متفرق مضامین

خوف کے بعد امن کے نظارے (قسط چہارم۔آخری)

(مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج مرکزی پریس اینڈ میڈیا آفس کی ڈائری کا اردو ترجمہ)

حقیقت یہ ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ حضور نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے اپنے پیار اور شفقت سےسہار ادیا اور مجھے پہلے سے زیادہ اپنے وقت سے نوازا۔ یقیناً خلافت کی برکات سے میں نے اپنے دل میں امن وسکون محسوس کیا اور جس بے چینی اور اضطراب کا مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے کھا جائے گی وہ دور ہو گئی

قصہ دو نظموں کا

مورخہ6؍ستمبر بروز پیر خاکسار کوحضور کی طرف سے 2نظمیں پی ڈی ایف کی صورت میں موصول ہوئیں۔

پہلی نظم مجھے دوپہر کے وقت ملی جس کا عنوان تھا:

’’طالع شہید اپنے محبوب آقا سے مخاطب‘‘

جبکہ دوسری نظم رات کے وقت پہنچی جس کا عنوان تھا:

’’محبوب آقا اپنے پیارے طالع سے‘‘

میرا شاعری سے واسطہ کم کم ہی ہے اورخصوصاً اردو شاعری سے ، لیکن جب میں نے دونوں نظمیں پڑھیں تو جذبات کاسیلاب امڈ آیا۔

طالع کی طرف سے لکھی گئی نظم میں اس کی زندگی کےسفر،اس کی خدمات اور مقصد حیات کاتذکرہ تھا۔یہ نظم خوب کھول کر اس بات پر روشنی ڈال رہی تھی کہ طالع کیسا عظیم وجود تھا اور اس کا بھی واضح اظہار تھا کہ اس کے دل میں کیاکیاامنگیں تھیں۔

دوسری نظم جو حضور کی طرف سے لکھی گئی تھی وہ اس سے بھی زیادہ جذباتی کردینے والی تھی۔اگرچہ یہ نظم کسی اور نے لکھی تھی پھر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ نظم حضور کے ذاتی جذبات اور زندگی کے تجربات کی بہترین عکاس ہے۔

میں نے یہ نظمیں طالع کی قریبی رشتہ داروں کو بھیجیں تو وہ سب اس بات کے جاننے کے لیے متجسس تھے کہ یہ کس کا کلام ہے۔چونکہ حضورنے مجھے شاعر کانام نہیں بتایا تھا ۔اس لیے میں نے بھی پو چھنا مناسب نہ سمجھا ۔اگرچہ مجھے ایک صاحب کے بارے میں غالب گمان تھا کہ یہ انہی کا کلام ہوگا۔اگلے دن میں ملاقات کے لیے حاضر ہوااور اپنی روزانہ کی رپورٹ پیش کی تو حضور نے ان دونوں نظموں کا ذکر کیا۔

اور فرمایا: ’’میری طرف سے جو نظم لکھی گئی ہے وہ بعد میں لکھی گئی ہے لیکن اگر اسےپہلے پڑھو اور بعد میں طالع کی طرف سے لکھی جانے والی نظم پڑھو تو اس کا زیادہ اثر ہوگا۔‘‘

اس کے بعد حضور نے مجھے فون پر نظم کھولنے کا ارشاد فرمایا ،میں نے تعمیل کی تو حضور نے مجھ سے فون لیااوروہ نظم پڑھنے لگے جو آپ کی طرف سے لکھی گئی تھی۔

ہر مصرعے اور شعر کے بعد حضورتسلی فرماتے کہ مجھے سمجھ آگئی ہے کہ نہیں اور جہاں مجھے سمجھ نہ آتی تو حضور اس کا مفہوم سمجھاتے۔

یوں اگلے دس منٹ تک حضور نے دونوں نظموں کے ہر ایک شعر کو باآواز بلند پڑھااور جہاں کہیں میں نے خود کو جذباتی ہوتا محسو س کیا وہا ں میں نے یہ بھی محسوس کیا اور دیکھا کہ اس کلام کے الفاظ حضور پر بھی ایک خاص اور گہرا اثر ڈالنے والے ہیں۔

نظموں کے پڑھنے کے بعد حضور انور نے فرمایا: ’’یہ نظمیں دونوں طرف کے احساسات اور جذبات لیے ہوئے ہیں۔ دونوں نظموں میں ذرہ بھر بھی مبالغہ نہیں ہے۔ مثلاً لکھا ہے کہ غانا میں قیام کے دوران کئی دفعہ کھانے کی شدیدقلت کے مواقع آئے تو ہم نے تب خدا کے فضل سے گزارا کیاتویہ سچ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان مشکل وقتوں میں ہمیشہ ہماری ضروریات کو پورا فرمایا اور اپنی جناب سے عطا فرمایا۔‘‘

حضور نے مزید فرمایا: ’’جب بھی ہمارے ہاں مہمان یا دوسرے لوگ آتے تو ہم ان کا بہت اچھے طریقے سے خیال رکھتے اور انہیں اچھا کھانا کھلاتے۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہمیں اچانک معلوم ہوا کہ کچھ عزیز رشتہ دار آرہے ہیں اور گھر میں صرف تھوڑا سا آلوکا سالن تھا جو مہمانوں کے لیے ناکافی تھا۔اس کے علاوہ گھر میں کچھ اور تھا بھی نہیں اور نہ ہی میرے پاس اتنے پیسے تھےکہ کچھ خرید کر لا سکتا ۔لیکن پھر اچانک اور غیر متوقع طور پر اللہ تعالیٰ نے ہماری ضرورت کو پورا فرمایا ۔وہ مہمان خود مجھے کچھ مقامی کرنسی دینا چاہتاتھا کیونکہ وہ بعد میں اس کے بدلے میں ڈالرز لینے کا خواہشمند تھا۔ بہرحال انہوں نے مجھے مقامی کرنسی نقد دی اور میں نے ان کو بعد کی تاریخ کا چیک لکھ دیا ۔یوں میں وہ رقم لےکر گیا اورمہمانوں کے کھانے کے لیے کچھ خریداری کر لایا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں عطا فرماتا آیا ہے۔‘‘

جیسے ہی میں حضور کے دفتر سے جانے کے لیے کھڑا ہوا آپ مسکرائے اور فرمایا: ’’پھر پتہ لگا کس نے یہ دونوں نظمیں لکھیں؟‘‘

میں نے عرض کیا حضور مجھے معلوم تونہیں لیکن اندازہ ہے ۔

حضور انور نے فرمایا:’’کون؟‘‘

میں نے عرض کیا کہ میرا خیال ہے یہ آصف باسط صاحب نے لکھی ہیں۔

حضور انور مسکرائے اور فرمایا: ’’ہاں۔ صحیح پہچانا۔ یہ اس نے ہی لکھی ہے۔‘‘

اس کے بعد حضور نے فرمایا: ’’کل آصف صاحب نے طالع کی طرف سے لکھی گئی نظم بھجوائی تو میں نے ان سے کہا یہ بہت اچھی ہے لیکن ایک نظم میری طرف سے بھی ہونی چاہیے۔آصف صاحب کچھ پریشان تھے کہ شاعری کرنے کے لیے ایک خاص ماحول اور جذباتی کیفیت درکار ہوتی ہے اس کےلیے انہوں نے مجھ سے دعا کی درخواست کی کہ دوبارہ وہ کیفیت نصیب ہو ۔پھر میں نے دعا کی تو کچھ ہی وقت کے بعد کل رات انہوں نے مجھے دوسری نظم بھیجی اور ماشاء اللہ یہ پہلی نظم سے بھی زیادہ اچھی تھی۔‘‘

جیسے ہی ملاقات ختم ہوئی حضور نے مجھے فرمایا کہ میں کل ملاقات کے لیے اسلام آباد نہ آوں کیونکہ حضور کا طالع کی فیملی سے ملاقات کا ارادہ تھا ۔اور مجھے بھی اپنی فیملی کے ہمراہ وہاں آنے کا فرمایا۔

اس کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا کہ حضور دوبارہ طالع کی فیملی سے ملاقات کےلیے تشریف لا رہے ہیں اور خوش قسمت محسوس کر رہا تھا کہ حضور انور نے مجھے بھی اپنی فیملی کے ہمراہ آنے کا ارشاد فرمایاہے۔یوں میں بڑی بے چینی سے اس مبارک اور خوش کن دن کا انتظار کرنے لگا۔

حضور انور سے ملاقات کی تیاری

اگلی صبح اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے بعد میں اور میری اہلیہ مالا مسجد فضل گئے۔اگرچہ میرا خیال تھا کہ حضور سہ پہر یا شام کے وقت تشریف لائیں گے ۔حضور نے کوئی وقت تو متعین نہیں فرمایا تھا اس لیے ہم صبح ہی چلے آئے کہ اگر حضور کا ارادہ پہلے آنے کا ہو تو سب انتظام بروقت ہو جائے۔

اگلے چند گھنٹے حضور کی تشریف آوری کی تیاری میں گزرے ۔

میری اہلیہ مالا اور حضور کی بھتیجی نقاشہ احمد نے، جو جنازہ میں شرکت کے لیے امریکہ سے آئی ہوئی تھیں ، مسجد فضل کے بالمقابل واقع گیسٹ ہاوس معروف بہ41میں انتظامات کیے ۔

میں نے حضور کے سامنے پیش کرنے کے لیے کھانے پینے کا سامان لانے کی ذمہ داری لی اورپٹنی ہائی سٹریٹ گیا اور وہ چیزیں لایا جو میرا خیال تھا کہ حضور پسند فرمائیں گے۔اور اس خریداری کے دوران میں نے اپنے اس مشاہدہ کو بنیاد بنایا جوگذشتہ چند برسوں میں حضور کے ساتھ دورہ جات میں کیا تھا ۔

اگلے ایک یا دو گھنٹے میں، میں سوشی ، فرنچ میکرون ،چیز کیک اور چند دیگر اشیا ء کے ساتھ واپس مسجد فضل پہنچا ۔

دوپہر کو میں نے ماہد اور مشاہد کو اسکول سے لیا۔اس دوران طالع کے والدین اور بہن بھائی بھی آگئے تھے اور ہم سب بڑی بے چینی سے حضور کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔

ایک مبارک ملاقات

الحمد للہ کہ شام کو ساڑھے چھ کے کچھ بعد حضور اور خالہ صبوحی ( حضور انور کی اہلیہ محترمہ) تشریف لائےاور گیسٹ ہاؤس 41 میں داخل ہوئے۔

حضور کے ساتھ یہ ملاقات اس پہلی ملاقات سے بہت مختلف تھی جو طالع کی شہادت کے دن ہوئی تھی۔وہ ملاقات مکمل طور پر افسردہ ماحول میں تھی جبکہ آج چند دن گزر چکے تھے اس لیے ماحول کچھ مختلف تھا ۔ ہم سب ہی حضور کی موجودگی کو اپنے لیے باعث برکت سمجھ رہے تھے۔

دوران ملاقات حضور نے طالع کی پوری فیملی اور خاص طور پر طالع کے بچوں طلال اور زینب سے کمال شفقت اور محبت کا اظہار فرمایا۔الحمدللہ جس طرح حضور انور نے ان معصوم بچوں کو اپنی محبت اور دعاؤں سے نوازا، وہ نظارا انتہائی حیرت انگیز اور متاثر کن تھا۔

حضور نے اپنی آمد کے کچھ دیر بعد مجھے گاڑی سے ایک بیگ لانے کا فرمایا۔یہ بیگ چاکلیٹ کے ڈبوں سے بھرا ہوا تھا ۔

سب سے پہلے حضور نے طالع کے بچوں اور طالع کے چھوٹے بھائی حمید کو چاکلیٹس دیں ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورنے غانا میں بنی چاکلیٹس کا ایک ڈبہ ماہد اور مشاہد کے لیے بھی دیا۔

دوران ملاقات حضور انور نے طالع کی فیملی کے ساتھ کمال شفقت اور مہربانی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔حضورنے آصف باسط صاحب کی نظم کے بارے میں ذکر فرمایا اور بتایا کہ کس طرح حضور نے آصف باسط صاحب کو اپنی طرف سے نظم لکھنے کی ہدایت فرمائی۔

حضور انور نے جس کمال اپنائیت اور محبت سے طالع کا ذکر کیا وہ اس کی پوری فیملی کے لیے باعث تسکین تھا۔

حضور کی آمد سے قبل نقاشہ باجی اور میں نے آپس میں یہ طے کیا تھاکہ ہم اس اس طرح چیزیں پیش کریں گے۔سو اولاً ہم پانی لے کر آئے تو حضور نے فرمایا کہ کچھ بھی لانے کی ضرورت نہیں تھی۔تب ہم نے پوچھا چائے لے آئیں ؟لیکن حضور نے اس سے بھی منع فرما دیا ۔

تھوڑی دیر کے بعد ہم نے دوبارہ کوشش کی اور حضور کے سامنے میکرون پیش کیے۔ لیکن حضور نے فرمایا کہ انہیں واپس ڈائننگ ٹیبل پر ہی رکھ دیں اور بچوں کو کھانے دیں ۔

اس دوران میں سوشی تلاش کر رہا تھا تاحضور کو کچھ پیش کرنے کی ایک آخری کوشش کرسکوں لیکن وہ مجھے کہیں نہیں ملی۔بعد میں مالا اور نقاشہ باجی نے بتایا کہ وہ تو اسے فریج سے نکالناہی بھول گئی تھیں ۔

تھوڑی دیر کے بعد، واپسی سے قبل حضور ڈائننگ ٹیبل کے پاس سے گزرے جہاں کھانا رکھا گیا تھا اور میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب حضور نے بغیر کسی تکلف کے ایک سٹرابری میکرون اٹھایااور وہیں تناول فرمایا۔

اسےکھانے کے بعد حضور نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’میرا کچھ بھی کھانے کا ارادہ تونہیں تھا لیکن جب میز پر میکرون دیکھے تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔‘‘

مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ حضور نے اس کو پسند کیا اور اس سے لطف اندوز ہوئے۔الحمد للہ

میری اپنی فیملی کے حوالے سے یہ بہت خوشی کا موقع تھا کہ مالا اور ہمارے تینوں بچوں کواس عالمی وبا کے دوران پہلی مرتبہ حضور سے ملاقات کاموقع نصیب ہوا۔ہماری بیٹی جویریہ تو وبا کے ابتدائی دنوں میں پیدا ہوئی تھی۔ہمارے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ حضور سے اس کا تعارف کرواسکیں اور وہ بھی خلافت کی برکات سے حصہ لے سکے۔اس کے بعد حضور نے مالا کو فرمایا کہ وہ مجھے فیملی ملاقات کے لیے درخواست کرنے کا کہے۔

حضور نے واپس روانگی سے قبل طالع کی فیملی کو اپنے ساتھ تصاویر بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور چند دن کے بعد حضور نے ان پرنٹ شدہ تصاویر پر اپنے دستخط فرمائے اور انہیں تحفة بھجوادیں۔

الحمد للہ جس طرح حضورنے پیار اور شفقت کا اظہار فرمایا وہ ایک بار پھر باعث تسکین اور فرحت تھا۔حضورکے پیار،مہربانی اور شفقت کا حقیقتاً کوئی ثانی نہیں ہے۔

میں نے طالع کے بارے میں سوچا کہ اگر اسے معلوم ہوتا کہ کس طرح حضور نے اس کی بیوی ،بچوں اور فیملی کے افراد کے ساتھ پیار کا اظہار کیا ہے تو وہ یقیناً بہت خوش ہوتا۔

اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور اس کی بیوی اور والدین کو صبر عطافرمائے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ طالع کے چھوٹے بچوں طلال اور زینب کی حفاظت فرمائے۔آمین

مصروفیات کی انتہا

اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلیفہ وقت کا کام ہمیشہ جاری رہتا ہے اور حضور نے کبھی ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیا ۔

طالع کی فیملی سے ملاقات کے اگلے دن دوران دفتری ملاقات میں نے حضور سے عرض کیا مسجد فضل تک حضور کا سفر معمول سے زیادہ لمبا ہوگیا تھا اور عرض کیا کہ کیا ٹریفک زیادہ تھی؟

جواباً حضور نے فرمایا: ’’ہاں ٹریفک بہت زیادہ تھی لیکن میرے پاس ڈاک کی فائل گاڑی میںتھی دوران سفر میں نے وہ چیک کرلی۔ وقت ضائع نہیں ہوا۔‘‘

حضور کی مصروفیات کا سلسلہ تو نہ ختم ہونے والا ہے۔حضور کی ہفتہ وارآن لائن ملاقاتوں کے علاوہ ستمبر کے مہینے میں حضور نے برطانیہ کی تینوں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات سے بھی خطاب فرمائے ۔

اور یہ دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کے لیےخوشی کی خبر ہوگی کہ قریبا 18ماہ کے بعد فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی اب حالیہ چند ہفتوں سے دوبارہ شروع ہو گیا۔

’’مجھے توکوئی جانتابھی نہیں تھا‘‘

اس تمام عرصے کے دوران میں مختلف میڈیا کی رپورٹس حضور کے سامنے پیش کرتا رہا تاکہ آپ سے مختلف مسائل پر راہ نمائی لے سکوں۔

یہ بھی میرے فرائض میں شامل ہے کہ میں بعض ناخوشگوار اور تکلیف دہ واقعات بھی گاہے بگاہے حضور کے علم میں لاتا رہوں ۔

مثال کے طور پر آج کل میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ لوگ انٹرنیٹ پر بیٹھے خلافت کے بارے میں اندازے لگا رہے ہیں کہ اگلا خلیفہ کون ہوگا ۔

ان میں سے اکثر غیر احمدی تھے لیکن یہ بھی لگ رہا تھا کہ کچھ احمدی بھی اس بحث میں شامل تھے۔

مجھے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ اس قسم کی باتیں بعض اوقات احمدی گھرانوں میں بھی ہوتی ہے۔

ایک دوپہر میں نے اس کا حضور کے سامنے ذکرکیا ۔

اس کے جواب میں حضور نے فرمایا: ’’جو لوگ آئندہ بننے والے خلفاء کے بارے میں باتیں کرتے ہیں یا اس بارے میں قیاس آرائیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو دنیاوی سوچ رکھتے ہیں اور درحقیقت یہ لوگ یہ قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ موجودہ خلیفہ کب تک زندہ رہے گاجبکہ ایک احمدی جو خلافت اور جماعت سے اخلاص کا تعلق رکھتا ہے وہ تو کبھی ایسی باتوں کے بارے میں سوچنا بھی پسند نہیں کرتا۔‘‘

اس کے بعدحضور نے ایسی فضول بحثوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اور جسے چاہتا ہے خلیفہ چن لیتا ہے۔وہ ایک گمنام آدمی کو دنیا کی ایک معروف شخصیت بنا دیتا ہے۔کون ہے جو مجھے میری خلافت سے قبل جانتا تھا؟کوئی بھی نہیں۔لیکن کسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ وہ یہ ذمہ داری مجھ پر ڈالے سو اس نے جماعت کے لوگوں کی اس طرف راہ نمائی کی۔شریف عودہ صاحب کو ہی دیکھ لیں وہ کہتے ہیں کہ میں آپ کو نہیں جانتا تھااور نہ پہلے آپ کا چہرہ دیکھا تھا۔ لیکن پھر بھی جب خلافت خامسہ کا انتخاب ہوا تو ان کو اندر سے کسی چیز نے مجبور کیا کہ ووٹ دوں(حضور انور کے حق میں) دوسرے کئی لوگوں نے خواب دیکھے کہ میں خلیفہ بنوں گا۔‘‘

مزید براں حضور نے فرمایا: ’’کچھ لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ خلافت کا وعدہ صرف خاندان مسیح موعودؑ سے ہی ہے اور خلیفہ انہی میں سے ہوگا۔حالانکہ اس کی کوئی ضمانت نہیں۔مستقبل میں خلیفہ افریقن ،یورپین یا کسی اور قوم سے بھی ہوسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو کسی ایک خاندان کے ساتھ پابند نہیں کیا۔بلکہ وہ اپنا خلیفہ تقویٰ کے معیار کے مطابق چنے گا۔پس آئندہ خلفاء کے بارے میں اس قسم کی بحثیں مکمل طور پر غلط اور فضول ہیں اور یہ ان کی دنیاوی سوچ کو عیاں کررہی ہیں۔‘‘

ٹوئیٹر سپیس

ایک دفتری ملاقات کے دوران میں نے ٹوئیٹر کی طرف سے متعارف کروائی جانے والی ایک نئی سہولت spacesکا ذکرکیا۔کیونکہ بہت سے ملکوں کی جماعتوں اور انفرادی طورپربھی احمدیوں نے اس بارے میں مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ٹوئیٹر پر بحثیں ہو رہی ہیں جن میں اکثر احمدی مرد اور خواتین مختلف مسائل پر بات کرتے ہیں۔

بعض نے اس خدشہ کا اظہار کیاکہ اس طرح کئی احمدی مرد اور خواتین آپس میں غیر ضروری رابطہ بڑھا رہے ہیں جبکہ جو اس کے حق میں ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ تو محض علم اورمعلومات کو پھیلانے کا ایک ذریعہ ہے۔

مختلف لوگ اس بارے میں پوچھنا چاہ رہے تھے تو میں نے دوران ملاقات یہ مسئلہ حضور کے سامنے پیش کیا۔

جواباً حضور نے فرمایا: ’’عین ممکن ہے کہ بعض لوگ اچھی نیت کے ساتھ اس فورم میں شامل ہورہے ہوں کہ ایک دوسرے کو تعلیم دے سکیں اور مثبت باتیں ایک دوسرے کو بتا سکیں لیکن ان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان نے حضرت آدم ؑ کو راستبازی اورتقویٰ کے نام پر ہی ورغلایا تھا۔لہٰذا جو لوگ ان مخلوط مباحثوں میں یا اس قسم کی دیگر مجلسوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کو دیانتداری کے ساتھ یہ جائزہ لینا ہوگاکہ کیا یہ واقعی بہت ضروری ہے؟اگر ایسا ہے تو ان کو اپنی تصاویر ظاہر نہیں کرنی چاہیں۔‘‘

حضور نے مزید فرمایا: ’’اسلام نے مردوں اور عورتوں کو اپنی نظریں نیچی رکھنے کی تعلیم دی ہے تا کہ وہ ان کو خطرناک حالات اور بداخلاقی سے بچائے ۔بعض اوقات چھوٹی یا معمولی لاپرواہی اور برائی بڑے مسائل اور برائیوں کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ تاہم بعض مخصوص حالات میں ایک عمل مناسب ہوتا ہےجبکہ وہی عمل بعض اور حالات میں غلط اور گناہ کا موجب بنتا ہے۔لہٰذا سیا ق و سباق اورحالات کو مدنظر رکھنا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ جماعت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ہمیشہ کوئی فتویٰ دے یا خلیفة المسیح اس معاملے کے حق میں یاخلاف کوئی حتمی رائے دیں ۔ ایسے حالات میں احمدیوں کو اپنے ضمیر کو دیکھنا چاہیے اور عقل و فہم سے کام لینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اسلام کی مقرر کردہ حدود میں رہیں۔‘‘

حضور کی عطاکردہ راہ نمائی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق جہاں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو واضح طور پر جائز یا ناجائز ہیں وہاں کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو واضح طور پر جائز یا ناجائز نہیں ہوتےاوران کے لیے حالات پر غور کرنا پڑتا ہے اور ان کے ممکنہ نقصانات اور فوائد کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔

میں نے حضور کے سامنے عرض کیا کہ بعض لوگ حضرت عائشہ ؓکی مثال پیش کرتے ہیں کہ وہ مسلمان مردوں کو تعلیم دیا کرتی تھیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن بحثوں میں بھی احمدی خواتین کے لیے ایک راہ ہے کہ وہ دوسروں کو تعلیم دے سکیں۔

اس بابت حضور نے فرمایا: ’’حضرت عائشہ ؓتو ام المومنین تھیں۔تمام مومنوں کی ماں۔اور قرآن کریم نے ان کو ایک خاص مقام عطا فرمایا ہےاور ان کے تقویٰ کی شہادت دی ہے۔مزیدیہ کہ حضرت عائشہ ؓمسلمان مردوں کو پردے کے پیچھے سے تعلیم دیا کرتی تھیں اور قرآن کریم نے بھی ازواج النبیﷺ کو ہدایت فرمائی ہے کہ مردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے لجا کر گفتگو نہ کیا کریں۔‘‘

مزید فرمایا: ’’حضرت عائشہ ؓ کی نیکی اور تقویٰ کا معیار بہت بلند اور تمام مومنوں کے لیے ایک اعلیٰ مثال تھا۔ایک دفعہ جب آپؓ کی ذات پر الزام لگایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود آپ کی بریت نازل فرمائی اور آپ کی سچائی اور شرافت کی گواہی دی۔اگر احمدی خواتین کے روحانیت اور تقویٰ کے معیار اس حدتک پہنچ گئے ہیں تو وہ حضرت عائشہؓ کی طرح مَردوں کو سکھا سکتی ہیں۔لہٰذا ہمارے تمام اعمال حکمت پر مبنی ہونے چاہیے اور ان حالات کے نتائج پر بھی نظر رکھنی چاہیے، نہ یہ کہ فوراً نئے دنیاوی رجحانات کو اپنا لیا جائے۔‘‘

اسلام آباد میں نیا سٹوڈیو

مورخہ 18؍ستمبر بروز ہفتہ میں صبح اسلام آباد پہنچا کیونکہ حضور کی فن لینڈ کی لجنہ اماء اللہ کے ساتھ آن لائن ملاقات تھی۔

مجھے وہاں پہنچنے پر اطلاع ملی کہ آج کی ملاقات حضور کے دفتر میں نہیں ہوگی جیسا کہ پہلےمعمول تھا بلکہ ایم ٹی اے کے نئے اسلام آبادسٹوڈیوز میں ملاقات کا انتظام کیا گیا ہے۔

آن لائن ملاقاتوں کے لیے تیار کیے گئے اس سٹوڈیو کا نقشہ اور حالت بہت سادہ تھی تو ملاقات کے بعد حضور نے منیر عودہ صاحب (ڈائریکٹر پروڈکشن ایم ٹی اے انٹرنیشنل) کو ہدایت فرمائی کہ گملوں اور دوسری آرائشی اشیاء سے سٹوڈیو کو سجائیں تا یہ ناظرین کے لیے زیادہ دلکش ہو۔

حضور نے سٹوڈیوکے پس منظرکے بارے میں ہدایت فرمائی جو کہ مسجد مبارک سے مشابہت رکھتا ہے کہ کس طرح اس کو کچھ بڑھا کر مزید بہترکیا جائے۔

سائے میں تیرے دھوپ، نہائے بصد نیاز

جب یہ آن لائن ملاقات ختم ہوئی تو حضور نے مجھے اپنے دفتر آنے کی ہدایت فرمائی تو مجھے کچھ حیرانی ہوئی کیونکہ میں توآج صبح ایک دفتری ملاقات بھی کرچکا تھا اور میرے پاس کوئی ایسامعاملہ بھی نہیں تھا جو اس دن حضور کو پیش کرنےوالا ہو۔

میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ حضور نے خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے اپنے خطاب کے ہفتہ قبل تیارشدہ متن میں کچھ تبدیلی کرنی ہوکیونکہ اجتماع سے یہ خطاب اگلے دن ہوناتھا۔

لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوامجھے اس کی بالکل بھی توقع نہ تھی۔

جب میں حضور کے کمرے میں داخل ہوا تو حضور نے ایک الماری میں رکھے ہوئےتین آلو بخاروں کی طرف اشارہ کیا۔ اور فرمایا: ’’میں نے یہ صبح تمہیں دینے کے لیے یہاں رکھے تھے لیکن میں بھول گیا۔یہ میرےباغ میں لگے پھل دار درخت کے تازہ آلو بخارے ہیں۔‘‘

پھر حضور نے ایک بیگ لیا اور اس میں تینوں آلو بخارے رکھ دیے۔اس کے بعد آپ نے اپنے دفترکے دائیں جانب واقع چھوٹے باغیچہ میں کھلنے والادروازہ کھولا جو وکالت مال اور وکالت تعمیل و تنفیذ کے دفاترکی عمارت کے صحن سے منسلک ہے۔

حضور نے مجھے آلو بخارے کا درخت دکھایا جس کی شاخوں پر ایک درجن سے زائد آلو بخارے لگے ہوئے تھے۔

حضور نے ایک ایک کرکے آلو بخارے اتارے اور ان کو بیگ میں رکھا۔کچھ آلو بخارے جو شاخوں پر کافی اونچے تھے ان کی شاخوں کو حضور نے نیچے کھینچ کر ان سے آلو بخارے اتارے۔آخر پر جب پورا شاپنگ بیگ آلو بخاروں سے بھر گیا تھا تو حضور نے مجھے تحفةً عطا فرمادیا۔

یہ پھلوں کاتحفہ تو ایک بہت بڑی خوش قسمتی اور ایک بیش قیمت خزانہ تھا جو حضور نے خود اگائے اور اپنے ہاتھ سے اتارے تھے۔

اس کے بعد حضور نے مجھے اپنا باقی باغ دکھایا وہاں مختلف خوشنما رنگوں کے بہت سے پھول تھے۔حضور نے مجھے پانی کاایک چھوٹا فوارہ بھی دکھایا۔

اور فرمایا: ’’یہ چھوٹا سا فوارہ پرندوں کےلیے ہے تاکہ وہ آکر اس میں سے پانی پی سکیں۔‘‘

جب میں حضور کے پیچھے چل رہا تھا تو سورج خوب چمک رہا تھا ۔پھولوں اور پھلوں کے درمیان وہ پس منظر تصویر کشی کے لیے بہترین تھا۔میں نے حضور سے پوچھنا چاہا کہ اگر میں ان کی تصویر شاندار پھلوں اور پھولوں کے ساتھ لے سکتا ہوں تاہم میں نے سوچا کہ اس وقت حضور کی مبارک صحبت میں ان انمول ذاتی اور غیر رسمی لمحات سے لطف اندوز ہونا زیادہ بہتر ہے۔

کچھ وقت کے بعد حضور واپس اپنے دفتر میں آگئے اور دریافت فرمایا کہ کیا میں نے کبھی تمہیں دفتر کی دوسری طرف والا باغ بھی دکھایا ہے یا نہیں۔میں نے عرض کیا میں نے وہ ابھی تک نہیں دیکھا۔ تو حضور مجھے اپنے دفتر سے ملحقہ کمرے کے دروازہ سے دوسری طرف واقع باغ میں لے گئے۔

یہاں بھی گلاب اور دیگرخوشنما پھولوں کا ایک باقاعدہ منظر تھا۔حضوربڑی خوشی کے ساتھ ان کے رنگوں کا ذکر کررہے تھے اور یہ بھی خوب واضح تھا کہ کس طرح حضور فطرت اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے، وہاں زیتون کا ایک درخت بھی تھاجو میرے لیے حیران کن تھا۔

ایک طرف دو لکڑی کی کرسیاں تھیں جن کودیکھ کر میں نے عرض کی: ’’حضور جب سورج نکلا ہوا ہو تو آپ یہاں بیٹھ کر اپنی ڈاک دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

لیکن تب میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ کسی دن حضور باہر بیٹھ کر اپنا دفتری کام کررہے ہوں گے توشاید مجھے بھی اس شاندارجگہ پرملاقات کرنے کا موقع مل جائے گا۔

حضور مسکرائے اور مجھے بتایا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے تو میں دفتر سے آگیا۔

میرا دل حقیقی خوشی سے لبریز تھا او ر یہ ایسے لمحات تھے کہ جن کو ان شاء اللہ میں کبھی نہیں بھولوں گا۔

دو بچوں کی آمین اور بے شمار برکتیں

20؍ستمبر 2021ء کو حضور نے از راہ شفقت ہماری فیملی ملاقات منظور فرمائی اور ہمارے بچوں ماہد اور مشاہد کی آمین کی صدارت بھی منظور فرمائی۔دونوں نے دوران وبا پہلی دفعہ قرآن کریم کا دور مکمل کیا تھا۔

میں ہمیشہ کسی بھی ملاقات اور جب بھی خوش قسمتی سے حضور کی موجودگی میں ہوتا ہوں گھبراتا رہا ہوں لیکن آج فیملی ملاقات کی گھبراہٹ دفتری ملاقات سے کچھ بڑھ کر تھی۔

بچوں کو اسکول سے لینے کے بعد ہم سیدھا اسلام آباد گئے اور وہاں کووڈ کا ٹیسٹ کروایا ہم سب بے چینی سے نتائج کا انتظا ر کررہے تھے۔یہ ڈر بھی تھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی نتیجہ مثبت آیاتوکہیں ہماری ملاقات شروع ہونے سے قبل ہی ختم نہ ہوجائے ۔ شکر ہے چند لمحات کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ رزلٹ منفی ہیں اور آپ اسلام آباد کے مرکزی حصہ میں جاسکتے ہیں۔

فیملی ملاقات سے قبل حضو ر نے مجھے دفتری ملاقات کے لیے اندربلایا جہاں میں نے روزانہ کی بنیاد پر میڈیا بریفنگ دی اور چند مسائل پرہدایات و راہ نمائی حاصل کی۔جب یہ مکمل ہوگئی تو حضور نے مجھے میری فیملی کے ساتھ باہرانتظارکرنے کاارشاد فرمایا کہ تھوڑی دیر میں فیملی ملاقات کے لیے ہمیں بلایا جائےگا۔

مالا اور بچے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر میں بیٹھے تھے جیسے ہی میں ا ن کے پاس پہنچا جویریہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی اور جب میں چندمنٹ قبل حضور کے دفتر میں تھا تو مجھے اس کی آوازیں آرہی تھیں۔مالا نے مجھے بتایا کہ جویریہ کس طرح پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کےدفترمیں بھاگ رہی تھی۔ہم دونوں کو فکر تھی کہ اس کو ماہد اور مشاہد کی آمین کے دوران کس طرح سنبھالیں گے۔

چند منٹ گزرنے کے بعد غالب جاوید صاحب جو اس دن فیملی ملاقاتوں کا انتظام کر رہے تھے ہمیں اندر جانے کے لیے کہا۔

جیسے ہی ہم حضورکے دفترمیں داخل ہوئے حضورکی مسکراہٹ نے ہمارا استقبال کیا۔

اس ملاقات کے دوران پہلے ماہد اور پھر مشاہد کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ حضور انور کے پاس کھڑے ہوکر قرآن کریم کا کچھ حصہ سنا سکیں۔

دونوں نے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا پڑھا اورہم دونوں مطمئن تھے بلکہ خوش تھے کہ ان کویہ مبارک موقع ملا۔

اس کے بعد حضور نے ان دونوں کو خطِ منظور میں تیارہوکرشائع ہونے والے قرآن کریم کاایک ایک نسخہ تحفے میں دیاجوایک بہت دیدہ زیب سبز غلاف میں تھا۔حضور نے اپنے دست مبارک سے ان کے نام سرورق کے اندر لکھ کردعائیں لکھیں اور اپنے دستخط فرمائے۔واقعی یہ ہمارے بچوں کو ملنے والا سب سے بڑا تحفہ تھا جسے میں اور میرے بچے ہمیشہ عقیدت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔

اس کے بعد حضور نے اپنے قیمتی وقت سے ہمیں مزید وقت بخشا اور پوری فیملی کو چاکلیٹ کا تحفہ دیا۔

ملاقات سے قبل کی تمام گھبراہٹ اب حقیقی خوشی اور مسرت میں بدل چکی تھی۔

خوف کو امن میں بدلنا

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے حضور نے ہمیشہ میرے اور میری فیملی کے ساتھ ہماری امید اور گمان سے بڑھ کر پیار اور شفقت کا اظہار فرمایا ہے۔

تاہم اس عرصے میں، خواہ جب حضور نے طالع کے خاندان کے ساتھ مسجد فضل جاکر ملاقات کی یا جب آپ اپنے درخت سے ہمارے لیےآلو بخارے اتاررہے تھے یاہماری فیملی ملاقات تھی حضور کا پیار،خیال اور شفقت بے حد اور باکمال تھا۔

میں ان خوشی کے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتا جو ہمیں حضورکی صحبت میں محسوس ہوئی اور میں نے اپنی بیوی اور بچوں کے چہرے پر بے تحاشہ خوشی کے آثار دیکھے۔

درحقیقت گھر واپس جاتے ہوئے میں طالع کی شہادت کی رات گھبراہٹ اور مایوسی کا احساس خوف اورغم کے جذبات یادکرنے لگا ۔مجھے یاد ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں دوبارہ کبھی حقیقی خوشی محسوس کروں گا۔

حقیقت یہ ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ حضور نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے اپنے پیار اور شفقت سےسہار ادیا اور مجھے پہلے سے زیادہ اپنے وقت سے نوازا۔

یقیناً خلافت کی برکات سے میں نے اپنے دل میں امن وسکون محسوس کیا اور جس بے چینی اور اضطراب کا مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے کھا جائے گی وہ دور ہو گئی۔

بلاشبہ طالع کی بیوی،بچوں اور والدین کا دکھ میرے اپنے دکھ سے کہیں زیادہ ہے لیکن انہوں نے بھی خلیفہ وقت کی بے پناہ محبت اور اپنائیت کا تجربہ کیا ہے ان شاء اللہ حضورانور کی دعائیں انہیں آگے بڑھنے کےلیے طاقت اور ہمت دیں گی۔

پچھلے چند ہفتوں اور مہینوں کے بہت سے تجربات اور دوسری ایسی چیزیں ہیں جو میں لکھ سکتا ہوں شاید میں مستقبل میں مزید لکھوں گاان شاء اللہ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو لمبی فعال زندگی عطافرمائے۔

ہم ہمیشہ خلافت کے فرما نبردار رہیں اور اس عظیم روحانی خزانہ کو پہچاننے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو عطا فرمایا ہے ۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button