متفرق مضامین

دَورِ ثانی میں خواتین کی اطاعت کے بے مثال نمونے

(امۃ الباری ناصر)

ہم نے رسول اللہ ﷺکی بیعت اس نکتہ پر کی کہ سنیں گے اوراطاعت کریں گے خواہ ہمیں پسند ہو یاناپسند

اللہ تبارک وتعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ ایک خدا نما برگزیدہ ہستی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ آپؑ کے ہاتھوں گم کردہ راہ انسانوں کے دلوں میں خدا کی محبت کا جادو جگا کر حضرت رسولِ اکرم ﷺ کے دین اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کا سامان فرما ئیں ۔ آپؑ نے نئی جماعت میں شامل ہونے والوں کے لیے جو شرائط ِبیعت تحریر فرمائیں ۔ ان میں دسویں شرط اطاعت در معروف ہے ۔

’’یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض للّٰہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقدِ اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘

(اشتہار تکمیل تبلیغ 12؍ جنوری 1889ء)

اطاعت ابتدائے آفرینش کا پہلا سبق تھا

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ۔

(البقرۃ:35)

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کی خاطر سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہوگئے سوائے ابلیس کے۔ اس نے انکار کیا اور استکبار سے کام لیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔

ملائک نے خدا کی راہ میں گردن ڈال دی ۔ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ،اطاعت، فروتنی،فرماں برداری ،انکسار اور عاجزی کا طریق اختیار کیا جبکہ ابلیس نےانکار ،استکبار ،کفر، انانیت اور گستاخی کی راہیں اختیار کیں ۔ اور راندۂ درگاہ ٹھہرا ۔

اطاعت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِيْ فَقَدْ اَطَاعَنِيْ وَ مَنْ عَصٰی اَمِیْرِيْ فَقَدْ عَصَانِيْ۔

(مسند ابی داؤد الطیالسی جلد دوم صفحہ 736 حدیث 2554 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

تنگدستی اورخوشحالی، خوشی اورناخوشی،حق تلفی اور ترجیحی سلوک،غرض ہرحالت میں تیرے لیے حاکم وقت کے حکم کو سننااور اطاعت کرنا واجب ہے۔

(مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء)

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺکی بیعت اس نکتہ پر کی کہ سنیں گے اوراطاعت کریں گے خواہ ہمیں پسند ہو یاناپسند۔ اور یہ کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں کسی امر کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے، حق پر قائم رہیں گے یاحق بات ہی کہیں گے اوراللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔

(مسلم کتا ب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیزہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تودل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آ جاتی ہے۔ مجاہدات کی ا س قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ا یک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتاہے۔بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیزہے جو بڑے بڑے مؤحدوں کے قلب میں بھی بُت بن سکتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پرکیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی… پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اورایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا ا للہ تعالیٰ نے حکم دیاہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ النسا ء صفحہ 317تا318)

اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہوتی ہے

حضرت اقدس ؑجماعت کو کس رنگ میں رنگین کرنا چاہتے ہیں فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے طیار ہورہی ہے اُسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہﷺ نے طیار کی تھی۔ اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے۔ اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو، اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی ہو، باہم محبت و اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔‘‘

(الحکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10؍فروری 1901ء)

اس مبارک دَور میں جبکہ قدرتِ ثانیہ کا سلسلہ جاری ہے ۔ خلفائے کرام کی اطاعت لازم ہے اور باعثِ برکت ہے۔یہی قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اسی کے ذریعے ہم اس دَور میں صحابہ کرام ؓ سے مل سکتے ہیں اسی کے ذریعے دین کی وضاحت اور تشریح ہوتی ہے۔ روز بروز پیش آنے والے مسائل کا حل ملتا ہے ۔ اقامت صلوٰۃ کی نعمت ملتی ہے دنیا بھر میں اسلام کی ترقی کی رفتار سے آگاہی ہوتی ہے ۔اشاعت اسلام کی مساعی بڑھانے کی تحریک ہوتی ہے اور پیش آمدہ خطرات سے بچاؤ ہوتا ہے ۔اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت کا درس ملتا ہے خوف کی حالت امن سے بدل جاتی ہے۔ اطمینان ِقلب نصیب ہوتا ہے۔ اللہ پاک سے قریب ترین ہستی کی دعائیں نصیب ہوتی ہیں ۔ دین و دنیا سنور جاتی ہے ۔ اطاعت گزار جماعت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نصرت اور مغفرت کا سایہ ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اطاعت کا مفہوم سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غسّال کی طرح اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دو۔ جس طرح مردہ اپنے آپ کو ادھر ادھر نہیں کر سکتا، حرکت نہیں کر سکتا، اس کو نہلانے والا اس کو حرکت دے رہا ہوتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات نور صفحہ 131)

حضرت مصلح موعود ر ضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم ،وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ جنوری 1936ءمطبوعہ الفضل 31؍ جنوری 1936ء)

یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے

دِلبر کی مرنے والوں پہ ہر دَم نگاہ ہے

(درثمین )

اطاعتِ امام کی برکت سےخواتین کی بےمثال کامیابیاں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ

( البقرۃ: 149)

اور ہر ایک کے لئے ایک مطمحِ نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔

مرد ہویا عورت اطاعت میں قدم بڑھا کر برابر رضائے الٰہی اور ترقی کے حصول کے حق دار بن سکتے ہیں ۔

اسلام کی نشأہِ ثانیہ کے زمانہ میں طبقۂ اناث کو عزت و توقیر نصیب ہوئی ۔ تعلیم و تربیت سے جِلا ملی ، اخلاص و وفا کے زیور سے مزین ہوئیں ۔اطاعت کے ثمرات اور برکات کے مسلسل مشاہدے نےذوق عمل کو فزوں تر کیا ۔تن،من،دھن سے خدمتِ اسلام میں جُت گئیں۔روحانیت میں ترقی سے ماحول میں روشنی پھیل گئی روئے زمین پر جنت کا سا ماحول بن گیا ۔ اب اماں حوّا سے جنّت سے نکالنے کے شکوہ کا جواز باقی نہیں رہا ۔ جو جنت ایک دفعہ کھوئی تھی وہ حوّا کی بیٹیاں واپس لا چکی ہیں ؎

آج حوّا کی بریّت کے ہوئے ہیں ساماں

بیٹیاں جنّتِ گم گشتہ کو لے آئی ہیں

حضرت مصلحِ موعود رضی اللہ عنہ نے طبقۂ اناث کی ترقی کے لیے لجنہ اماء اللہ کے قیام جیسےانقلابی فیصلے کیے۔ ایسے لائحۂ عمل دیے جن پر عمل کرکے انفرادی اور اجتماعی طور پر منزل بہ منزل آگے بڑھ کر خواتین نے بفضلِ الٰہی یہ ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ۔ تبلیغ اسلام کے لیے زندگیاں وقف کرنے کو حاصل حیات سمجھنے والیاں بھی یہاں موجود ہیں اور دین کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے باری کی منتظر بھی۔ اولاد کی قربانی کے جذبے سےاپنے جگر پاروں کو پیدائش سے بھی پہلے بشاشت سے پیش کرنے والی بھی ۔اور مال کی قربانی کا سوال آئے تو اپنے قیمتی زیورات اور جمع جوڑا سب کچھ لے کر حاضر ہونے والی بھی ۔ وقت کی قربانی کا مطالبہ ہو تو وقف کی روح سے کام میں ڈوب جانے والی بھی ، غرض ہرقسم کی قربانی کے نمونے انہی خواتین میں ملتے ہیں ۔ راہ میں آنے والے شیطانی پتھروں سے بچتے بچاتے خلفائے کرام کے ہر حکم کی اطاعت گزار فرماں بردار تیز رفتاری سےمسلسل سبقت کررہی ہیں۔ایسی دیوانی اور جاںنثار خواتین کہیں اور نہیں ملیں گی۔

خلفائے کرام باغِ احمد میں کھلنے والےحسنِ عمل کے پھول چُن کر خطبات اور خطابات میں سجا دیتے ہیں جو ابدی حیات پاتے ہیں اور تادیر دعائیں اور دادو تحسین وصول کرتے ہیں۔ چندے میں دی ہوئی مرغی،انڈے، بکری ، دوپٹہ ،گھر کے برتن ، زیور اور بچوں کے ٹوٹے ہوئے غلّے امر ہوچکے ہیں ۔ اَن گنت روح پرور مثالیں ہیں جن سے ایمان تازہ ہوتا ہے ۔ ایک مضمون میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ ہر عنوان سے اطاعت کی تمام تر مثالیں پیش کی جائیں ۔ برکت کے لیے ایک مثالی ہستی ایک رول ماڈل کا ذکر کرتے ہیں ۔

اطاعت کا بہترین نمونہ

اُم المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ اللہ کے رنگ میں رنگین ایک مثالی خاتون تھیں ۔ تقویٰ اور فہم و فراست سے مزیّن تھیں صرف اٹھارہ سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ اس خدیجہ کو دہلی سے الدار قادیان لے آیا۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر صدقِ دل سے ایمان لائیں کبھی اختلاف رائے نہیں کیا۔محبت کرنے والی اطاعت گزار بیوی ثابت ہوئیں ۔ ہر لحاظ سے سکینت کا سامان بن کر آئیں پھر حضرت اقدس ؑ کی تربیت نے اس ہیرے کو ہر رخ سے چمکادیا۔ اماں جان ؓساری زندگی اپنے مسیحاؑ کی وفا دار رہیں ۔ میاں بیوی کا رشتہ تھا مگر اس مقام کا لحاظ اوّلیں تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عطا فرمایا تھا اس لیے آپؑ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، حضرت اقدس یا حضرت صاحب کے القاب سے یاد کرتیں۔ اور آپؑ کے لیے بہت دعا کرتیں۔ فرمایا :

’’میں صدقِ دل اور شرحِ صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت ہو اور جھوٹ کا زوال اور ابطال ہو‘‘

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 223)

آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں

کوئی ہو جائے اگر بندۂ فرماں تیرا

(درثمین)

پانی بیٹھ کر پینا چاہیے

حضرت فضل الٰہی صاحبؓ ولد محمد بخش صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اماں جان سیر کرتے ہوئے ہمارے گاؤں آئے۔ جب واپس جانے لگے تو حکم کیا کہ پانی پلاؤ۔ (حضرت اماں جان کو پیاس لگی۔اُن کی بھی اطاعت کاچھوٹا سا واقعہ ہے)۔ میری والدہ صاحبہ نے مجھے گلاس میں پانی ڈال کر دیا اور کہا کہ لے جاؤ۔ میں جلدی سے اُن کے پاس پانی لے گیا اور اماں جانؓ اور حضرت صاحبؑ راستے میں کھڑے تھے۔ اماں جان کو مَیں نے پانی دیا۔ انہوں نے پکڑ کر پینا شروع کیا۔ حضرت صاحب نے صرف اتنا لفظ کہا کہ پانی بیٹھ کر پینا چاہئے۔اماں جانؓ نے صرف ایک گھونٹ پانی پیا تھا۔ یہ بات سن کر فوراً بیٹھ گئے اور باقی پانی بیٹھ کر پیا۔

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 353روایات حضرت فضل الٰہی صاحبؓ)

یہ ماں ہے تمہارے لیے بھی

اس کے قدموں تلے جنت ہے

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے گھریلو زندگی کا ایک عام سا واقعہ بیان کیا ہے جس میں حضرت اماں جان ؓکی اطاعت اور حضرت اقدس ؑکی تربیت کا انداز نمایاں ہے ۔

’’صاف نظارہ یاد ہے ، نیچے کے کمرے کے سامنے کے سہ درہ میں نانی امّاں بیٹھی تھیں ، کسی خادمہ نے اُن کا کہنا نہ مانا اور کوئی ایسی بات کہہ دی ،جس سے غلط فہمی پیدا ہو کر نانی اماں، حضرت اماں جانؓ سے ناراض ہو گئی تھیں ، اس وقت مجھے یاد ہے کہ حضرت نانی اماںؓ غصّہ میں کہہ رہی تھیں کہ ’’ لڑکی!‘‘ [حضرت امّاں جان ؓکو نانی امّاں لڑکی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں] آخر میری بیٹی ہی تو ہے ۔ہاں! میرے حضرت میرے سر کا تاج ہیں بے شک …‘‘

اتنے میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت امّاں جان ؓ کو اپنے آ گے آگے لئے چلے جا رہے ہیں اس طرح کہ دونوں شانوں پر آپ کے دستِ مبارک ہیں اور حضرت امّاں جانؓ کی آ نکھوں سے آ نسوؤں کی لڑیاں بہ رہی ہیں۔ آپ علیہ السلام نےخاموشی سے اسی طرح حضرت اماں جانؓ کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نانی امّاں کے قدموں پر آپ کا سر جھکا دیا۔ پھر نانی امّاں نے حضرت امّاں جان ؓکو اپنے ہاتھوں پر سنبھال لیا شاید گلے بھی لگایا تھا اور آپ علیہ السلام واپس تشریف لے گئے۔آپؑ کو امّاں جان کی ہر وقت خاطر مطلوب تھی اور جس کی عزت بہت زیادہ آپ کے دل میں تھی اس کی والدہ کی معمولی ناراضگی سُن کر برداشت نہ فر ماسکے اور خود لاکر اس کی ماں کے قدموں میں جھکا دیا گویا یہ سمجھا یا کہ تمہارا رتبہ بڑا ہے مگر’’یہ ماں ہے تمہارے لئے بھی اس کے قدموں تلے جنت ہے۔‘‘

(حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ 32)

اطاعتِ امام کی امتیازی سند

حضرت اقدسؑ کی رحلت پرحضرت اماں جان ؓنے کمال صبر سے صدمہ برداشت کیا۔ آپؓ کے سامنے قدرتِ ثانیہ کا دور شروع ہوا۔ایک خاتون جو خاتونِ اوّل رہ چکی ہو دوسرے کی اطاعت میں آنا بار ہوسکتا تھا لیکن یہ تو مسیحا ؑکی تربیت یافتہ پاکباز خاتون تھیں خوش دلی سے خلیفہ اوّل ؓکی بیعت کی اور اس معیار کی اطاعت کہ خود خلیفہ اوّلؓ سے داد پائی۔فرماتے ہیں :

’’جو اطاعت میری میاں محمود اور حضرت اماں جانؓ نے کی ہے کسی نے بھی نہیں کی ۔‘‘

ایک دوسرے موقع پر فرمایا:

’’میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود، بشیر، شریف،نواب ناصر ، نواب محمد علی خان کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا ۔ میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں ایک امرِ واقعہ کا اعلان کرتا ہوں ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے۔بیوی صاحب کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں ۔‘‘

( خطاباتِ نور صفحہ 472)

ایک مرتبہ حضرت ام المومنینؓ نے حضرت خلیفہ اوّل ؓکو کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے میں چاہتی ہوں کہ آپ کا کوئی کام کروں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓنے ایک طالب علم کی پھٹی پرانی رضائی مرمت کے لیے بھجوادی ۔ آپ نے بشاشتِ قلب سے اس رضائی کی مرمت اپنے ہاتھ سے کی اور اسے درست کرکے واپس بھجوا دیا۔ مرمت شدہ رضائی طالب علم کو واپس دیتے ہوئے حضرت خلیفہ اوّل ؓ نے فرمایا کہ حضرت ام المومنینؓ فرماتی ہیں کہ رضائی میں چلیٹ بہت تھیں اپنے کپڑوں کو صاف رکھا کرو ۔

حضرت ام المومنین نے اس گندی رضائی کی مرمت صرف اور صرف رضائے الٰہی کی خاطر اور حضرت مسیح موعود ؑ کے پہلے جانشین کے حکم کی تعمیل میں کی ۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے دل میں مقامِ خلافت کی کتنی عظمت تھی ۔

( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ 312)

ایک دفعہ کا واقعہ ہے حضورؓ کے پاس کچھ لڑکے پڑھنے کے لیے آئے ہوئے تھے ان میں ایک دیہاتی بھی تھا ایک دن وہ کھانے پر روپڑا وجہ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اسے لسّی کی عادت ہے جو اسے ملتی نہیں حضورؓ نے حضرت اماں جانؓ کو کہلوایا کہ یہ قصہ ہوا ہے آپ اپنے گھر سے لسّی بھیج دیا کریں ۔چنانچہ آپ روزانہ اس طالب علم کو لسّی بھجوا دیا کرتیں۔

ایک بار حضور ؓنے آپ سے فرمایا کہ آپ اپنی غیر احمدی رشتہ دار عورتوں سے تعلق پیدا کریں اور مشورہ دیا کہ پہلے آپ ان کے گھر تشریف لے جائیں پھر انہیں بلائیں حضرت اماں جان ؓ نے اپنے امام کا حکم مانا ان عورتوں سے ملنا شروع کیا اور اس طرح خدا کے فضل سے بہت سی رشتہ دار عورتیں احمدی ہوگئیں ۔

حضرت اماں جان ؓ کا یہ طریق تھا کہ جب بھی آپ نے کسی دوسرے شہر جانا ہوتا تو حضورؓ سے اجازت لے کر جاتیں اور ایسا ہی حضرت مصلح موعود ؓ کے وقت بھی ہوتا رہا۔ حضرت مصلح موعود ؓ گو آپ کے بیٹے تھے لیکن ان کے امام جماعت احمدیہ بننے کے بعد حضرت اماں جان ؓ نے ان کی اسی طرح عزّت اور فرماں برداری کی جیسا کہ امامِ وقت کی ہونی چاہئے۔

( ماخوذ از سیرت حضرت اماں جان ؓ از صاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ صفحہ 25تا27)

تم کو خدا کے سپرد کر دیا

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب ؓ جب سیاحت مصر اور حج بیت اللہ شریف کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں سے آپؓ نے حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں بطور مشورہ ایک خط لکھا ۔ حضرت ام المومنینؓ نے اس خط کا جو جواب دیا وہ سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہے اور احمدیت، اسلام اور سلسلہ کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کردینے کے لیے آپ کے دل میں جو جذبات تھے ان پر گہری روشنی ڈالتا ہے ۔ آپؓ نے تحریر فرمایا :

’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خط تمہارا پہنچا ۔ سب حال معلوم ہؤا ۔ مولوی صاحب [مراد حضرت خلیفہ اوّل ؓ] کا مشورہ ہے کہ پہلے حج کو چلے جاؤ۔ اور میرا جواب یہ ہے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دے چکی ہوں ۔ اب میرا کوئی دعویٰ نہیں ۔ وہ جو کسی دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے ان کو خطرہ تھا اور تم کو خطرہ نہیں ۔خداوند کریم اپنے خدمت گاروں کی آپ حفاظت کرے گا ۔ میں نے خدا کے سپرد کر دیا ۔تم کو خدا کے سپرد کردیا ۔خدا کے سپرد کردیا ۔ اور یہاں سب خیریت ہے ۔

والدہ محمود احمد 4؍اکتوبر 1912ء‘‘

(الفضل 20؍نومبر 1917ءصفحہ 10)

آپؓ نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی پوری اطاعت تمام وقت کی۔پھر جب خلافت ثانیہ وقوع میں آئی جو آپ کے فر زند ارجمند کے ذریعہ قائم ہوئی تو آپ نے اِس خلیفہ کی بیعت بھی اُسی رضا و رغبت کے ساتھ کی جیسا کہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی کی تھی اور کمال اطاعت کا ثبوت بہم پہنچایا۔ ایسے واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ جب کبھی خلیفہ ثانی ؓ ہاں آپ کے بیٹے نے کسی بات سے آپ کو روکا تو آپ فوراً رُک گئیں یہ خلیفۂ وقت اپنی ذکاوت اور اپنی انتظامی قوت کے لحاظ سے بہت بلند و بر تر ہستی ہیں اس لیے آپ کے ساتھ آپ کی والدہ کا اطاعت گزاری کے رنگ میں چلے چلنا نہایت مشکل امر تھا مگر آپؓ نے اس کو نباہ دیا اور جماعت میں اعلیٰ درجہ کی یگانگت کا موجب بنیں ۔

( سیرت حضرت اماں جانؓ از احمد طاہر مرزا ۔صفحہ 112)

میں بالکل بھی نہ ملوں گی

حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہؓ(جن کو ہم امی جان کے نام سے یاد کرتے ہیں) کو احمدیت سے بہت محبت تھی اور خلافت کے مقام کا خوب علم تھا اور اس کے لیے اتنی غیرت رکھتی تھیں کہ سب رشتے اس کے سامنے کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے۔ایک دفعہ آپ کے ایک چچازاد بھائی جو جماعت کے خلاف تھے آپ سے ملنے آئے۔امی جان نے فوراً کہلا بھیجا کہ ’’میں بالکل بھی نہ ملوں گی ‘‘ بعد میں جب انہوں نے حضور سے ملاقات کی تو حضور نے کہلا بھیجا کہ کھانا تیار کریں میں ان کو لا رہا ہوں آپ نے حضورؓ کے ارشاد کی تعمیل فرمائی ۔ جن سے ملنا گوارا نہیں تھا ان کے لیے کھانا تیار کیا ۔ کوئی اختلاف نہیں کیا ۔جب وہ کھانا کھا کر جا چکے تو امی جان نے حضورؓ سے کہا:

’’میں تو ملاقات سے بھی انکار کرچکی تھی اور آپ ان کو گھر کھانے پر لے آئے ؟ ‘‘

اس پر آپؓ نے فرمایا :

’’بے شک وہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں لیکن اس وقت وہ ہمارے مہمان تھے اور مہمان کی خاطر فرض ہے۔‘‘

( حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ صفحہ15تا16)

اطاعت کی انوکھی مثال

حضرت سیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب ؓسے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ ہمارا منشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کردیں۔ آپ کی لڑکی مریم ہے ۔ آپ اگر پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کردی جائے۔

صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی۔ٹائیفائڈ کا شدید حملہ ہوا تھا حالت اچھی نہیں تھی حضرت حکیم نور الدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاول ؓ) اور دو ڈاکٹرز ان کا علاج کررہے تھے جن میں سے ایک حضرت سیدہ بیگم ؓکے شوہر تھے اور بچے کی حالت اور بیماری کی نوعیت سے اچھی طرح واقف تھے۔کسی نے خواب دیکھا کہ مبارک احمد کی شادی ہورہی ہے شادی کی تعبیر موت ہوتی ہے لیکن اس خیال سے کہ بعض دفعہ ظاہری طور پر خواب پورا کرنے سے تعبیر ٹل جاتی ہے حضرت اقدسؑ نے مبارک احمد کی شادی کرنے کا ارادہ فرمایا۔ بچی مریم کی عمر صرف اڑھائی سال تھی پھر وہ سید زادی تھیں اور ان کے خاندان میں غیر سیدوں کو بیٹی دینے کا رواج نہیں تھا۔ مگر اس اطاعت شعار خاتون نے جواب دیا کہ حضور مجھے کچھ عذر نہیں لیکن اگر حضور کچھ مہلت دیں تو میں ڈاکٹر صاحب سے بھی پوچھ لوں۔

ڈاکٹر صاحب سے پوچھنے سے پہلے ان کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے جو الفاظ کہے ان سے علم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ آسان نہ تھا۔آپ نے بات ایسے شروع کی کہا اللہ تعالیٰ کے دین میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو بعض دفعہ اس کے ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ کامیاب رہیں گے اس کے بعد حضرت اقدسؑ کی رشتے کی تجویز والی ساری بات بتائی ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا اگر حضرت مسیح موعود ؑکو یہ پسند ہے تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔ آپ خوشی سے رونے لگیں۔چنانچہ یہ نکاح ہوگیا جس کے چند دن کے بعد یہ بچی بیوہ ہوگئی ۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ اخلاص اوراطاعت اس قدر پسند آئی کہ یہی مریم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے عقد میں آئیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؓ کی والدہ ہونے کا رتبہ ملا۔

(ماخوذ از تابعین اصحاب احمد جلد 3 صفحہ 293)

رشتےکی تحریک پر خلیفۂ وقت کی اطاعت کا ایک واقعہ حضرت سیدہ صالحہ بیگم اہلیہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کا بھی ہے۔ آپ کی بیٹی مکرمہ سیدہ نصیرہ بیگم ابھی سترہ سال کی تھیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے لیے حضرت مرزا عزیز احمدصاحبؓ کا رشتہ بھیجا جو عمر میں بڑے تھے پہلے سے شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ تھے۔آپ نے خوشی سے قبول فرمالیا۔

(حضرت سیدہ صالحہ بیگم صفحہ 23)

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی خلافت سے عقیدت اور اطاعت

حضرت اقدسؑ کی بڑی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کو مقام خلافت کا بے حد احترام تھا۔ اور نظام خلافت سے وابستگی اور اطاعت گزاری ہمیشہ آپ کا چلن رہا آپ نے زندگی میں تین خلفاء کا زمانہ دیکھا اور تینوں ہی سے آپ کو بے حد محبت اور عقیدت تھی اور تینوں کی ہی آپ ہمیشہ فرمانبردار اور اطاعت گزار رہیں ۔

حضرت خلیفہ اوّل ؓسے آپ کو بہت عقیدت تھی۔بچپن سے لے کر سب زمانے کی باتیں اور ذکر اس پیار بھرے لہجے میں کرتیں کہ سننے والے کا دل بھی اس محبت سے سر شار ہو جاتا۔پھر حضرت خلیفہ ثانی ؓتو بھائی تھے ۔ مگر بطور خلیفہ بھی آپ کا اس قدر احترام تھا، اس قدر عقیدت تھی کہ جس کی مثال نہیں اور جب آپ کا یہ پیارا بھائی اور خلیفہ آپ سے جدا ہوا تو غم سے نڈھال ہو گئیں ۔ لیکن اس وقت بھی کمال صبر اور حوصلے کا نمونہ پیش کیا ۔ سب بچے ، عزیز، حضرت مصلح موعود ؓکے گرد جمع تھے ، آپ کی وفات پر سب ہی تڑپ اٹھے ، رونے لگے، ان آہوں اور سسکیوں میں ایک شاندار آواز بلند ہوئی کڑاکے دار :

’’سنو! خاموش ہوجاؤ! میری بات سنو، مجھے وہ وقت یاد ہے ، یہ وہ ہیں ، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازے پر کھڑے ہو کر یہ عہد کیا تھا کہ

’’اگر سب میرا ساتھ چھوڑ دیں ، میں اکیلا رہ جاؤں تو بھی میں عہد کرتا ہوں کہ اس مشن کو میں پورا کروں گا ، جس کے لئے آپ بھیجے گئے تھے۔‘‘

دیکھو! میری آ نکھوں نے دیکھا انہوں نے ہر لحاظ سے اس عہد کو پورا کیاِ آ خر دم تک اُس عہد پر قائم رہے ، دین کی خدمت میں ہی جان دی ، اب رونے کا وقت نہیں، دعا ئیں کرو اور خدا کے سامنے عہد کرو کہ تم بھی ان کے نقشِ قدم پر چلو گے، اب تم پر یہ ذمہ داری ہے ۔‘‘

پھر اسی غم سے نڈھال وجود نے اپنے داماد، بھتیجے، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی کھلے دل کے ساتھ بہ رضا ورغبت بیعت کی اور تمام عمر آپ کی کامل اطاعت میں گزار دی ،ہر کام میں ان سے مشورہ لیتیں ، کہیں آنا جانا ہوتا ، کسی اور شہر میں، تو ہمیشہ اجازت لے کر جاتیں ، آپ کا بے حد احترام کرتیں اور آپ کا ادب و لحاظ اس قدر ملحوظ خاطر تھا کہ ایک بار حضورؒ کے ساتھ ’’بھوربن‘‘ سیر کے لئے تشریف لے گئیں ۔ ایک دن حضور ؒکی باہر ملاقاتیں لمبی ہو گئیں ، اندر سب کھانے پر انتظار کر رہے تھے ، یہ بھی بھوکی بیٹھی تھیں ، آخر باہر سے پیغام آیا کہ کھانا لگوا دیں میں بس آنے والا ہوں ، مرزا فرید احمد( حضورؒ کے بیٹے)جا کر بیگم صاحبہ کو کھانے کےلیے میز پر لے آئے ، کافی وقت گزر گیا حضور ؒکو آنے میں دیر ہو گئی ، کہنے لگیں مجھے تو بھوک سے ضعف ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ سب نے کہا آپ کھا لیں انتظار نہ کریں کہنے لگیں :

’’نہیں ! یہ بے ادبی ہے، میں اس طرح کرتی ہوں، اپنے کمرے میں جاتی ہوں ، وہیں میرا کھانا بھیج دیں ۔‘‘

یعنی یہ گوارا نہ کیا کہ میز پر بیٹھ کر حضور ؒکی آمد سے پہلے کھانا شروع کر دیں ، ہے تو چھوٹی سی بات ہےلیکن آپ کے خلیفۂ وقت سے بے حد ا دب واحترام کو ظاہر کرتی ہے۔

(حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ 104)

عہد بیعت کو نبھانے والی ہیں احمدی خواتین

حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد جب شروع میں کشمیر میں جہاد ہو رہا تھا تو پاکستانی فوج کو مجاہدین کی شدید ضرورت تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے دیہاتی جماعتوں میں پیغام بھجوانے شروع کیے کہ جو بھی فوج میں بھرتی ہوسکتا ہے آج قوم اور ملک کو ایک خاص ضرورت ہے اس لیے آپ لوگ بھرتی ہوں ۔ ایک جگہ آپ کے کارندے گئے اور وہاں اعلان کیا۔بڑا احمدی گاؤں تھا کوئی کھڑا نہیں ہوا۔پھر اس نے کہا پھر کوئی کھڑا نہیں ہوا ۔ایک بیوہ عورت تھی بڑی عمر کی اس کا ایک ہی بچہ تھا وہ اپنے گھر سے یہ نظارہ جھانک رہی تھی۔ اس قدر اس کو جوش آیا اس نے اپنے بیٹے کو نام لے کر کہا کہ او! میرے بیٹے تو کیوں جواب نہیں دیتا ۔ تیرے کان میں خلیفہ وقت کی آواز نہیں پڑ رہی۔ چنانچہ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اس نے کہا میں حاضر ہوں اور جس طرح بارش کا ایک قطرہ آتا ہے اور اس کے پیچھے موسلادھار بارش برستی ہے ،جتنے جوان تھے سارے اُ ٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم بھی آتے ہیں ۔ حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب مجھ تک اطلاع پہنچی تو میں نے اپنے خدا کے حضور ایک دعا کی ۔ مَیں نے کہا اے میرے اللہ! میری آواز پر اس بیوہ نے اپنا ایک ہی بیٹا پیش کر دیا ہے جو شادی کی عمر سے گزر چکی ہے۔پھر اولاد کی کوئی توقع نہیں ہے۔میں تیری عظمت اور جلال کی دہائی دیتا ہوں کہ اگر تونے قربانی لینی ہے تو میرے بیٹے ذبح ہو جائیں اس عورت کا بیٹا بچایا جائے۔یہ ہیں وہ احمدی خواتین اور مستورات جو عہد بیعت کو نبھانے والی ہیں ۔

(ماخوذ از خطاب جلسہ سالانہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرمودہ27؍ دسمبر 1982ء الازھار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 14)

امامِ وقت کی آواز پر جان کی پرواہ نہ کی

مسلم لیگ کے زمانہ میں جب یہ خطرہ تھا کہ مسلم لیگ نہ جیتی تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک عام حکم جاری کیا جس میں بھی طاقت ہے وہ ضرور ووٹ دینے کے لیے جائے۔اب یہ تو ایک واضح بات ہے کہ ووٹ دینا کوئی ایسا اسلامی فرض تو نہیں ہے کہ اس کو چھوڑنےسے اسلامی حکم کو ٹالا جاتا ہے اور پھر جو مجبور ہو ، بیمار ہو اس کو تو ویسے ہی اجازت ہے لیکن ایک عورت مچل گئی اس کے چند دن پہلے بچہ پیدا ہوا تھا ۔ اس کے ماں باپ رشتہ داروں نے سمجھایا کہ بی بی نہ جاؤ خطرہ ہے اس نے کہا خطرہ اپنی جگہ ہوگا میرے کانوں میں امام وقت کی آواز پہنچی ہوئی ہے کہ مسلم لیگ کو جتانا ہے اور ووٹ دینا ہے ۔ انہوں نے کہا اچھا پھر یہی علاج ہے تمہارا کہ ہم تالا لگا جاتے ہیں باہر اور تمہیں اکیلا گھر میں چھوڑ جاتے ہیں ۔ تالا لگا کے سارے گھر والے چلے گئے۔ وہ عورت اُٹھی اور اس نے ان کے جانے کے بعد واویلا شروع کیا کسی ایک ہمسائے کے کان میں آواز پڑی وہ آیا اور اس نے تالا توڑا۔ اُس نے کہا اور کوئی بات نہیں مجھے تھوڑی دیر کے لیے باہر جانا ہے ، باقی ٹھیک ہے ۔ وہ یہ کہہ کر وہاں سے روانہ ہوئی۔واپسی پر وہ قافلہ آ رہا تھا ووٹ دے کر تو ایک جھاڑی میں سے انہوں نے خون بہتا دیکھا جاکے پتہ کیا تو وہی ان کے گھر کی بچی تھی اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ چل سکے ۔ چنانچہ رستے میں اتنی Bleeding شروع ہو گئی کہ جھاڑیوں میں وہ چھپ کر لیٹ گئی اور وہیں بے ہوش ہو گئی اسے اُ ٹھا کر واپس لائے ۔

اس طرح وہ لوگ بیعتیں کیا کرتے تھے ، اس طرح تقاضے ادا کرتے تھے دین کے وہ خالص تھے اپنے ایمان میں کوئی ان میں جھوٹ کی ملونی نہیں تھی ۔ ایسی ایسی مائیں تھیں جنہوں نے اس قربانی کے حیرت انگیز مظاہرے کئے ہیں اسلام کی خاطر اور بیعت کا حق ادا کرنے کے لیے ۔

(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرمودہ 27؍ دسمبر 1982ء بحوالہ الازھار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 13)

خواتین کے چندے سے مساجد کی تعمیر

خواتین کا مالی تحریکات پر لبیک کہنا اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بھی اطاعت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میدان میں حضرت اماں جان ؓ سر ِفہرست ہیں۔ مساجد ، تبلیغی مشن ،لنگر خانہ، منارۃ المسیح ، الفضل ، تحریک جدید اور لجنہ اماء اللہ، جہاں ضرورت دیکھی زیور اور جائیداد بیچ کر چندہ دیا۔آپؓ کی مالی قربانی کی بنیاد ایسی مضبوط اور پائیدار ثابت ہوئی کہ آج تک ہر تحریک پر نقد رقمیں اور طلائی زیورات خوش دلی سے نثار کرنا جماعت کی ایک تابندہ روایت کی صورت میں جاری ہے ۔تاریخ نے حضرت سیدہ ام ناصر ؓکے دو طلائی کڑے کبھی فراموش نہیں کئے جو انہوں نے الفضل کے اجرا کے وقت عنایت کیے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 2؍فروری 1923ء کو احمدی خواتین سے برلن میں مسجد کے لیے چندے کی اپیل کی خواتین میں مالی قربانی کے لیے اخلاص اور فدائیت اور للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا ہو گیا۔ایسی پُر جوش ہلچل اور انقلابی صورت پیدا ہوئی کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو ایسا پھل لگایا کہ مسجد برلن نہ بن سکی تو مسجدفضل لندن بنوادی ۔عورتوں کے چندے سے مسجدمبارک ہیگ بنی مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن بنی پھر میں مسجد خدیجہ برلن بنی جس پر 17 لاکھ یورو لاگت آئی جو پاکستا نی روپوں میں بدلیں تو 19کر و ڑ بنتے ہیں ۔ اسی طرح جب بھی مساجد کے لیے تحریک ہوئی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

قرآن کریم پڑھنے، پڑھانے، حفظ کرنے، اورتدبّر کرنے کی تلقین پر خواتین سرگرمی سے عمل کرتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ قرآنی پیش گوئیوں پرتحقیق اور تراجم کے لیے خواتین کو میدان عمل میں لائے ایک خاتون نے تفسیر بھی لکھی ہے۔بہت سے ریسرچ سیل بنائے جن کی حسنِ کارکردگی کو دادو تحسین سے نوازا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد مبارک میں آن لائن درس و تدریس کے ذریعے تجوید کے ساتھ خوب صورتی سے قرآن پاک پڑھنے ،پڑھانے والوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔دنیا کے ہر کونے میں احمدی خواتین سےگھروں میں آکر پڑھنے والے گلی محلے کے بچوں کے اعداد و شمار جمع ہوسکتے تو حیران کُن حد تک خوشگوار ہوتے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم میں خواتین اعلیٰ مقام پر ہیں۔جلسہ ہائے سالانہ پر انعام لینے والی خواتین کے مختلف میدانوں میں تعلیمی ریکارڈ دیکھ کر دل حمد سے بھر جاتا ہے ان کی تعداد میں بھی بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ایم ٹی اے کے لیے رضاکارانہ خدمت میں خواتین کا بڑا حصہ ہے۔اسی طرح دعوت الی اللہ، تصنیف و اشاعت، خدمت خلق، جلسہ ہائے سیرۃ النبی ﷺ، غرضیکہ ہر میدان میں خلفائے کرام کے ارشادات اور تحریکات کی تعمیل میں خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں ۔ واقفات نَو کی فصل بھی پھل دے رہی ہے جن کو حضور انور کی ذاتی توجہ اور راہ نمائی حاصل ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک نصیحت

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے … ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اورذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے توپھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہئے اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آ کر پڑتے ہوں کیونکہ پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہے گی … امام کا مقام تویہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے۔‘‘

(الفضل 5؍ جون 1937ء )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک نصیحت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’ہر احمدی کا ہر لمحہ جہاں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں گزرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے وہاں اپنے جائزے لیتے ہوئے بھی گزرنا چاہیے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کر رہے ہیں؟ اور جب اس سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور پھر اپنے عملوں کو بھی اس کے مطابق کریں گے اور خلافت کے قائم رہنے کے لیے دعائیں بھی کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بھی بنتے چلے جائیں گے‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ28؍ مئی 2021ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍جون 2021ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو توفیق عطا فرمائے آمین اللّٰھم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button