تعارف کتاب

الدلیل المحکم علی وفات المسیح ابن مریم علیہما السلام (قسط 13)

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ ایڈیٹر البدر (ہندی) قادیان)

٭…سن اشاعت: 20؍دسمبر1900ء

٭…مطبع انوار احمدیہ قادیان دارالامان

تعارف مصنف

حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب رضی اللہ عنہ ضلع کٹک صوبہ اُڈیشہ کے رہنے والے تھے۔ جوانی میں ہی دینی تعلیم کے حصول کے لیے حیدرآباد دکن گئے اور وہاں مدرسہ محبوبیہ میں تعلیم پائی۔ اسی مدرسے میں آپ کا تعارف حضرت میر محمد سعید صاحب حیدرآبادی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا۔ مدرسہ محبوبیہ میں دستار بندی ہوئی۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کا مطالعہ کیا اور زار زار رونے لگے خصوصاً اس شعر پر

بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

آپ لیٹے لیٹے اٹھ بیٹھے اور کہا کہ اب دیر کیا ہے حق ظاہر ہوگیا۔ آپ کی بیعت کا حال اور ابتدائی حالات آپ کے بیٹے محترم سید عبدالحکیم صاحب کٹکی نے اخبار الحکم 28؍جون و 7؍جولائی 1939ءمیں شائع کرائے ہیں۔ آپ نے اندازاً 1898ء میں بیعت کی۔ اور تبلیغ میں کوشاں ہو گئے۔ 1900ء میں آپ نے ایک کتاب ’’الدلیل المحکم علیٰ وفات المسیح ابن مریم‘‘ لکھی۔ آپ کے قادیان آنے کی خبر دیتے ہوئے اخبار الحکم لکھتا ہے: ’’کٹک سے مولانا مولوی سید عبدالرحیم صاحب مصنف الدلیل المحکم مع اور چند رفقاء کے تشریف لائے ہیں۔ ‘‘(الحکم 24؍جنوری 1901ء صفحہ12)

12؍جنوری 1916ء کو آپ کی وفات سونگڑہ اڑیسہ انڈیا میں ہوئی اور وہیں تدفین ہوئی۔

الدلیل المحکم کا پس منظر

سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید اور الہام سے یہ دعویٰ فرمایا کہ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔

وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ402)

اس دعویٰ کے نتیجے میں سارے ہندوستان میں نیک اور سعید روحوں نے آپ کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ لیکن کئی بدبخت ایسے بھی تھے جو انکار اور تضحیک کی راہ پر چل پڑے اور مخالفین کی صف میں کھڑے ہوگئے۔ اُس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ وفات مسیح تھا۔ بڑے بڑے علماء کہلانے والے لوگ اس مسئلے میں ٹھوکر کھا رہے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بجسم عنصری زندہ چوتھے آسمان پر موجود ہونے کے قائل تھے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں اس سوال کا بہت تفصیل سے جواب دیا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر قرآن مجید کی 30آیات پیش کیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کے فیض سے بہت سے احمدی علماء نے وفات مسیح کے حوالے سے کتب تحریر کیں۔ حضرت مولوی سید عبد الرحیم صاحب کٹکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا۔ چنانچہ آپؓ نے اس کتاب کے سرورق پر لکھا کہ’’الحمد للہ علی توفیق کہ بتائید حضرت حجۃ اللّٰہ فی الارض میرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی مسعود الصلوٰۃ والسلام‘‘

خلاصہ مضمون

اس کتاب کے تین حصے ہیں۔ جس میں آپؓ نے مخالفین احمدیت کی طرف سے حیات مسیح کے متعلق پیش کیے جانے والے دلائل کا رد کیا ہے۔ اور آپ نے پوری تحقیق اور تدقیق کے ساتھ ان اعتراضات کا رد فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ’’میں کورانا تقلید کو مذموم سمجھتا ہوں اور بفضلہ تعالیٰ عقائد حقہ سنت و جماعت سے واقف اور کتب فقہ تفسیر و حدیث صحیح کے مخالف اقوال کو مردود جانتا ہوں۔ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور اُن کے اصحا ب کے جملہ کتب و رسائل الاماشاء اللہ میں نے بغور دیکھے اور سنے۔ اور اپنے قدیم اعتقاد کے رُو سے ان پر مخالفانہ نظر ڈالی۔ لیکن میں حلفاً کہتا ہوں کہ جس قدر تجسس زیادہ کیا اُس قدر اُس امام کی قدر و منزلت میرے دل میں گھر کرنے لگی اور اپنا قدیم عقیدہ اور مخالفوں کی تحریریں دونوں قرآن و حدیث کی صریح مخالف معلوم ہونے لگیں۔ اور جہاں تک میں نے اس بارہ میں اپنی عقل خدا داد سے مدد لی حضرت میرزا صاحب کےدعویٰ کو بےدلیل نہیں پایا۔ اب یہاں آپ کے تمام شکوک و اعتراضات کا جواب حرفاً حرفاً نمبر وار ادب کےساتھ عرض ہے۔ ‘‘(صفحہ 1تا2)

اس کے بعد حضرت سید عبد الرحیم صاحب کٹکیؓ نے نمبر وار اعتراضات کو پیش کر کے اُس کے جوابات دیے ہیں۔ اور ایک ایک اعتراض کے دو دو کئی بار تین تین جواب دیےہیں۔ بطور نمونہ ایک اعتراض و جواب پیش ہے

سوال: بخاری و مسلم میں آیاہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حیات مسیح میں اس آیت

(وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا سورت النساء آیت160)

پر تمسک کیا ہے

جواب(1) اول حضرت ابو ہریرہ اپنے کلام میں شک کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاں شک و تردد پیدا ہوا وہاں یقین کا معنی کیونکر پیدا ہو سکتا ہے؟

جواب(2) حضرت ابو ہریرہؓ کا یہ کہنا کہ’’ فاقروا ان شئتم‘‘یہ صاف اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ انہوں نے اس آیت سے قاری کو پڑھنے نہ پڑھنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص بموجب فرمودہ ابوہریرہؓ کے اس کو نہ پڑھے تو اُس کے نزدیک یہ آیت ہر گز ہرگز فہم مخالف کے نزدیک حجت نہیں ہو سکتی۔

جواب(3) فہم صحابی حجت شرعی نہیں۔ خصوصاً ابوہریرہؓ جیسے صحابی کا فہم جن کی غلط فہمی اہل حدیث پر مخفی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اکثر مفسرین نے قبل موتہکی ضمیر کتابی کی طرف لوٹائی ہے۔ (بحوالہ صفحہ 2تا3)

ایک دوسرے اعتراض کے جواب میں لکھتےہیں:

’’سوال: موت کے بعد جب رفع روح ہوا کرتا ہے تو

مُتَوَفِّیْکَ

کے بعد

رَافِعُکَ اِلَیَّ

کی کیا حاجت تھی ضرور اس بارہ میں کوئی نہ کوئی رمز غامض ہوگا۔

جواب: بے شک بعد مرگ رفع روح ہوا کرتا ہے مگر مسیح ابن مریم کےلئے توفی کے بعد رفعکا ذکر ایک بڑے بھاری الزام کے دور کرنے کے واسطے واقع ہے۔ توریت کا حکم ہےکہ مصلوب کی موت لعنتی ہوا کرتی ہے۔ اس لئے بد ذات یہود علماء نے یہ منصوبہ باندھا کہ اگر یسوع مسیح سولی پر چڑھا دیا جاوے اور وہیں سے مردہ اتار ا جائے تو حسب توریت سب پر کھل جائے گا کہ یسوع اگر سچا نبی ہوتا تو ہرگز صلیبی موت اُسے نہ ہوتی۔ اس لئےاللہ عز وجل نے ہمارے پیشوا سید و مولی رسول اللہﷺ کے ذریعہ سے اس تہمت کو اس طرح رفع فرمایا کہ طبعی موت سے مرکر با عزت آسمان پر اٹھایا گیا۔ ہر گز صلیبی موت سے نہیں مرا جو در حقیقت لعنتی موت ہے یہودی اس باب میں جھوٹےہیں۔ ‘‘

مختصر یہ کہ حیات مسیح کے حوالے سے کم و بیش 50 سےزائد کیے جانے والے سوالات کے آپ نے جوابات حصہ اول میں دیےہیں۔

الدلیل المحکم کا دوسرا حصہ منشی کرم الٰہی صاحب کے مغالطہ کے رد میں ہے۔ منشی کرم الٰہی صاحب نے ایک رسالہ الدلیل علی اثبات حیات المسیح ابن مریم و تکذیب خروج المثیللکھا تھا۔

اس رسالے میں انہوں نے مدعیان نبوت و الوہیت کی ایک لمبی فہرست میں ستائیس شخصوں کے نام درج کر کے عوام کو یہ دھوکا دینا چاہا ہے کہ مرزا صاحب بھی اُن میں سے ایک ہیں۔ حضرت سید عبد الرحیم کٹکی صاحبؓ نے اس حصے میں حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی صداقت کے بین دلائل پیش کیےہیں۔ چنانچہ آپ اُس کو جواب دیتے ہوئے لکھتےہیں: ’’منشی صاحب! خدا کو حاضر ناظرجان کر یہ تو فرمائیے کہ الوہیت و نبوت کے مدعیوں کی باتوں میں سے کون سی بات آپ نے مرزا صاحب میں پائی ہے۔ کیا مسیلمہ کذاب کی طرح نماز کو معاف کروا دی۔ اور شراب وزنا کو حلال ٹھہرایا اور قرآنی سورتوں کے مقابل میں کوئی سورۃ لکھ کر قرآن کی فصاحت و بلاغت کا انکار کیا۔

جلسہ مذاہب لاہور میں جہاں سارے مذاہب کے مدعی اور بڑے بڑے نامی علماء اور فلاسفر اپنے اپنے مذہب کی حقانیت کا ثبوت دینےکے لئے حاضر ہوئے تھے۔ انصاف کو کام میں لاکر سچ سچ فرمائیے کہ وہاں اسلام کا بول بالا کس کے روحانی فیض سے ہوا۔ آپ سے یا مولوی محمد حسین یا مولوی ثناء اللہ یا قاضی سلیمان سے یا مسیح وقت مرزا غلام احمد صاحب سے اور اُس روز کس نے اسلام کی فتح کا نقارہ بجا کر روئے زمین کے کان کھول دئے اور کس نے سب کے منہ سے علی العموم نکلوایا کہ آج اسلام کی فتح ہوئی دیگر مذاہب نے شکست کھائی اوروہاں کی پاک زبان سے قرآنی حقائق و معارف کا چشمہ جاری ہو کر ایک عالم کو سیراب کیا آپ اور آپ کےہم خیال مولوی یا ابو الحسن تبتی وغیرہم نے یا حضرت مجدد قادیانی نے۔ حق تو یہ ہے کہ اگر اس جلسہ میں حضرت مرزا صاحب کی تقریر نہ پڑھی جاتی تو محمد حسین بٹالوی وغیرہ مولویوں نےتو اسلام کی ناک ہی کٹوا دی تھی یہی ایک بات ہے کہ منصف یا غیرت دل دادہ اسلام کو مجبو ر کرتی ہے کہ جس کے ہاتھ سے ایسے اسلامی کارنمایاں واقع ہوں لاریب وہی اپنے زمانہ کا مسیح اور وقت کا مجدد دین مہدی وقت و امام زماں ہے۔ ‘‘

اس کتاب الدلیل المحکم حصہ دوئم میں آپ نے ایک سرخی’’ کٹکی مولوی صاحبوں کے اعتراضات کے جوابات‘‘کے لگائی اور اس کے تحت14اعتراضوں کے جوابات دیےہیں۔ بطور نمونہ ایک درج ہے:

’’سوال ہفتم: مثیل مسیح کا ثبوت آیت قرآن و حدیث سے دو۔

جواب: حضرت مجدد نے( بروئے رحمت خدا باد) اس بات میں ایک رسالہ المسمی بشہادۃ القرآن لکھا ہے بغور دیکھو۔ نیز جب وفات مسیح ابن مریم آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ سے بالقطع ثبوت کو پہونچ چکی ہے تو جہاں جہاں حدیثوں میں نزول کا ذکر آیا ہے وہاں لا محالہ مثیل مسیح ہی مراد ہے۔ اور اسی رسالہ الدلیل المحکم کا اکثر مقام باصراحت اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ ‘‘

الدیل المحکم حصہ سوئم میں آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لفظ’’علیہ الصلوٰۃ والسلام اور علیہ السلام‘‘ کے لکھےجانے پر اعتراض کا تفصیلی جواب دیا ہے۔ نیز اس حصے کے دوسرے باب میں رضی اللہ عنہ کے کہنے کے بارے میں تفصیلی جواب دیاہے۔

اس کتاب کے آخر میں حضرت مولوی میر محمد سعید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قطعہ تاریخ درج ہے جو مندجہ ذیل ہے

کیا بحر محیط ہے یہ محکم

اثبات وفات مریم

تائید امام فخر عالم

غرقاب ہے جس سے خصم بیشرم

(1318ہجری)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button