از مرکزحضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نو لجنہ اماء اللہ سویڈن کی (آن لائن) ملاقات

مذہب کا معاملہ دل کے ساتھ ہے کسی کے دل کو ہم نہیں بدل سکتے ہاں اگر کسی کو سمجھ آ جائے وہ اس سے بدلتا ہے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے21؍نومبر 2021ء کو ممبرات واقفات نو لجنہ اماء اللہ سویڈن سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ واقفات نو لجنہ اماء اللہ نے اس آن لائن ملاقات میں ناصر مسجد Gothenburg، سویڈن سے شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کے بعد واقفات نو کو حضور انور سے اپنے عقائد اور عصر حاضر کی بابت سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک واقفہ نو کا سوال جماعتی پروگراموں میں ماحولیات کو مد نظر رکھنے سے متعلق تھا۔

حضور انور نے فرمایا کہ پہلے تو یہ ہے کہ عموماً ہمیں ری سائیکل (recycle)چیزیں استعمال کرنی چاہئیں۔ جو جماعت کے ایونٹس ہوتے ہیں اجتماع ہوتے ہیں جلسے ہوتے ہیں وہاں ایک ہائی جین (hygiene) وغیرہ کی بھی ٹیم ہوتی ہے اس کا یہ کام ہے کہ جہاں دوسری facilities ہیں ان میں ہائی جین (hygiene)کا استعمال رکھیں وہاں جو atmosphere ہے ماحول ہے environmentہے اس کو بھی صاف رکھیں۔ اور وہاں سے گند اٹھاتے رہیں جو ری سائیکل پلاسٹک کی چیزیں ہیں ان کو علیحدہ رکھیں۔ جو ڈسپوزیبل چیزیں ہیں ان کو علیحدہ رکھیں اور گورنمنٹ کے جو بِن (bin)بنے ہوتے ہیں اور ان کو علیحدہ علیحدہ (رکھیں)پہلے سے بات کی ہو جو ٹرک اٹھا کر لے کر جاتے ہیں تو وہ جو ڈسپوزیبل آئٹم ہیں ری سائیکل آئٹم ہیں ان کو اس بن میں ڈالا، جو ڈسپوزیبل ہیں ان کو اس میں ڈالا تاکہ اس کو وہ ڈسپوزآف کر سکیں اپنے کسی طریقے سے۔ تو ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ماحول کو صاف رکھیں گند نہ ہونے دیں۔ ہماری عادت یہ ہے، ہماری لجنہ کی ممبرات بھی، اگر آپ لوگ بھی کہانی یہاں کھڑے ہو کے مجھے سنا تو رہی ہیں لیکن طریقہ یہ ہوتا ہے جوس پیا چلتے چلتے ڈبہ ٹھک کر کے وہاں پھینک دیا سڑک پہ کنارے پہ ،کوئی پروا ہی نہیں کی اور پانی پیا بوتل خالی ہوگئی تو بجائے یہ کہ دس قدم پہ بن پڑا ہوا ہے اس میں جا کے ڈالیں بِن بیگ میں ڈال دیں یا بِن جو پڑا ہے بڑا باکس اس میں ڈالیں وہیں پھینک دیں گی۔ گلاس جو ڈسپوزیبل گلاس ہیں بچوں کو دے دیں گی کہ چلو کھیلتے رہو اس سے۔ وہ کھیل کھیل کے سارا گند کرتے رہتے ہیں۔ توڑ توڑ کے اگر وہ اس کے ہیں پیپر گلاس ہیں یا وہ thermopore کے گلاس ہیں وہ توڑ توڑ کے ناں بچے کھیلتے رہتے ہیں اور توڑتے رہتے ہیں۔ وہ اتنے باریک ذرے بن جاتے ہیں کہ اس کو اکٹھا بھی نہیں کر سکتے پھر۔ تو یہ تو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے ان اجتماعوں پہ لجنہ کو بھی ناصرات کو بھی بچوں کو بھی کہ اپنی چیزیں جو ہیں اس طرح پھینکا نہ کرو اگر استعمال کیا ہے تو اس کو بن میں ڈالو اور جو پھینک دیتے ہیں اس طرح وہاں ایک ٹیم ہونی چاہیے ہمارے اجتماعوں پہ جو سارا کچھ اکٹھا کرے اور اس کو بِن میں ڈالے اور پھر جو ری سائیکل چیزیں ہیں وہ ری سائیکل بن میں چلی جائیں جو دوسری ڈسپوزیبل ہیں ان کو ڈسپوزآف کرنے کے لیے علیحدہ بن میں ڈالا جائے۔

ایک دوسری ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ یورپی یونین نے ایک قانون پاس کیا ہے کہ ایمپلائر ایک باپردہ خاتون کو بغیر کسی وجہ کے نوکری سے نکال سکتے ہیں۔ حضور انور سے اس حوالہ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ یہ نہایت احمقانہ قانون ہے اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ اور یہ تو ہیومن رائٹس کے خلاف ہے۔ ایک شخص حجاب لیتا ہے وہ کہتا ہے میرے مذہب کا حصہ ہے یا کل کو وہ یہودیوں کو کہیں کہ تم جو ٹوپی پہنتے ہو چھوٹی سی سر پہ رکھتے ہو وہ سر پہ رکھ کے نہیں آ سکتے۔ ٹھیک ہے۔ مردوں کو کہیں گے تم ٹوپی نہیں پہن سکتے یا سکھ جو ہیں ان کو کہیں کہ تم پگڑی نہیں باندھ سکتے توجو ان کے رائٹس ہیں ان کو تم deny کر رہے ہو تو اس لیے یہ قانون ہی غلط ہے۔ آپ یہ عہد کرتی ہیں میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی۔ ٹھیک ہے۔ اگر کہیں ایسی جگہ پرنوکری نہیں ملتی جہاں حجاب کی اجازت نہیں ہے، حجاب اتارے بغیر نوکری نہیں ملتی تو آپ اس نوکری کو چھوڑ دیں۔ انسان کو چاہیے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں یہ عہد کیا ہے ناں۔ ہر دفعہ عہد دہراتی ہیں اپنے اجلاسوں میں تو پھر یہ عہد ہے اور اس کے خلاف لیگل فائٹ بھی کرنی چاہیے اور شور بھی مچانا چاہیے لابنگ بھی کرنی چاہیے قانون جو بنائے ہوئے ہیں انسانوں کی پارلیمنٹوں میں یہ کوئی شریعت کے قانون تو نہیں جو ہمیشہ قائم رہیں گے۔ اس کے خلاف آوازیں اٹھیں گی ایک وقت آئے گا یہ بھی قانون ختم ہو جائیں گے،کئی ان کے اپنے قانون بنائے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ تو ہمارا بھی کام ہے کہ آواز اٹھاتے رہیں۔ آج نہیں تو پانچ سال بعد دس سال بعد یا اگلی نسل کو کم از کم آزادی مل سکتی ہے لیکن ایک بنیادی بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ اور جو یہ کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں اور پھر ایک طرف کہتے ہیں ہیومن رائٹس کی باتیں کرتے ہیں دوسری طرف جو رائٹس ہیں عورتوں کے اسلام کے اس کو denyکر رہے ہیں۔ تو اس کے خلاف اخباروں میں لکھو۔ احمدی لڑکیوں کو چاہیے ناں کہ لکھیں اپنے سویڈش اخباروں میں بھی لکھیں یورپین اخباروں میں بھی لکھیں جہاں جہاں جس جس کی say ہے یہ میں نے کہا بھی ہوا ہے کام کریں تو آپ لوگ بھی کام کریں سویڈن میں لکھیں کہ ہیومن رائٹس کی وائلیشن تو آپ لوگ خود کرتے ہیں ایسے قانون پاس کر کے۔ ایک پوٹینشل شخص ہے ایک بڑا اچھا کیلیبر کا شخص ہے ایک اچھی سائنٹسٹ عورت ہے ایک اچھی ڈاکٹر ہے سرجن ہے لیکن اس کو اس کا ایمپلائر صرف اس لیے فائر کر دیتا ہے کہ جی تم حجاب پہنتی ہو تو یہ کوئی انصاف تو نہیں ہے یہ تو اس پوٹینشل کو ویسٹ(waste) کرنا ہے اور ایک اچھے دماغ کو اس کے رائٹ سے محروم کرنے کا سوال ہے۔ تو اس کے خلاف لکھیں لابی کریں۔ شور مچاؤ یہاں شور مچانے سے بڑا کچھ ہو جاتا ہے۔ تم لوگ بھی لکھو۔

ایک اَور ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ اگر ایک انسان پیدائشی عیسائی ہے اور اس نے اپنی پوری زندگی ایک عیسائی کی طرح گزاری ہے تو پھر وہ کس طرح مان سکتا ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اس کو زبردستی منوانا ہے تم نے؟ ہم نے کب کہا ہے اس کو زبردستی مسلمان بناؤ۔ ہم نے تو اس کے سامنے اسلام کی خوبیاںرکھنی ہیں ۔ اسلام کے مذہب کی تعلیم کہ Christianityیہ کہتی ہے اسلام یہ کہتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی اپنی پیشگوئیاں ہیں عیسائیت کی اپنی پیشگوئیاں کیا ہیں یا حضرت موسیٰ کی اپنی پیشگوئیاں کیا ہیں جنہیں یہ لوگ مانتے ہیں تورات اور انجیل کو مانتے ہیں بائبل پہ یقین رکھتے ہیں تو وہ جب اس کو دیکھ لیتا ہے بہت سارے practising christians ہیں جب وہ دیکھتے ہیں، سوچتے ہیں اور ساری پیشگوئیاں دیکھتے ہیں اور بائبل کی بھی پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےبارے میں جو ہے کہ فاران کے پہاڑوں سے آئے گا اس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہاں بات تو سچی ہے۔ بائبل کی ہی بعض پیشگوئیاں ہیں جن میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنا تھا اور ایک آخری زمانے میںنبی نے آنا تھا۔ یہ سارے پرانے نبیوں نے پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں تو اُس کو اگر اس تعلیم کی سمجھ آ جاتی ہے اور وہ سن لیتا ہے اور مان لیتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن قرآن کریم نے تو کہہ دیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہم نے زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنانا۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو کہا ہی نہیں کہ زبردستی بناؤ، نہ کبھی اسلام نے کبھی زبردستی بنایا۔ بلکہ جنگیں جو ہوتی ہیںاسلام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ جنگیں اسلام نے کیں اسلام پھیلانے کے لیے اسلام نے جنگیں نہیں کیں اسلام پھیلانے کے لیے مذہب کا معاملہ دل کے ساتھ ہے کسی کے دل کو ہم نہیں بدل سکتے ہاں اگر کسی کو سمجھ آ جائے وہ اس سے بدلتا ہے۔ عیسائی جو ہیں افریقن جو ہیں وہ بہت اچھے practisingعیسائی ہیں یورپین تو پریکٹسنگ عیسائی ہیں ہی نہیں اور وہاں بہت سارے ہیں جو احمدیت اور اسلام قبول کر رہے ہیں۔ یورپ میں بھی بعض لوگ ہیں جو عیسائیت قبول کر لیتے ہیں لیکن افریقہ میں تو پریکٹسنگ ہیں اور وہ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ ہمارے جو شروع کے جو احمدی ہوئے ہیں ویسٹ افریقہ میں مثلاً سارے کے سارے عیسائیت سے ہی اسلام میں داخل ہوئے۔ اور احمدی ہوئے۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ دل کا معاملہ ہے ہم نے زبردستی کسی کو نہیں منانا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک کہا ہوا ہے قرآن کریم میں کہ عیسائیوں کے جو چرچ ہیں تم لوگ ان کی بھی حفاظت کرو اور یہودیوں کے سیناگاگز ہیں ان کی حفاظت کرو اور ٹیمپل جو ہیں ان کی حفاظت کرو مسجدوں کی حفاظت کرو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تو کہا ہی نہیں کسی مذہب والے سے کہ لڑائی کرو۔ تو ہم توہر ایک کو پروٹیکشن دیتے ہیں اس لیے ہم کسی کو زبردستی تو بنا نہیں سکتے ہاں اگر کسی کو سمجھ آجائے وہ سمجھ لے کہ ہاں اسلام سچا ہے اس کی یہ یہ دلیلیں سچی ہیں بائبل کی یہ یہ پیشگوئیاں پوری ہوگئیں بہت ساری پیشگوئیاں ہیں اب تفصیل مَیں اس وقت بیان نہیں کرسکتا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا فاران کی چوٹیوں سے آنا وہ پیشگوئی ہے بائبل کی بھی ہے تو یہ چیزیں جو ہیں وہ جب پوری ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور یہی دلیلیں ہم نے دینی ہیں، دلیل سے قائل کرنا ہے اگر دلیل سے کوئی قائل ہو جاتا ہے تو ٹھیک اسلام قبول کر لے گا اگر اس کو دلیل سمجھ نہیں آتی تو پھر وہ اپنے مذہب پر قائم رہے۔ اللہ کہتا ہے بیشک اپنے مذہب پہ قائم رہو لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ایک بات ہے قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ان لوگوں سے کہو جو اہل کتاب ہیں people of the Book ان سے کہو کہ ایک بات ہے جس پہ ہم اکٹھے ہو جاتے ہیں اور وہ ہے اللہ تعالیٰ۔ آؤ اللہ کی ذات پہ اکٹھے ہو جاؤ اور شرک نہ کرو۔ تو ہم نے صرف یہی باتیں ان سے کہنی ہیں باقی ہر ایک کا اپنا اپنا دین ہے اپنا مذہب ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ اسلام بہر حال سچا مذہب ہے کیونکہ ہر نبی نے اس کے آنے کی پیشگوئی کی اور اس کی پیشگوئیاںپوری ہو رہی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شرعی نبی ہیں اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے۔ یہ پکی بات ہے یہ قرآن شریف نے بھی لکھ دی لیکن ساتھ یہ کہہ دیا کہ تم نے کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنانا۔ ہاں دلیل دو اور مسلمان بناؤ۔

پھر اس ممبر لجنہ نے عرض کی کہ حضور انور نے اپنی خدام کے ساتھ کلاس میں سورج مغرب سے نکلے گا کی پیشگوئی کے بارے میں د عا کی ہدایت کی۔ پیارے حضور خاکسار اس بارے میں کچھ کہنے کی اجازت چاہتی ہے۔

حضور انور نے فرمایا ’ہاں فرماؤ‘۔ اس پر انہوں نے عرض کی کہ پچھلے تیس سالوں سے خلافت کا سورج مغرب کو اپنی روشنی سے منور کر رہا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج مغرب سے نکلنے کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ ہو رہی ہے ایک لحاظ سے تو ہورہا ہے مغرب سے اسلام کی تعلیم پھیل رہی ہے دنیا میں، خلافت یہاں ہے اس لحاظ سے ایک لحاظ سے ایک ذوقی تشریح ہے، لے سکتے ہو یہ مطلب۔ لیکن اصل چیز یہ ہے کہ یہاں اسی تبلیغ سے ایک وقت آئے گا یہ بھی اس کا مطلب ہے کہ ایک وقت آئے گا جب مغرب کے لوگ زیادہ اسلام کو قبول کریں گے اور جب یہ اسلام کو قبول کریںگے جس طرح رومن حکومت کے زمانے میں ہوا تھا عیسائیت بادشاہ نے قبول کر لی تھی تو پھر اسلام کی تبلیغ تو جلدی دنیا میں پھیلے گی۔ سمجھ آئی۔ تو یہ بھی ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں دعا کریں وہاں تبلیغ بھی کریں اور اپنے نمونے بھی دکھائیں تا کہ یہ لوگ جو مغرب میں رہنے والے ہیں یہ مذہب کو سمجھ کے اس کو قبول کریں۔جب یہ قبول کریں گے اسلام کی تعلیم زیادہ جلدی تعلیم پھیلنی شروع ہو جائے گی ان شاء اللہ۔ اور یہ مطلب بھی ہے تم کہہ رہی ہو یہ بھی ٹھیک ہے کوئی ایسی بات نہیں، لے سکتی ہو یہ مطلب۔ ماشاء اللہ بڑا اچھا پردہ کیا ہوا ہے۔

ایک اَور لجنہ نے سوال کیا کہ مینٹل ہیلتھ کی بیماری کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح دیگر امراض کو دی جاتی ہے اور اس سلسلہ میں حضور انور کی راہنمائی کی درخواست ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اگر کوئی تھوڑا بہت ذہنی ڈپریشن ہو جاتا ہے کسی کو یا کوئی اور ذہنی بیماری ہو جاتی ہے کسی وجہ سے بعض آٹسٹک(autistic) ہو جاتے ہیں بچے یا بڑی عمر میں آکر بعض دفعہ آٹسٹک ہوجاتے ہیں تو ان کا صحیح طرح علاج ہونا چاہیے ان کی صحیح طرح نگہداشت ہونی چاہیے ان کا خیال رکھنا چاہیے ان کی فکر کرنی چاہیے اور جو ممکن علاج ہے اس کو کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ان کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ جو نہیں کرتے وہ بیوقوف لوگ ہوتے ہیں۔ میں تو یہی کہہ سکتا ہوں اور کیا کہوں۔

ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ کیا حضور ہمارے ساتھ اپنی بچپن کی کوئی یاد جو آپ کو اکثر یاد آتی ہووہ شیئر کر سکتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ میں بچپن کی یادیں بھول گیا ہوں۔ بچپن کی ایسی یادیں نہیں۔ تم لوگوں کی طرح میں یادیں نہیں رکھا کرتا بچپن کی۔ آج کل کے بچوں کو بڑا شوق ہے یادیں رکھنا بچپن کی لیکن بہرحال ایک دفعہ میں چھوٹا سا تھا تو ہمارے دادا حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے کہا حضرت خلیفہ ثانی کو ملنا ہے تو مجھے ساتھ لے گئے وہ۔ دن کا وقت تھا اور حضرت خلیفۃ ثانی اوپر اپنے گھر کے اوپر فرسٹ فلور میں رہتے تھے نیچے سے مجھے بھیجا جاکے اطلاع کرو۔ یہ نہیں ہے کہ چھوٹا بھائی ہو تو گھر چلے گئے ایک دم۔ جا کے اطلاع کرو کہ میں آیا ہوں ملنے کے لیے۔ حضرت خلیفۃ ثانی تھوڑے سے بیمار تھے لیٹے ہوئے تھے تو حضرت چھوٹی آپا تھیں وہاں ان کو میں نے کہا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے بلا لاؤ۔ کرسی رکھ دی۔ حضرت خلیفہ ثانی وہاں لیٹے ہوئے تھے حضرت مرزا شریف احمد صاحب آئے۔ وہ آکے تو ان سے باتیں کرنے لگے کرسی پہ نہیں بیٹھے انہوں نے کرسی پیچھے ہٹا دی۔ خلیفہ ثانی پلنگ پہ لیٹے ہوئے تھے۔نیچے دری بچھی ہوئی تھی نیچے بیٹھ گئے مرزا شریف احمد صاحب اور باتیں کرتے رہے اور باتیں تو مجھے یاد نہیں میں چھوٹا سا تھا آٹھ نو سال کا یا دس سال کا ہوں گا۔ تو بہرحال وہ باتیں کر کے اسی طرح اٹھے اور الٹے قدموں واپس چلے گئے بڑا ادب اور احترام اور لحاظ تھا خلیفہ وقت کا باوجود بھائی ہونے کے احترام اور لحاظ کرتے تھے۔ تو ایسی باتیں بعض جو تربیت والی ہیں وہ ذہن میں رہ جاتی ہیں تو یہ بڑی مجھے اچھی طرح نقش ہے میرے ذہن میں اور اسی طرح اور بعض باتیں۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب مجھے قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے۔ ان کے پاس تو قرآن شریف نہیں ہوتا تھا لیکن جہاںکہیں میں زبر زیرپیش کی غلطی کرتا تھا نہ فوراً مجھے کہتے تھے یہاں تم نے اس طرح نہیں پڑھا یہاں پیش ہے یہاں زبر ہے اس کو ‘آ’ کرنا ہے یا اُو کرنا ہے جو آواز نکالنی ہے اس طرح ان لوگوں کو زبانی قرآن کریم (یادتھا)حافظ نہ ہونے کے باوجود ہر بات اس طرح زبانی یاد تھی۔ تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں تو یہ پہلا واقعہ تو میں پہلے بھی کہیں بیان کر چکا ہوں۔ پھر یہ کہ ہمارے ہاں بڑے ہیں بغیر اجازت لیے بچوں کو لے جاتے ہیں۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ہمارے دادا نےکبھی مجھے اپنے ساتھ باہر لے کے جانا ہوتا تھا ناں تو پہلے آ کے ہماری والدہ سے پوچھتے تھے کہ اس کو میں ساتھ لے جاؤں باہر۔ یہ نہیں کہ میرا پوتا ہے۔ پوتا ہے تو میں ساتھ چلا جاؤں اس کے۔ پہلے پوچھا ماں سے پھر انہوں نے اجازت دے دی تو پھر ٹھیک ہے پھر ساتھ لے کر گئے۔ اب یہاں بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں دادا دادی نانا نانی اور پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گئے بچے۔ تو اس قسم کی حرکتیں نہیں کرتے تھے وہ بزرگ۔

ایک اَور ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ تھیوری آف ایوولیوشن کے بارے میں اسلامی نظریہ کیا ہے اور اس کو ہم ان لوگوں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ سوال یہ ہے کہ ایوولیوشن تو ہوا انسان کا۔ یہ نہیں ہم مانتے جو ڈارون کی تھیوری ہے کہ کیڑا تھا یا بندر تھا یا بیٹل تھا یا جانور تھا تو اس سے انسان بن گیا۔ انسان تھا لیکن اس کی اپنی stages تھیں شروع کی۔ Initial stages میں اس کی بالکل حرکتیں ایسی تھیں جیسے وہ بندر والا cave میں رہنے والا یا جنگلوں میں رہنے والا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کو عقل آتی رہی ڈیویلپمنٹ ہوتی رہی لیکن بندر جو تھا اس سے بندر کی نسل چلی ہے جو انسان تھا اس سے انسان کی نسل ہی چلی۔ تو ایوولیوشن کو تو ہم مانتے ہیں کہ ہوا قرآن کریم میں بھی ہے لکھا ہوا ہے ایوولیوشن ہے اور یہ انسان جو ہے اس حالت میں پہنچا اور ابھی تک ایولیوشن ہو رہاہے اس لیے ہم تو یہ نہیں کہتے کہ ایوولیوشن نہیں ہوا انسان کا ایوولیوشن ہوا اور اس سٹیج پر پہنچا ابھی مختلف حالتیں پیدا ہوتی جا رہی ہیں لیکن جو بندر تھے وہ بندر تھے، جو بیٹل تھے وہ بیٹل تھے، جو جانور تھے وہ جانور تھے۔ یہ ہم نہیں مانتے کہ ڈارون کی تھیوری صحیح ہے لیکن یہ ہم مانتے ہیں کہ ایوولیوشن ضرور ہوا۔

ایک اَور ممبرلجنہ نے سوال کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق کیسے جوڑ سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ اپنی روزمرہ کی پنجوقتہ نمازیں اس طرح ادا کریں کہ آپ کو لذت محسوس ہو۔ اگر آپ تیزی سے اپنی نمازیں ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ کسی سہیلی کے گھر جاتی ہیں اور ان کے گھر کی گھنٹی بجاتی ہیں اور باہر کھڑے کھڑے ہی ان کو ملتی ہیں اور تیزی سے واپس چلی جاتی ہیں تو آپ کی وہ سہیلی بھی حیران ہو گی کہ یہ کس قسم کی سہیلی ہے کہ باوجود اس کو اند ر بلانے کےیہ اندر نہیں آئی، چائے نہیں پی اور ساتھ میں وقت بھی نہیں گزارا۔ یہ ایک سہیلی کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ ہر گز اچھی سہیلی نہیں ہو سکتی۔ اچھے دوست وہ ہوتے ہیں جو اکٹھے بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور اپنی خوشیاں اور غم ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کی عبادت کرنا ہماری تخلیق کا مقصد ہے اس لیے ہمیں اس مقصد کو پورا کرنا چاہیے اور بہترین طریق اس کا یہ ہے کہ تم اپنی پنجوقتہ نمازیں اس طرح ادا کرو کہ تمہیں محسوس ہو کہ تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہےاور اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں سن رہاہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button