متفرق مضامین

اسلام میں مساوات کا تصور(قسط ششم)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

موجودہ دَور ميں چونکہ مذہبي جنگوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اس ليے کسي مسلمان کے ليے جائز نہيں وہ قيديوں کو لونڈي يا غلام بنائے اور

اُن کے ساتھ کسي قسم کي زيادتي کا مرتکب ہو

ايک ايسا معاشرہ جہاں غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کيا جاتا تھاآنحضورؐ کي لائي ہوئي تعليم اور عملی نمونے کي قوت قدسيہ کي برکت سے اُس معاشرے ميں ايسي پاکيزہ تبديلي ظاہر ہوئي کہ آقا اور غلام بھائي بھائي بن گئے۔آپؐ نے غلاموں کے بارے ميں حکم ديا کہ جو خود پہنو وہي انہيں پہناؤ، جو خود کھاؤ ان کو بھي کھلاؤ اور اُن سے سخت کام نہ لو بلکہ سخت کاموں ميں اُن کي مددکيا کرو۔ چنانچہ جاںنثار صحابہؓ نے اس ارشاد پردل وجان سے عمل کيا اور اس کي عملي مثاليں قائم کيں۔ پس يہ کس قدر بڑي تبديلي ہے جو ہمارے آقا وموليٰ ؐ کے ذريعہ ظہور ميں آئي ۔

حضرت ابو ذر غفاري رضي اللہ عنہ کو کسي نے ديکھا کہ وہ ايک نيا کپڑوں کا جوڑا پہنے تھے اور ان کا غلام بھي ويسا ہي نياجوڑا پہنے ہوئے تھا ، تو ہم نے اس کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : ميں نے ايک شخص کو گالي دي تھي تو اس نے نبي کریمؐ سے ميري شکايت کردي۔ نبي کریمؐ نے مجھ سے فرمايا:کيا تم نے اس کو اس کي ماں کا طعنہ ديا ہے ؟ پھر آپؐ نے فرمايا: تمہارے بھائي ہي تمہارے نوکر چاکر ہوتے ہيں جنہيں اللہ نے تمہارے ماتحت کرديا ہے ۔اس لیے جس کا بھائي اس کے ماتحت ہو تو چاہيے کہ وہ اس کو اسي کھانے سے کھلائے جو وہ خود کھاتا ہو اور اسي کپڑے سے پہنائے جو وہ خود پہنتا ہو اور تم ان کو ايسے کاموں کي تکليف نہ ديا کرو جو انہيں نڈھال کرديں اور اگر تم ان کو ايسے کاموں کي تکليف دو جو اُن پر گراں ہوں تو ايسے کاموں ميں ان کو مدد دياکرو۔

(صحيح البخاري کتاب العتق بَاب:قَوْلُ النَّبِيِّ ؐ: الْعَبِيْدُ اِخْوَانُکُمْ فَائَطْعِمُوْھُمْ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ حديث:2545)

حضرت ابوہريرہ رضي اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ نبي کریمؐ نے فرمايا: جب تم ميں سے کسي ايک کے پاس اس کا خادم کھانا لے کرآئے تو اگر اس کو اپنے ساتھ نہ بٹھائے تو چاہيے کہ وہ اس کو ايک نوالہ يا دو نوالے يا فرمايا : ايک لقمہ يا دو لقمے دےدے کيونکہ اس نے اس کو اپني نگراني ميں پکايا ہے۔

(صحيح البخاري کتاب العتق بَاب:اِذَا اَتَاہُ خَادِمُہُ بِطَعَامِہِ حديث:2557)

ايک اور روايت کے مطابق آپؐ نے تاکيد فرمائي کہ خادم يا غلام کھانا لا ئے تواُسے بھي ساتھ بٹھا کر اس ميں سے کھلاؤ اگر وہ نہ مانے تو کچھ کھانا ہي دےدو کہ اس نے کھانا تيار کرتے ہوئے گرمي اور دھواں کھايا ہے۔

(ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب اذا اتاہ خادمہ لطعامہ)

آنحضرت ؐنے معاشرے کے اس مظلوم ترين طبقے کو صرف غلامي سے ہي نجات نہيں دلائي بلکہ غلاموں کي عزت نفس کو بھي بحال فرماديا۔آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو حکم دياکہ غلاموں کے ساتھ تمہارا اندازِ گفتگو متکبرانہ نہيں ہونا چاہیے بلکہ اُن کے ساتھ نرمي سے پيش آيا کرو ۔اسي طرح آپؐ نے غلام کو اے ميرے غلام! اور اے ميري لونڈي! کہہ کر پکارنے سے بھي منع فرماياہے ۔ آپؐ نے آزاد کردہ غلام کو موليٰ يعني دوست ومددگار کا نام ديااور لونڈيوں کے ليے اس خواہش کا اظہار فرمايا کہ آزاد کیے جانے کے بعد اُن سے نکاح کر ليا کرو تاکہ وہ عزت اوروقار کے ساتھ زندگي گزار سکيں۔

حضرت ابوہريرہ رضي اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ نبي کریمؐ نے فرمايا:تم ميں سے کوئي اپنے غلام کو اے ميرے غلام، اے ميري لونڈي کہہ کر نہ پکارے بلکہ يہ کہے : اے نوجوان لڑکے يا اے نوجوان لڑکي يا کہے : اے ميرے بچے !

(صحيح البخاري کتاب العتق بَاب :کَرَاھِيَةِ التَّطَاوُلِ عَلَي الرَّقِيْقِ حديث:2552)

سيدنا حضرت اقد س مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام غلام کے ساتھ عفو ودرگزر اور احسان کا ايک واقعہ بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں:’’کہتے ہيں کہ امام حسن رضي اللہ عنہ کے پاس ايک نوکر چائے کي پيالي لايا۔جب قريب آيا تو غفلت سے وہ پيالي آپؓ کے سرپر گر پڑي۔آپ نے تکليف محسوس کرکے ذرا تيز نظر سے غلام کي طرف ديکھا ۔ غلام نے آہستہ سے پڑھا

وَالْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ۔يہ

سن کرحضرت امام حسن رضي اللہ عنہ نے فرمايا کَظَمْتُ۔ غلام نے پھر کہا وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ۔کظم ميں انسان غصہ دبا ليتا ہے اور اظہار نہيں کرتا ہے ۔ مگر اندر سے پوري رضا مندي نہيں ہوتي ۔ اس لئے عفو کي شرط لگادي ہے ۔ آپؓ نے کہا کہ ميں نے عفو کيا ۔ پھر پڑھا:

وَاللّٰہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ (آل عمران:135)۔

محبوب الٰہي وہي ہوتے ہيں جو کظم اور عفو کے بعد نيکي بھي کرتے ہيں ۔ آپؓ نے فرمايا ۔جاآزاد بھي کيا ۔ راستبازوں کے نمونے ايسے ہيں کہ چائے کي پيالي گِرا کرآزاد ہوا۔ اب بتاؤ کہ يہ نمونہ اصول کي عمدگي ہي سے پيدا ہوا۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 115،ايڈيشن 2003ء)

پس اسلام نے جہاں غلاموں کي عزت نفس بحال کرنے کے مختلف طريق اختيار کیے ، وہيں غلامي جيسي قبيح رسم کو ختم کرنے کے عملي اقدامات اُٹھائے۔ان عملي کوششوں کے باوجود جو غلام بچ گئے اُن کے ساتھ احسان يعني اعليٰ درجہ کے سلوک کي تعليم دي يہاں تک کہ والدين اور اقرباء کے ساتھ اُن کا ذکر فرماکر اُن کي قدرومنزلت ميں بہت اضافہ فرماديا۔

اللہ تعاليٰ کا ارشاد مبارک ہے :

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا۔(النساء:37)

اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔

پس ابتداسے ہي اسلام کا يہ منشا رہا ہے کہ آزادي ہر انسان کا بنيادي حق ہے۔ رسول کريم ؐ نے لونڈيوں کي آزادي کي ايک صورت يہ بيان فرمائي ہے کہ اگر کسي لونڈي کے وارث کسي وجہ سے اُسے آزاد نہيں کراتے اور نہ ہي وہ مکاتبت کے ذريعہ آزادي حاصل کرپاتي ہے تو اس صورت ميں اُسے آزاد کرکے اُس سے نکاح کرليا جائے تاکہ وہ باوقار زندگي گزار سکے ۔

حضرت ابوموسيٰ اشعري رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبي کریم ؐنے فرمايا: جس شخص کے پاس لونڈي ہو اور وہ اس کو آداب سکھائے اور نہايت اچھے سکھائے اور پھر اسے اۤزاد کرکے اس سے شادي کرلے تو اس کو دوثواب مليں گے اور جوغلام اللہ کا حق بھي ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق بھي تو اس کو بھي دو ثواب مليں گے۔

(صحيح البخاري کتاب العتق بَاب :الْعَبْدِ اِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّہِ وَ نَصَحَ سَيِّدَہُ حديث:2546)

پس محسن انسانيتؐ گردنوں کو آزاد کرنے، اُن کے بوجھ اُتارنے اور انسان کي عزت وتکريم قائم کرنے کے ليے تشريف لائے ہيں ۔ اللہ تعاليٰ آپ کي تعريف ميں فرماتا ہے :

وَيَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْھِمْ (الاعراف:158)

اور اُن سے اُن کے بوجھ اور طوق اتار ديتا ہے جو اُن پر پڑے ہوئے تھے ۔

موجودہ دَور ميں چونکہ مذہبي جنگوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اس ليے کسي مسلمان کے ليے جائز نہيں کہ وہ قيديوں کو لونڈي يا غلام بنائے اور اُن کے ساتھ کسي قسم کي زيادتي کا مرتکب ہو۔اس بارے ميں امام الزمان سيدنا حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کا فتويٰ يہ ہے کہ ’’يہ بہت خوشي کي بات ہے کہ ہمارے زمانہ ميں اسلام کے مقابل پر جو کافر کہلاتے ہيں انہوں نے يہ تعدي اور زيادتي کا طريق چھوڑ ديا ہے۔اس لئے اب مسلمانوں کے لئے بھي روا نہيں کہ ان کے قيديوں کو لونڈي غلام بناويں کيونکہ خدا قرآن شريف ميں فرماتاہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اسي قدر زيادتي کرو جس ميں پہلے انہوں نے سبقت کي ہو پس جبکہ اب وہ زمانہ نہيں ہے اور اب کافر لوگ جنگ کي حالت ميں مسلمانوں کے ساتھ ايسي سختي اور زيادتي نہيں کرتے کہ ان کو اور ان کے مردوں اور عورتوں کو لونڈياں يا غلام بناويں بلکہ وہ شاہي قيدي سمجھے جاتے ہيں اس لیے اب اس زمانہ ميں مسلمانوں کو بھي ايسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت ، روحاني خزائن جلد 23صفحہ 253،حاشيہ)

خلاصہ کلام يہ کہ روز اوّل سے اسلام کا نصب العين غلاموں کي آزادي اور جنگ کي صورت ميں بھي اُن سے حسن سلوک کي تعليم دي گئي ہے جبکہ اس کے بالمقابل ديگرشريعتوں ميں جنگي قيديوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کي تعليم دي گئي ہے ۔

اسرائيلي شريعت کي رُو سے تمام جنگي قيدي تہ تيغ ہونے کے قابل اور عورتيں اور بچے اور ان کے اموال سب غنيمت اور حق حلال قرار دیے گئے ہيں بلکہ يہاں تک حکم ہے کہ اپنے دُور و نزديک دشمنوں ميں سے کوئي ذي نفس جيتا نہ چھوڑا جائے۔ (استثناء باب 20آيات 13تا 18) حضرت عيسيٰ عليہ السلام سے منسوب ہونے والوں نے بھي يہي راہ اختيار کي ہے ۔ اگر عيسائي تعليم کا مطالعہ کيا جائے تو پولوس نے زيادہ سے زيادہ يہ تلقين کي ہے کہ غلام اپنے آقا کے فرمانبردار رہيں اور آقا اُن سے حسن سلوک کريں ۔ (افسيوں کے نام خط باب 6آيات 5تا 9)جبکہ رسول کريم ؐنے جنگي قيديوں اور غلاموں کے ساتھ نہ صرف نيک سلوک کي نصيحت فرمائي ہے بلکہ قيديوں کي آزادي کے احکام صادر فرمائے ۔ تاريخ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے جنگ بدر کے قيديوں سے نہ صرف نيک سلوک کيا بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو اچھي خوراک سے محروم رکھ کر اپنے قيديوں کوترجيح دي ۔ (السيرة النبوية لابن ہشام ذکر ائسري قريش مقتل النضرو عقبة جزء 2صفحہ 209) رسول کريم ؐ نے وفات سے قبل اپني اُمت کو جو آخري نصيحت فرمائي اُس ميں بھي غلاموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا :نمازوں اور غلاموں کے متعلق ميري تعليم کو نہ بھولنا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الوصايا باب ھل أَوصي رسول اللّٰہ ﷺحديث نمبر 2698)

ايک اٹالين مستشرق ڈاکٹر ويگليري (Vaglieri) لکھتي ہيں کہ ’’اگر تاريخي لحاظ سے اُن واقعات پر غور کيا جائے تو معلوم ہوگا کہ آنحضرت ؐ نے اس باب ميں عظيم الشان اصلاحيں کيں۔ اسلام سے پہلے قرضہ ادا نہ ہونے کي صورت ميں بھي ايک آزادآدمي کي آزادي کے چھن جانے کا امکان تھاليکن اسلام لانے کے بعد کوئي مسلمان کسي دوسرے آزاد مسلمان کو غلام نہيں بنا سکتا تھا۔ خدا کے نبي کریمؐ نے غلامي کو محدود ہي نہيں کيا بلکہ آپؐ نے اس بارے ميں اوامر ونواہي جاري کیے اور مسلمانوں کو کہا کہ وہ قدم آگے بڑھاتے رہيں حتيٰ کہ وہ وقت آجائے جب رفتہ رفتہ تمام غلام آزادہو جائيں ۔‘‘

(An Interpretation of Islam by Laura Veccia Vaglieri translated by Dr. Aldo Caselli page no.72-73 The Oriental & Religious Publishing Corporation Limited Rabwah Pakistan)

بدقسمتي سے مسلمانوں کي اکثريت نے اسلام کي ديگر تعليمات کي طرح اپنے نبي کریمؐ کے اس فرمان کو بھي بھلا ديا ہے ۔آج کے دَور ميں اگرچہ زرخريد غلام تو نہيں ملتے ليکن اکثر مسلمان ممالک ميں حکومت کے نام پر عوام الناس سے غلاموں جيسا سلوک کيا جارہا ہے۔جس کي وجہ سے ان ممالک کے عوام کے اندر رفتہ رفتہ يہ احساس بڑھتا جارہاہے کہ اُن کي حکومتيں اُن کے ساتھ غلاموں جيسا سلوک کر رہي ہيں ۔

اس ضمن ميں حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں:’’بعض ملکوں ميں جو بے چيني اور شور شرابہ ہے ، خاص طور پر بعض مسلمان عرب ممالک ميں بھي وہ اس لئے ہے کہ عوام الناس کو يہ احساس پيدا ہوگيا ہے کہ ہم سے غلاموں جيسا سلوک کيا جارہا ہے۔ ايک حکومت جمہوريت کے نام پر آتي ہے تو پھر اُس کي کوشش يہ ہوتي ہے کہ جو صدر بنا ہے وہ تا حيات رہے اور اُس کے بعد جو اُس کي اولاد ہے وہ حکومت پر قبضہ کرلے ۔ خوشامديوں اور مفاد پرستوں نے ان لوگوں کے ارد گرد جمع ہوکر اُن کي ترجيحات اور قدريں ہي بالکل بدل دي ہيں اور پھر وہ حکومت قائم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہيں ۔ اپنے ہي عوام پر گولياں چلائي جاتي ہيں ۔ اور پھر اسلام دشمن طاقتيں يا بڑي طاقتيں يا مفاد حاصل کرنے والي طاقتيں اپنے مفادات کے لئے ، ملک کي دولت پر قبضہ کرنے کے لئے ان فسادات کو جو عوام کي طرف سے حکومت کے ظلموں سے نجات کے لئے کئے جاتے ہيں اَور زيادہ ہوا ديتي ہيں ۔ مدد کے نام پر آتے ہيں اور پھر يہ ايک ايسا شيطاني چکر شروع ہوجاتا ہے جو ملک کي ترقي کو بھي سوسال پيچھے لے جاتا ہے اور عوام کي آزادي کي کوشش کو بھي مزيد غلامي ميں جکڑ ليتا ہے ۔ اگر براہِ راست نہيں تو بالواسطہ اپنوں کي غلامي سے نکل کر غيروں کي غلامي ميں چلے جاتے ہيں …عوام بھي غلط فہمي کا شکار ہيں ۔ ايک حکومت کي غلامي سے نکل کر دوسرے کي حکومت کي غلامي ميں جارہے ہيں اور بعض جگہوں پر تو چلے گئے ہيں ۔ اب اُن کو احساس پيدا ہوگيا ہے کہ ملکي دولت اب بھي عوام کي بہبود پر ، اُن کي بہتري کے لئے ، اُن کو حق و انصاف دلانے کے لئے ، اُن کو تعليم يافتہ بنانے کے لئے خرچ نہيں ہو رہي اور نہ ہوگي کيونکہ جو حکومتيں آرہي ہيں وہ بھي اپنے مفادات لے کر آرہي ہيں ۔ عوام ميں غربت اور کم معيارِ زندگي پہلے بھي تھا اور آئندہ بھي جو خوش فہمي ہے کہ دُور ہوجائے گا وہ نہيں دُور ہوگا بلکہ قائم رہے گا…اس ليے کہ آنحضرت ؐکي نصيحت پر حکمران عمل نہيں کرتے ۔ مسلمان کہلاتے ہيں ليکن آپؐ کي نصيحت پر عمل کرنے والے نہيں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍نومبر 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنيشنل 16؍دسمبر 2011ء صفحہ 7)

پس اسلامي تعليم اور نبي کريم ؐ کے عملي نمونے کے ذريعہ اسلامي معاشرے ميں تدريجاً ايسي فضا پيدا کردي کہ غلامي کي ادنيٰ حالت جو ازمنہ قديمہ سے ہر ملک وقوم ميں پائي جاتي تھي اُسے يکسر تبديل کرکے غلاموں کو بھي عزت اور وقار کے ساتھ زندگي گزارنے کے قابل بناديا۔

نجي زندگي کا احترام

نجي زندگي کا تحفظ اور اُس کا احترام انساني حقوق ميں شامل ہے۔ہر شخص کو نجي زندگي گزارنے اور اپنے گھر کي چارديواري ميں اپني مرضي کے مطابق رہنے کا حق حاصل ہے۔اس طرح اسلام نے ہر انسان کي نجي زندگي کے حق کونہ صرف تسليم کيا ہےبلکہ اس کے متعلق راہ نما اصول بھي متعين فرمادیے ہيں۔اسلامي تعليم کي رُو سے کسي شخص کو کسي دوسرے شخص کي نجي زندگي ميں مخل ہونے، اُس کي ٹوہ لگانے ، اُس کے بارے ميں تجسّس کرنے يا اُس کي نجي زندگي ميں مخل ہونے کي قطعاً اجاز ت نہيں بلکہ ايسا کرنا گناہ ميں شمار ہوگا۔پس گھر اس ليے ہوتے ہيں کہ انسان اپني مرضي سے جس طرح چاہے رہے اور اپنے گھر والوں کے زندگي کے پرسکون لمحات سے لطف اندوز ہو۔اسي ليے انساني فطرت کے راز دان ہمارے آسماني آقا نے يہ تعليم دي ہے کہ دوسروں کے گھروں ميں داخل ہونے سے پہلے اجازت لے ليا کرو اور اس اجازت کا طريق يہ بتايا کہ اُن پر سلامتي کي دعا بھيج کر پوچھو کہ اگر آپ اجازت ديں تو ميں ملاقات کے ليے آپ کے گھر ميں داخل ہوجاؤں ياآپ سے مل لوں ۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ۔فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدۡخُلُوۡہَا حَتّٰی یُؤۡذَنَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا فَارۡجِعُوۡا ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ۔(النور: 28تا29)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام بھیج لو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔اور اگر تم ان (گھروں) میں کسی کو نہ پاؤ تو اُن میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تمہیں (اس کی) اجازت دی جائے۔ اور اگر تمہیں کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جایا کرو۔ تمہارے لئے یہ بات زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور اللہ اُسے، جو تم کرتے ہو، خوب جانتا ہے۔

حضرت موسيٰ اشعري ؓ بيان کرتے ہيں کہ رسول اللہؐ نے فرمايا:

الاِسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَاِنْ اُذِنَ لَکَ وَاِلَّا فَارْجِعْ

(صحيح مسلم کتاب الآداب بَاب الاسْتئذان)

اجازت تين دفعہ طلب کرني چاہیے ۔ پس اگر تمہيں اجازت دے دي جائے تو ٹھيک ورنہ لوٹ جاؤ۔

پس اگر اہل خانہ خوش دلي سے اجازت دے ديں تو ملاقات کرلي جائے ، ورنہ بغير کسي گلے شکوے کے واپس چلے جانا چاہیے کيونکہ يہ اللہ تعاليٰ اور اُس کے رسول ؐکي قائم کردہ حدود ہيں جن کا احترام ہر مسلمان پر واجب ہے۔اسي ميں ہمارے ليے خيروبرکت اور بھلائي پنہاں ہے ۔بعض لوگوں کي عادت ہے کہ اگر اہل خانہ کسي وقت ملنے سے انکار کرديں تو وہ بہت برا مناتے ہيں اور بسا اوقات بھري مجالس ميں ان کا ذکر کرکے گناہ کے بھي مرتکب ہورہے ہوتے ہيں۔ آنحضور ؐ کے اسوۂ حسنہ سے ثابت ہے کہ آپؐ جب کسي سے ملنے کے ليے تشريف لے جاتے تو گھر ميں داخل ہونے کي اجازت مانگتے اوراجازت ملنے پر ہي کسي کے گھرميں داخل ہوتے ۔ اسي طرح اگر کوئي بلا اجازت آپؐ کے گھر ميں داخل ہوتا اُسے فرماتے کہ باہر جاکر پہلے اجازت لو پھر گھر ميں داخل ہونا ۔ ايک مرتبہ کسي صحابي نے آنحضرت ؐ کي خدمت ميں ايک بچے کے ہاتھ دودھ، ہرن کا بچہ ا ور ککڑياں بطور تحفہ بھيجيں۔وہ يونہي بلا اجازت اندر چلاآيا۔اس پر آنحضرت ؐنے فرمايا: واپس جاؤ اور سلام کرکے اندر آؤ۔

حضرت کلدہ بن حنبل ؓسے روايت ہے کہ ميں نبي کريمؐ کي خدمت ميں حاضر ہوا ۔ ميں آپؐ کے پاس اندر داخل ہوا اور سلام نہ کيا۔اس پر نبي کريم ؐنے فرمايا:

ارْجِعْ ، فَقُلْ: السَّلَامُ عَلَيْکُمْ اَ أَدْخُلُ؟

لوٹ جاؤ اور کہو : السلام عليکم ، کيا ميں اندر داخل ہوسکتا ہوں ؟

(الترمذي کتاب الاستئذان عن رسول اللّٰہؐ،ماجاء في التسليم قبل الاستئذان)

پس ادب کا ايک تقاضا يہ ہے کہ گھر والوں کي نجي زندگي کے احترام کي خاطر جب انسان کسي سے ملنے يا کسي کام سے کسي کے ہاں جائے تو دروازے کے بالکل سامنے کھڑا ہونے کي بجائے ايک طرف ہٹ کرکھڑا ہوا جائے اور السلام عليکم کہہ کر اجازت طلب کي جائے ۔ اگر تين مرتبہ سلام کرنے کے باوجود اجازت نہ ملے تو پھر وہاں سے چلے جانا چاہیے۔ رسول اللہؐ نے بھي يہي ارشاد فرمايا ہے کہ

اِذَا اسْتَئْذَنَ أَحَدُکُمْ ثَلَاثًا فَلَمْ يُوئْذَنْ لَہُ فَلْيَرْجِعْ

(صحيح البخاري کتاب الْاِسْتِئْذانِ باب التَّسْلِيْمِ وَالاِسْتِئْذَانِ ثَلَاثًا حديث:6245)

جب تم ميں سے کوئي کسي سے تين مرتبہ اجازت چاہے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جانا چاہئے ۔اگر گھر ميں داخل ہونے کي اجازت مل جائے يارشتہ داري اور دوستي کي بناپر انسان کسي کے ہاں جائے، تب بھي سلام کرکے گھر ميں داخل ہونا چاہیے۔اس بارے ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

فَاِذَادَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤي اُنْفُسِکُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ مُبٰرَکَةً طَيِّبَةً (النور:62)

پس جب تم گھروں ميں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں پر اللہ کي طرف سے ايک بابرکت پاکيزہ سلامتي کا تحفہ بھيجا کرو۔

حضرت ابوہريرہ ؓبيان کرتے ہيں کہ ميں آنحضرتؐ کے ساتھ (آپ کے گھر ميں ) داخل ہوا ، آنحضرت ؐنے ايک بڑے پيالے ميں دودھ ديکھا تو فرمايا: ابوہريرہ! اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہيں ميرے پاس بلا لاؤ۔ ميں ان کے پاس آيا اور انہيں بلا لايا۔ وہ آئے اور (اندر آنے کي) اجازت چاہي پھر جب اجازت دي گئي تو داخل ہوئے۔(صحيح البخاري کتاب الاستئذان باب اِذَا دُعِيَ الرَّجُلُ فَجَاءَ ھَلْ يَسْتَأْذن؟…)اسلام نے انسان کي نجي زندگي کا اس قدر احترام سکھايا ہے کہ گھرکے افراد کو بھي ايک دوسرے کے کمرے ميں داخل ہونے سے پہلے اجازت لينے کي تلقين فرمائي ہے۔اللہ تعاليٰ فرماتاہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ…(النور:59)

اے وہ لوگو جو ايمان لائے ہو ! تم ميں سے وہ جو تمہارے زيرِ نگيں ہيں اور وہ جو تم ميں سے ابھي بالغ نہيں ہوئے، چاہئے کہ وہ تين اوقات ميں (تمہاري خوابگاہوں ميں داخل ہونے سے پہلے ) تم سے اجازت ليا کريں ۔…

نيزفرمايا:

وَ اِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡکُمُ الۡحُلُمَ فَلۡیَسۡتَاۡذِنُوۡا کَمَا اسۡتَاۡذَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ(النور:60)

اور جب تم ميں سے بچے بلوغت کو پہنچ جائيں تو اسي طرح اجازت ليا کريں جس طرح اُن سے پہلے لوگ اجازت ليتے رہے ۔

کسي گھر ميں ٹھہر نے والے مہمانوں کے ليے بھي جائز نہيں کہ وہ ميزبان کے گھرميں بلا اجازت ايک کمرے سے دوسرے کمرے ميں گھومتے پھريں بلکہ کسي بھي بند کمرے ميں داخل ہونے سے پہلے اجازت ضرور ليني چاہيے ۔اسي طرح کسي کے کمرے ميں تانک جھانک سے پرہيز ضروري ہے ۔

نبي کريم ؐ کو گھر کي چارديواري اور لوگوں کي نجي زندگي کا بے حد خيال تھا ۔آپؐ نے دوسروں کے گھروں يا کمروں ميں بلا اجازت جھانکنے کو سخت ناپسند فرمايا ہے ۔ آپؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ

اِنَّمَا جُعِلَ الْاِذْنُ مِنْ اَجْلِ الْبَصَرِ

اجازت نظرہي کي وجہ سے تو رکھي گئي ہے۔

(صحيح مسلم کتاب الآداب بَاب تَحْرِيمِ النَّظَرِ فِي بَيْتِ غَيْرہِ)

حضرت ابوہريرہؓ سے روايت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرماياکہ اگر کوئي شخص بغير اجازت کے تجھے جھانک کر ديکھے اور تو کنکر مار کر اس کي آنکھ پھوڑ دے تو تيرے پر کوئي گناہ نہيں ہے ۔

(صحيح مسلم کتاب الاۤداب بَاب تَحْرِيمِ النَّظَرِ فِي بَيْتِ غَيْرہِ)

اسلام نے معاشرے کے ہر فرد کي نجي زندگي کا احترام سکھاتے ہوئے ديگر افراد کوکسي کے بارے ميں تجسس سے منع کيا ہے تاکہ ہر انسان امن اور سکون کي زندگي گزار سکے اور اسے يہ خوف دامن گير نہ ہو کہ اس کا پيچھا کيا جارہا ہے يا اُس کي نجي زندگي ميں مخل ہوکر اُس کي ٹوہ لگائي جارہي ہے ۔اس بارے ميں اللہ تعاليٰ نے يہ حکم ديا ہے کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا…(الحجرٰت:13)

اے لوگو جو ايمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کيا کرو۔ يقيناً بعض ظن گناہ ہوتے ہيں اور تجسّس نہ کيا کرو۔اور تم ميں سے کوئي کسي دوسرے کي غيبت نہ کرے۔…

اس آيت کريمہ ميں جہاں معاشرے ميں فساد اور بےچيني کا سبب بننے والي ديگر اخلاقي بيماريوں کا ذکر کيا گيا ہے، وہيں تجسّس کي ممانعت کرتے ہوئے ہر شخص کي ذاتي زندگي کے احترام کي طرف متوجہ فرمايا گيا ہے۔رسول کريم ؐنے بھي ديگر معاشرتي برائيوں کے ساتھ ساتھ تجسّس سے بچنے کي تلقين فرمائي ہے ۔اس ضمن ميں آنحضورؐ کا درج ذيل ارشاد بہت قابل عمل ہے ۔حضرت ابوہريرہؓ بيان کرتے ہيں کہ رسول اللہ ؐنے فرماياکہ تم ايک دوسرے سے حسد نہ کرو اور دھوکا دينے کے ليے قيمت نہ بڑھاؤ اور نہ ايک دوسرے سے بغض رکھو نہ ہي ايک دوسرے سے بے رُخي کرو اور تم ميں سے کوئي کسي کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائي بھائي بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائي ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہي اسے بے يارومددگار چھوڑتا ہے نہ ہي اس کي تحقير کرتا ہے۔ اور آپؐ نے اپنے سينے کي طرف اشارہ کرتے ہوئے تين مرتبہ فرمايا: تقويٰ يہاں ہے ۔آدمي کے ليے يہي شرّ کافي ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائي کي تحقير کرے ۔ ہر مسلمان کا خون اس کا مال، اور اس کي عزّت دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ ايک اور روايت ميںيہ اضافہ ہے کہ يقيناً اللہ تمہارے جسموں کو نہيں ديکھتا اور نہ تمہاري صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں کو ديکھتا ہے اور حضورؐ نے اپني انگليوں سے اپنے سينہ کي طرف اشارہ فرمايا۔

(صحيح مسلم کتاب البر والصلة والاۤداب بَاب تَحْرِيْمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ وَخَذْلِہِ وَاحْتِقَارِہِ …)

گھر والوں کي غير حاضري ميں اُن کے گھروں ميں بغير اجازت داخل ہونا بھي سخت ناپسنديدہ امر ہے۔جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے فرماياہے :

فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْھَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْھَا حَتّٰي يُوئْذَنَ لَکُمْ (النور:29)

اور اگر تم ان (گھروں) ميں کسي کو نہ پاؤ تو اُن ميں داخل نہ ہو يہاں تک کہ تمہيں (اس کي) اجازت دي جائے ۔

انفرادي ثمرات حاصل کرنے کا حق

قرآن کريم کے مطابق انسان کائنات کي اہم ترين کڑي ہے ۔کائنات کے تخليق کنندہ نے حضرت انسان کي تخليق ميں کرّہ ارض کے غير معمولي صفات رکھنے والے اجزاءکو شامل فرمايا ہے۔اسي ليے انسان کي تخليق نے ديگر اشياء کي تخليق کے عمل کو پيچھے چھوڑ ديا ہے ۔اللہ تعاليٰ نے اپني قدرت کاملہ سے انسان کو ايسي طاقتيں عطا کي ہيں جواُس کي تخليق کے مقصد کو پورا کرنے کے ليے ضروري تھيں۔انسان کے اسي شرف اور تکريم کو بيان کرتے ہوئے ،اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ (التين:5)

يقيناً ہم نے انسان کو بہترين ارتقائي حالت ميں پيدا کيا ۔ اللہ تعاليٰ نے انسان کو دوسري مخلوقات کي نسبت بہترين وجود بنايا ہے ، جس کے اندر بہترين ارتقائي طاقتيں وديعت کي گئي ہيں جن سے کام ليتے ہوئے وہ اعليٰ درجہ کي روحاني اور جسماني ترقي کے مدارج طے کرسکتاہے ۔يہي وجہ ہے کہ دين فطرت نے ہر انسان کو يہ حق دياہے کہ وہ خدا تعاليٰ کي طرف سے عطا کي گئي ان طاقتوں اور استعدادوں کو استعمال ميں لائے اور اُن سےفائدہ اٹھانے کي بھرپور کوشش کرے۔ کسي انسان ،ادارے يا حکومت کو يہ حق نہيں پہنچتا کہ وہ اس کي راہ ميں رکاوٹ بنے يا اسے اپني خداداد صلاحيتوں کے استعمال سے روکے ۔ پس جو انسان اپنے اندر موجود صلاحيتوں کو کام ميں لاتا ہے اور اُن سے فائدہ اٹھانے کي کوشش کرتا ہے قانون قدرت اُس کي مدد اور راہنمائي فرماتاہے اوراُسے ديني اور دنياوي لحاظ سے ترقي کے مواقع مہيا فرماتاہے۔پس جو محنت اور کوشش کرتا ہے ، کاميابي اُس کے قدم چومتي ہے۔يہي قانون فطرت ہے جسے اللہ تعاليٰ نے ان الفاظ ميں بيان فرمايا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِيْ کَبَدٍ(البلد:5)

يقيناً ہم نے انسان کو ايک مسلسل محنت ميں (رہنے کے لئے) پيدا کيا۔

چنانچہ اللہ تعاليٰ کي صفت الرحيم انسان کي اميدوں کو وسيع کرتي ہے اور اُسے سست اور نکمّا ہونے سے بچاتي ہے۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام اللہ تعاليٰ کي صفت الرحيم کے متعلق فرماتے ہيں کہ’’يہ اللہ تعاليٰ کي وہ صفت ہے جس کا تقاضا ہے کہ محنت اور کوشش کو ضائع نہيں کرتا بلکہ اُن پر ثمرات اور نتائج مترتّب کرتا ہے اگر انسان کو يہ يقين ہي نہ ہو کہ اس کي محنت اور کوشش کوئي پھل لاوے گي تو پھر وہ سست اور نکمّا ہوجاوے گا۔ يہ صفت انسان کي اميدوں کو وسيع کرتي اور نيکيوں کے کرنے کي طرف جوش سے لے جاتي ہے۔‘‘

(تفسير سورة فاتحہ از حضرت مسيح موعود ؑصفحہ 78)

نيز فرمايا:’’اَلرَّحِيْم۔انسان کي سچي محنت اور کوشش کا بدلہ ديتا ہے ايک کسان سچي محنت اور کوشش کرتا ہے۔ اس کے مقابل ميں يہ عادت اللہ ہے کہ وہ اس کي محنت اور کوشش کو ضائع نہيں کرتا اور بابرگ و بار کرتا ہے شاذو نادر حکم عدم کا رکھتا ہے۔‘‘

(الحکم جلد 12نمبر 41مورخہ 14؍جولائي 1908ء صفحہ 2بحوالہ تفسير حضرت مسيح موعود ؑجلد اوّل صفحہ80)

اسي طرح فرمايا: ’’خدا تعاليٰ کي صفت الرّحيم کا بيان ہے يعني محنتوں کوششوں اور اعمال پر ثمراتِ حسنہ مترتّب کرنے والا۔‘‘

(الحکم نمبر 1جلد 12مورخہ 2؍جنوري 1908ء صفحہ 6بحوالہ تفسير حضرت مسيح موعود ؑجلد اوّل صفحہ80)

پس ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اس بات کو ہميشہ مدّنظر رکھے کہ دنيا کی ہر چيز تمام انسانوں کے فائدہ کے ليے بنائي گئي ہے۔ اس ليے وہ محنت اور کوشش تو ضرور کرے ليکن دوسروں کي راہ ميں رکاوٹ نہ بنے اور نہ ہي اُن چيزوں پر قبضہ جمانے کي کوشش کرے جن کے ساتھ انسانوں کے اجتماعي مفادات وابستہ ہيں ۔ پس جو محنت اورلگن سے اللہ تعاليٰ کي نعمتوں کوتلاش کرنے کي کوشش کرتا ہے وہ اُسے بہترين بدلہ اور اجر عطا کرتا ہے ۔ اللہ تعاليٰ نے فرماياہے :

وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰي (النجم:40)

اور يہ کہ انسان کے لئے اُس کے سوا کچھ نہيں جو اُس نے کوشش کي ہو۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام اس آيت کے ضمن ميں فرماتے ہيں : ’’اللہ تعاليٰ نہيں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہوکر بيٹھ رہے بلکہ اُس نے صرف فرمايا

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰي

اس ليے مومن کو چاہيے کہ وہ جدوجہد سے کام کرے، ليکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے يہي کہوں گا کہ دنيا کو مقصود بالذات نہ بنالو۔ دين کو مقصود بالذات ٹھہراؤ اور دنيا اس کے ليے بطور خادم اور مرکب کے ہو۔‘‘

(تفسير حضرت مسيح موعود عليہ السلام جلد ہفتم صفحہ 309)

پس جو انسان اللہ تعاليٰ کي دي ہوئي طاقتوں کا صحيح استعمال کرتا ہے اور اُس کے دیے ہوئے قويٰ اور صلاحيتوں کو استعمال کرتے ہوئے محنت ، کوشش اور جدوجہد کرتا ہے ،اللہ تعاليٰ ضروراُسے اُس کا پھل عطا فرماتا ہے۔

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام سورت فاتحہ کي تفسير ميں فرماتے ہيں : ’’خدا نے اسي سورہ فاتحہ ميں فرمايا کہ وہ رحيم ہے ۔ يعني کوششوں پر نيک نتيجہ مرتب کرتا ہے ۔ مثلاً ايک کسان کاشتکاري کرتا ہے ،آبپاشي کرتا ہے اب عادت اللہ جاري ہے وہ کسي کي کوشش کو ضائع نہيں کرتا بلکہ ايک دانے کے عوض کئي دانے ديتا ہے۔کسي پوشيدہ حکمت يا کاشت کار کي بدعملي کي وجہ سے فصل برباد ہوجائے تو يہ عليحدہ بات ہے۔ يہ شاذو نادر کالمعدوم کا حکم رکھتي ہے۔‘‘

(بدرنمبر 25جلد 7مورخہ 25؍جون 1908ء صفحہ 3بحوالہ تفسير حضرت مسيح موعود ؑجلد اوّل صفحہ 74)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button