متفرق مضامین

رابعہ انقلابی۔ دورِ خلافتِ ثالثہ کے زمانے میں اٹھنے والے ایک فتنہ کا احوال

(آصف محمود باسط)

(بسلسلہ جماعت احمدیہ کے خلاف سازشیں: تاریخی تناظر میں)

پس منظر

حضرت مصلح موعودؓ کا دورِ خلافت نصف صدی سےزائد عرصہ پر محیط تھا۔ بہت سے بچے اس دور میں پیدا ہوئے، جوان ہوئے، شادیاں ہوئیں ان کے بچے اسی دور میں پیدا ہوئے، وہ بھی جوان ہوئے، ان کی بھی شادیاں ہوئیں، ان کے بھی بچے ہوئے۔یعنی اپنے اور غیر حضرت مصلح موعودؓ کے بغیر جماعتِ احمدیہ کا تصور تک نہیں رکھتے تھے۔

مگر ہر انسان کو دنیا سے جانا ہی ہے، سو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ صاحب، خلیفۃ المسیح الثانی، المصلح الموعود بھی ایک شاندار زندگی گزار کر، جماعت احمدیہ کو ترقیات کی عالی شان راہوں پر ڈال کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

یہ مخالفین کے لیے ایک پرانی مراد بر آنے سے کم نہ تھا۔ منافقین کی امنگیں بھی جاگ اٹھیں۔ انہیں گمان تھا کہ اب خلافتِ احمدیہ پر حملہ کرنے کا سب سے مناسب وقت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ؒ کو مسندِ خلافتِ احمدیہ پر بٹھادیا۔ اور فتنہ پردازوں نے اپنے اپنے وار شروع کردیے۔ آغاز تو حضورؒ کی علمی استعداد پر حملوں سے ہوا۔ پھر خطبوں میں بیان کیے جانے والے مضامین پر اعتراض ہوئے۔ کہیں اقربا پروری کے الزام لگے اور کہیں جماعتی اموال کو نعوذ باللہ ذاتی عیش و عشرت پر خرچ کرنے کی تہمتیں لگائی جانے لگیں۔

جب بظاہر علمی، عقلی، نقلی دلائل سے کچھ نہ بن پڑا، تو مخالفین اور منافقین نے وہی ہتھکنڈا استعمال کیا جو آنحضور ﷺ کے زمانہ سے استعمال کیا جاتاہے۔

واقعۂ اِفک اور قیامِ خلافت کا ایک ہی مقام پر مذکور ہونا

حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں سورۃ النور کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے بڑا لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے۔ اور وہ یہ کہ جس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامِ خلافت کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی، اسی سورہ میں واقعۂ افک بھی بیان فرمایا۔ حضورؓ نے اس کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ حضرت عائشہؓ پر ایسا غلیظ الزام لگانے کے پیچھے منافقین کی نیت ہی یہ تھی کہ حضرت ابوبکرؓ،جو آنحضورﷺ کے سب سے قریبی ساتھی تھے، ان کی خلافت کے امکان کو ختم کردیا جائے۔ یوں آنحضورﷺ کے لیے بھی تکلیف کا سامان کیا اور قیامِ خلافت کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔

یوں یہ ناپاک حملہ صرف ام المومنینؓ پر ہی نہ تھا۔ آنحضورﷺ کے گھر کی ناموس پر ہی نہ تھا۔ بلکہ خلافت کے خلاف ایک گہری سازش کی کوشش تھا۔ (تفصیل کے لیے تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ، جلدششم، سورۃ النور)

رابعہ انقلابی کے فتنہ کا احوال

پس 1965ء، یعنی قیامِ خلافتِ ثالثہ سے لے کر 1972ء تک کے سات سال اِدھر اُدھر کی کوششوں میں مخالفین اور منافقین نے صرف کیے، اور پھر اس شرارت پر اتر آئے جس کا انہیں معلوم تھا کہ جماعتِ احمدیہ جواب دینا بھی الٰہی جماعتوں کے شایانِ شان نہیں سمجھتی۔ یوں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ذات اور ربوہ کے احمدیوں پر نہایت رکیک اور اخلاق سوز حملوں کا آغاز ہوا۔ حملوں کی تفصیلات تو کسی شریفانہ مجلس یا تحریر میں بھی بیان کے لائق نہیں، مگر ہر حملہ کے ساتھ تقاضا کیا جاتا کہ حضرت مرزا ناصر احمدؒ صاحب خلیفہ کہلانے کے لائق نہیں۔اور یہ کہ یا تو وہ خود خلافت سے دستبردار ہوجائیں، یا جماعت بغاوت کر کے ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔

فتنے میں منافقین اور مخالفین کی شراکت داری

ایک گذشتہ مضمون میں 1927ء اور 1937ء میں اٹھنے والے فتنوں کے حوالہ سے بتایا گیا تھا کہ موقع پرست مخالفین اور معاندین اور منافقین سب مل کر جماعت احمدیہ کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے۔ اس موقع پر بھی تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور یہی طرزِ عمل دیکھنے کو ملا۔

غیر مبائعین (معروف بہ لاہوری جماعت) کے اخبار ’’پیغامِ صلح‘‘ نے اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے منافقین کے سب اعتراضات کو بلاتحقیق درست تسلیم کیا اور ان اعتراضات کی خوب اشاعت کی۔

اس عرصہ میں پیغامِ صلح کے شمارے ’’خلافتِ ربوہ کی بطالت۔۔۔‘‘، ’’خلافتِ ربوہ میں انتشار‘‘ اور اس طرح کی سنسنی خیز سرخیاں جماتے رہے اور افرادِ جماعت کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پاکیزہ ردِ عمل

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 10 مارچ 1972ء کو مسجد مبارک ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نہایت بصیرت افروز رنگ میں جماعت کو اس فتنے اور آئندہ آنے والے فتنوں پر ردِّعمل کے حوالے سے رہنمائی سے نوازا۔

حضورؒ نے خطبہ کے آغاز میں

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ(النساء :146)

کی تلاوت کی اور فرمایا:

’’ایک منافق جہنم کے شدید ترین عذاب میں اس لیے مبتلا ہوگا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ فتنہ و فساد پیدا کرتا رہتا ہے اور مفسد ہونے کے باوجود ’مصلح‘ کے روپ میں خدا تعالیٰ کی جماعتوں کے سامنے آتا ہے۔‘‘

فرمایا: ’’حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ منافق کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے [صحیح مسلم، کتاب الایمان باب خصائل المنافق]۔ اُس کی ہر بات میں جھوٹ کی ملاوٹ ہوتی ہے۔‘‘

منافقین کے طرزِ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا:

’’مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے آج فلاح وقت سورج طلوع ہوتے دیکھا ہے اور وہی وقت سورج طلوع ہونے کا ہو، اور اُس نے واقعی سورج طلوع ہوتے دیکھا ہو، تو یہ بات صحیح ہے۔ لیکن یہ بات کہ میں نے آج سورج طلوع ہوتے دیکھا، پوری نہیں ہوئی کیونکہ ساتھ ہی اُس نے یہ بھی کہا کہ میں نے مسجد کی طرف دس دس سروں والے انسان ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھے ہیں۔ اُس کی یہ بات سُن کر آپ یہ نہیں کہیں گے کہ اُس نے کچھ سچ بولا اور کچھ جھوٹ بولا ہے۔ آپ کہیں گے کہ اُس نے جھوٹ بولا ہے۔ اس واسطے کہ جو پوری بات ہے وہ جھوٹ ہے، اگرچہ اس کے کچھ حصے سچ ہیں کہ سورج طلوع ہوا۔ ۔۔لیکن اس نے اس کو بنیاد بنایا اپنے جھوٹ کی اس لیے یہ ساری بات جھوٹ ہے۔‘‘

فرمایا: ’’حضرت مصلح موعودؓ ۔۔۔[کے] دور میں بھی وقفے وقفے کے بعد منافقین کے فتنے آتے رہے ہیں۔ مثلاً مصریوں کا فتنہ ہے مگر چونکہ ہماری نوجوان نسل شاید ان واقعات کو نہیں پڑھتی، اس لیے ان کے کان ان چیزوں سے آشنا کم ہوں گے۔ پھر فخرالدین ملتانی کا فتنہ تھا۔ غرض اسی طرح کے چھوٹے اور بڑے فتنے اس لیے آتے رہتے ہیں کہ ہم سو نہ جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیدار اور چوکس دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

اس کے بعد حضورؒ نے منافقین کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’وضاحت کرنے کے لیے میں چند مثالیں دوں گا۔ باقی رطب و یابس تو وہ بولتے ہی رہتے ہیں جسے سن کر آپ کو اپنے اپنے ایمان کے مطابق غصہ بھی آتا ہوگا۔ آپ اُن کے لیےدعائیں بھی کرتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت دے۔۔۔‘‘

اس کے بعد جن سات اعتراضات کا حضورؒ نے ذکر فرمایا اور ان سے متعلق شبہات کو دور فرمایا وہ ذیل میں اختصار سے پیش کیے جاتے ہیں:

۱۔ یہ عجیب خلیفہ ہے کہ خطبے میں گھوڑوں کی باتیں کرتا ہے:

اس پر حضور ؒ نے فرمایا کہ جب میں نے خطبے میں گھوڑوں کا ذکر کیا تھا (جو کہ ایک خاص تناظر میں تھا)تو ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کے تمام ارشادات گھوڑوں کے بارے میں یکجا کیے جائیں۔ حضور نے فرمایا کہ ایک قلمی نسخہ اٹھا کر دکھاتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ کاپی جسے آپ میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہیں، میں نے اس کا نام ’کتاب الخیل‘ رکھا ہے۔ اور یہ پونے چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں اکثر اقوال اور ارشادات حضرت رسول کریم ﷺ کے ہیں۔‘‘

فرمایا: ’’پس اگر روحانی آسمان کا بادشاہ گھوڑوں کے متعلق اتنا کچھ کہنے کے باوجود روحانی آسمان کا بادشاہ رہتا ہے تو اس کا ایک ادنیٰ خلیفہ گھوڑوں کے متعلق تمہیں چند باتیں کہتا ہے ۔۔۔ تو اس کے متعلق یہ اعتراض کردینا کہ جی یہ عجیب خلیفہ ہیں۔۔۔ سرار افترا پردازی ہے‘‘۔

۲۔ تحریک جدید اور وقفِ جدید کے چندوں کے مصارف پر شکوک:

حضورؒ نے تحریکِ جدید اور وقفِ جدید دونوں تحریکات کے چندہ جات کے مصارف مختصراً بیان فرمائے۔ نیز اس اعتراض کی کچھ تفصیل بیان فرمائی۔ فرمایا:

’’پھر اس کے متعلق جو مثال دی گئی، وہ بھی سننے والی ہے۔ کہنے والے نے کہا کہ دیکھو میاں طاہر احمد صاحب کو کراچی جانا ہو تو وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں اور تحریک جدید کے جو مبلغ وطن سے باہر جاتے ہیں، ان کو یہ سہولت میسر نہیں۔۔۔

’’میاں طاہر نے وقفِ جدید کے کام کے لیے کراچی کا ایک سفر بھی نہیں کیا۔ اب یہ محض اعتراض ہے کہ جس نے وقفِ جدید کے کام کے لیے کراچی کا کوئی سفر ہی نہیں کیا، اُسے مثال کے طور پر پیش کردیا۔۔۔‘‘

حضور ؒ نے فرمایا کہ جب ہر ہفتے عشرے یا مہینے بعد کوئی نہ کوئی مبلغ بیرونِ ملک تبلیغ کے لیے روانہ ہوتا ہے، تو سبھی بذریعہ ہوائی جہاز ہی سفر کرتے ہیں۔ سو آدھی بات کو چھپا کر اعتراض کردیا۔

فرمایا: ’’اب جس آدمی کے کان میں یہ بات پڑے گی کہ میاں طاہر ہوائی جہاز سے کراچی گئے اور ہمارے باہر جانے والے مبلغ ہوائی جہاز سے نہیں جاتے تو وہ نہ سہی، مگر ہمارے کم عمر بچے جنہیں پتہ نہیں وہ کہیں گے ’یہ کیا بات ہوئی؟‘۔۔۔‘‘

یوں حضور ؒ نے یہ بھی بیان فرمادیا کہ منافقین کا اصل حدف نوجوان نسل ہوتی ہے جن کے ذہن کو آلودہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

۳۔ تمام جماعتی عہدوں پر خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے افراد کو بٹھا دیا ہے:

حضورؒ نے فرمایا کہ یہ صرف خلافتِ ثالثہ پر ہی اعتراض نہیں۔ منافقین یہ اعتراض خلافتِ ثانیہ پر بھی کرتے رہے ہیں۔ پھر حضور نے تقریباً سب صیغہ جات کاذکر فرمایا اور بتایا کہ بہت سے ناظر اور افسرانِ صیغہ حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے نہیں۔ پھرفرمایا:

’’پس ایک غلط اور جھوٹی بات کو آنکھیں بند کرکے منہ سے نکال دینا اور اپنی حماقت سے یہ سمجھنا کہ دنیا تمہیں دیکھے گی نہیں یا دنیا تمہاری شرارت کو سمجھے گی نہیں یا دنیا سمجھنے کے باوجودتمہیں کچھ کہے گی نہیں۔ یہ تو تمہاری سراسر جہالت ہے۔ لیکن تم یہ کیسے سمجھ لیتے ہو کہ تم خدا تعالیٰ سے اپنی ان حرکتوں کو چھپالوگے اور اس کے غضب سے بچ جاؤ گے؟‘‘

۴۔ خلیفہ خدا نہیں بلکہ انسان بناتے ہیں:

حضورؒ نے فرمایا: ’’یہی اعتراض حضرت خلیفہ اوّلؓ پر کیا گیا۔ یہی اعتراض حضرت خلیفہ ثانی ؓ پر کیا گیا ہے اور آج یہی اعتراض مجھ پر کیا جارہا ہے‘‘۔

اس کے بعد حضورؒ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے انتخاب کا احوال بیان فرمایا اور خلافتِ ثانیہ کے انتخاب کے وقت اٹھنے والے فتنے کا ذکر فرمایا ۔اور پھر خلافتِ ثالثہ کے انتخاب کا ذکر فرمایا کہ کس طرح حضرت مصلح موعودؓ کی مقررکردہ انتخابِ خلافت کمیٹی کے ذریعہ انتخاب عمل میں آیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری حضورؒ پر ڈال دی۔حضورؒ نے فرمایا کہ اس اعتراض کا جواب کہ خلیفہ خدانہیں بلکہ انسان بناتے ہیں، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے یوں بیان فرمایا:

’’یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو۔ یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہیے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہوگیا۔ کوئی کہتا ہے خلیفہ کرتا ہی کیا ہے؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے۔۔۔ کوئی کہتا ہے کتابوں کا عشق ہے۔ اسی میں مبتلا رہتا ہے۔ ہزار نالائقیاں مجھ پر تھوپو۔ مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا‘‘۔

(بدر 11 جولائی 1912ء)

اس کے بعد حضورؒ نے فرمایا کہ بعض فتنہ پردازوں نے اس موقع پر خلیفہ اور مجدد کی بحث بھی چھیڑنے کی کوشش کی ہے۔ نیز خلیفہ کا انتخاب منجانب اللہ ہونے کے حوالہ سے آیت استخلاف اور لیستخلفنھم کی لطیف تشریح بیان فرمائی اور ایسے تمام شبہات کا ازالہ فرمایا۔

اس کے بعد حضورؒ نے دو اور اعتراضات کا ذکر فرمایا جو خلیفۂ وقت کے الاؤنس اور حضرت مصلح موعودؓ کی قائم فرمودہ انتخابِ خلافت کمیٹی کے حوالہ سے منافقین نے اٹھائے تھے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ اس کمیٹی کے قیام پر غیر مبائعین بھی کہہ اٹھے تھے کہ کاش حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے بھی ایسی کمیٹی قائم فرمادی ہوتی ۔

اورجہاں تک خلیفۂ وقت کے الاؤنس کی بات تھی، حضورؒ نے فرمایا کہ مجھے انجمن کی ایک پائی کی بھی ضرورت نہیں۔ خلافتِ احمدیہ سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ’’میں تینوں اینا دیاں گا کہ تو رَج جائیں گا‘‘۔ حضورؒ نے فرمایا کہ انتظامی اعتبار سے شوریٰ کی ایک تجویز کو قبول کرلینا اور بات ہے۔ آئندہ خلفاء کے لیے کوئی تنگی پیدا نہ کردینے کے لیے الاؤنس کی گنجائش رکھنا اور بات ہے، مگر میں جماعت سے لیتا کچھ نہیں، صرف جماعت پر خرچ کرتا ہوں، جس کی تفصیل میں جانے سے قرآن کریم میں بیان فرمودہ ’’سِرّاً‘‘ کی تعلیم مانع ہے۔

حضور ؒ نے فرمایا :

’’منافق نے یہ کہا ہے کہ میں لامحدود ذرائع کا مالک ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ فقرہ تم نے سچ کہا ہے۔ میں لامحدود ذرائع آمد کا اس لیے مالک ہوں کہ وہ جو دنیا کی ساری دولتوں اورخزانوں کا مالک ہے، اس نے مجھے فرمایا تھا کہ تینوں اینا دیاں گا کہ تو رج جائیں گا۔ اس لیے میں لامحدود ذرائع کا مالک ہوں‘‘۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اولاد کو جماعت کے خلاف فتنہ پر اکسانے کا ذکر

حضور نے فرمایا کہ جب ایک لمبا عرصہ چشم پوشی کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو فتنے سے بچانے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بعض بچوں کو جماعت سے علیحدہ کیا، تو پیغامیوں نے ان کو بغاوت پر خوب اکسایا۔ حضورؒ نے حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں پیغامیوں کی فتنہ اندازیوں کا ذکر یوں فرمایا:

’’اور اُن میں سے ایک شخص محمد حسین چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام (یعنی غیر مبائعین کا نظام) اور ہمارا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لیے تیار ہے۔ شاباش، ہمت کر کے کھڑے رہو۔ مرزا محمود سے دبنا نہیں۔ اس کی خلافت کے پردے چاک کر کے رکھ دو۔ ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

(خلافت حقہ اسلامیہ: تقریر حضرت مصلح موعودؓ برموقع جلسہ سالانہ 1956ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:

’’یہ غیر مبائعین نے اُس وقت کے فتنے کے موقع پر جو لوگ اُس وقت فتنہ پیدا کررہے تھے، ان کو مخاطب کر کے کہا تھا۔ اور آج ساری جماعت کو ۔۔۔ آج کے فتنہ گروں نے یہی کہا ہے۔

’’دراصل نفاق چونکہ نقاب پوش ہوتا ہے، یہ علی الاعلان سامنے نہیں آتا، اس لیے ان کی جو لیڈر ہے وہ بھی نقاب پوش ’رابعہ انقلابی‘ یعنی عورت کی شکل میں سامنے آئی ہے۔‘‘

اس کے بعد حضور نے اس ’’خاتون‘‘ رابعہ انقلابی کا پیغام جماعت کے نام پڑھ کر سنایا:

’’لہذا انقلاب کی تکمیل کے لیے آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ یقیناً آج تم اپنے آہنی عزم کے بل بوتے پر تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے والے ہو۔۔۔دوستو! قوت کا اصل سرچشمہ تم ہو۔ جماعت کا وجود صرف تم سے قائم ہے اور جب تک تمہیں اپنی قوت کا احساس نہیں ہوگا، تمہارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ لہذا ربوہ میں عوامی قانون اور عوامی انصاف لانے کے لیے اپنی جدوجہد کو تیز کردو‘‘۔

حضورؒ نے فتنہ پر اکسانے والی اس ’رابعہ انقلابی‘ کے پیغام میں سے ایک اور سطر نمونۃً پیش فرمائی:

’’کیا ربوہ معاشی دوڑ کے نتیجہ میں غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ نہیں بن رہا؟‘‘

اس فتنہ انگیز جملے کو پڑھنے کے بعد حضورؒ نے فرمایا:

’’اسی ربوہ سے جو ان کی خبیثانہ نگاہوں میں غیر فطری فعلوں اور مردوزن کے ناجائز تعلقات کی آماجگاہ ہے، اس سے کہتے ہیں کہ اٹھو اور انقلاب لاؤ؟ اے منافقو اور جاہلو! جس کو تم نے خدا کی نگاہ میں بدترین ملزم قراردیا ہے، اُس سے تم، ہاں تم، کیسے خیر کی امید رکھتے ہو؟‘‘

فتنہ پردازوں نےاحمدیوں کو اکسانے کے لیے رابعہ انقلابی کے قلم سے یہ بھی لکھوایا:

’’میرے بہادرو اور میرے باہمت ساتھیو! ملوکیت کے قلعے میں شگاف پڑ چکا ہے۔ صرف ایک مضبوط دھکے کی ضرورت ہے۔ اُٹھیے اور آگے بڑھیے اور ہامانیت (یعنی خلافت احمدیہ) کے ضمیر فروش ایجنٹوں کے گریبانوں کو مضبوط ہاتھوں سے پکڑ کر ثابت کردیجیے کہ ہامان اب زیادہ دیر تک مذہبی جبہ میں چھپ کر نہیں رہ سکتا۔۔۔ اُٹھو اور ہمت کرو ۔ آگے بڑھو اور ملوکیت کے تخت کو لات مار کر پرے پھینک دو!‘‘

فتنے کا انجام اور جماعت کا مسلسل ترقی کی راہوں پر گامزن رہنا

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے یوں اس فتنے کا تمام احوال کھول کر جماعت کے سامنے بیان فرمایا۔ فتنہ پردازوں کو تنبیہہ بھی کردی کہ ’’جس خلافت کے گرد خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت پہرہ دے رہی ہے، اس خلافت کے قلعے پر تو تمہاری لات اگر پڑے گی تو تمہاری ہڈیا ں بھی اِس طرح چُورچُور ہو جائیں گی کہ اُن کے ذرے بھی دنیا کو نظر نہیں آئی گے‘‘۔

پس اس فتنہ کا انجام بھی وہی ہوا جو خدا کی جماعتوں کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا ہوا کرتا ہے۔ وہی انجام جو جماعت احمدیہ کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنے کا ہمیشہ ہوا ہے۔ کچھ ہی وقت میں اس فتنے کا زور ٹوٹ گیا اور منافقین کو اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر بتلا دیا کہ خلافتِ احمدیہ کے خلاف اٹھنے والی ہر طاقت کا مقابلہ وہ خود کرے گا کیونکہ اسی نے اس خلافت کو قائم فرمایا ہے۔

اختتام کرتے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے الفاظ پر، جو آپ نے فتنہ پردازوں کا مخاطب کر کے افرادِ جماعت کے متعلق فرمائے:

’’اے جاہلو! ۔۔۔ تم نے ان کو پہچانا نہیں۔ تمہاری نگاہیں ان کی نبض پر نہیں ہیں۔ تم نہیں جانتے کہ وہ کس مٹی سے بنے ہیں۔ تمہیں کیا پتہ کہ وہ خدا کے اُس شیر کو ماننے والے ہیں جس نے ساری دنیا کی مخالفتوں کے باوجود یہ اعلان کیا تھا کہ میری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے۔

’’پس [احمدیوں] کی فطرت میں بھی ناکامی کا خمیر نہیں ہے۔ اُن کے کانوں میں تمہاری آواز تو گیدڑ کی اس آواز سے بھی زیادہ حقیر نظر آئے گی جو کبھی کبھی رات کے وقت ہمارے کانوں میں آتی ہے۔ بزدل اور منافق گیدڑو! ۔۔۔تم نہیں جانتے! ہاں تم نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کی قوم ہے اور کتنی طاقتور ہے۔ اور اس کی طاقت کا کونسا منبع ہے۔ یہ کتنی فدائی ہے محمد صلی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اور کتنی محبوب ہے آپ کے روحانی فرزند مسیح موعود علیہ السلام کی۔تم کیا پہچانو اس پیارے وجود کو جس کو ہم جماعت احمدیہ کہتے ہیں۔ تم سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا۔۔۔

’’تم ان بلند پرواز کرنے والے وجودوں تک کہاں پہنچ سکتے ہو؟ پس تم عقل سے کام لو۔ عقل سے کام لو۔ عقل سے کام لو‘‘۔

یہ جواب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے منافقین کو دیا، اس فتنے کو بھی کچلنے والا بنا۔ آج بھی جماعت احمدیہ کا یہی جواب ہے، اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔انشا للہ تعالیٰ۔

(حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا یہ خطبہ خطباتِ ناصر، جلد چہارم، صفحہ 81 اور آگے کے صفحات پر پڑھا جاسکتا ہے)

٭…٭…٭

اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک استعمال کرین:

https://www.alhakam.org/rabia-inqilabi-a-conspiracy-against-the-jamaat-in-the-time-of-hazrat-khalifatul-masih-iii/

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. ماشا اللہ بہت ہی پیارا مضمون اللہ تعالی لکھنے والے کوبہترین جزا دے۔ 3 بار اس مضمون کو پڑھا اور ہر بار دل میں مزید تقویت آتی رہی۔ اللہ تعلی ہمیں ہمیشہ خلافت احمدیہ کا وفادار خادم رکھے اور ہمارے دلوں کو ثبات بخشے آمین۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button