حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کینیڈا میں مقیم عرب احمدی مرد حضرات کی (آن لائن) ملاقات

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے11؍دسمبر2021ء کو کینیڈا میں مقیم 50 عرب مرد حضرات سے آن لائن ملاقات فرمائی جن کی اکثریت نومبائعین کی ہے۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ شاملین ملاقات نے اس آن لائن ملاقات میں ایوان طاہر ہال، پیس ولج ٹورانٹو سے شرکت کی۔

ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد جملہ حاضرین کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک عرب احمدی نے یہ سوال کیا کہ دعا کس طرح کی جائے کہ وہ زیادہ مؤثر ہوسکے۔ سوال پوچھنے والے دوست نے اس بات کابھی اظہار کیا کہ جب بھی وہ دعا کے لیے حضور انور کو لکھتے ہیں تو انہوں نے دیکھا ہے کہ ان کی دعا بہت جلد قبول ہو جاتی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ آپ کے ایمان کومضبوط کرنے کے لیے آپ کے مسائل کو حل کر دیتا ہے خلیفہ وقت کو خط لکھنے کے بعد۔ یہ تو اس کا احسان ہوا۔ باقی رہ گئی ہماری اپنی بات ہمیں کس طرح دعائیں کرنی چاہئیں، اس بارے میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میرے پہ ایمان مکمل کرو اپنا۔ اپنی ایمان کی حالتوں کو دیکھنا چاہیے۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ مضطر کی دعا قبول کردو، مضطر بننا پڑے گا۔ اضطراری کیفیت تاری کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہے کہ چلتے چلتے کہہ دیا اللہ میاں بس میری بات پوری کردو یا کوئی مسئلہ آیا تو اس وقت دو سجدے کرلیے روکے اور جب مسئلہ حل ہوا تو اللہ تعالیٰ کو بھول گئے، اللہ کون اور مَیں کون۔ اس لیے اپنا ایمان مضبوط کریں، مضطر بنیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں طریقہ سکھا دیا پانچ وقت کی نمازیں بتا کے۔ یہ نمازیں ہیں۔ اور اِن سے بڑھنا ہے تو نوافل ہیں۔ ان میں تم دعا کرو اضطراری کیفیت تاری کرکے تو میں تمہاری دعا قبول کرتا ہوں۔ اب یہ اپنی حالتوں کو دیکھ لیں کہ آپ کا ایمان اس حالت میں ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ پہ کامل اور یقینی ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ سنتا ہے اور پورا کرتا ہے۔ اور جس دین پہ آپ قائم ہیں وہ آخری دین ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ دعا نہیں بھی سنتا تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ نہیں سنتا۔ اس پہ ہمارا یمان ڈانواں ڈول نہیں ہوگا۔ ایمان کی یہ کیفیت ہو۔ پھر اضطراری کیفیت جو ہے مضطر بننے کی ، اگر وہ کیفیت تاری ہوجاتی ہے اور نمازیں آپ پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ میرا یہ کام ہو بھی جائے تب بھی میری ایمانی حالت اور دعاؤں کی حالت ایک ہی رہے گی، کوشش میں کروں گا کہ اس پہ قائم رہوں، تو پھر اللہ تعالیٰ اکثر دعاؤں کو سن لیتا ہے۔ باقی اللہ تعالیٰ پابند نہیں ہے کہ سوفیصد دعاؤں کو سنے یہ تو اللہ کی مرضی ہے اللہ تعالیٰ بہتر سمجھتا ہے، ایک مومن کی بھی بلکہ انبیاء کی بعض دعائیں سنی جاتی ہیں بعض نہیں۔ اس لیے کہ یہ تو دوستی کا ماحول ہے کبھی مان لی کبھی نہ مانی۔ یہی تصور ہے دعا کا جو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو نماز ہے وہ دعا کا مغز ہے۔ اس لیے اپنی نمازوں کو سنوار کے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر نمازیں پانچ وقت ہم سنوار کر پڑھ رہے ہیں اور اس میں نفل بھی شامل کردیتے ہیں تو بہترین ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور پھر یہ عہد بھی کریں کے یہ عارضی نہیں ہے، اس طرح نہیں ہے جس طرح ایک اردو محاورہ ہے کہ ’فصلی بٹیرے ‘کہ جب فصل ہوتی ہے تو ایک خاص قسم کے بٹیرے Quail جسے کہتے ہیں انگریزی میں یا بٹیراقرآن کریم میں بھی آیا ہےبہرحال تو وہ آجاتے ہیں جب فصل پکتی ہے دانہ چُگنے کے لیے اور جب فصل ختم ہوئی تو اُڑ گئے۔ تویہ نہیں ہے کہ جب ہمیں ضرورت پڑی تو ہم آگئے اکٹھے ہوگئے اور دعا کرنے لگے، اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے اور جب مسئلہ حل ہوگیا تو بھول گئے اور پھر دنیا داری میں پڑ گئے۔ تو دعا کے لیے ایک مستقل مزاجی بھی چاہیے اور اضطرار بھی چاہیے اور ایمان میں کاملیت بھی چاہیے۔

ایک اور دوست نے سوال کیا کہ ہم اپنے بچوں کو سکولوں میں جو غیر اسلامی تعلیمات پڑھائی جاتی ہیں ان کے بداثرات سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ اس کے لیے ماں اور باپ دونوں کو قربانی دینی پڑے گی۔ آپ قربانی کے لیے تیار ہیں؟ بچے پید اکرنا تو کوئی کمال نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے آپ کو بچے دے دیے۔ اب ان بچوں کے پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر کچھ فرائض بھی عائد فرمائے ہیں، کچھ ڈیوٹیاں لگائی ہیں، کچھ بچوں کے حق ہم پر قائم کیے ہیں، ان حقوق کو ہم نے ادا کرنا ہے، ان فرائض کو ہم نے ادا کرنا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ بچوں سے دوستی کریں۔ بچپن سے ہی بچے کو پتا ہو کہ میری ماں میری دوست ہے مَیں نے ہر بات اس سے کرنی ہے۔ پتا ہو کہ میرا باپ سخت نہیں ہے آنکھیں نکال کے صرف مجھے نہیں دکھاتا، ڈانٹنا اور مارنا اس کا کام نہیں ہے بلکہ میرا دوست ہے اور پھر وہ بچہ ہر بات باپ سے کرتا ہے۔ خاص طور پر جب بچے 12، 13، 14 سال کے ہوجائیں تو باپوں سے ڈرنے زیادہ لگ جاتے ہیں distance دینے لگ جاتے ہیں۔ اس وقت چاہیے کہ باپوں کو اپنے قریب کرے بچوں کو اور دوستی لگائیں۔ اس ماحول میں کوئی بھی بات جو باہر سے سن کے وہ آئیں گے وہ آپ سے discussکریں گے تو آپ اس کے اچھے اور برے پہلو جو ہیں ان کو discussکریں۔ یہ نہیں کہ اگر ایک بچہ یہاں کے ماحول میں کینیڈا میں رہتا ہوا آپ کے پاس آجائے اور کہہ دے کہ آج homosexuality پہ ٹیچر نے ہمیں پڑھایا تو آپ ہمیں کیا کہتے ہیں اس بارہ میں؟ اور آپ کہتے ہیں لا حول ولا قوۃ، استغفر اللّٰہتم بدمعاشوں والی باتیں کرتے ہو۔ دو تھپر لگادیں اس کو۔ یہ طریقہ نہیں ہے تربیت کا۔ یہاں تو بچوں کو شروع میں یہ ساری باتیں بتانی شروع کردی ہیں، یورپ کے ماحول میں گندے ماحول میں تو اس ماحول سے بچنے کے لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو بتائیں کہ بچے تم چھ سات آٹھ کے ہو ابھی تمہیں ان باتوں کا نہیں پتا۔ دس، گیارہ سال کے ہوگے تو تمہیں جو باتیں بتانے والی ہوں گی میں بتاؤں گا یہ کیا چیزیں ہیں اسلام ہمیں کیا کہتا ہے اور یہ جو ہم جنسی ہے یہ کیسی برائی ہے کس طرح ایک قوم کو اللہ تعالیٰ نے تباہ کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے اور انسان کا جو آپس کا تعلق ہے مرد اور عورت کا وہ کیا ہے اور کیوں ہے، بقائے نسل کے لیے ہے نہ کہ صرف شہوت کو مٹانے کے لیے۔ تو یہ چیزیں بچوں کو بتانی پڑیں گی اور اگر وہ سوال پوچھتے ہیں توان سے discussکرنی پڑیں گی ۔ لیکن اگر ان کو آپ ڈرا دیں گے تو پھر وہ بچے کہہ دیں گے کہ ماں کے پاس اس کا جواب ہی کوئی نہیں، نہ باپ کے پاس ہے تو پھر ہم باہر سے جو کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہی کر رہے ہیں یہ لوگ تو جاہل لوگ ہیں ان پڑھ لوگ ہیں۔ اس لیے نیا جو ماحول ہے اس سے اپنے آپ کو بھی آشنا کرنا ہوگا۔ خود بھی جاننا ہوگا سب کچھ۔ اب اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا۔ یہ زمانہ جب بدلا ہے تو اس زمانے کے ساتھ اپنی نئی نسلوں کو بچانے کے لیے ہمیں اس کے لیے معلومات بھی لینی ہوں گی کہ اس کی برائیاں کیا کیا ہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قوموں کو برباد کیا ان برائیوں کی وجہ سے اور ہم نے اپنے بچوں کو کس طرح بچانا ہے۔ ان کو بتائیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی باتیں بتا دیں قرآن کریم میں۔ اور ہم مسلمان ہیں اور احمدی مسلمان ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ان برائیوں سے بچیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں ان کو کیا کچھ ملتاہے،کیا کیا انعامات ملتے ہیں ،کس طرح اللہ تعالیٰ ان سے سلوک کرتا ہے ،کس طرح ان کی دعائیں سنتا ہے۔ اس طرح کے واقعات بھی ان کو بتائیں تاکہ ان کو attraction پیدا ہو۔ صرف ایک بات کرکے ہم نے رکنا نہیں بلکہ اس کے بدلہ میں جو انعام ملنے ہیں وہ بھی ہم نے بتانے ہیں۔ منفی جو پوئنٹ ہیں اس کے وہ بھی بتادینے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جو مثبت باتیں ظاہر ہوں گی اور ہوتی ہیں لوگوں کے ساتھ وہ بتائیں۔ تو اس طرح کے واقعات بتائیں، کہانی بتائیں، دوستی پیدا کریں اور ان کو ایک حد تک اجازت بھی دیں کہ کس قسم کے پروگرام تمہیں دیکھنے چاہئیں جو تمہارے علم میں اضافےکا باعث ہوں یہ نہیں کہ انٹرنیٹ اور ٹی وی بالکل ہی ban ہوجائے۔کہیں کہ ایک حد تک دیکھو اور اتنا دیکھو جو تمہاری دماغی صلاحیت کے مطابق اچھا ہے اور تمہارے دین کے مطابق جس کی تمہیں اجازت ہے اور جو تمارے علم میں اضافہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح کریں گے تو آہستہ آہستہ انشاء اللہ اکثریت بچوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

ایک دوست نے سو ال کیا کہ جو ہم سے عقائدی اختلاف رکھتے ہیں ان کے ساتھ ہم کس طرح منافقت کیے بغیر پیار اور ہمدردی کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے استفسار فرمایا: آپ کے بہت سارےتعلقات ہیں ۔کیا آپ کے سارے رشتہ دار احمدی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا نہیں ۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب رشتہ دار احمدی نہیں ہیں۔ ان سے آپ نے تعلق رکھا ہوا ہے۔ سوال ہے کہ مجبور ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے رحمی رشتوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے لیے کہا ہے۔ کہیں یہ نہیں فرمایا کہ جو رحمی رشتے تمہارے ہم مذہب ہیں ان سے تعلق رکھو جو رحمی رشتے ہم مذہب نہیں ہیں ان سے نہ رکھو۔ ماں باپ کے بارے میں بھی کہا کہ اگر تمہارے سے وہ اختلاف کرتے ہیں تو ان کا اختلاف اپنی جگہ۔ اس سے کہو جہاں تک اللہ تعالیٰ کے دین کا معاملہ ہے میں تمہاری بات نہیں مانتا لیکن باقی معاملات میں ان کو اُف نہ کہو۔ ان کی خدمت کرو۔ تو اللہ تعالیٰ نے تو سبق دے دیا کہ منافقت کے بغیر اپنے تعلقات کو نبھاؤ انسان کےدل میں کیوںمنافقت پیدا ہو ۔ ہم ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم نے ہر ایک سے محبت کرنی ہے اور ہمدردی ہمارے دل میں ہونی چاہیے انسانیت کے لیے ہمدردی ہونی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین کہلائے گئے رحمۃ للمسلمین تو نہیں تھے یا احمدیوں کے لیے تو نہیں تھے۔ جب عالمین ہے اور اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے اور جو صفت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے اس کا اظہار ہر مومن سے ہونا چاہیے۔ تو منافقت کا تو سوال ہی نہیں منافقت تو ایک بہت بری چیز ہے۔ ہاں اگر کوئی غلط بات دیکھیں تو جس طرح قرآن کریم نے کہا کہ ماں باپ کو بھی کہہ دو کہ اس بارے میں مَیں تمہاری تائید نہیں کر سکتا ہاں میرے ماں باپ کی حیثیت سے رشتہ داری نبھانے کی حیثیت سے تمہاری میں خدمت کرتا ہوں۔ آپ دوست کو کہہ سکتے ہیں کہ دوست کی حیثیت سے تمہاری میں خدمت کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر ہمارا کوئی دوست ہو تعلق رکھنے والا ہو وہ شراب پی کے کسی نالی میں گرا پڑا ہو تو ہم اس کو لے کے آئیں گے گھر اس کی خدمت کریں گے اور جب اس کو ہوش آئے گی تو خاموشی سے اس کو گھر سے باہر نکال دیں گے۔ تو یہ منافقت نہیں ہے۔ یہ انسانیت کی خدمت ہے جو ہمارا مقصد ہے تو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک مومن کا فرض یہ ہے کہ وہ انسانیت کی قدروں کو پہچاننے والا ہو۔ جب آپ انسانیت کی قدروں کو پہچانیں گے تو آپ میں منافقت نہیں ہوگی۔ آپ سچے دل سے انسان کی خدمت کر رہے ہوں گے لیکن جہاں مذہب کا معاملہ آئے گا وہاں بغیر کسی لگی لپٹی کے بغیر کسی منافقت کے بغیر کسی مداہنت کے اس کو کہہ دیں گے کہ یہ میرے دین کا معاملہ ہے اس میں میں تمہاری بات نہیں مان سکتا۔ اس لیے یہ آپ کا سوال ہی غلط ہے کہ ہم کس طرح کر سکتے ہیں۔ ہمارا تو مقصد ہی انسانیت کی خدمت ہے۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں ہم انسانیت کی خدمت کرنے والے ہیں ایک طرف کہہ دیں ہم منافقت کس طرح دور کریں۔ کیوں منافقت پید اہو دل میں۔ منافق تو سب سے بڑی برائی ہے۔ منافق تو آگ کے گڑھے میں گرنے والے لوگوں میں سے ہے۔ کس طرح ہم منافقت کر سکتے ہیں۔ یہ منافقت نہیں ہے کہ ہمارا دین کچھ اور ہے اور ہم اس سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہے ہیں اگر ہم ہنس کے بات کر رہے ہیں تو ایک انسان سمجھتے ہوئے باتیں کر رہے ہیں۔ اگر ہم خدمت کر رہے ہیں اس کی توا یک انسان کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے۔ بلکہ ہر اللہ کی مخلوق کا حق ادا کرنا ہمارا فرض ہے۔ تو یہ منافقت ہے ہی نہیں۔ یہ سوال ہی غلط ہے۔

ایک دوست نے عرض کیا کہ کہتے ہیں کہ موجودہ چند سالوں میں عالمی سطح پر بہت زیادہ سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور ماحولیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں جن سے کیا ترقی یافتہ اور کیا غریب اقوام سب متاثر ہوئی ہیں۔ مثلاً لاکھوں لوگ سیاسی نزاعات کی وجہ سے مر رہے ہیں جیسا کہ مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ دیگر لوگ مختلف اقوام کی لالچ کی وجہ سے اور کئی لوگ مختلف وباؤں جیسے کورونا وغیرہ کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ حالات کب تک چلیں گے اور کیا ہم بدترین زمانے تک پہنچ گئے ہیں یا اس سے بھی زیادہ برا زمانہ آگے آنے والا ہے؟

حضور انور نے فرمایا:بات یہ ہے کہ یہ ایسا زمانہ ہی تھا جو آج سے ایک سو تیس سال پہلے شروع ہوا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مسیح موعودؑ اور مہدی معہودؑ کو بھیجا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشگوئی فرمائی تھی زمانہ تھا اور ان کے ماننے والوں کے لیے خوشخبری دی کہ وہ ان برائیوں سے اور مسائل سے بچ جائیں گے جو سچے مومن ہوں گے۔ یہ نہیں کہ صرف بیعت کرنا۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ صرف میری بیعت کرنا کافی نہیں میری بیعت کے ساتھ میری جو شرائط ہیں ان پہ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ تو ایک تو یہ ہے کہ وہ زمانہ چل رہا ہے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بذریعہ الہامات بہت ساری پیشگوئیاں فرمائیں ان میں سے ہم دیکھتے ہیں کچھ پوری ہوئیں۔ جن حالات سے دنیا گزر رہی ہے یہ تو اِن حالات کا نتیجہ ہے جو دنیا کے اپنے عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ایک قانون قدرت چلتا ہے اور وہ قانون قدرت اپنا کام کر رہا ہے۔ ایک قانون شریعت چلتا ہے اور وہ بھی اپنا کام کر رہا ہے۔ جب خدا تعالیٰ کو لوگ بھول جائیںگے اور پھر عملی طور پر بھی دنیاوی لحاظ سے بھی ایسے غلط کاموں میں پڑ جائیں گے یا برے اپنے حل نکالنے شروع کر دیں گے اپنے مسائل کے جن کے نتیجے بد نکلنے ہیں تو پھر وہاں قانون قدرت بھی کام کرے گا قانون شریعت بھی کام کرے گا اور وہ کام کر رہا ہے۔ اب دنیا کی اکثریت جو ہے وہ خدا تعالیٰ کو بھول رہی ہے اور جب خدا تعالیٰ کو بھول گئی تو پھر اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا تو سوال نہیں رہا۔ دنیا سے وہ مانگنا چاہتے ہیں سیاستدان ہے وہ سمجھتا ہے کہ میری قوت جو ہے وہ عوام ہے، وہ اپنی قوت خدا کو نہیں سمجھتا کیونکہ اس نے مجھے ووٹ دینا ہے اور اسی طرح بزنس مین ہے وہ سمجھتا ہے کہ میری قوت جو ہے عوام کو کسی طرح رام کرنا ہے، چاہے میں غلط طریقے سے کروں بدمعاشی پھیلا کے کروں یا صحیح طریقے سے کروں جو بھی غلط یا صحیح طریقہ جو ہے جس کو انگریزی میں کہتے ہیں by hook or by crook ہم نے مقصد حاصل کرنا ہے۔ تو یہ چیزیں جب پیدا ہو جائیں گی تو اس کے جو منطقی نتیجے ہیں وہ ظاہر ہو رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ امید بھی ہے کہ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہوا ہے اس لیے اگر ہم لوگ صحیح ایمانداری سے اپنے فرائض پورے کرتے رہیں، اپنے ایمان پہ مضبوط رہیں، اپنے جو حق ہیں ہمارے وہ ادا کرتے رہیں جو ہمارے فرائض ہیں ان کو ہم ادا کرتے رہیں تو پھر انشاءاللہ یہ پیشگوئیاں ہمارے زمانے میں بھی پوری ہو جائیں گی اور بجائے لمبا عرصہ ہونے کے حضرت موسیٰ کی قوم کی طرح لمبا عرصہ نہیں چلے گا بلکہ جلدی بھی پوری ہو سکتی ہیں اور ہم دیکھ لیں گے کہ آہستہ آہستہ دنیا پھر اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف آئے گی اور اس کو مانے گی۔ اس لیے میں تو اتنا ناامید نہیں ہوں اس بات پہ کہ اگر احمدی اپنے آپ کو بدلیں اور اپنا حق ادا کریں خدا تعالیٰ کا جو ہم پر حق ہے اس کو ہم ادا کرنے والے ہوں اور جو بندوں کے حق ہیں ہمارے پر حق ہیں وہ ادا کرنے والے ہوں۔ اسی پہ میں بار بار زور دیتا ہوں۔ تو یہ دو حقوق اگر ہم ادا کرنے والے بنیں گے اور انہی حقوق کو قائم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں آیا ہوں جو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے تو ہم جلد ہی اس کرائسس سے نکلتا ہوا اپنے آپ کو دیکھیں گے۔ نہیں تو لمبا ایک عرصہ گزرے گا لیکن ایک وقت آئے گا جو ہم اس کرائسس سے گزر جائیں گے اور احمدیت کی انشاء اللہ تعالیٰ ایک انتہا ہوگی اور اس کے بعدپھر زمانہ آئے گا جو قرب قیامت کا زمانہ ہو گا گو ہم اسی دور میں سے گزر رہے ہیں بقول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کہ آخری ہزار سال ہے اس میں سے ہم گزر رہے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک زمانہ اسلام کی ترقی کا آنا ہے اور وہ انشاء اللہ آئے گا لیکن ہم نے اپنی زندگیوں میں دیکھنا ہے یا ہماری نسلوں نے دیکھناہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ایک طالب علم جامعہ احمدیہ نے سوال کیا کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عرب ممالک تباہ ہو رہے ہیں؟ اس جامعہ کے طالب علم نے بتایا کہ انہوں نے اردو جامعہ سے سیکھی ہے اور ثالثہ کے طالب علم ہیں اور ایران کی جماعت سے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ آج کل کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ آپ ایران جا سکیں اس لیے بیٹھے رہیں آرام سے پہلی بات تو یہ ہے۔ پہلی بات تو میں نے یہ کہنی ہے کہ اور تھوڑا سا صبر کر لیں اللہ تعالیٰ بہتر نتائج پیدا کرے گا۔ اماں ابا یاد آتے ہوں گے کوئی بات نہیں۔ ٹھیک ہے۔ نمبر ایک۔ نمبر دو یہ کہ عرب ممالک کی تباہی کی اصل وجہ کیا تھی۔ ابھی تک وہی وجہ ہے۔ جب خدا ئےواحد و یگانہ کو چھوڑ کے جب بڑی طاقتوں کو خدا انسان بنا لیتا ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ سے لے کے ایک چھوٹی چھوٹی سٹیٹ کے بادشاہ یا سربراہ تک کا یہ حال ہے تو پھر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اس پہ سےتو اٹھ جاتا ہے ناں۔ پھر یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے احکام دیے ان پہ تو عمل نہیں کرنا اور جو دولت اور پیسہ اللہ تعالیٰ نے دے دیا اس سے ناجائز فائدہ اٹھانا۔ قرآن کریم سے بھی سبق حاصل نہیں کیا انہوں نے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا تھا کہ پیسوں کی وجہ سے یہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں یا دولت ان کو تباہ کر دیتی ہے۔ ہم دیتے ہیں تو بڑے خوش ہوتے ہیں دیکھو ہمارے پاس اتنی دولت آ گئی ہے اور وہی دولت ان کی تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی دیا۔ ان سے کیا فائدہ اٹھایا انہوں نے۔ کیا دین کی خدمت کی۔ جماعت احمدیہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو دنیا میں قرآن کریم کو رائج کرنے اور پھیلانے کے لیے کام کر رہی ہے چندے اکٹھے کر کے۔ چھوٹے چھوٹے ممالک بھی ہیں وہ بھی جو ہیں وہ ان کا چھ مہینے کا یا مہینے کا سرکاری خرچہ جو ہے وہ جماعت احمدیہ کے سارے سال کے بجٹ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا قرآن کی خدمت کر رہے ہیں۔ صرف ایک سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کرومسیح موعود کی مخالفت کرو اور اس کے خلاف کفر کے فتوے لگا دو۔ تو پھر جب ایسی حالت ہو کہ دین سے دور ہٹ جانا دنیا داروں کو اپنا خدا سمجھ لینا، اصل خدا کے نام پہ غلط کام کرنا، غلط قسم کی بدعات پھیلانا اور اس تعلیم کی غلط تشریح کرنا اور نہ اللہ کا حق ادا کرنا نہ بندوں کے حق ادا کرنا تو پھر اس کے بعد پھر یہی نتیجہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے جو نکل رہاہے۔ جب ہم خدا کو حقیقی خدا ماننے لگ جائیں گے اور اس کے حکموں پر چلنے لگ جائیں گے تو یہی ملک ترقی کرنے لگ جائیں گے۔ یہ کوئی چھوٹی طاقت تو نہیں۔ دنیا میں 54ممالک ہیں مسلمان۔ بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن فرقہ بازی میں پڑ کے یا دنیاداری میںپڑ کے ہم نے ایک دوسرے میں پھاڑ پیدا کر دی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں یہی تھا کہ جب تم لوگوں میں یہ نفاق پید اہو جائے گا پھر تمہاری ترقی رک جائے گی وہ تباہی ہو گی اور جوڑنے والا آئے گا ، اس وقت اس کے ساتھ جڑ جانا تو بچ جاؤ گے۔ نہیں جڑو گے تو نہیں بچو گے۔ ٹھیک مولوی صاحب۔

ایک دوست نے سوال کیا کہ ہم تبلیغ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اور ان کی قبر کی موجودگی والی دلیل پر زیادہ زور کیوں نہیں دیتے اور کیوں اس بات کو ہر مجلس کا حصہ نہیں بناتے تا کسر صلیب کے بارے میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی آمد کی غرض پوری ہو سکے۔

حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی غرض تو یہی ہے کسر صلیب لیکن ایک اور بڑی آمد کی وجہ بھی ہے اور وہ ہے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قیام۔ خدا تعالیٰ کے وجود کا ادراک پیدا کروانا۔ اس کو ثابت کرنا۔ آج کل خود عیسائی جو ہیں وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ تھے کہ مرگئے۔ 65، 66 فیصد عیسائی تو atheist ہو چکے ہیں خدا تعالیٰ کو ہی بھول گئے ہیں ان کو کسر صلیب سے کیا۔ اور جو ہیں وہ بھی چرچ میں جانے والے نہیں رہے۔ کرسمس منانے چلے گئے کبھی یا کبھی کوئی دو چار مہینے بعد چرچ میں چلے گئے۔ وہ بھی بے غرض صرف شو لگانے کے لیے۔ باقی جہاں تک سوال ہے سوال اٹھانے کا کہ کسر صلیب کو ہم کیوں نہیں اجاگر کرتے۔ یہ بھی غلط ہے،ہم کرتے ہیں۔ مسیح ہندوستان میں جو ہم کتاب شائع کر رہے ہیں مختلف زبانوں میں شائع کی ہے ناں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسی لیے اس کے ترجمہ مختلف زبانوں میں کر رہے ہیں تا کہ دنیا کو پتہ لگے۔ اب مجھے یاد ہے ایک مذہبی advisor تھا وہ مجھے ملنے آیا وہیں امریکہ میں ہی تو اس سے مَیں نے بات ہی اس طرح شروع کی تھی ، اس کے ساتھ ایک پادری بھی تھا کہ تم لوگ بات کرتے ہو عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی ہم یہ مانتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام تو فوت ہو گئے اور جو عیسیٰ آنا تھا اس کو ماننے والے ہم ہیں۔ اور اس بات پر پھر لمبی بات ہوئی کافی گفتگو ہوئی اور وہ میری بات سنتا رہا ۔ میرا خیال تھا کہ اس کے بعد شاید وہ جماعت کے حق میں بعض باتیں کرنے کی بجائے ہمیں نقصان نہ پہنچائے کیونکہ اتنی کھل کے میں نے باتیں کر دیں لیکن وہ شریف آدمی نکلا اور اس کے ساتھ جو پادری آیا ہوا تھا وہ بھی کہ انہوں نے اس کے باوجود ہماری حمایت کی اور ہمارے حق میں باتیں کیںکہ ہاں جہاں تک احمدیوں پر مظالم کا تعلق ہے ان پر ظلم ہوتے ہیں۔ تو بہرحال جہاں ضرورت ہو وہاں عیسیٰ علیہ السلام کی بات بھی کی جاتی ہے لیکن اس زمانے میں سب سے بڑا جو مسئلہ پیدا ہو چکا ہے وہ ہے خدا تعالیٰ کو بھولنے کا، دہریت کا اور دہریت کے خلاف بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ میں دہریت کے خلاف بھی آیا ہوں۔ اس بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔مسیح موعود نام تو ہم نے رکھ دیا تو مہدی بھی نام ہے آپ کا لیکن عیسائیوں میں کیونکہ ابھی بھی عیسائیت دنیا میںزیادہ ہے۔ نام کے لحاظ سے عمل کے لحاظ سے نہیں اس لیے مسیح موعود کے جو دونوں کام ہیں ناں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنا اور لوگوں میں پیار اور محبت کو پیدا کرنا۔ یہ دو میرے بڑے کام ہیں جس کے لیے میں آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بےشمار جگہ فرمایا ہوا ہے کسر صلیب کی بات صرف نہیں کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے دو بڑے کام ہیں۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرتے ہوئے اس کے حق ادا کرنے والا لوگوں کو بنانا اور اس سے قریبی تعلق پیدا کرنا خدا کے حضور لوگوں کو لے کے آنا۔ نمبر دو بندوں کے بندوں سے حقوق ادا کروانا۔ یہ دو main کام ہیں۔ اگر آپ سارا لٹریچر پڑھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو اکثریت ان دو باتوں کے گرد گھومتی ہے۔ وہاں جہاں ضرورت ہے کسر صلیب کی وہاں کسر صلیب بھی کرتے ہیں وہ تو ایک کام ہےجو کرنا ہے۔ تو ہم دونوں کام کر رہے ہیں۔ آپ کے کتنے دوست ہیں کینیڈا میں عیسائی۔ آپ مجھے جائزہ لے کے بتائیں کہ جو مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پہ بیٹھے ہیں اور واپس آئیں گے۔ اکثریت یہ کہے گی کہ بیٹھے ہوں گے کبھی بیٹھے تھے چلے گئے ہمیں تو کوئی تعلق نہیں ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ ہم نے صبح جانا ہے کمائی کرنی ہے شام کو واپس آنا ہے تو ہماری اتنی کمائی ہونی چاہیے کہ ہمیں شراب کی بوتل مل جائے۔

اللہ حافظ و ناصر ہو۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button