متفرق مضامین

نظام وصیت کی برکات

(حیدر علی ظفر۔ مبلغ سلسلہ جرمنی)

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں دو قسم کے نظام جاری فرمائےہیں۔ایک ظاہری نظام ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عقلمند لوگ اس نظام پر غور فکر کرتے رہتےہیں۔ اور اس کو سمجھ کر اس کے بالمقابل متوازن روحانی نظام کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں جہاں تک ظاہری نظام کا تعلق ہے اس میں آسمان، سورج ، چاند، ستارے، زمین،سمندر،دریا، نہریں،پھل،پھول، نباتات، جمادات، حیوانات، چرند پرند، درندےوغیرہ وغیرہ موجود ہیں۔ بعینہٖ اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے جو روحانی نظام قائم کیا ہے اس میں بھی یہ سب باتیں روحانی طور پر موجود ہیں مثلاً ظاہری نظام کا سورج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روحانی نظام کا بھی ایک سورج قرار دیا ہے اور وہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ اسی طرح ایک چاند ہے۔ ظاہری نظام میں ستارے ہیں۔ آنحضرت ﷺنے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے متعلق فرمایا کہ وہ ستاروں کی مانند ہیں۔ ظاہری نظام میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان تجارت کرتا ہے روحانی نظام میں بھی اللہ تعالیٰ نے تجارت کا سلسلہ جاری کیا ہے۔ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنین سے تجارت کرتا ہے مومنوں سے ان کے نفوس اور اموال خرید تا ہے اور اس کے بدلے میں ان کو جنت عطا کرتاہے۔ اور یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں مومن کبھی بھی گھاٹے میں نہیں رہتا۔ اس تجارت میں انسان زمین مکان کی خرید وفروخت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس تجارت کے ذریعہ مومنین کو بھی زمین عطا کرتا ہےبالا خانے اور عظیم الشان محلات عطا کرتا ہے جو اس کی روح کے لیے سکینت کا باعث بنتے ہیں۔ اس روحانی تجارت کو آج حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعہ پھر قائم کیا گیا ہے۔1905ءمیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اپنی وفات کے متعلق الہامات ہونے شروع ہوئے ۔چنانچہ آپؑ نے 20؍دسمبر1905ء کو ایک نہایت اہم اور پر شوکت مگر مختصر تصنیف ’’الوصیت‘‘ شائع فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو رویا اور کشوف کے ذریعہ دکھایا کہ جماعت کے وہ لوگ جو اپنے مال کو خدا کے راستے میں خرچ کریں گے ان کو عظیم الشان جگہ عطا کی جائے گی اس جگہ کا نام آپ نے بہشتی مقبرہ رکھا۔ آپ خود ’’الوصیت ‘‘میں تحریرفرماتے ہیں کہ ’’خدا نے مجھےمیری وفات سے اطلاع دی ہے اور مجھے مخاطب کر کےمیری زندگی کی نسبت فرمایا کہ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں ۔اور فرمایا کہ تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا ۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرور ہے کہ میری وفات سے پہلے دنیا پر کچھ حوادث پڑیں اور کچھ عجائبات قدرت ظاہر ہوں تا دنیا ایک انقلاب کے لیے تیار ہوجائے اور اس انقلاب کے بعد میری وفات ہو۔ اور مجھے ایک جگہ دکھلادی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے تب ایک مقام پر اس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے پھر ایک جگہ مجھےایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کانام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں تب سے ہمیشہ مجھے یہ فکر رہی کہ جماعت کے لئے ایک قطعہ زمین قبرستان کی غرض سے خریداجائے لیکن چونکہ موقعہ کی عمدہ زمینیں بہت قیمت سے ملتی تھیں اس لئے یہ غرض مدت دراز تک معرضِ التواء میں رہی۔ اب اخویم مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد جبکہ میری وفات کی نسبت بھی متواتر وحی الٰہی ہوئی۔ میں نے مناسب سمجھا کہ قبرستان کا جلدی انتظام کیا جائے اس لئے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے جس کی قیمت ہزار روپیہ سے کم نہیں اس کام کے لئے تجویز کی۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو۔ جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیاپر مقدم کرلیا اور دنیا کی محبت چھوڑدی اور خدا کے لئے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی۔اور رسول اللہ ﷺکےاصحاب کی طرح وفاداری ااور صدق کا نمونہ دکھلایا۔آمین یاربّ العالمین۔‘‘ (رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد20صفحہ 315تا316)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس بہشتی مقبرہ کے بارے میں مزیدفرماتے ہیں کہ’’ اور چونکہ اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں۔ اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ

اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَةٍ

یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اُس سے حصہ نہیں۔‘‘(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 318)

پس بہشتی مقبرہ اللہ تعالیٰ کی منظورشدہ جگہ ہے اور ہر قسم کی رحمتوں کے اترنے کی جگہ ہے۔جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہے۔ لیکن اس طرح اللہ تعالیٰ نے تجارت کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے نفوس اور مال قربان کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں لازماً بہشتی جگہ عطا فرمائےگا۔اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ ’’تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جو اُس کی موت کے بعد دسواں حصہ اُس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اس سے کم نہیں ہوگا اور یہ مالی آمدنی ایک بادیانت اور اہل علم انجمن کے سپرد رہے گی۔‘‘ (رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ319)

کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں کہ مامور زمانہ کی بات کو سنتے اور اس روحانی تجارت جو ان کو اس دنیا اور آخرت میں بھی کئی گنا زیادہ نفع دے گی شامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ دنیا آخر دنیا ہی ہے ایک نہ ایک دن اس دنیائے فانی کو چھوڑنا ہی ہےلیکن کامیاب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنا گھر آخرت میں بنالیا ہوگا جنہوں نے اپنی اپنی قربانی کے مطابق پلاٹ خرید لیا ہوگا۔ یہ حتمی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مخلصین کے مال کو بھی کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایسے لوگوں کو ان الفاظ میں خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کے لئے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں۔ یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔‘‘ (رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 308تا309)

اس نظام میں شمولیت سے صبراور قناعت جیسی برکتیں تو اس جہان میں مل جاتی ہیں تاہم اگلے جہان میں خدا تعالیٰ اوربہت سی برکات سے نوازےگا۔ حضورؑ نے رسالہ الوصیت میں اپنی وفات کے متعلق الہامات درج فرماتے ہوئے جماعت کے جملہ افراد کو نصائح فرمائیں۔اتفاق واتحاد کی تلقین فرماتے ہوئے تقویٰ اور دعاوٴں پر زوردیا۔ قدرت ثانیہ یعنی خلافت کے قیام کے پُر شوکت الفاظ میں جماعت کو خوش خبری عطا فرمائی۔اس کے علاوہ اس رسالے میں نظام وصیت کی بنیادرکھی۔

بعض احباب کو اس وجہ سے وصیت کرنے میں انقباض ہوتا ہے کہ وصیت کی شرائط بڑی کڑی اور سخت ہیں اور ہم بہت کمزور ہیں اور اندیشہ ہے کہ کہیں شرائط پوری کرنے سے قاصر نہ رہ جائیں۔ اس ضمن میں یہ گزارش ہے کہ بنیادی طور پر وصیت کی شرائط ’’شرائط بیعت‘‘ کی ہی تجدید ہیں۔ اور اس کے ساتھ نمایاں مالی قربانی کا بھی وعدہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے ہمت کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے ایفائے عہد کی توفیق عطا فرمادیتا ہے۔ مخلصین جماعت کے لیے میں وہ شرائط بھی نقل کردیتا ہوں۔سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےنظام وصیت میں شامل ہونے کی درج ذیل شرائط تحریر فرمائی ہیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہوناچاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف [احاطہ کی تکمیل،قبرستان کی تزئین، متفرق مصارف وغیرہ] کے لئے چندہ داخل کرے۔‘‘(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 318)

یاد رہے کہ یہ چندہ صرف ایک بار وصیت کرتے وقت دیا جاتاہے۔

’’دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جواُس کی موت کے بعد دسواں حصہ اُس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا۔اور ہر ایک صادق کامل ا لایمان کوختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے ۔لیکن اس سے کم نہیں۔ ‘‘ (رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 319)

’’ تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہوسچا اور صاف مسلمان ہو۔‘‘ (رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 320)

پھر ضمیمہ الوصیت میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے وصیت کرنے والوں کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ’’یادرہے کہ صرف یہ کافی نہ ہوگا کہ جائیدااد منقولہ اورغیر منقولہ کا دسواں حصہ دیا جائے بلکہ ضروری ہوگا کہ ایسا وصیت کرنے والا جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے پابند احکام اسلام ہو اور تقویٰ طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا ہو اور مسلمان خدا کو ایک جاننے والا اور اُس کے رسول پر سچاایمان لانے والا ہو اور نیز حقوق عبادغصب کرنے والا نہ ہو‘‘ (رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 324)

’’جواحباب کوئی جائیدادنہیں رکھتے مگر آمدنی کی کوئی سبیل رکھتے ہیں وہ اپنی آمدنی کا کم از کم دسواں حصہ ماہوار انجمن کے سپرد کریں‘‘(روئیداداجلاس اوّل مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ قادیان ۔مطبوعہ رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 332)

شرائط بیان کرنے کے علاوہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ان شرا ئط کے رکھے جانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ اس الٰہی انتظام پر اطلاع پاکربلا توقف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصہ کل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اپنا جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

الٓـمّٓ۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ھُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ۔(العنکبوت2-3)

کیا لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں اسی قدر پر راضی ہوجاوٴں کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے۔ اور ابھی ان کا امتحان نہ کیا جائے اور یہ امتحان تو کچھ بھی چیز نہیں۔صحابہ رضی اللہ عنہم کا امتحان جانوں کا مطالبہ پر کیاگیا اور انہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں دئیے پر ایسا گمان کہ کیوں یو نہی عام اجازت ہر ایک کو نہ دی جائے کہ وہ اس قبرستان میں دفن کیا جائے ۔کس قدر دُوراز حقیقت ہے۔ اگر یہی روا ہو تو خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں امتحان کی کیوں بنا ڈالی؟ وہ ہر ایک زمانہ میں چاہتا رہا ہے کہ خبیث اور طیب میں فرق کرکے دکھلاوے اس لئےاُس نے اب بھی ایسا ہی کیا۔‘‘(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 327تا328)

پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے احباب جماعت کو وصیت کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے بیان فرمایا:’’اپنے لئے وہ زادجلدتر جمع کروکہ کام آوے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کرلوں بلکہ تم اشاعت دین کےلئے ایک انجمن کے حوالہ اپنا مال کروگے اور بہشتی زندگی پاوٴ گے۔بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کرکے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کئے جائیں گے تب آخری وقت میں کہیں گے ۔

ھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ۔(یس:53)‘‘

(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 328تا329)

سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ احباب جماعت کو نظام وصیت میں شامل کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یہ (وصیت) خدا نے ہمارے لئے ایک نہایت ہی اہم چیز رکھی ہے اور اس ذریعہ سے جنت کوہمارےقریب کردیا ہے۔ پس وہ لوگ جن کے دل میں ایمان اور اخلاص تو ہے اور وصیت کے بارہ میں سستی دکھلاتے ہیں میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وصیت کی طرف جلدی بڑھیں۔

پھر فرمایا: ’’پس جس قدر ہوسکے دوستوں کو بھی چاہئے کہ وہ وصیت کریں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وصیت کرنے سے ایمانی ترقی ضرور ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس زمین میں متقی کو دفن کرے گا تو جو شخص وصیت کرتا ہے اسے متقی بنا بھی دیتا ہے۔‘‘(الفضل یکم ستمبر 1932ءصفحہ9تا10)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نظام وصیت کی اہمیت اور موصیان کو ان کے فرائض یاددلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’نظام وصیت ایک عظیم نظام ہے ہر پہلو کے لحاظ سے۔نظام وصیت کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے جو ممبر ہیں یا داخل ہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں ان میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو اسلامی تعلیم کی رو سے اپنی ذمہ داریوں کو اس قدر توجہ اور قربانی سے ادا کرنے والا ہو کہ ان میں اور دوسرے گروہ میں ایک مابہ الامتیاز پیدا ہوجائے ۔

نظام وصیت صرف 1؍10مالی قربانی کا نام نہیں۔ یہ نظام ہے زمین کی پستیوں سے اٹھاکر آسمانی رفعتوں تک پہنچانے کا۔ جہاں اس نظام میں مالی قربانی کی امید رکھی جاتی ہے وہاں ہر دوسرے پہلو سے ایک نمایاں بھر پورا اسلامی زندگی جو ہر لحاظ سے منور ہو اور حسین ہو اور محمد ﷺ کی روحانی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں رفعتوں کی طرف لے جانے والی ہو…۔

…نظام وصیت کا ہر احمدی مرد اور عورت سے یہ مطالبہ ہے بلوغت کے بعد کہ وہ مالی میدان میں اس قدر قربانی کرنے والی ہو کہ جو غیر موصی مردو زن جماعت احمدیہ کے ممبر ہیں ان سے کہیں آگے بڑھ جانے والے ہوں نظام وصیت احمدی مردو زن سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جہاں تک اوقات کی قربانی یا نفس کی قربانی ہے یعنی زندگی کے جو لمحات ہیں ان کی قربانی ہے وہ غیر موصی سے زیادہ قربانی دینے والے ہوں، نظام وصیت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے جو یہ اعلان فرمایا

بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاِخْلاَقِ (الشفاء۔ الباب الثانی)

میری بعثت کی ایک غرض یہ ہے کہ میں مکارم اخلاق کو اپنے پورے کمال تک پہنچا دوں جس سے بڑھ کر اور کوئی کمال ممکن نہیں۔عربی زبان میں اتمام کے یہ معنی ہیں۔تو نظام وصیت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مکارمِ اخلاق کے میدانوں میں موصیوں کی گرد کو بھی غیر موصی پہنچنے والے نہ ہوں۔ ہر ایک سے پیار کرنے والے ہر ایک کو عزت سے پکارنے والے، جھگڑا نہ کرنے والے۔کافر و مومن سے ہمدردی اور خیر خواہی کرنے والے۔دنیا کی بھلائی کے لئے راتوں کو جاگ کر خداتعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھک کر دعائیں کرنے والے۔ غرض وہ سینکڑوں شعبے مکارمِ اخلاق کے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے اور عملی زندگی میں جن کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ان شعبوں میں غیر موصی سے کہیں آگے بڑھنانظام وصیت اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ نظام وصیت اس کا مطالبہ کرتا ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی میں موصی پر کوئی دھبہ ایک سوئی کے Point کے برابر بھی نہ پڑے۔ نظام وصیت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ …حقوق اللہ کی ادائیگی میں سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اتنی دور آگے نکل جائیں گے غیر موصی سے کہ غیر موصی کی نگاہ بھی وہاں نہیں پہنچ سکے گی۔یہ ہے نظام وصیت ! ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍اپریل 1982ءمطبوعہ خطبات ناصرجلد9صفحہ449تا452)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریک ’’الوصیت‘‘مال کی قربانی ہے، جذبات کی قربانی ہے، اپنے اندر ایک اخلاقی انقلاب پیدا کرنے کی قربانی ہے۔ خدمت اسلام کے لیے مستقل تربیت کے لیے ایک بہترین متحدہ پلیٹ فارم ہے۔یہ وہ عظیم الشان علمی، اخلاقی، مالی اور روحانی سکیم ہے جس کے ذریعہ اسلام کے خلاف تمام منصوبوں اور سازشوں کو کلیۃً ختم کرنا مقدر تھا۔ خدمت اسلام اور قرآن کریم کےلیے اکناف عالم میں مراکز قائم کرتے ہوئے، امیر اور غریب کی تمیز کو دور کرتے ہوئے ،احساس کمتری کے خطرناک اور موذی مرض کا ازالہ کرناتھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:’’وصیت کا معاملہ نہایت ہی اہم معاملہ ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اسے ایسی خصوصیت بخشی ہے اور اللہ تعالیٰ کے خاص الہامات کے ماتحت اسے قائم کیا ہے کہ کوئی مومن اس کی اہمیت اور عظمت کا انکار نہیں کرسکتا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا قائم کردہ سارا نظام ہی آسمانی اور خدائی اور الہامی نظام ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ14؍مئی1928ء)

نظام وصیت کے ذریعہ اسلام کے مفاد کے لیے ایک تعمیری انقلاب کی مہم جاری ہونی تھی۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓمزید فرماتے ہیں:’’پس اے دوستو! دنیا کا نظام نہ مسٹر چرچل بتاسکتے ہیں نہ روزویلٹ۔ یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے بس ڈھکوسلے ہیں اور اس میں کئی نقائص، کئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں۔نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی وہ خدا تعالیٰ کے پیغمبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے۔ پس آج وہی تعلیم امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیاد الوصیت کے ذریعہ 1905ء میں رکھ دی گئی ہے‘‘(نظام نو ،صفحہ 113)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍مئی1948ءمیں فرماتے ہیں کہ’’پس ہر شخص کو چاہئے کہ وہ وصیت کردے اور س طرح دنیا کو بتادے کہ قادیان کے نکلنے سے ہمارا ایمان کمزور نہیں ہوا۔ بلکہ ہم اپنے ایمان میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ مقبرہ بہشتی کے وعدےدنیا کے ہر گوشہ میں ہم کو ملتے رہیں گے… ان کے لئے کم از کم ایمان کا مظاہرہ یہ ہوگا کہ وصیت کردیں۔ کوئی مرد، کوئی عورت اور کوئی بالغ بچہ ایسا نہ رہے جس نے وصیت نہ کی ہو تا دنیا کو معلوم ہوجائے کہ تم میں حقیقی ایمان پایا جاتا ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نظام وصیت کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب کے بارے میں پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دوراز قیاس باتیں ہیں۔بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین وآسمان کا بادشاہ ہے ۔مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں۔‘‘(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 319)

پس جوں جوں تبلیغ ہوگی اور لوگ احمدی ہوں گے وصیت کا نظام وسیع تر ہوتاچلا جائے گا اور جب احمدیت کثرت سے پھیلے گی اور جوں جوں وصیت وسیع ہوگی نظام نو کا دن انشاءاللہ قریب سے قریب تر آجائے گا۔ غرض نظام نو کی بنیاد 1910ءمیں روس میں نہیں رکھی گئی اور نہ آئندہ کسی سال میں یورپ میں رکھی جائے گی بلکہ دنیا کو آرام دینے والے ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے نظام نو کی بنیاد 1905ءمیں قادیان میں رکھی گئی ہے۔ اور اب دنیا کو کسی اور نظام نو کی ضروت نہیں۔ احباب جماعت کو اس کی اہمیت سمجھنی چاہیے کہ جس نے وصیت کی ہے اس نے نظام نو کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں:’’پس اے دوستو!دنیا کا نیا نظام دین کو مٹا کر بنایاجارہا ہے۔ تم تحریک جدید اور وصیت کے ذریعہ سے اس سے بہتر نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیار کرو۔ مگر جلدی کرو کہ دوڑ میں جو آگے نکل جائے ۔وہی جیتتا ہے۔ پس تم جلدسے جلد وصیتیں کروتا کہ جلد سے جلد نظام نوکی تعمیر ہو اور وہ مبارک دن آجائے جبکہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے۔‘‘(نظام نو،صفحہ 121)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر اپنی لذّات چھوڑ کر اپنی عزت چھوڑ کر اپنا مال چھوڑ کراپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھا وٴ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے۔لیکن اگر تم تلخی اٹھا لوگے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاوٴ گے اور تم اُن راستبازوں کے وارث کئے جاوٴ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے۔ لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں۔(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 307)

اب میں حضرت مسیح موعود ؑکی دعاوٴں پر اس مضمون کو ختم کرتاہوں۔سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس قبرستان میں دفن ہونے والوں کے لیے تین مرتبہ خاص دعائیں کی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ میں دعا کرتاہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کرلیا۔ اور دنیاکی محبت چھوڑدی اور خدا کے لئے ہوگئے۔اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اورصدق کا نمونہ دکھلایا۔ آمین یا رب العالمین۔

پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہوچکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں۔ آمین یا ربّ العالمین۔

پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم اے خدائے غفور ورحیم تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجالاتے ہیں اور تیرے لئے اور تیری راہ میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تو راضی ہے اور جن کو تو جانتا ہے کہ وہ بکلی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ آمین یا رب العالمین۔‘‘(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 316تا318)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مخلصین جماعت کو سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی دعاوٴں کی برکت کا مورد بنائے اور نظام وصیت میں شامل ہونے کی سعادت بخشے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button