اختلافی مسائل

کیا کبھی کوئی نبی زندہ جسم سمیت آسمان پر گیا اور نازل ہوا ہے ؟

پرانے عہد نامے میں ایلیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے ’’اور ایلیاہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا‘‘ (سلاطین 2 باب 2آیت 11)پھر ذکر ہے کہ ’’دیکھو خدا وند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاؔہ نبی کو تمہارے پاس بھیجو ںگا اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کرے گا۔‘‘(ملاکی باب 4آیت 5تا6)

اب یہود میں اپنی کتاب کی روشنی میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ ایلیاہ آسمان پر گیا ہے اورمسیح کے آنے سے پہلے اسی نے آسمان سے آنا ہے ۔جب یہودی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایلیاہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کا ذکر کرکے کہا کہ ’’سب نبیوں اور توریت نے یوحنا تک نبوت کی۔ اور چاہو تو مانو ۔ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے ۔جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے‘‘ (متی باب 11آیت 13تا15)پھر لکھا کہ ’’شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیاہ کا پہلے آنا ضرورہے اس نے جواب میں کہا ایلیاہ البتہ آئےگا اور سب کچھ بحال کرےگا۔لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کےساتھ کیا ۔اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائےگا۔تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ان سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے۔‘‘

(متی باب17آیت10تا13)

شاگردتو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بات سمجھ گئے اور انہوں نے یقین کر لیا کہ ایلیاہ کے آسمان سے نازل ہونے اور دوبارہ آنے سے مراد یوحنا کا آنا ہی ہےجو اسی زمانے میں ہی پیدا ہوا تھا لیکن یہودی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس تشریح اور فیصلےکو قبول نہ کیا اور آپ علیہ السلام کا انکار کر دیا ۔

موجودہ زمانے کے مسلمان علماء بھی یہود علماء کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس تشریح کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس تشریح کا انکار کرکے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعودو مہدی معہود کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں ۔یہود علماء کی طرح یہ علما ء بھی ایک نبی کے زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہونے اورپھر اس کے نزول کے قائل ہیں۔ان کا اصرار ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم سمیت آسمان سے نازل ہوںگے۔یہود علماء کے پاس ان کی کتاب سے ایلیاہ نبی کی وفات پر ثبوت نہیں تھا بلکہ واضح طور پر آسمان پر جانے اور واپس آنے کا بیان تھا لیکن مسلمان علماء کے پاس ایسا کوئی عذر نہیں کیونکہ قرآن کریم میں واضح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر موجود ہے پھر کس طرح وہ آسمان سے نازل ہوسکتےہیں۔ویسے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کسی نبی کے زندہ جسم سمیت آسمان سے نازل ہونے کے عقیدے کی وضاحت کر چکے ہیں کہ آسمان سے کوئی نہیں آتا بلکہ اس سے مراد امت میں ہی پیدا ہونے والا ہوتا ہے پھران علماء کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے ۔مزید یہ ہے کہ امت میں سے کئی ایک بزرگ بھی نزول مسیح کی وضاحت اپنی کتب میں بیان کر چکے ہیں ۔چنانچہ سراج الدین ابن الوردی لکھتے ہیں کہ ’’وقالت فرقۃ نزول عیسیٰ خروج رجل یشبہ عیسیٰ فی الفضل والشرف ،کما یقال للرجل الخیر ملک وللشریر شیطان تشبیھًا بھما‘‘

(خریدۃ العجائب و فریدۃ الغرائب ازسراج الدین ابن الوردی ،صفحہ 442،الناشر مکتبہ الثقافہ الدینیہ )

ایک گروہ کہتا ہے کہ نزول عیسیٰ سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کا ظاہرہونا جو فضلیت اور عزت میں عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت رکھتا ہو ، جیسا کہ نیک آدمی کو فرشتہ ، اور بدکار کو شیطان ،ان کو ان سے تشبیہ دینے کے لیے کہا جاتا ہے ۔

اسی طرح حضرت رسول کریم ﷺ سے بھی مشابہت اختیار کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔سید عبدا لقادر جیلانی رحمہ اللہ اپنے بیٹے عبدا لجبار سے کہتے ہیں کہ ’’میں سرکار دو عالم ﷺ کی ذات پاک میں فنا ہوگیا ہوں اور مجھے بقا باالنبی کا مرتبہ حاصل ہوگیا ہے ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا خدا کی قسم یہ وجود میرے نانا سید الانبیاء ﷺ کا وجود ہے نہ کہ عبد القادر کا وجود ،بیٹے نے پھر عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ پر بادل سایہ کیا کرتے تھے لیکن آپ میں یہ بات نہیں ہے (یعنی آپ پر بادل سایہ کیوں نہیں کرتا )فرمایا کہ اس لیے کہیں مجھے لوگ نبی نہ کہنا شروع کردیں ۔‘‘

(تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر ،از سید عبد القادر اربلی ،مترجم محمد عبد الاحد قادری صفحہ 106تا107،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش روڈ لاہور )

اسی بات کا ذکر ایک اور کتاب میں کچھ اس طرح ہے کہ ’’اکثر فرمایا کرتے تھے آنحضرت رضی اللہ عنہ کہ ھَذا وُجُوْدُ جَدِّی مُحَمّد ﷺ لَا وُجُودُ عَبْدِ القَادر پس یہ کلام معرفت التیام آنحضرت کے دلالت کرتے ہیں اور فنا ئے اتم اور محو کامل آن جناب کے بیچ ذات بابرکات آنحضرت ﷺ کے کہ ازراہ فرط عشق ومحبت ذات در ذات ہو کر فنا فی الرسول ہوگئے تھے ذاتاً وصفاتاً قولاً وفعلاً حالاً وکمالاً کہ یہ رتبہ سوائے ذات غوثیہ کے کسی اور اہل ولایت کو حاصل نہیں ‘‘

(گلدستہ کرامات از علامہ سرور قریشی لاہوری ،صفحہ 28،مکتبہ اشرفیہ بازار مسجد مہاجرین مریدکے ضلع شیخوپورہ )

گویا نہ کوئی نبی زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہے اور نہ ہی کوئی نبی زندہ جسم آسمان سے نازل ہوگا بلکہ مشابہت کی وجہ سے اس کا نام کسی دوسرے کو دیا جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ غیر احمدی علماء کو اس مضمون کی سمجھ عطا کر ےاور حقیقت سمجھنے کی توفیق دے ۔آمین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:’’یہ بروز کا عقیدہ کچھ نیا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں بھی اس عقیدہ کا ذکر پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ملاکی نبی کی کتاب میں جو ایلیا کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جس کو یہود اپنی غلطی سے یہی سمجھتے رہے کہ خود ایلیا نبی ہی آسمان پر سے نازل ہوگا۔ آخر وہ بھی بروز ہی نکلا اور ایلیا کی جگہ آنے ولا یحیٰ نبی ثابت ہوا۔ اور یہود کا یہ اجماعی عقیدہ کہ خود ایلیا ہی دوبارہ دنیا میں آجائے گا جھوٹا پایا گیا۔‘‘

(ایام صلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ383)

(مرسلہ:ابن قدسی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button