تاریخ احمدیت

غلام اکبر از بٹالہ (نمبر 14)

(عمانوایل حارث)

31؍مارچ 1919ء کواردو کے ممتاز ادیب اور صحافی آغا بابر کی پیدائش ہوئی۔ آغا بابر کا اصل نام سجاد حسین تھا اور وہ بٹالہ ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کےفارغ التحصیل تھے۔ ابتدا میں انہوں نے فلموں میں مکالمہ نویس کے طور پر کام کیا اور قیام پاکستان کے بعد آئی ایس پی آر کے جریدے مجاہد اور ہلال کے مدیر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکہ چلے گئے اور عمر کا باقی حصہ انہوں نے وہیں بسر کیا۔ آغا بابر اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لب گویا، اڑن تشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے کے علاوہ ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات بھی لکھنی شروع کی تھی مگر وہ ان کی وفات کی وجہ سے ادھوری رہ گئی۔ آغا بابر مشہور دانشور عاشق حسین بٹالوی (تاریخ ولادت: 1903ء وفات: 1989ء)اور اعجاز حسین بٹالوی (ولادت: 1924ءوفات: 2004ء)کے بھائی تھے۔ 25؍ستمبر 1998ء کو آغا بابر نیویارک میں وفات پاگئےاور وہیں آسودۂ خاک ہیں۔

آغا بابر معروف اور کثیر الاشاعت اردو جریدے ’’نقوش‘‘ میں ’’خدوخال‘‘ کے عنوان سے ایک باقاعدہ مضمون لکھا کرتے تھے۔ طباعت کی دنیا کی نامور شخصیت محمد طفیل کے جاری کردہ رسالہ نقوش کے سالنامہ میں آغا بابر کے اس مستقل اور جاری مضمون ’’خدوخال‘‘ کو بڑی توجہ اور شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ نقوش کے شمارہ نمبر 138 میں مدیر جاوید طفیل نے صفحہ202 پر آغابابر کی تحریر کردہ ’’خدوخال ‘‘کی جو قسط شائع کی تھی اس میں آغا بابر نے اپنے غلام اکبر کے والدین، ننھیال، بچپن، تعلیم، ہم مکتب دوستوں، بچپن کی دلچسپیوں، شوق اور رجحانات کا ذکر کرتے ہوئے بٹالہ شہر کے حوالہ سے لکھا:

’’حویلی کے ساتھ میں ایک گلی نکلتی تھی۔ جسے سپری ٹن کی گلی کہتے تھے۔ ایک صاحب ڈپٹی کمشنر کے آفس میں سپرٹنڈنٹ تھے۔ انگریز کا دور عروج اور انگریز ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا سپرٹنڈنٹ ہونا ایک بڑی اور اونچی نوکری تھی۔ سپرٹنڈنٹ کا مشکل اور بھاری لفظ عام آدمی ادا کرنے سے قاصر تھا۔ سپری ٹن کا ٹن بھی آسانی سے ادا نہ ہوپاتا۔ چنانچہ اس کا نام سِپری ٹن کی گلی سے بگڑ کر سپری ناں کی گلی پڑگیا۔ سپرٹنڈنٹ صاحب کا نام بابو عزیز دین تھا۔ جو پنشن لے چکے تھے۔ اور آنکھوں کی کسی مہلک بیمار ی سےبینائی کھو چکے تھے۔ محلے کے بزرگوں میں سے تھے۔ ان تک خبر پہنچی کہ غلام اکبر اپنی ماں کو ہپناٹزم کرتا کرتا خود بے ہوش ہوگیا تو انہوں نے برخوردار کو بلابھیجا۔ ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ معلوم ہوگیا کہ لڑکے کی طبیعت مہم جوئی سے بھرپور ہے۔

ایک کتاب پڑھوا کر سنی۔ حافظ کا دیوان پڑھوایا۔ پھر بتایا کہ دیوان حافظ سے لوگ فال کس طرح نکالتے ہیں۔ مہم جو لڑکا بولا میرے مستقبل کی فال دیکھیں۔ بابو عزیز دین نے فال نکالی۔ کہا ایک صفحہ الٹ کر ساتواں شعر پڑھو۔

بر زمینے کہ نشانِ کف پائے تو بود

سالہا سجدہ صاحب نظراں خواہد بود

(ہر وہ جگہ جہاں جہاں تیرے پاؤں کے نشان ہوں گے۔ اہل نظر لوگ سجدہ کریں گے)

عزیز دین نے کہا کہ فال نیک نکلی ہے۔ تمہاری قسمت اچھی ہوگی۔

یتیم نوجوان کے اندر سے اطمینان کی آہ نکلی۔ بابو عزیز دین نے کہا۔ دیکھتے ہومیری الماری کتابوں سے بھری پڑی ہے۔ بڑا اچھا ہو اگر تم ایک گھنٹے کے لئے آجایا کرو۔ کوئی کتاب اٹھا کر پڑھتے جاؤ۔ میں سنتا جاؤں۔ ہم دونوں کا فائدہ۔ تمہارا مطالعہ بڑھے گا اور میں کتاب پڑھ نہیں سکتا۔ تم سے سن لیا کروں گا۔

عزیزدین کی محبت اور شفقت سے بھری باتوں سے والد صاحب بہت متاثر ہوئے اور روز ایک گھنٹے کے لئے جانا شروع کردیا۔

ان دنوں مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں دھڑا دھڑ چھپ کر منصہ شہود پر آرہی تھیں۔ اور لوگ دلچسپی سے پڑھ رہے تھے کہ یہ کون شخص ہے، کیا کہتا ہے۔ مَیں مسیح موعود ہوں۔ میں احمد کا غلام ہوں۔ احمدہوں۔ گوتم اور کرشن میرے خون میں گردش کرتے ہیں۔ یوسف اور موسیٰ میری دائیں اور بائیں جیب میں ہیں۔ میرے اندر روشنی کا سمندر موجود ہے۔ میرے باطن میں نور ابھر رہا ہے۔ میرے اندر سورج طلوع ہورہا ہے۔ ستاروں کی کہکشاں میرے اوپر جھک کر مجھے سلام کرتی ہے۔

کیسے دن تھےوہ کہ برٹش گورنمنٹ کا پولیٹکل ڈیپارٹمنٹ عروج پر ہوتے ہوئے کوئی نوٹس نہیں لے رہا تھا۔ یہ باتیں پولیٹیکل نہ تھیں۔ مذہب اور دین کے متعلق تھیں۔ اس میں انگریزکیوں مخل ہو۔ جب تک امن عامہ درست۔ سب درست۔

ایک روز بابو عزیز دین نے والد صاحب کو مرزا غلام احمد کی کوئی کتاب الماری میں سے نکال کر پڑھنے کو کہا، وہ ایک دو گھنٹے پڑھ کر سناتے رہے۔ اگلے روز پھر جہاں سے چھوڑی تھی، وہاں سے شروع کی تھی۔ چار پانچ دنوں میں ختم ہوگئی۔ پھر ایک دن براہین احمدیہ کی باری آئی۔ پڑھ کر سناتے رہے۔

پڑھنے والا نوخیز صالح خون جوان سال ذہانت، دل میں تجسس، دماغ میں تشکک، چند دنوں میں براہین احمدیہ کی جلد اول ختم ہوگئی۔ پھر ایک اور کتاب الماری میں سے نکالنے کو کہا، جو خواب کی اہمیت، بشارت کی وقعت اور تعبیر خواب کے بلیغ اشاروں کے متعلق تھی۔ پڑھ پڑھ کر سنانے لگے۔

اس دوران غلام اکبر، بابو عزیز دین کو چاچا جی کہنے لگے تھے۔ چاچا جی کتاب سنتے سنتے کئی بار کہہ اٹھتے۔ غلام اکبر! یہ غلام احمد کمال کا آدمی ہے۔ کیسی کیسی باتیں لکھتا ہے۔ اور بات کس ڈھنگ سے کرتا ہے۔ کیسا آدمی ہوگا۔ اسے تو ملنا چاہئے۔

والد صاحب ایک دن قادیان جاپہنچے۔ جو بٹالہ سے آٹھ نو میل کے فاصلے پر تھا۔ چھوٹا سا گاؤں جیسے گاؤں ہوتے ہیں۔ کچھ کچے مکان۔ کچھ ادھر کچھ ادھر۔ کچھ خاک ادھر اڑ رہی تھی۔ کچھ دھول ادھر۔ یہ بات سن اٹھارہ سو کے وسط کی ہے۔ جب کچی آبادی کے گاؤں میں ایک بھی پختہ مکان نہ ہوتا تھا۔ تلاش بسیار کے بعد مکان ملا۔ دروازہ کھٹکھٹایا، ایک منشیانہ صورت شخص نے دروازہ کھولا۔ ایک نوجوان لڑکا چوکھٹ پر کھڑا دیکھا، جس کی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ جس کے چہرے پر آغاز شباب کی شادابی اور تجسس پسندی کی جھلک نمایاں تھی۔ جس کی آنکھوں میں زندگی سے شناس ہونے کی معصومانہ چمک دکھائی دی۔ اجنبی لڑکے کو دیکھ کر قادیان کے گوشہ نشین کو اچنبھا ہوا۔ کہاں سے آئے ہو برخوردار!

والد صاحب نے نام بتایا۔ بٹالہ سے آیا ہوں۔ آپ کی چند کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ بلکہ ایک صاحب کو جو آنکھوں سے نابینا ہیں۔ پڑھ کر سناتا ہوں۔ آپ سے ملنے کا شوق بڑھا۔ چلا آیا۔

تھکے ہوئے ہو؟

جی ہاں

مرزاصاحب نے کونے میں کائی لگے مٹکے کے منہ پر سے اوندھا پڑا مٹی کا کٹورا اٹھایا۔ اس میں ٹھنڈا پانی ڈال کر والد صاحب کو دیا۔ والد صاحب کوٹھڑی میں بچھے ٹاٹ پر بیٹھ گئے۔ ایک کونے میں چھوٹی سی دری کا ٹکڑا بچھا تھا۔ جس پر گاؤ تکیہ لگا تھا۔ جس کے ساتھ ایک بکس پر کتابیں رکھی تھیں۔ ایک منشیوں والی صندوقچی پر قلمدان دھرا تھا۔ مرزا صاحب صندوقچی کے پاس گاؤ تکیہ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے۔

وہ کون شخص ہے جسے تم میری کتابیں پڑھ کر سناتے ہو؟

والد صاحب نے بتایا۔ فلاں فلاں کتاب سنا چکا ہوں اور فلاں سنا رہا ہوں۔

میری بات سمجھ میں آتی ہے؟

کئی باتیں تو ایسی ہیں جو چاچا جی کی سمجھ میں بھی نہیں آتی ہیں۔

مرزا ہنسے۔ شربت پلاؤں ؟

اٹھ کر اسی کٹورے میں شکر ڈال کر کلک سے گھولی۔ بولے: تمہارا باپ کیا کرتا ہے؟

والد صاحب نے بتایا۔ فوت ہوچکے ہیں۔ ایک بہن ہے۔ بیوہ ماں کفیل ہے۔

تم سمجھدار لڑکے معلوم ہوتے ہو۔ کبھی کبھی آجایا کرو۔

جب والد صاحب نے چاچا جی کو مرزا غلام احمد سے ملاقات کا قصہ سنایا، تو حیران ہوکر عزیز دین بڑی ایکسائٹ منٹ کے ساتھ بار بار پوچھتا۔ کمال کر دیا تو نے غلام اکبر۔ تو قادیان جا پہنچا۔ کمال کا لڑکا ہے تو بھی۔ تو کیا کہنے لگا مرزا غلام احمد۔ کبھی کبھی آجایا کرو۔ تم کو اس نے خود شربت پلایا۔ کتابوں کے مصنف نے۔ بھئی کمال ہوگیا۔ بھئی کمال کردیا تم نے۔

مہینے دو کے بعد غلام اکبر صاحب نےپھر جا کنڈی کھٹکھٹائی۔ مرزا صاحب نے دروازہ کھولا۔ پہلے سےبھی زیادہ شفقت سے پیش آئے۔ حال احوال پوچھا۔ بولے۔ غلام اکبر میں ایک نئی کتاب لکھ رہا ہوں۔ کیا میری کتابیں لوگ شوق سے پڑھتے ہیں ؟

والد صاحب نے کہا۔ جی ہاں۔ کیوں نہیں۔ چاچا جی تو آپ کی کتابوں میں ہی غرق رہتے ہیں۔

ہنس کر بولے۔ یہ کتاب پڑھو۔ پہلے صفحے سے۔

والد صاحب نےآدھا ہی صفحہ پڑھا تھا کہ بولے شاباش۔ تمہیں ایک خاص چیز کھلاؤں ؟

چھت سے ایک چھینکا لٹک رہا تھا۔ اٹھ کر انہوں نے اس میں سے ایک چیز نکالی۔ او رکہنے لگے کسی نے امرتسر سے یہ سوغات بھیجی ہے۔

اسے بسی کٹ کہتے ہیں۔ کیسا ہے؟

والد صاحب نے تعریف کی۔

بولے یہ انگریز لوگ کھاتے ہیں۔

بڑی مزیدار چیز ہے۔

برخوردار۔ کیا ارادہ ہے تمہارا؟نوکری کرو گے یا کچھ اَور؟

والد صاحب نے کہا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ باپ ہے نہیں۔ نوکری ملے تو کیسے۔ کہے کسی سے تو کون کہے۔ گھر میں ایسا کوئی فرد نہیں۔

مرزا صاحب نے میرے والدکے کندھے تھپکے اور بولے۔ اگر چاہو تو تم میرے پاس آرہو۔ تمہارے جیسے ذہین نوجوانوں کی مجھے ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔ تمہیں میں کچھ بنا دوں گا۔ والد صاحب نے کوٹھڑی کی بے سروسامانی اور سر پر لٹکتے چھینکے پر غور کیا۔ سوچا اپنے گھر کے چھینکے سے گر کر۔ اس چھینکے میں لٹکوں ؟ کیا بن جاؤں گا؟ بولے۔ مجھے آپ کیا بنا دیں گے؟

برخوردار۔ غلام اکبر۔ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔

والد صاحب نے کہا کہ جی نہیں۔ ملازمت کروں گا۔ چار پیسے کما کر بیوہ ماں کو دوں گا۔

مرزا صاحب نے دو چار پمفلٹ والد صاحب کی بغل میں داب دیئے۔ یہ لے جاؤ۔ اپنے چاچا جی کے لئے۔ انہیں پڑھ کر سنانا۔

اب چاچا جی سن رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ غلام اکبر۔ وہ دیکھنے میں کیسا ہے؟ سر کے بال خسخسیہیں۔ لمبے پٹے ہیں۔ یا ولائتی فیشن کے ہیں ؟داڑھی کیسی ہے۔ لمبی ہے؟ سر پر صافہ رکھتے ہیں یا ٹوپی پہنتے ہیں ؟

والد صاحب نے کہا۔ سر کے بال خسخسی، نہ لمبے، نہ ولائتی۔ سر پر چھکو پہنا ہوا تھا۔ داڑھی لمبی سی ہے۔ ایک آنکھ کو ذرا گھما کر دیکھتے ہیں۔ ‘‘

آغابابر کا بیان نقوش کے شمارہ نمبر 138 کے صفحہ 204 پر بھی جاری رہتاہے۔

معزز قارئین! آغابابر کی درج کردہ باتوں کی تاریخ احمدیت کے موجود ماخذوں سے توثیق تو بظاہر ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ نیز یہاں بعض واقعاتی اور سنین کے جھول بھی نمایاں ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی، بےنفسی، علمی برتری، مخلوق خدا کی ہمدردی، اور ہر کس و ناکس کے لیے مہمان نوازی کے اعلیٰ وصف کی جھلکیاں کھل کر نظر آتی ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button