حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ جرمنی کی (آن لائن) ملاقات

اس بات کو ذہن میں رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جو ہمیں کچھ دے سکے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 14؍نومبر 2021ءکو ناصرات الاحمدیہ جرمنی (ایسی ممبرات جن کی عمر 13 سے 15 سال ہے) سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ530 سے زائد ناصرات الاحمدیہ نے اس آن لائن ملاقات میں Maimarkt Club Mannheimسے شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا ، جس کے بعد ممبرات ناصرات الاحمدیہ کو اپنے عقائد اور عصر حاضر کے مسائل کی بابت حضور انور سے براہ راست چند سوالات پوچھنے کا موقع ملا ۔

ایک ممبر ناصرات الاحمدیہ نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اور یقیناً ہم نے قرآن کریم کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا۔ تو میرا سوال ہے پھر ہمیں تفاسیر کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔

حضور انور نے فرمایا :آسان بنا دیا ہے اس میں جو باتیں ہیں وہ آسان ہیں عمل کرنے کے لحاظ سے۔ ٹھیک ہے۔ نصیحت اللہ تعالیٰ نے کی ہے، جو بعض کھلی باتیںہیں جو ظاہری احکامات دیے ہیں وہ بڑے آسان آسان دیے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ اور اس کواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نصیحتیں جو ہیں کوئی مشکل نہیں ہیں انسان کے لیے جو انسان کے جو قویٰ ہیں، جو انسان کی طاقتیں ہیں، جو انسان کی دماغی حالت ہے اس کے لیے اس کو سمجھنا اور اس پہ عمل کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ جی بہت مشکل کام اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے یہ غلط ہے۔ ہاں اگر تمہیں سمجھ نہیں آتی کسی بات کی تمہیں مشکل لگتا ہے تو اس کے لیے پھر تفسیر موجود ہے مفسرین نے اس کی آسان تفسیر کر کے تمہیں سمجھا دیا کہ اس کا یہ یہ مطلب ہے۔ ٹھیک ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے ساتھ یہ بھی سمجھا دیا کہ جو پاک صاف لوگ ہوتے ہیں انہی کو اس کی باتیں سمجھ آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ جو ظالم ہیں ان کو نقصان ہی ہوتا ہے اس سے ان کو سمجھ نہیں آتی۔ مومن جو ہیں ان کو فائدہ ہوجاتا ہے اور ظالموں کو سمجھ نہیںآتی۔ ان کو نقصان ہی ہو گا اس کا پڑھنے کا۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا فائدہ ہے دوسری طرف کہتا ہے اس کا نقصان ہے۔ فائدہ کس کو ہے؟ جو مومن ہے۔ نقصان کس کو ہے ؟جو کافر ہیں۔ جو نہیں ماننا چاہتے جو سمجھنا نہیں چاہتے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسے احکامات دیے ہیں جن پہ عمل ایک انسان کر سکتا ہے اور جو اس کا مقصد پیدائش ہے اس کو پورا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کا مقصد پیدائش جو ہے عبادت کرنا ہے ٹھیک ہے۔ اور وہ عبادتیں جو ہیں اللہ تعالیٰ نے جو طریقہ عبادت کا بتایا ہے کہ وہ ایسی مشکل نہیں کہ آدمی کر نہ سکے۔ کہاں پچاس نمازوں سے اللہ تعالیٰ نے کہنا شروع کیا تھا پھر ان کو آسان کرتے کرتے پانچ نمازوں پہ آ گیا۔ ٹھیک ہے۔ تو آسانی ہو گئی تمہارے لیے اور پانچ وقت ایسے ہیں جو انسانی فطرت کے لحاظ سے، انسانی طبیعت کے لحاظ سے، روز مرہ کے وقت کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ جس میں انسان کی ضرورت ہوتی ہے کہ دعا کرے اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہو اور پھر اس کا قرب پائے۔ تو یہ مطلب ہے آسان بنانے کا۔ یہ مطلب ہے کہ اس پر عمل کرنا مشکل نہیں ہے انسان سمجھتا ہے بہت مشکل ہے۔ ہاں جو مومن ہے اس کے لیے مشکل نہیں ہے جو کافر ہے اس کے لیے بہت مشکل ہے۔ جو مومن ہے اس کو فائدہ ہوتا ہے جو کافر ہے اس کو نقصان ہوتا ہے۔

ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ دعاؤں کی جلد قبولیت کے لیے انہیں کیا کرنا چاہیے۔

حضور انور نے فرمایا:یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ اس نے کب ہماری دعاؤں کو قبول کرنا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ ہمارا غلا م ہے؟ ہر گز نہیں ۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ اس سے مانگتے رہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جو ہمیں کچھ دے سکے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر قادر ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو خود فرماتا ہے کہ ہمیں اس سے دعا کرنی چاہیے اور وہ ہماری دعائیں قبول کرے گا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ دعا کرنے والے کو اس پر یقین ہونا چاہیے اور کامل ایمان ہونا چاہیے۔ اس لیے آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ وہ آپ کی دعا قبول کرے گا۔ آپ کو کامل یقین ہونا چاہیے کہ اللہ جو بھی فرما رہاہے وہ سچ ہے اور آپ کو اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اس کا کیا مطلب ہے یعنی اللہ پر یقین کا ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو بھی احکامات دیے ہیں ہم ان پر عمل پیرا ہوں۔

حضور انور نے مزید فرمایا :اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پنجوقتہ نماز ہر روز ادا کرنا فرض ہے اور یہ کہ ہم انہیں پورے اخلاص اور توجہ سے ادا کریں ۔ اب آپ کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے ، کیا آپ پوری توجہ سے اپنی نمازیں پڑھ رہے ہیں اور کیا آپ اپنی نمازوں میں اخلاص کا مظاہرہ کر رہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بری چیزوں کے بارے میں مت سوچو۔ کیا آپ ایسی سوچوں سے بچ رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ بری صحبت اور بری مجلس سے بچیں۔ تو آپ کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا آپ برے او ر بے حیائی والے پروگرامز سے جوانٹر نیٹ اور ٹی وی وغیرہ پر نشر ہوتے ہیں، سے بچ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہم اپنے ماحول میں رہنے والے لوگوں سے اچھا سلوک کریں جن میں ہمارے بہن، بھائی اور جن سے ہم ملتے ہیں اور یہ کہ ہم کسی برے کام میں ملوث نہ ہوں ۔ اس لیے جائزہ لیں کہ آیا ہم اس کے مطابق عمل کر رہے ہیں یا نہیں ۔ جب ہمارے جملہ اعمال نیکیوں پر منتج ہوں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیر اہوں گے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ یہ سب کریں گے اور پھر مجھ سے دعا کریں گے ، عبادت کرتے ہوئے تو پھر میں آپ کی دعائیں سنوں گا۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی پھر ہی ہماری دعائیں قبول ہو سکتی ہیں۔

ایک اَورناصرہ نے سوال کیا کہ کیا عورتیں امام بن سکتی ہیں؟

حضور انور نے فرمایا : عورتیں عورتوں کی امام بن سکتی ہیں مردوںکی نہیں بن سکتیں۔ ٹھیک ہے۔ یہی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ہم اگر مسلمان ہیں پکے مسلمان ہیں قرآن اور سنت پہ عمل کرنے والے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوںکو ماننے والے ہیں تو پھر ہمیں وہی کرنا چاہیے جو ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور انہوں نے یہ فرمایا کہ مرد جو ہے وہ امام بنے گا اور اگر عورتیں ہوں ایسی مجبوری ہو تو پھر عورت امام بن سکتی ہے جہاں صرف عورتیں ہوں۔ ٹھیک ہے۔ تو اس لیے ہمارے ہاں بھی جب نمازیں ہوتی ہیں بعض فنکشن ہوتے ہیں تو عورتیں نمازیں پڑھا لیتی ہیں۔ ربوہ میں مجھے یاد ہے پرانے زمانے میں جب ساؤنڈ سسٹم پوری طرح اچھا نہیں تھا تو جب جلسہ ہوا کرتا تھا ، لجنہ کی مارکی میں جو جلسہ ہوتا تھا اس میں وہاں ظہر عصر کی باجماعت نمازیں عورتیں پڑھایا کرتی تھیں عورتوں کو۔ مردوں کے حصے سے آواز وہاں نہیں جاتی تھی۔

ایک اَور ناصرہ نے سوال کیا کہ مردوں کی تین تنظیمیں ہیں اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ۔ عورتوں کی صرف دو تنظیمیں کیوں ہیں؟

حضور انور نے فرمایا : مردوں کی تین تنظیمیں ہیں عورتوں کی دو ہیں۔ اطفال اور خدام اور انصار ٹھیک ہے اور عورتوں کی ہیں ناصرات پندرہ سال تک اور اس کے بعد لجنہ۔ ٹھیک ہے۔ عورتیں کہتی ہیں ہم نے چالیس سال سے اوپر بڑا ہونا ہی نہیں تو پھر تنظیم کس طرح بنائیں۔ وہ کہتی ہیں ہم کوئی بوڑھی ہو گئی ہیں۔ کسی عورت کو تم کہو بوڑھی ہو گئی ہو تو وہ مانے گی۔ تمہارے سے لڑنے لگ جائے گی۔ اس لیے عورتوں کی نفسیات کے مطابق عورتوں کی تنظیمیں بنائی گئی ہیں اور اس میں لجنہ میں، ایک لفظ میں ہی جو تو صحیح طرح حق ادا کرنے والی ہیں جماعتی خدمت کا وہ لجنہ کے کام میں آ جاتی ہیں اور خدام میں کیونکہ پندرہ سے چالیس سال کی عمر تک ایک نوجوانی کی عمر ہوتی ہے کام بھی کر رہے ہوتے ہیں ان کی activities بھی مختلف ہوتی ہیں عورتوں سے۔ عورتوں کی activities ایک وقت میں جا کے ایک ہی ہو جاتی ہیں ٹھیک ہے عمومی طور پے۔ گھر کو سنبھالنا۔ ٹھیک ہے۔ عورتیں بھی ایسی ہیں جو کام کرنے والی ہیں ڈاکٹر بھی ہیں انجنیئر بھی ہیں دوسرے کام بھی کرتی ہیں لیکن عموماً جب شادی ہو جاتی ہے تو عورت کا گھر سنبھالنا ہی کام رہ جاتا ہے تو وہ عورت چاہے وہ پچیس سال کی عورت ہے بیس سال کی ہے چاہے وہ پچاس سال کی اس کا تقریباً ایک ہی ملتا جلتاکام بنتا ہے ۔ اس لیے ان کی activities کے لحاظ سے ان کو ایک گروپ شمار کیا گیا ہے اور مردوں میں کیونکہ مختلف activities ہوتی ہیں چالیس سال تک ان کی activities اور ہوتی ہیں خدام کی اس کے بعد اور مختلف ہو جاتی ہیں تو پھر جو سوچ میں فرق ہے عورت جلدیmature ہو جاتی ہے اور اس کی سوچ اور بڑی کی سوچ تقریباً ملتی جلتی ہیں۔ مردوں کی جو سوچ ہے بڑھاپے میں جا کے بالکل علیحدہ ہو جاتی ہے۔ ایک یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ تو تین کیٹیگریز اس لیے بنائیں کہ مختلف مردوں کو زیادہ کام کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے اور عورتوں سے یہ بھی امید رکھی گئی ایک یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ عورتوں سے یہ امید رکھی گئی، ہے کہ وہ چاہے پچیس سال کی ہو یا پچاس سال کی ہو وہ اسی طرح ایکٹو ہو کے کام کرے گی لجنہ کا جو کام کرنے والی ہے جس طرح ایک پچیس سال والی کر رہی ہے اور اس لیے فرق نہیں رکھا۔ تو حضرت مصلح موعودؓ نے جب بنائی تھیں تنظیمیں ایک تو اس لیے بنائی تھیں تاکہ مرد جو ہیں نوجوانوں کا ایک طبقہ علیحدہ رکھا جائے اور ان سے زیادہ کام لیا جائے اور مردوں سے بعض کام ایسے لیے جاتے ہیں جو زیادہ سخت ہوتے ہیں جو انصار کی عمر میں پہنچ کے انسان نہیں کر سکتا۔ اس لیے بھی ایک فرق شاید رکھا ہو۔ عورتوں کی جو کام کی نوعیت ہے وہ ایک طرح کی ہوتی ہے وہ کر سکتی ہیں چاہے وہ پچیس سال کی ہو تیس سال کی ہو پینتیس سال کی ہو، یا پینتالیس سال کی، یا پچاس سال کی۔ تو یہ وجوہات ہوسکتی ہیں باقی یہ تو اچھی بات ہے کہ تم لوگوںکی عمروںکا پتہ نہیں لگتا۔ نہیں تو پتہ لگ جائے گا کون عورت چالیس سال کی ہو گئی پھر بھی پریشان ہوتی رہو گی۔

ایک دوسری ناصرہ نے سوال کیا کہ آج کل کے غیر مسلمان نوجوان جو ہیں وہ سوشل میڈیاکے برے اثرات کی وجہ سے خدا اور دین سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں اور اگر ہم ان کو کچھ سمجھائیں تووہ ہماری بات نہیں سنتے۔ میرا سوال ہے کہ ہم ان کو کیسے یقین دلا سکتے ہیں کہ ایک خدا ہے۔

حضور انور نے فرمایا : پہلی بات تو یہ ہے، پہلے تو اپنوں کو بھی سنبھالو کہ ہمارے اپنے بچے بچیاں جو ہیں ناں وہ ان کے انفلوئنس (influence)میں نہ آ جائیں ان کے اثر کے تحت نہ آ جائیں۔ پہلے ہمارا کام ہے اپنوں کو سنبھالنا ان کو بتانا اچھی طرح کہ خدا ہے۔ اور اس کے لیے خدا کے ثبوت کے طور پہ واقعات پیش کرنا اپنی کہانیاں سنانا واقعات بیان کرنا یہ بڑوں کا بھی کام ہے۔ اپنی دعاؤں کی قبولیت کی باتیں بتانا یہ بھی کام ہے اچھی کوئی خواب دیکھے اور پوری ہو جائے تو وہ بھی بتانا کہ اچھا اس طرح خدا ہے۔ باقی یہ لوگ جو ہیں سوشل میڈیا پہ جا کے اللہ تعالیٰ کے خلاف باتیں کرتے ہیں یا ایسی باتیں کرتے ہیں جو مذہب سے دور لے جانے والی ہیں۔ مذہب سے دور لے جانے والی ہیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں تو یہ تو شیطانی چالیں ہیں شیطان نے کہا تھا جب آدم پیدا ہوا تھا اس وقت بھی کہا تھا کہ میں ان کو بگاڑنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ ہر زمانہ میں شیطان نے اپنا اپنا طریقہ اختیار کیا ہے اس زمانے میں شیطان نے سوشل میڈیا کو بھی اختیار کر لیا ہے ۔ اب سوشل میڈیا جو ہے نیک کاموں کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور برے کاموں کے لیے بھی۔ ٹھیک ہے۔ اب سوشل میڈیا پہ تم اچھی باتیں ڈال کے تو لوگوں کو نیکی کی طرف بھی لے کے آ سکتی ہو۔ لیکن آج کل سوشل میڈیاپر زیادہ تر ایسی باتیں ڈالی جاتی ہیں جو اخلاق کو خراب کرنے والی ہیں جو مذہب سے دور لے جانے والی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں، تو اس کے جواب میں تم لوگوں کو چاہیے جب ایسی باتیں دیکھو،جو پڑھی لکھی اور علم والی لڑکیاں ہوں بتاؤ کہ سوشل میڈیا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ آیا لیکن اس کا جواب یہ ہے۔ مذہب کے بارے میں تم نے یہ لکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے اپنی ایک ٹیم بناؤ نوجوان لڑکیوں کی وہ سوشل میڈیا پہ جواب دیں۔ اگر تمہارے سے بڑھ کے سوال ہے تو پھر لجنہ کو چاہیے کہ لجنہ ایک ٹیم بنائے اور ان کے جواب دیں اور خدام الاحمدیہ اور اسی طرح جماعت کی باقی تنظیمیں لوگ بھی اس کے جواب دیں سوشل میڈیا پہ ہی اسی جگہ جہاں سوشل میڈیا پہ یہ آتا ہے وہیں کمنٹس(comments) کا بھی کالم ہوتا ہے ایک۔ ٹھیک ہے اس کمنٹ میں تم اپنی باتیں لکھ سکتی ہو تاکہ ان کو بتاؤ کہ تم جو کہہ رہے ہو غلط ہے خدا یہ ہے۔ مذہب یہ ہے اور اس کی وجہ سے بعض لوگ جو فوری طور پر زیر اثر آ سکتے ہیں ان کو جب جواب مل جائے گا کہ نہیں تم غلط کہہ رہے ہو اصل بات یہ ہے تو پھر وہ بھی سوچیں گے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے۔ جب تمہارے پاس اس سوال کا جواب ہو گا جو غلط رستے پر تمہیں لے جایا جا رہا ہے اس کو صحیح رستے پر ڈالنے کے لیے تمہارے پاس حل ہو گا اس کا۔ تو پھر لوگ پھر اس کو بھی دیکھیں گے پھر کوشش کریں گے کہ ہم اس کو بھی دیکھیں۔ باقی یہی شیطان نے کہا تھا کہ میں بگاڑ پیدا کروں گا اور آج کل شیطان سوشل میڈیا کے ذریعہ سے بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں جو احمدی ہیں تا کہ صحیح مسلمان ہونے کا حق ادا کر سکیں اور جو دوسرے ہیں ان کو بچانے کے لیے سوشل میڈیا پہ ہی اس کا جواب دو تا کہ ان کی جو غلط باتیں ہیں ان کا رد ہو جائے ان کو جواب مل جائے۔ ٹھیک ہے۔

ایک اَورناصرہ نے سوال کیا کہ اگر سکول میں بہت زیادہ racism کا سامنا کرنا پڑے اور کوئی بات نہ کرے یہاں تک کہ گروپ پروجیکٹس میں بھی ساتھ کام نہ کرنا چاہے۔

حضور انور نے فرمایا: اگر تمہارے ساتھ جو جرمن ہیں وہ بات بھی نہ کرنا چاہیں۔ تو پھرایسی صورت میں ہمارا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے؟ بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں ایک تو تم racismاگر ہے تو جو سکول کی ایڈمنسٹریشن ہے اس کو کہو کہ یہ racismہے اس کو ختم کرنا چاہیے۔ ٹھیک ہے۔ دوسرے ساری تو نہیں racistہوتیں ۔ چند ایک ہی ہوتی ہیں دو چار۔ جو باقی اچھی لڑکیاںہیں یا اچھے سٹوڈنٹ ہیں ان سے تم رابطہ رکھ سکتی ہو۔ ٹھیک ہے۔ ان سے کہو یہ دیکھو ہم تو جرمنی میں آئے، ہم جرمن زبان بول رہے ہیں، ہم جرمن قوم کے ملک کے وفادار بھی ہیں، یہی مذہب نے ہمیں سکھایا ہے اور ہم تمہاری خاطر کام بھی کر رہے ہیں۔ اب میں پڑھائی سکول میں کر رہی ہوں تو اس لیے کر رہی ہوں تا کہ میں بڑی ہو کے کوئی اچھا کام کر سکوں اور ملک کے کام آ سکوں۔ ڈاکٹر بنوں یا انجنیئر بنوں یا فلاں بنوں اور ہماری بہت ساری لڑکیاں بنی ہوئی ہیں۔ تو اس قسم کی اگر racism ہو تو پھر تو لڑائیاں ہی ہوتی رہیں گی اس لیے ہمیں نہیں کرنی چاہیے اور کہیں کہ اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ racismتو کوئی چیز نہیں ہے۔ جب ہم وفادار ہیں ملک کے تو ہمارے سے یہ کیوں سلوک ہوتا ہے۔ جو اچھی لڑکیاں ہیں جو racismکی قائل نہیںہیں ان کو اپنا دوست بناؤ اور ان سے ایسی باتیں کرو تو وہ خود ہی وہ racismکا جواب دیتے رہیں گے۔ بہت جگہ ایسا جرمنی میں بھی ہو رہا ہے اَور ملکوں میں بھی ہوتا ہے کہ بہت سارے ان کے اپنے لوکل لوگ جو ہیں وہی ہمارے دوسری قوموں کے لوگوں کے ایشین کے جو ایشین آباد ہیں وہاں۔ ساتھ دیتے ہیں وہ کہتے ہیں جو ہمارے لوگ کر رہے ہیں غلط کر رہے ہیں اور پھر تمہاری طرف سے ہو کے وہ ان کو جواب دیتے ہیں۔ تو اپنے جو دوسری اچھی لڑکیاں اور اچھے سٹوڈنٹ ہیں ان کو دوست بناؤ وہ خود ہی ان racismکرنے والوں کو جواب دے دیں گی لیکن خود تمہیں ان کے ساتھ integrate ہونا پڑے گاجواب دینا پڑے گا۔ ان کے ساتھ مل جل کے بیٹھنا پڑے گا۔ ان کی اچھی باتیں اختیار کرو اور اپنی اچھی باتیں ان کو سکھاؤ۔

ایک اَور ناصرہ نے سوال کیا کہ یہاں جرمنی میں اکثر سکول اور اساتذہ کی طر ف سے کلاس ٹرپس کا انتظام کیا جاتا ہے جن میں پڑھائی کا حصہ بھی شامل کیا جاتا ہے ایسے طلباء و طالبات جو حصہ نہیں لیتے ان کے نام سکول کے ادارے میں دیے جاتے ہیں اور غیر حاضر رہنے کی وجہ سے سکول کے نمبروں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے پیارے حضور؟

حضور انور نے فرمایا: ایک تو یہ ہے کہ ایک تفریحی ٹرپس ہوتے ہیں ٹھیک ہےاس پہ تو میرے نزدیک بالکل نہیں جانا چاہیے۔ وہ صرف فن کے لیے ہوتے ہیں اور وہاں فن میں بیہودگیاں بھی ہوتی ہیں ان لوگوں میں ان ملکوں میں۔ ٹھیک ہے۔ دوسرے ٹرپس ہوتے ہیں جو بعض ٹرپس ایسے ہوتے ہیں جس میں تمہاری پڑھائی سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہوتی ہیں ریسرچ کے لیے جاتے ہو، مثلاً بائیالوجی کا کہ سائنس پڑھا رہے ہیں تو اس میں ٹرپ ہے بعض zoo میں لے کے جاتے ہیں یا وائلڈ لائف دکھانے کے لیے جنگل میں لے کے جاتے ہیں یا وہاں رکھتے ہیں تو اس کے لیے اگر جانا پڑے تو جانا چاہیے وہ تو کوئی دو دو راتوں کے، تین تین راتوں کے ٹرپ تو نہیں ہوتے عموماً ایک آدھ رات کا ہی ہوتا ہے۔ تو پہلے کوشش تو یہ کرنی چاہیے کہ ٹرپس کو avoid ہی کیا جائے۔ ایسے subject ہمارے نہ ہی ہوں جن میں جایا جائے لیکن تھوڑا بہت اگر اثر پڑ بھی جائے تو کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا یہاں بہت ساری لڑکیاں مَیں نے دیکھی ہیں جرمنی میں ہی وہ میڈیکل میں بھی پڑھ رہی ہیں انجنیئرنگ میں بھی پڑھ رہی ہیں اور ٹرپس وغیرہ میں کوئی نہیں جاتی رہی اپنے سکول کے زمانے میں۔ ان کو پھر بھی داخلہ مل گیا۔ اگر اچھی پرفارمنس (performance)ہو اگر تمہارے پیپر اچھے ہوں تو مجبور ہوتے ہیں یہ کہ تمہیں داخلہ دیں۔ اس لیے اس کو بہانہ نہ بناؤ کہ جی ہمارے نمبر کٹ جاتے ہیں اس لیے ہمیں جانا ضروری ہے۔ ہاں اگر صبح سے شام تک کا ٹرپ ہے ، جس سے بعض ایسی جگہوں پہ جہاں تمہارا علم بڑھتا ہے وہاں لے کے جا رہے ہیں تو اس کے ساتھ جانے میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن overnight ٹرپس عموماً avoidکرنے چاہئیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button