دعا

والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا کی قبولیت پر مبنی احادیث کے بارے میں حضور انور کی راہ نمائی

سوال: والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا ہر دو کی قبولیت پر مبنی احادیث کے بارے میں نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ ربوہ کے ایک استفسار کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍نومبر 2020ء میں اس بارے میں درج ذیل راہ نمائی فرمائی:

جواب: کتب احادیث میں مروی دونوں قسم کی احادیث اپنی اپنی جگہ پر درست اور ہماری راہ نمائی کر رہی ہیں۔ دونوں قسم کی احادیث کو سامنے رکھیں تو مضمون یہ بنے گا کہ جس شخص کی دعا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے اس کی بد دعا بھی قبول ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دعا تو قبول کروں گا اور بددعا قبول نہیں کروں گا۔

والد کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا ہےاس لحاظ سےاللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بھی قبول کرتا ہےاور بد دعا بھی سنتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے متعلق خاص طور پر فرمایا ہے کہ

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا۔ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل: 24۔ 25)

یعنی تیرے رب نے (اس بات کا) تا کیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (نیز یہ کہ اپنے) ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آجائے، تو انہیں (ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) اُف تک نہ کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے (ہمیشہ) نرمی سے بات کر۔ اور رحم کے جذبہ کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور (ان کے لئے دعا کرتے وقت) کہا کر (کہ اے) میرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی۔

پس ان احادیث میں حضورﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ والد کی دعاؤں سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کی بد دعا سے بچو۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button