حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دنیا میں قائم کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 20؍ نومبر 2009ءمیں فرمایا:

ایک مومن کے لئے روحانیت اور تقویٰ انتہائی اہم چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مکڑی کے گھر کی مثال دے کر یہ بھی واضح فرما دیا کہ منہ سے مذہب کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہے۔ مذہب کا لیبل لگا لینا اور اس کا لبادہ اوڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ اس سے انسان اپنی نجات کے سامان نہیں کر لیتا۔ بلکہ نجات اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہے۔ اس روح کو پیدا کرنے سے ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مذہب بھیجا ہے۔ اور مذہب کا بنیادی سبق یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کیا جائے اور جب یہی مقصدہے تو ایک دیانتدار انسان کا کام ہے کہ خداتعالیٰ کی تلاش کرے۔ قرآن کریم میں تو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے مومن کو حکم فرمایا ہے کہ میری طرف قدم بڑھاؤ۔ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرو جو خداتعالیٰ نے ایک مومن کے لئے لازمی قرار دی ہیں۔ اسی لئے انبیاء آتے ہیں اور یہی کام خداتعالیٰ کے مقربین اور اولیاء، انبیاء کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے کرتے ہیں۔ یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا بھی تھا اور ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حِلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اُس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہِ راست پر چلاؤں‘‘۔

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 143)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’میں اس لئے بھیجاگیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خداتعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کرکے دکھلاؤں۔ کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خداتعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ …سو مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو‘‘۔

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ291-293حاشیہ)

پس باوجود اس کے کہ قرآن کریم کی تعلیم اپنی اصلی حالت میں آج تک قائم ہے اور موجود ہے لیکن دلوں سے اس کا اثر غائب ہے اور جیسا کہ خداتعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا خداتعالیٰ کو بھول جاتی ہے۔ خدا کو چھوڑ کر دنیا پر انحصار کرنا شروع کر دے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دنیا میں قائم کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، اللہ تعالیٰ نے پرانی قوموں کے قصے اس لئے بیان فرمائے کہ ان کو دیکھ کر ہوشیار رہو اور اپنے مقصد پیدائش کو نہ بھولو۔ اور مقصد پیدائش صرف اور صرف خداتعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور دوسرے یہ پیشگوئی کا رنگ بھی رکھتی ہے۔ یہ واقعات جو بیان کئے گئے ہیں یہ پیشگوئی کا رنگ رکھنے والے واقعات ہیں کہ آئندہ بھی یہ حالت ہو سکتی ہے۔ چاہے وہ مسلمانوں کی جماعت ہی ہو اور آج دنیا کی حالت بتا رہی ہے کہ یہ سو فیصد سچی بات ہے کہ خداتعالیٰ کو بھول کر غیر مسلم تو علیحدہ رہے، مسلمانوں کا انحصار بھی اور توجہ بھی، کوشش بھی اور لگن بھی، دنیاوی چیزوں کے حصول میں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button