ء سے فروری 1874ء کاسال بنتاہے۔ اس سے ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ کے والدکاسنہ وفات اس سے قبل کاکوئی ہوناچاہیے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button