متفرق مضامین

دماغی اور ذہنی صحت سے متعلق آگاہی

(رفیق صالح ناصر۔ یوکے)

’’اگر آپ کی ترجیح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو آپ کی بے چینی ختم ہو جا تی ہے۔‘‘

دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 792 ملین افراد ذہنی امراض کا شکار ہیںاورہر سال تقریباً 80 لاکھ اموات ذہنی بیماری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

اس بڑھتے ہوئے مسئلے کے پیش نظر ہر سال 10؍اکتوبرکو دماغی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور ذہنی صحت کی حمایت میں کوششوں کو متحرک کرنا ہے۔ موضوع کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے مَیں نے آج کے مضمون کو منتخب کیا ہے۔

اس مضمون کا مقصد ذہنی اور دماغی صحت کے مسائل کے بارے میں قارئین کو آگاہ کرنا ہے۔ اس مختصر سےمضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ دماغی صحت کیا ہے؟ اچھی اور خراب دماغی صحت کیا ہے؟دماغی صحت کے مسائل کی علامات اور وجوہات کیا ہیں ؟ دماغی صحت کے مسائل کی مختلف اقسام کیا ہیں اور ہم دماغی صحت کے بعض مسائل سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟

دماغی صحت میں ہماری جذباتی، نفسیاتی اور سماجی بہبود شامل ہے۔ یہ ہمارے سوچنے، محسوس کرنے اور عمل کرنے کے طریقے کو متاثر کرتی ہے۔ یہ اس بات کا تعین کرنے میں بھی مدد کرتی ہے کہ ہم کس طرح تناؤ کو سنبھالتے ہیں،کس طرح دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں، اور کس طرح مختلف چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

ذہنی صحت بھی جسمانی صحت کی طرح ہی اہم ہے۔ اچھی دماغی صحت کا مطلب ہے کہ عام طور پر ان طریقوں سے سوچنے، محسوس کرنے اور ردعمل ظاہر کرنے کے قابل ہونا جن کی آپ کوزندگی گزارنے کے لیے ضرورت ہے ۔ اچھی ذہنی صحت میں آپ اپنے اردگرد کی دنیا کے ساتھ مصروفیت محسوس کرتے ہیں، روزمرہ کی زندگی کے دباؤ سے نمٹتے ہیں،بھرپور زندگی گزارتے ہیں اور نتیجہ خیز کام کرتے ہیں لیکن اگر آپ خراب ذہنی صحت کے دَور سے گزرتے ہیں تو آپ کو سوچنے، محسوس کرنے یا ردعمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ خراب دماغی صحت میں آپ اپنے آپ کو نظر انداز، ناخوش، بےکار اور اپنے اردگرد کی دنیا سے منقطع محسوس کرتے ہے۔

دماغ ایک اہم عضو ہے جوہمارے جذبات، اعمال، سوچ اور طرز عمل کو کنٹرول کرتا ہے ۔دماغ ایک ایسا عضو ہے جو اعصابی نظام کے مرکز کا کام کرتا ہے۔ اسی طرح، اگر انسان جسمانی بیماری سے ٹھیک ہو سکتا ہے تو اسی طرح دماغی بیماری سے بھی خود کی دیکھ بھال، بہتر نگہداشت، بروقت علاج اور خاندان اور دوستوں کی مدد سے صحت یاب ہو سکتا ہے۔دماغی صحت کے مسائل کسی کو بھی عمر، شخصیت یا پس منظر سے قطع نظر کسی بھی وقت متاثر کر سکتے ہیں۔یہ ہماری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں تجربات کے نتیجے میں ظاہر ہو سکتے ہیں یا وہ آسانی سے نہ نظر آنے والی علامات کے ظاہر ہو سکتے ہیں۔

خاکسار نےکئی پیاروں کو ذہنی صحت کے مسئلے سے متاثر ہوتے دیکھا ہے۔مَیں نے کئی نوجوان اور بوڑھے افراد کو اس تکلیف سے گزرتے دیکھا ہے۔ایک انجینئرنگ مینیجر کے طور پر اپنےساتھی ہم کار اور ان کے خاندانوں کو ذہنی بیماری کے نتیجے میں سماجی، جذباتی اور معاشی مشکلات سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن میں نے بہت سے لوگوں کو مناسب خود کی دیکھ بھال اور صحت مند طرز زندگی کے ذریعے صحت یاب ہوتے بھی دیکھا ہے۔

اگر بروقت مدد مل جائےتودماغی صحت کی پریشانیوں کا سامنا کرنے والے اکثر افراد ان پر قابو پاسکتے ہیں یا ان کے ساتھ رہنا سیکھ جاتے ہیں۔اس لیے اگر کوئی ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنےدماغی امراض کا ذکر اپنے عزیز و اقارب سے کرے اور ان سے مدد کی درخواست کرے۔

ان مسائل پر قابو پانے کے لیے خاندانی تعاون اور قابل اعتماددوستوں کی مدد بہت ضروری ہے۔عام طور پر لوگ دماغی صحت کے مسائل پر بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ معاشرے سے منقطع ہو جائیں گے اور لوگ انہیں پاگل کہیں گے ۔جبکہ حقیقت میں دماغی صحت کی بیماری میں مبتلا ہونا کوئی نازیبہ یا قابل شرم بات نہیں ۔ اگر کوئی جسمانی طور پر بیمار ہوسکتا ہے تو وہ ذہنی طور پر بھی بیمار ہوسکتا ہے۔ اگر ہم گردےاور دل کی بیما ریوںیاپیٹ کے انفیکشن میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو ہم دماغی بیماری کا شکار کیوں نہیں ہو سکتے؟

بدقسمتی سے، ہر کوئی ذہنی صحت کے مسائل کو نہیں سمجھتا۔ بعض لوگ اس بارے میں غلط فہمیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔بسااوقات کسی تشخیص کا درست مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔

بہتر ہے کہ انسان اپنے تجربات کے بارے میں بات کرےاور اپنے جذبات کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرے تاکہ دماغی مسائل کے بارے فہم کو بہتر بنایا جا سکےاوراس کے متعلق معلومات وسیع ہوں۔

انسان کے اندر کئی عادات ہیں جن کے پائے جانے کی وجہ سے وہ مختلف قسم کی دماغی بیماریوںکا شکار بن سکتا ہے۔ مثلاًلالچ، مایوسی، ناامیدی، منشیات اور شراب نوشی کی عادت، وقت کا درست استعمال نہ کرنا وغیرہ۔

اسی طرح بعض حالات انسان کی دماغی اور ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں،مثلاً اگر انسان کو مالی پریشانی ہو، اسے صحتمند خوراک نہ مل رہی ہو ،اسے روزگار یاعائلی مسائل ہوں،یا اس کے خاندان میںکوئی فرد بیمار ہو یا وفات پا جائے تو یہ تمام امور مجموعی طور پر انسان کی دماغی اور ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ایسی حالت میں

Depression, Anxiety, Foiba, Eating problems, Bipolar disorder, Personalit disorders

تنہائی ، مایوسی، احساسِ جرم، بے کار ہونے کا احساس، خود اعتمادی میں کمی، بےخوابی اورتھکن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان میں سے بہت سی وجوہات ہمارے اپنے اختیار میں ہیں اور ہم اپنی زندگی میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے اس میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر لالچی ہونے کے بجائے اگر ہم قرآن کریم کے حکم کے مطابق شکر گزار ہوں تو ہم خوش اور مطمئن ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَ لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ۔(ابراھیم:8)

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔

اسی طرح نا امید یا مایوس نہیں ہونا چاہیے اور تمام معاملات میں اللہ پر پورا بھروسہ رکھنا چاہیےکیونکہ مایوسی بھی ایک گناہ ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ

لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ(الزمر:54)

یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

اللہ کا ذکر ان بہترین کاموں میں سے ہے جو ایک ایساانسان کر سکتا ہے جسے ذہنی یا دماغی صحت کے مسائل درپیش ہوں۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے:

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔(الرعد:29)

سنو! اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسم میں ایک عضو ہوتا ہے جب وہ صحت مند ہوتا ہے تو سارا جسم تندرست ہوتا ہے اور جب یہ بیمار ہوتا ہے تو پورا جسم بیمار ہوجاتا ہے۔ یہ دل ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ اماء اللہ سے اپنے ایک حالیہ خطاب میں، فرمایا کہ ’’ہم مادیت پرستی سے پُردَور سے گزر رہے ہیں۔ جہاں لوگ ذہین بھی ہیں لیکن زیادہ تر لوگ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے بے بہرہ نظر آتے ہیں اور گویا ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھنے لگے ہیں۔ ان کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ ان کی سوچ کس قدر سطحی ہو چکی ہے اور مادیت پرستی کی رو میں بہنے کے کتنے برے نتائج ہو سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی مادیت کی اندھی تقلید اور دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کی دوڑ ان کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔ انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے وہ چیز جسے وہ اپنی ترقی اور فائدے کی چیز سمجھتے تھے ان کے ایسے روحانی اور اخلاقی انحطاط کا باعث بنی ہے جسے رہنی دنیا میں کبھی کسی نے تجربہ نہیں کیا۔ ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں کیونکہ لوگوں کی اکثریت بےچینی ، ڈپریشن اور دوسری ذہنی صحت کی بیماریوں میں پہلے سے بہت زیادہ مبتلا ہو رہے ہیں ۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں دنیاداری کی دوڑ نے اور دنیا کی خواہشات نے اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ وجہ کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کھو بیٹھے ہیں۔

ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں خواہ کوئی کتنا بھی امیر ہو وہ ہمیشہ زیادہ کی طلب رکھتا۔ بجائے اس کے کہ وہ اس پر خوش ہوں جو ان کے پاس موجود ہے وہ اس کو حاصل کرنے میں مصروف ہیں جو ان کے پاس نہیں ہے۔ جہاں مرد دنیاوی اموال کے حصول میں مصروف ہیں وہاں عورتیں بھی اُن سے کم نہیں۔ یہ غیرضروری خواہشات کو پورا کرنے کی تمنا انسان کو صرف بے چینی اور مایوسی میں مبتلا کرتی ہے اور روشنی کی بجائے تاریکی کی طرف دھکیلتی ہے۔‘‘

(سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ 2021ء کے اختتامی اجلاس سے حضورِ انور کا بصیرت افروز خطاب، اور مختصر رپورٹ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم اکتوبر2021ءصفحہ2)

ہم سب بعض اوقات سٹریس یا تناؤ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔یہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں بہت کچھ کرنا ہے اور ہمارے ذہنوں پر بہت زیادہ دباؤ ہے ، یا دوسرے لوگ ہم سے غیر معقول مطالبات کر رہے ہیں ، یا ہم ایسے حالات سے نمٹ رہے ہیں جن پر ہمارا اختیار نہیں ۔

’’ایک خادم نے حضور انور سے کووڈ19 کے دوران ذہنی امراض کے مسائل کے حوا لہ سے راہنمائی طلب کی کہ احمدی مسلمان نوجوان کس طرح ان ذہنی امراض کے مسائل سے بچ سکتے ہی؟

حضور انور نے فرمایا کہ عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس ذہنی دباؤ کی بنیادی وجہ طلبہ میں کووڈ ہے کیونکہ طلبہ باہر نہیں نکل رہے، انہیں اپنی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا، پڑھنے کا یا دیگر غیر نصابی سرگرمیوںمیں شامل ہونے کا موقع نہیں مل رہا جیسے کھیل وغیرہ۔ لیکن ایک احمدی مسلمان طالب علم کے لیے، آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ

’اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘

یعنی اللہ کے ذکر سے دل اطمینان حاصل کرتے ہیں (13:29)۔ اس لیے ایک احمدی مسلمان طالب علم کو ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا چاہیے۔ اسے پنجوقتہ نماز یں پہلے سے بہتر طور پر ادا کرنی چاہئیں۔ اسے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اللہ سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ بہترین طریق اللہ کو یاد کرنا ہے۔

نیز فرمایا کہ اس لیے جو دنیاوی چیزوں میں پڑے ہوئے ہیں، قدرتی طور پر اور یقیناً وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے کیونکہ انہیں بے چینی ہے۔ ان کی ترجیحات مختلف ہیں، اور اسی لیے وہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ اگر آپ کی ترجیح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو آپ کی بے چینی ختم ہو جا تی ہے۔‘‘

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلبہ مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا کی (آن لائن) ملاقات۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍تا21؍اکتوبر2021ءصفحہ30)

اگر کسی کو لگے کہ اس کا کوئی عزیز کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے یا اس کی بیماری کا مؤثر علاج نہیں کیا جارہا تو ضروری ہے کہ ایسے شخص کی درست راہ نمائی کی جائے۔

آج کےدَور میں ذہنی بیماری پہلے سے کہیں زیادہ قابل علاج ہے۔بروقت علاج،مناسب دیکھ بھال،گھر کے افراد کی مدد اوردعاؤں کے ذریعے دماغی صحت کے مسائل سے نجات ممکن ہے۔دماغی صحت کے مسئلے سے صحت یاب ہونے میں وقت، توانائی اور محنت درکار ہے۔آپ اپنے پیاروں کو احساس دلائیں کے وہ ان بیماریوں پر قابو پا کر اپنے آپ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اپنے پیاروں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ مناسب علاج کے لیے ماہر نفسیات سے مشورہ کریں اور اس معاملے میں کوتاہی نہ کریں۔

طبی علاج کے علاوہ ایک روحانی نقطہ نظر بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ روحانی صحت جسمانی اور ذہنی صحت دونوں پر محیط ہے۔ مشکل اوقات میں ، کسی بھی شخص کوذہنی سکون پہنچانے کے لیے دعا بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایک کو اپنی زندگی میں مشکلات اور غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مثال کے طور پر نبی اکرمﷺکو تیرہ سال تک ستایا گیا۔ آپ کےبہت سے قریبی اور پیارےآپ سے جدا ہوئےلیکن آپؐ ثابت قدم رہے اور حوصلہ نہیںہارا۔آپؐ کی زندگی کا مطالعہ ہمیں بہت سارے اسباق کے علاوہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ دعا اور صبر کے ذریعہ ذہنی سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس زمانے میں قائم کردہ نظام خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وقت پر نماز ادا کرنے، تہجد میں باقاعدگی، صدقہ وخیرات، درود شریف، آیت الکرسی ،چاروں قل اورباقاعدگی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود ؑکی دعاؤں کا ورد کرنےکی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔دعائیں ہمیشہ برائیوں سے بچانے اور ہر طرح کی پریشانیوں کو دور کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ دعا کے بارے میں اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہےکہ جب میرے بندے مجھ سے دعا کرتے ہیں تو میں ان کی دعاؤں کا جواب دیتا ہوں۔

دماغی صحت کی بیماری پر قابو پانے کے لیے قرآن پاک کی تلاوت ایک قیمتی ذریعہ ہے۔ بخاری میں ایک حدیث ملتی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہد ہر بیماری کا علاج ہے اور قرآن دماغ کی تمام بیماریوں کا علاج ہے۔

اللہ کی ایک صفت الشافی ہے اور قرآن پاک میں بھی اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ …۔(بنی اسرائیل:83)

اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفاءہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے

خاکسار اپنے مضمون کوحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک حوبصورت نصیحت پر ختم کرتا ہے۔ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ سے ناصرت الاحمدیہ کے ساتھ ایک آن لائن ملاقات کے دوران ایک لڑکی نے پوچھا کہ ’’دماغی صحت کے لیے کون سی دعائیں فائدہ مند ہیں خاص کر جب آپ کو معاشرے کی طرف سے دباؤ اور امیدوں کا سامنا ہو۔

حضور انور نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے ذہن سے اپنے مذہب، اپنے عقائد، اپنی شخصیت اور اپنے خاندانی پس منظر کے حوالہ سے ہر طرح کا احساس کمتری مٹا دیں۔ اپنی ذات میں خود اعتمادی پیدا کریں۔ پھر اپنی پنجوقتہ نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا بھی کریں۔ ایک سجدہ اس مقصد کے لیے مختص کردیںکہ اللہ تعالیٰ آپ کو عصر حاضر کے معاشرے کی برائیوں سے بچنے کی طاقت عطا کرے۔ تو بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ اپنی پنجوقتہ نمازوں میں دعا کریں۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ اپنی صحتیابی کے لیے دعا، ایک سجدہ یا ایک یا دو رکعتیں مختص کریں۔ پھر اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی فرمائے گا پھر اس کےعلاوہ درود شریف پڑھیں اور یہ دعا

لَا حَوْلَ وَلَا قُوّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ

بھی جس قدر ہو سکے ضرور پڑھیں۔ اس دعا کا ترجمہ یاد کریں اور پھر پڑھیں۔ پھر استغفار بھی کثرت سے کریں۔ اس کے گہرے معانی سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ آپ کو بری چیزوں سے بھی بچائے گی اور آپ میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوگی۔‘‘

(امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ یوکے ساؤتھ کی (آن لائن) ملاقات۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍اگست2021ءصفحہ3)

اللہ تعالیٰ ہم سب کوہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کی تمام نصائح پر عمل کرنے کی تو فیق دے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button