متفرق مضامین

قضاء اور اس کی کارروائی، اصول و فقہی معاملات

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ لصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں قضاء اور اس کی کارروائی، اصول و فقہی معاملات

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت امتِ مسلمہ کی اصلاح کے لیے حَکَم عَدل بنا کر بھیجا

انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ساتھ سمجھ بوجھ بھی عطاکی ہے۔ معاشرے کی تشکیل کے ساتھ سوچ اور فکر میں تنوع کی وجہ سے اختلاف رائے اور عملاً اختلافات کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ اگر یہ اختلاف حسن ظن اور نیک نیتی سے زیادتی علم کے لیے ہوتو وہاختلاف أمتى رحمة کا مصداق ہوتا ہے۔ لیکن اپنے مفادات کی خاطر انسان اگر حسد، انا اور تکبر سے مغلوب ہوجائے، تو پھر معمولی اختلافات بھی تنازعات کا روپ دھار لیتے ہیں۔ قرآن کریم نے جس ابتدائی تنازعہ کا ذکر کیاہےوہ ہابیل اور قابیل کا تنازعہ تھا، قابیل کے حسد کی وجہ سے شروع ہونے والا یہ تنازعہ بڑھتے بڑھتے قتل جیسے سنگین جرم پر منتج ہوا۔ پس دنیا میں افراد کے حقوق کی حفاظت اور جھگڑے کی صورت میں حقوق کے تعین اور جرائم روبہ تنزل رکھنے کے لیے نظام قضاء ضروری اور ایک فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ضروت حقہ کے وقت اپنے انبیاءؑ کے ذریعہ نہ صرف معاشرے کی اعتقادی و تربیتی اصلاح فرمائی بلکہ معاشرے میں پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے بھی تفصیلی قوانین نازل فرمائے۔ درحقیقت قضاء کا قیام بھی سنت انبیاء میں سے ہے۔ انبیاء علیہ السلام بھی بوقت ضرورت لوگوں کے تنازعات کے فیصلے کرتے رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے تو بعض فیصلوں کا ذکرقرآن و حدیث میں خصوصاً بیان ہوا ہے۔ لیکن اس نظام عدل کا اپنے کمال تک پہنچنا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کے ذریعہ ہی مقدر تھا۔ چنانچہ اسلام نے جو نظام عدل متعارف کروایا وہ دنیا کا بہترین نظام عدل ہے۔ اس نظام کے قیام کے لیے آنحضرتﷺ نہ صرف خود فیصلے فرمایا کرتے بلکہ آپؐ نے اپنے صحابہ کی تربیت کے لیے اپنی نگرانی میں ان سے فیصلے بھی کروائے۔ پھر خلفائے راشدین بھی اسی سنت کے موافق لوگوں کے تنازعات کے فیصلے کرتے رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ قضائی نظام کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ

فَإِنَّ الْقَضَاءَ فَرِيضَةٌ مُحْكَمَةٌ وَسُنَّةٌ مُتَّبَعَةٌ۔ (سنن الدارقطني-كِتَابٌ فِي الْأَقْضِيَةِ وَالْأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ۔ كِتَابُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ)

ترجمہ: قضاء ایک محکم فریضہ اور ایسی سنت ہے جس کی اتباع کی جانی ضروی ہے۔

امت محمدیہ میں بگاڑ اور باہم اختلاف کا شکار ہونے کی پیشگوئیاں احادیث ِنبویہ میں بھری پڑی ہیں، جبکہ اسلامی شریعت تو قیامت تک رہنے والی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ

’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الكَذِبُ‘‘ (ترمذی ابواب الشھادات باب ماجاء فی الشھادۃ الزور)

ترجمہ: بہترین لوگ میری صدی کے ہیں پھر دوسری اور پھر تیسری۔ تیسری صدی کے اس بعد جھوٹ پھیل جائے گا۔ اوراس کے بالمقابل صرف ایک گروہِ امام مہدی کے حقیقی مسلمان کا بیان بھی انہی احادیث میں مرقوم ہے۔ چنانچہ سورت الجمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ(الجمعة: 4)کی تشریح میں آنحضرتﷺ نے فرمایا:

لَوْ كَانَ الإِيمَانُ مُعَلَّقاً بالثُّرَيَّا، لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلاَءِ(بخاری کتاب التفسیر، سورۃ الجمعہ)

یعنی اگر ایمان زمین سے پرواز کرکے ثریا ستارے تک بھی جا پہنچا تو اس قوم (سلیمان فارسیؓ)میں سے ایک شخص یا بعض اشخاص اسے وہاں سے بھی حاصل کرلیں گے۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت امتِ مسلمہ کی اصلاح کے لیے حَکَم عَدل بنا کر بھیجا، جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مسیح عیسی ابن مریمؑ تم نازل ہوں گے۔

حَكَمًا مُقْسِطًا، وَإِمَامًا عَدْلًا

منصف مزاج حَکَم اورعادل امام ہونے کی حالت میں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم)

پیشگوئی کے عین مطابق ہی آپ علیہ السلام نے یہ دعویٰ بھی فرمایا ہےکہ ’’میں خداتعالیٰ کی طرف سے آیاہوں اور حَکَم ہوکر آیاہوں‘‘ (الحکم 30؍ستمبر1904ء صفحہ2) ’’ہم بطورحَکَم کے آئے ہیں‘‘ (الحکم 10؍فروری 1905ء صفحہ4) ایک اور جگہ فرمایا: ’’اللہ نے اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان حَکَم بن کر فیصلہ کردے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے اورتاکہ وہ اسے فاتح قراردیں اور وہ اس کی ہر بات اچھی طرح تسلیم کرلیں اوراس کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اوریہ وہی حَکَم ہے‘‘ (الھُدٰی والتبصرۃُ لِمَنْ یَرٰی، روحانی خزائن جلد18صفحہ338تا339۔ عربی سے ترجمہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعویٰ سے قبل خصوصاً ملازمت سیالکوٹ میں بے شمار عدالتی اور انتظامی دفاتر کی امسلہ پڑھنے کا موقع ملا تھا، بلکہ اپنی زندگی میں متعدد مقدمات میں براہ راست فریق بھی رہے۔ آپ علیہ السلام نے قضاء اور اس کے طریق کا ر کی با بت بعض انتہائی اساسی نکات بیان فرمائے ہیں۔ جہاں تک عمومی قضائی معاملات کا تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے بھی ہمیں راہ نمائی ملتی ہے۔ سیرت المہدی روایت نمبر813 میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک فیصلہ بھی درج ہے۔ جس میں آپ نے ایک خاتون کا خلع منظور فرمایا۔ مختصراً یہ کہ متذکرہ بالااجمال کی قدرے تفصیل حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں حسب ذیل ہے۔

دنیا میں قضاء کے قیام کی ضرورت اور حکمت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا: ’’جب ایک دوسرے کی معاونت ضروری ہوئی تو ان کا ایک دوسرے سے معاملہ پڑنا بھی ضروری ہوگیا۔ اور جب معاملہ اور معاوضہ میں پڑگئے اور اس پر غفلت بھی جو استغراق امور دنیا کا خاصہ ہے عائد حال ہوگئی تو ان کے لئے ایک ایسے قانون عدل کی ضرورت پڑی جو ان کو ظلم اور تعدی اور بغض اور فساد اور غفلت من اللہ سے روکتا رہے تا نظام عالم میں ابتری واقعہ نہ ہو۔ کیونکہ معاش و معاد کا تمام مدار انصاف و خدا شناسی پر ہے، جس میں دقائق معدلت و حقائق معرفت الٰہی بدرستی تمام درج ہوں اور سہواً یا عمداً کسی نوع کا ظلم یا کسی نوع کی غلطی نہ پائی جاوے۔ اور ایسا قانون اسی کی طرف سے صادر ہوسکتا ہے جس کی ذات سہو و خطا و ظلم و تعدی سے بکلی پاک ہو اور نیز اپنی ذات میں واجب الانقیاد اور واجبؔ التعظیم بھی ہو۔‘‘

(براہین احمدیہ جلد سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 205تا206)

فرمایا: ’’واضح رہے کہ دنیا کی عدالت، عدالت نہیں مگر نظامت کانام ہے کہ جس کا منشا یہ ہے کہ جرائم رو بہ تنزّل رہیں نہ یہ کہ سزا کامل ہو جائے کیا ایک قاتل کو پھانسی دینے سےمقتول جی اٹھتا ہے۔ اور اگر قاتل کو پھانسی دیں گے تو مقتول کو اس سے کیا ہے۔‘‘

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 214تا215)

متنازعہ معاملات میں مدعی کون؟ تعریف و فلاسفی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا: ’’اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی کسی عدالت میں دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ہزار روپیہ قرضہ لینا ہے اور خود اس بات کا اقرار کردیتا ہے کہ فلاں تاریخ میں نے اس کو بطور قرضہ روپیہ دیا تھا اور اس تاریخ سے پہلے میرا اس سے کچھ واسطہ نہیں تھا اور یہ میرا دعویٰ نیا ہے جو فلاں تاریخ سے پیداہوا، سو اسی وجہ سے وہ مدعی کہلاتا ہے۔ اور ثبوت اس کے ذمہ ہوتا ہے کہ وہ بعد اس اقرار کے کہ فلاں تاریخ سے پہلے فلاں شخص میرا قرض دار نہیں تھا، پھر مخالف اپنے اس پہلے بیان کے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں تاریخ سے وہ میرا قرض دار ہے۔ پس اس سے عدالت اسی وجہ سے ثبوت مانگتی ہے کہ وہ اپنے پہلے بیان کے مخالف دوسرا بیان کرتا ہے اور اس کے دعوے میں ایک جدت ہے جس کاوہ آپ ہی قائل ہے کیونکہ وہ خود قبول کرچکا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی گذرا ہے جب کہ وہ شخص جس کو اب مقروض ٹھہرایا گیا ہے مقروض نہیں تھا۔ سو اس اقرار کے بعد انکار کر کے وہ اپنی گردن پر آپ بار ثبوت لے لیتا ہے۔ غرض واقعی اور حقیقی طور پر اسی شخص کو مدعی کہتے ہیں جو ایک صورت میں ایک بات کا اقرار کر کے پھر اسی بات کا انکار کرتا ہے اور بار ثبوت اس پر اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے پہلے اقرار کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے تمام عدالتیں اسی اصول محکم کو پکڑ کر مدعی اور مدعا علیہ میں تمیز کرتے ہیں اگر یہ اصول مدنظر نہ ہو تو ایسا حاکم اندھے کی طرح ہوگا اور اس کو معلوم نہیں ہوگا کہ واقعی طور پر مدعی کون ہے اور مدعا علیہ کون۔ خلاصہ کلام یہ کہ مدعی ہونے کی فلاسفی یہی ہے جو ہم نے اس جگہ بیان کردی ہے اور ظاہر ہے کہ بار ثبوت اسی پر ہوگا جو واقعی اور حقیقی طور پر مدعی ہو یعنی ایسی حالت رکھتا ہو کہ ایک صورت میں ایک بات کا اقرار کر کے پھر دوسری صورت میں برخلاف اس اقرار کے بیان کرے۔‘‘

(الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 180)

مدعی کے ذمہ دعویٰ کا ثبوت ہے

مدعی کا کام ہے کہ واقعات کے ساتھ اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش کرے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتا کہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے تب ڈگری ہوگی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے۔ بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوئی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑا دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کے رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 356)

محض راست باز ہونے سے دعویٰ ڈگری نہیں ہوسکتا

جب مقدمہ باقاعدہ طور پر دارالقضاء میں شامل سماعت ہوجائے تو پھر خواہ کوئی ذاتی حیثیت میں کتنا ہی راست باز، متقی اور مخلص ہی کیوں نہ ہوایسے مدعی کو بھی قضائی طور پر محض دعویٰ کرنے سے ڈگری نہیں مل سکتی ہے اور نہ محض انکار سے مدعاعلیہ کو بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے گواہان کی گواہی اور ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ فرمایا:

’’لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ، لَادَّعَى نَاسٌ دِمَاءَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَهُمْ، وَلَكِنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْه‘‘ (مسلم کتاب الاقضیہ باب الیمین علی المدعی علیہ )

اگر لوگوں کو ان کے دعوے کے مطابق دے دیا جائے تو لوگ آدمیوں کے خون اورا موال کا دعویٰ کریں گے لیکن مدعا علیہ پر قسم ہے۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’اگر ایک شخص راست باز بھی ہو تو وہ ایک فریق مقدمہ بن کر اس بات کا ہرگز مستحق نہیں کہ اس کا بیان جو بحیثیت مدعی یا مدعا علیہ ہے اس طور سے قبول کیا جائے جیسا کہ گواہوں کے بیانات قبول کئے جاتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو عدالتوں کو گواہوں کی کچھ بھی ضرورت نہ ہوتی۔‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 110)

شہادت یا بیان کے نام پر ہر چیز کےاظہار کی اجازت نہیں ہوتی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا: ’’قانون کی پابندی ضروری شے ہے۔ جب قانون روکتا ہے تو رکنا چاہیئے، جب کہ بعض جگہ اخفاء ایمان بھی کرنا پڑتا ہے توجہاں قانون بھی مانع ہو وہاں کیوں اظہار کیا جاوے؟ جس راز کے اظہار سے خانہ بربادی اور تباہی آتی ہے وہ اظہار کرنا منع ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 228)

واقعاتی اور قرائنی شہادت بھی اہمیت کی حامل ہے

چشم دید شہادت سے مراد وہ شہادت ہے جس کا تعلق تنقیح طلب سے ہے۔ اور واقعاتی شہادت یا قرائنی شہادت Circumstantial Evidence بھی کہتے ہیں۔ یعنی قرائنی و واقعاتی شہادت کا تعلق پیش آمدہ حالات و واقعات سے ہوتا ہے۔ قرائن، قرینہ کی جمع ہے اس سے مراد وہ ثبوت یا علم یا مشاہدہ ہوتا ہے جو سوچنے پر مجبورکرے کہ بظاہر جو کہا جارہا ہے موقع اور مشاہدہ اور حالات بھی اس کی تصدیق کررہے ہیں یا نہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال سورت یوسف میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت یوسف پر لگنے والے اتہام کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ

…وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ۔ وَ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ۔ (يوسف: 27تا28)

…اور اس کے گھر والوں ہى مىں سے اىک گواہ نے گواہى دى کہ اگر اُس کى قمىص سامنے سے پھٹى ہوئى ہے تو ىہى سچ کہتى ہے اور وہ جھوٹوں مىں سے ہے۔ اور اگر اُس کى قمىص پىچھے سے پھٹى ہوئى ہے تو ىہ جھوٹ بول رہى ہے اوروہ سچوں مىں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں قرائی شہادت (Circumstantial Evidence ) کی معین مثال پیش کی ہےکہ موقع پر ایک گواہ قرائن سے نہ صرف شہادت دیتا ہے بلکہ ساتھ دلیل بھی دیتا ہے۔ درحقیقت حالات وواقعات کی روشنی میں واقعات کی کڑیوں کو ملاتے ہوئے عقل سلیم سے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے قرائن کی شہادت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اصول تحقیقات میں قرائن کی شہادت اور گواہی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اصول تحقیقات میں یہ قاعدہ مسلم ہے کہ اگر شہادتوں میں تناقض واقع ہو تو وہ شہادتیں قبول کی جائیں گی جن کو غلبہ ہو اور جن کے ساتھ اور ایسے بہت قرائن ہوں جو ان کو قوت دیتے ہوں۔ اسی اصول پر روز مرّہ ہزار ہا مقدمات عدالتوں میں فیصل ہوتے ہیں۔ اور نہ صرف دیوانی بلکہ خونی مجرم بھی جو اپنی صفائی کے گواہ بھی پیش کرتے ہیں۔ ثبوت مخالف کے زبردست ہونے کی وجہ سے بلاتامل پھانسی دئیے جاتے ہیں۔ غرض جو لوگ عقلمند ہوتے ہیں وہ بچوں اور کم عقلوں کی طرح کسی ایسی بیہودہ بات پر تسلّی پذیر نہیں ہوسکتے جو بڑے اور زبردست ثبوتوں کے مخالف پڑی ہو یہ تو ظاہر ہے کہ جب کسی فریق کو خیانت اور جعلسازی کی گنجائش مل جائے تو وہ فریق ثانی کا حق تلف کرنے کے لئے دقیق در دقیق فریب استعمال میں لاتا ہے اور بسا اوقات جھوٹی اسناد اور جھوٹے تمسکات بنا کر پیش کر دیتا ہے مگر چونکہ خدا نے عدالتوں کو آنکھیں بخشی ہیں اس لئے وہ اس فریق کے کاغذات پیش کردہ پر آپ غور کرتے ہیں کہ آیا ان میں کچھ تناقض بھی ہے یا نہیں۔ پھر اگر تناقض پایا جائے تو انہیں باتوں کو قبول کرتے ہیں۔ جن کو غلبہ ہو اور ان کے ساتھ بہت سے قرائنی ثبوت اور تائیدی شہادتیں ہوں۔‘‘

(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 193تا194)

گویا حکم وعدل علیہ السلام نے یہاں حقیقت حال تک پہنچے نے خصوصاً دو اصولوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ

1۔ ثبوت، گواہی یا گواہیوں میں تناقُض کا جائزہ لیا جائے۔

2۔ قرائن کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

پس اگر تناقُض اور قرائن کو مدنظر رکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے قاضی شہادت یا ثبوت پر غور کرتے ہوئے صحیح فیصلہ تک پہنچ سکتا ہے۔

حلف

اگر شہادت اور گواہان نہ ہوتو حلف پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے جہاں جھوٹی قسم پر شدید وعید فرمائی ہے، مثلاً فرمایا کہ

مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ(بخاری، کتاب الشھادات، بَابُ سُؤَالِ الحَاكِمِ المُدَّعِيَ: هَلْ لَكَ بَيِّنَةٌ؟ قَبْلَ اليَمِينِ)

وہاں اپنے ارشادات اور سنت سے یہ اصول بھی قائم فرمایا ہے کہ ثبوت نہ ہوں تو پھر بہرحال قسم یا حلف ہی فیصلہ کا آخری ذریعہ ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں:

انَّ النَّبِيَّ قَضَى أَنَّ اليَمِينَ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ۔ (بخاری کتاب الشہادات باب الیمین علی المدعا علیہ)

آنحضرتؐ نے مدعا علیہ سے قسم اٹھوانے کا فیصلہ فرمایا ہے۔ پس حسب ارشاد نبیﷺ اگر گواہی اور ثبوت میسر نہ ہو، تو فیصلہ کا آخری طریق مدعاعلیہ پر حلف ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اس طریق کی بابت وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’فیصلہ کرنے کے لئے اخیری طریق حلف ہے‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد9صفحہ93تا94)

ایک اَور جگہ حلف کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’بعض صورتوں میں قسم فیصلہ کے لئے ایک ذریعہ ہے اور خدا کسی ذریعہ ثبوت کو ضائع کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اس سے اُس کی حکمت تلف ہوتی ہے یہ طبعی امر ہے کہ جب کوئی انسان ایک متنازعہ فیہ امر میں گواہی نہ دے تب فیصلہ کے لئے خدائی گواہی کی ضرورت ہے اور قسم خدا کو گواہ ٹھہرانا ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ29تا30)

جب کسی انسان کے پاس اپنے حق میں دینے کے لیے کوئی ثبوت یا انسانی شہادت نہ ہو، تو پھر حلف کے ذریعہ وہ اپنے بیان کی صداقت اور سچائی کےلیے اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اُس کو گواہ مقرر کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’انسان جب قسم کھاتا ہے تو اِس کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رؤیت کا قائم مقام ٹھہراوے کہ جواپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھو تو قسم کااصل مفہوم شہادت ہی ہے۔ جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتا ہے تا اُس سے وہ فائدہ اٹھاوے جو ایک شاہد رویت کی شہادت سے اُٹھانا چاہیئے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 95، حاشیہ)

فرمایا: ’’قسم درحقیقت ایک قِسم کی شہادت ہے جو شاہد رؤیت کے قائم مقام ہو جاتی ہے‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 97، حاشیہ)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اسلام میں لعنت اللہ علی الکاذبین کہنا ایک بددُعا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ جو شخص کاذب ہے وہ خدا کی رحمت سے نومید ہو اور اُس کے قہر کے نیچے آجائے۔ اِسی لئے قرآن شریف میں ایسے مردوں یا ایسی عورتوں کے لئے جن پر مجرم ہونے کا شبہ ہو اور اُن پر اَور کوئی گواہ نہ ہو جس کی گواہی سے سزاد ی جائے۔ ایسی قسم رکھی ہے جو مؤ کّد بہ لعنت ہو، تا اِس کا نتیجہ وہ ہو جو گواہ کے بیان کا نتیجہ ہوتا ہے یعنی سزا اور قہر الٰہی۔‘‘

(نزول المسیح حاشیہ صفحہ 75طبع اول بحوالہ روحانی خزائن جلد 18)

عامۃ المسلمین کی شہادت قابل اعتبار ہے

بالعموم ہر عاقل وبالغ مومن کی شہادت قابل قبول ہوتی ہے، سوائے اس کےکہ کسی شرعی وجہ کی بنا پر وہ شہادت کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہو، یا قانونی وجوہ کی بنا پر بعض افراد کو اُن کی مفوضہ ذمہ داریوں کی بنا پر بطور شاہد پیش ہونے سے روکا گیا ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ اس طریق کی بابت وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہم مامور ہیں کہ مؤمن پر حُسن ظن کریں۔ اور اس کی شہادت کو ساقب الاعتبار نہ سمجھیں‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 97، حاشیہ)

بوقت طلب گواہ، گواہی چھپانا معصیت ہے

قرآن کریم نے ناصرف سچی گواہی دینے کی تلقین فرمائی ہے، بلکہ گواہی کو چھپانے والے کو گناہگار قرار دیا ہے اور ایسا کرنے کو مجرمانہ فعل بیان کیا ہے۔ فرمایا:

وَ لَا تَکۡتُمُوا الشَّہَادَۃَ وَ مَنۡ یَّکۡتُمۡہَا فَاِنَّہٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُہٗ(البقرة: 284)

اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ۔ اور جو کوئی بھی اسے چھپائے گا تو یقیناً اس کا دل گنہگار ہو جائے گا۔

گواہی اور شہادت کو چھپانے کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ بعض صاحب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اپنے بعض مصالح کی وجہ سے خاموش رہنا پسند کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ سچی شہادت میں عام لوگوں کی ناراضگی مقصود ہے اور جھوٹ بولنے میں معصیت ہے اور نہیں سمجھتے کہ اخفاء شہادت بھی ایک معصیت ہے‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 358)

مزید فرمایا: ’’سو ایسے لوگ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو سچی گواہی کو چھپائے گا اس کا دل خدا کا گناہ گار ہے۔ جہاں تک میں دیکھتا ہوں سرکاری عہدہ داروں کو بھی کوئی قانون ایسی سچی گواہی سے نہیں روکتا جس میں جائز طور پر سچائی کی مدد ہو۔‘‘

(استفتاء، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 136)

ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ ’’شہادت کا چھپانا گناہ ہے اور جب سر کار بلائے تو ضرور حاضر ہونا چاہئے شہادت سے جب کسی کی بھلائی ہو اور حق کھل جاوے تو کیوں ادا نہ کرے۔ ہر جگہ جو انسان قدم رکھتا ہے اس میں خدا کی حکمت ہوتی ہے زمین پر کچھ نہیں ہوتا جب تک آسمان پر تحریک اور مقدّر نہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 495)

جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں

قرآن کریم نے گواہوں کو اس حوالے سے پابند کیا کہ گواہان کو جب شہادت کے لیے بلایا جائے تو شہادت کے لیے جانے سے انکار نہ کریں۔ فرمایا:

وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا (البقرة: 283)

اور جب گواہوں کو بلاىا جائے تو وہ انکار نہ کرىں۔

حضرت مسیح موعودؑ اس بابت وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب تم سچی گواہی کے لئے بلائے جاؤ تو جانے سے انکار مت کرو۔ اور سچی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو چھپائے گا اُس کا دل گنہگار ہے اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے۔ اگرچہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو۔ حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو۔ جھوٹ مت بولو اگرچہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے یا اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو۔ اور چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 361)

اسی مضمون کے تناظر میں ایک اَور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’بعض انسانوں کو دیکھو گے کہ کافیاں اورشعرسن کر وجد وطرب میں آجاتے ہیں، مگر جب مثلاً ان کو کسی شہادت کیلئے بلایا جائے، تو عذر کریں گے کہ ہمیں معاف رکھو۔ ہمیں تو فریقین سے تعلق ہے۔ ہمیں اس معاملہ میں داخل نہ کرو۔ پس سچائی کا اظہار نہ کریں گے۔ ایسے لوگوں کے وجدوسرور سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ جب کسی ابتلاء میں آجاتے ہیں، تو اپنی صداقت کا ثبوت نہیں دے سکتے۔ اُن کا وجدوسرور قابلِ تعریف نہیں۔ یہ وجد وسُرور ایک عارضی چیز اور طبعی امر ہے…سچائی کا کمال جس سے خدا خوش ہوتا ہے وُہ یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے ساتھ اپنی وفاداری دکھائے۔ ایسے انسان کا تھوڑا عمل بھی دوسرے کے بہت عمل سے بہتر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 472)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ناصرف یہ نصیحت فرمائی ہے کہ جب بھی کوئی گواہی کے لیے بلائے تو جاکر ضرور سچی گواہی دینی چاہیے، بلکہ خود عمل کرکے بھی دکھایا ہے۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود کا اپنا ایک واقعہ ہے جس میں ایک شخص نے ایک گواہی کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام لکھوادیا۔ جس پر ایک صاحب نے کہا کہ حضورؑ کو گواہی کے لیے جانے کی تکلیف ہوگی اسی لیے اس پر آپؑ کی شہادت لکھائی ہے کہ یہ لوگ تکالیف کو دیکھ کر صلح کر لیں۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ’’ہمیں کوئی تکلیف نہیں قرآن کا حکم ہے کہ جب گواہی کے لئے بلایا جاوے تو جاؤ۔ میں کوئی بے دست و پاتو ہوں نہیں۔ ہمیشہ پیدل بٹالہ آیا جایا کرتا تھا۔ یہ تو کوئی بات نہیں چلنے پھرنے کی عادت ہے‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 421)

قاضی میں قوّت فیصلہ ہونی چاہیے

درست اور متناسب فیصلہ سازی کے لیے قاضی کا بیّن طور پر قوت فیصلہ کا حامل ہونا ضروری ہے، اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’وہ جو زیرک اور ذکی ہیں اور اپنے اندر قوت فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل و قال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اس تقریر کو پہچان لیتے ہیں اور باطل جو تکلف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 332)

فیصلہ لکھنے کے طریق کا علم اور اچھے فیصلے کے خواص

جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعویٰ سے قبل خصوصاً ملازمت سیالکوٹ میں بے شمار عدالتی اور انتظامی دفاتر کی امسلہ پڑھنے کا موقع ملا تھا، بلکہ اپنی زندگی میں متعدد مقدمات میں براہ راست فریق بھی رہے۔ آپ علیہ السلام اپنے تجربہ کی بنا پر اچھے فیصلے کے خواص نہایت ہی جامع طور پر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’مثلاً ایک حاکم جس کا یہ کام ہے کہ فریقین اور گواہوں کے بیان کو ٹھیک ٹھیک قلمبند کرے اور ہریک بیان پر جو جو واقعی اور ضروری طور پر جرح قدح کرنا چاہئے وہی کرے اور جیسا کہ تنقیح مقدمہ کے لئے شرط ہے اور تفتیش امر متنازعہ فیہ کے لئے قرین مصلحت ہے سوال کے موقعہ پر سوال اور جواب کے موقعہ پر جواب لکھے اور جہاں قانونی وجوہ کا بیان کرنا لازم ہو۔ ان کو درست طور پر حسب منشاء قانون بیان کرے اور جہاں واقعات کا بہ ترتیب تمام کھولنا واجب ہو۔ ان کو بہ پابندی ترتیب و صحت کھول دے اور پھر جو کچھ فی الواقعہ اپنی رائے اور بتائید اُس رائے کے وجوہات ہیں ان کو بہ صحت تمام بیان کرے‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 400، حاشیہ نمبر11)

قاضی پورے غور و فکر کے بعد فیصلہ کرے

قاضی کو محنت اور غور وخوض کے ساتھ فریقین کے تمام بیانات، گواہیاں اور ساری مسل کاجائزہ لے کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ بطور خاص فریقین نے جو دلائل دیے ہیں ان دلائل کو درست یا غلط قرار دینے کی جو جو وجوہات ہیں ان کو بالوضاحت درج کرنا چاہیے۔ بطور خاص اگر دعویٰ ڈگری کیا جارہاہے۔ تو مدعاعلیہ کے دلائل کو رد کرنے کی وجوہات بدلائل ہی درج ہوں تاکہ مدعاعلیہ کو یہ اعتراض نہ ہو کہ میری فلاں دلیل پر قاضی نے غور نہیں کیا۔ اس حوالے سے اس زمانے کے حکم وعدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جیسے اگر جج نہ مدعی کی وجوہات بہ تصریح قلمبند کرے۔ نہ مدعا علیہ کے عذرات کو بدلائل قاطعہ توڑے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ صرف اس کے اشارات سے فریقین اپنے اپنے سوالات و اعتراضات و وجوہات کا جواب پالیں اور کیونکر ایسے مبہم اشارات پر جن سے کسی فریق کا باطمینان کامل رفع عذر نہیں ہوا حکم اخیر مترتب ہوسکتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 224، حاشیہ نمبر11)

قاضی اور منصف کے خواص میں یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ فیصلہ پورے غور اور دلائل سے ہونا ضروری ہے۔ جیسے فرمایا: ’’جس شخص نے ہماری کسی کتاب کو پڑھا ہوگا وہ اگر چاہے تو شہادت دے سکتا ہے کہ ہماری تحریریں ملمع اور سرسری ہرگز نہیں ہوا کرتیں، بلکہ ایک منصف اور عقل مند حاکم کی تحقیقات سے مشابہ ہیں جو مقدمہ کی تہہ کو پہنچ کر اور ہر یک تنقیح طلب امر کا پورا پورا تصفیہ کرکے پھر حکم صادر کرتا ہے‘‘

(شحنہ حق، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 425تا426)

قاضی کا غیر جانبدار اور مجسم انصاف ہونا ضروری ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’عدالت ایک مشکل امر ہے جب تک انسان تمام تعلقات سے علیحدہ ہو کر عدالت کی کرسی پر نہ بیٹھے تب تک اس فرض کو عمدہ طور پر ادا نہیں کر سکتا‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 55)

’’خدا تعالیٰ خود انصاف ہے اور انصاف کو دوست رکھتا ہے۔ وہ خود عدل ہے عدل کو دوست رکھتا ہے۔ اس لیے ظاہری رشتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ310)

’’انصاف کو ہاتھ سے نہ دیجئے، مثل مشہور ہے الانصاف أحسن الأوصاف‘‘

(الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 260)

’’پھر جس حالت میں قرآن کہتا ہے کہ تم انصاف اور سچ مت چھوڑو اگرچہ تمہاری جانیں بھی اس سے ضائع ہوں۔‘‘

(نور القرآن، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 404)

’’قرآن کریم اس مضمون سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ ظالموں سے پیار نہیں کرتا اور عدل کو چھوڑنے والے کبھی مورد فضل نہیں ہوسکتے…خدا تعالیٰ ظالموں اور معتدین کو جو طریق عدل اور انصاف چھوڑ دیتے ہیں دوست نہیں رکھتا‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 134تا135)

’’تمام قویٰ کا بادشاہ انصاف ہے۔ اگر یہ قوت ہی انسان میں مفقود ہے تو پھر سب سے محروم ہونا پڑتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ24)

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے‘‘

(نورالقرآن، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 409)

قاضیان کے لیے حضرت مسیح موعود کی دعائیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عدل اور پوری تحقیق سے فیصلہ کرنے والے قاضی کے دعائیں بھی کی ہیں۔ فرمایا: ’’ہم تہ دل سے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایسے حکّام کو جو ہر ایک جگہ انصاف اور عدل کو مدنظر رکھتے ہیں اور پوری تحقیق سے کام لیتے ہیں اور احکام کے صادر کرنے میں جلدی نہیں کرتے ہمیشہ خوش رکھے اور ہر ایک بلا سے ان کو محفوظ رکھ کر اپنے مقاصد میں کامیاب کرے‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 3)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button