متفرق مضامین

دعا کے آغاز میں ’’اَللّٰہُمَّ‘‘، ’’رَبِّ‘‘ یا ’’رَبَّنَا‘‘ کہنے کی حکمت

(قمر داؤد کھوکھر۔ آسٹریلیا)

قرآن کریم میں جتنی بھی دعائیں مذکور ہو ئی ہیں وہ سب اللہ تعا لیٰ کی صفت ربّ سے شروع ہو تی ہیں یعنی دعا کے شروع میں یا تو صرف رَ بِّ لفظ رکھا گیا ہے جو قرآن کریم میں دعا کے رنگ میں 67 مرتبہ مختلف مقامات میں آیا ہے، یا رَبَّنَا کے لفظ سے دعا کوشروع فرمایا گیا ہے جو قرآن کریم میں دعا کے رنگ میں 80 مرتبہ مختلف مقامات میں آیا ہے۔ جبکہ اَللّٰہُمَّ کا لفظ قرآن کریم کی دعا ؤں میں صرف پانچ مرتبہ آیا ہے۔ اور

اَللّٰہُمَّ رَبَّنَآ

کے دونوں الفاظ قرآن کریم میں صرف ایک بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا میں جمع کیے گئے ہیں جیسے فرمایا

اَللّٰہُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً(المائدہ: 115)

اے اللہ ہمارے رب ! ہم پر نعمتوں کا دسترخوان اُتار۔

دعا کے آغاز میں اَللّٰہُمَّ کا لفظ کہنے کی حکمت

عربی میں کسی کو پکارنے یا بلانے کے لیے حرف نداء ’’یا‘‘لایا جاتا ہے جیسے کہا جائے؛یا عبداللّٰہ یعنی اے عبداللہ۔ یا جیسے اللہ کو پکارنے کے لیے یا اللہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعا لیٰ کو دعا کے وقت پکارنے کے لیے اَللّٰہُمَّ کا لفظ رکھا گیا ہے جس میں میم مشدّد حرف نداء کے بدل کے طور پر لائی گئی ہے یعنی یَا اَللّٰہ کہنے کی بجائے اَللّٰہُمَّ کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔ اور اَللّٰہُمَّ میں موجود یہ میم کسی اَور نام کے ساتھ نہیں لگائی جاتی صرف اللہ کے نام کے ساتھ مخصوص ہے۔

امام راغب الاصفہانیؒ نے اَللّٰہُمَّ کے دو معنی یہ بیان کیے ہیں کہ 1) اَللّٰہُمَّ کے معنی یا اللہ کے ہیں اوراس میں میم مشدّدحرف نداء کے بدلہ میں لائی گئی ہے۔

2) دوسرے معنی

یٰا اَللّٰہُ اَمُّنَا بِخَیْرٍ۔

اے اللہ تو خیر کے ساتھ ہماری طرف رجوع فرما۔ (المفردات فی غریب القرآن، زیر حروف: الف ل ہاء)

امام المحدثین شمس الدین ابو عبداللہ ابن قیمؒ الجوزی (691 ہجری تا751 ہجری بمطابق 491ء تا 551ء )نے اپنی تصنیف

جِلاَءُ الْاَفْہَامِ فِی الصَّلٰوۃِ وَالسَّلاَمِ عَلٰی خَیْرِ الْاَنَامِمیں اَللّٰہُمَّ

کی بحث میں اس کلمہ پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور امام حافظ محمد بن عبد الرحمان السخاوی المتوفی 902 ہجری نے امام قیمؒ کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہو ئے اپنی تصنیف القول البدیع میں یہ لکھا ہے کہ

’’اَللّٰہُمَّ ’ ھِیَ کَلِمَۃٌ کَثُرَ اِسْتِعْمَا لُہَا فِی الدُّعَاءِِ، وَ ھِیَ بِمَعْنَی یٰا اَللّٰہُ، وَالْمِیْمُ عِوَضُ حَرْفِ النِّدَاءِ، فَلاَ یُقَالُ اَللّٰہُمَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ مَثَلاً، وَاِنَّمَا یُقَالُ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ، وَلاَ یَدْخُلَھَا حَرْفَ النِّدَائِ اِلاَّ فِیْ نَادِرٍ، کَقَوْلِ الرَّاجِزِ

اِنِّیْ اِذَا مَا حَادَثَ اَلَمَّا

اَقُوْلُ یَا اَللّٰہُمَّ یَا اَللّٰہُمَّا

وَقِیْلَ بَلْ زَائِدَۃٌ کَمَافِیْ زُرْقُم، لِشَدِیْدِ الزُّرْقَۃِ، وَ زِیْدَتْ فِی الْاِسْمِ الْعَظِیْمِ تَفْخِیْمًا۔ وَ قِیْلَ بَلْ ھِیَ کَالْوَاوِ الدَّالَّۃِ عَلَی الْجَمْعِ کَاَنَّ الدَّاعِیْ قَالَ یَا مَنْ اِجْتَمَعَتْ لَہٗ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی، وَلِذَالِکَ شُدِّدَتِ الْمِیْمُ لِتَکُوْنَ عِوَضًا عَنْ عَلاَمَۃِ الْجَمْعِ…وَعَنْ اَبِیْ رِجَاءِ الْعَطَاردِیِّ اَنَّ الْمَیْمَ فِیْ قَوْلِہٖ ’اَللّٰہُمَّ‘ فِیْہَا تِسْعَۃٌ وَ تِسْعُوْنَ اِسْمًا مِنْ اَسْمَاءِ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ ‘‘( اَلْقَوْلُ الْبَدِیْعِ فِیْ الصَّلٰوۃِ عَلَی الْحَبِیْبِ الشَّفِیْعِ لامام الحافظ المورخ محمد بن عبد الرحمان السخاویؒ المتوفی 902 ہجری صفحہ166تا167مو سسۃ الریان مدینہ منورہ )

(ترجمہ از راقم ) ’’اَللّٰہُمَّ ‘‘ کا کلمہ دعا میں اکثر استعمال ہو تا ہے اس کے معنی یا اللہ کے ہیں، اس کے آخر میں میم حرف نداء کے قائم مقام ہے۔ پس

اَللّٰہُمَّ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ

نہیں کہا جاتا بلکہ

اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ

کہا جاتا ہے۔ اور اس پر حرف ندا ءداخل نہیں ہوتا مگر شاذ کے طور پر جیسا کہ اَلرَّاجِز کا قول ہے کہ جب بھی مجھے کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے تو میں

یَا اَللّٰہُمَّ یَا اَللّٰہُمَّ

کہتا ہوں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’اَللّٰہُمَّ‘‘ میں آنے والی میم زائدہ ہے جیسے لفظ زُرْقُمْ میں میم زائدہ لائی گئی ہے شدید زُرْق (نیلا رنگ)کی وجہ سے۔ (نیلے رنگ کی چیز کو أزرق کہا جاتا ہے جب نیلاہٹ زیادہ ہو اور نیلا رنگ جمع ہو کر جم جاتا ہے تو اسے زُرْقُمْ کہتے ہیں ) اسی طرح اللہ جو اسم اعظم ہے اس کی تعظیم کے لیے آخر میں میم لائی گئی ہے۔

بعض علماء نے یہ بھی کہاہے کہ ’’اَللّٰہُمَّ‘‘ میں آنے والی میم اس واؤکی طرح ہے جو جمع پردلالت کرتی ہے گویا دعا مانگنے والا عرض کرتا ہے: اے وہ ذات ! جو تمام اسمائےحسنیٰ کی مالک ہے اور میم کو مشدّد بھی اس لیے کیا گیا ہے کہ جمع کی علامت کے عوض پر دلالت کرے …ابو رجاء العُطاردِیِّسے مروی ہے کہ ’’اَللّٰہُمَّ‘‘ میں آنے والی میم میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسمائےحسنیٰ جمع ہیں۔

برصغیر پاک وہند کے عظیم الشان محدّث، شارح مشکوٰۃ المصابیح اور اہل سنت کے مشہور امام حضرت ملا علی قاریؒ (متوفی1014 ہجری، 1606ء) نے اَللّٰہُمَّ کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لغوی تحقیق کے مطابق اَللّٰہُمَّ اصل میں ’’ یا اللہ ‘‘ تھا۔ حرف نداء ’یا ‘کے عوض آخر میں میم لے آئے۔ بعض حضرات نے اس میم کو علامت جمع قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جس طرح واؤعلامت جمع ہو تی ہے اسی طرح میم بھی ہے۔ اس صورت میں اَللّٰہُمَّ کا ترجمہ ہو گا ’’اے وہ ذات جس میں سارے اسمائے حسنیٰ جمع ہو گئے۔ ‘‘حضرت خواجہ حسن بصریؒ کا قول ہے کہ اَللّٰہُمَّ کا لفظ مجتمع الدعا ہے۔ نضر بن شمیلؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اَللّٰہُمَّ کہہ کر دعا کی گویا اس نے اللہ کو اس کے سارے نامو ں سے پکارا۔ ابو رجاءؒ کا قول ہے کہ اس میم میں اللہ تعا لیٰ کے تقریباً ننانوے اسمائے مبارکہ موجود ہیں۔ (مرقات ا لمفاتیح شرح اردو مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلوٰ ۃ، باب الصلوٰۃ علی النبیﷺ، جلدسوم صفحہ27، مکتبہ رحمانیہ)

حضرت ملا علی قاریؒ مزید بیان کرتے ہیں کہ

مَنْ قَالَ اَللّٰہُمَّ فَقَدْ سَأَلَ اللّٰہَ بِجَمِیْعِ اَسْمَآئِہِ۔

جس نے (دعا کے وقت) اَللّٰہُمَّ کہا اس نے اللہ کو اس کے تمام ناموں کے ساتھ پکارا ہے۔ (مرقات ا لمفاتیح شرح اردو مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات، جلددوم صفحہ339، مکتبہ رحمانیہ)

گویا اَللّٰہُمَّ کے لفظ میں اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنیٰ سمائے ہو ئے ہیں۔ اور چونکہ اللہ اسم ذات ہے اس لیے اس کی تمام صفات بھی اس میں آجاتی ہیں اور اللہ تعا لیٰ ہی وہ ذات ہے جو تمام کمالات عالیہ اور صفات حسنہ کا مرکز اور سرچشمہ ہے اس لیے دعا کے وقت اَللّٰہُمّ کے لفظ کے ساتھ دراصل اللہ تعا لیٰ کی الوہیت (خدائی) کا واسطہ دے کر اور اسے وسیلہ و ذریعہ بنا کر اس سے دعا کی جاتی ہے۔ اور جیسے کہ اللہ تعا لیٰ نے خود بیان فرمایا ہے کہ

وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا (الاعراف: 181)

اور اللہ ہی کے سب خوبصورت نام ہیں پس اسے ان نامو ں کے ساتھ پکارا کرو۔ اس حکم ربانی کے مطابق جب ایک دعا کرنے والا اللّٰھُمَّ کا لفظ بولتا ہے تو گو یا وہ اللہ تعالیٰ کو اس کے تمام اسمائے حسنیٰ سے پکارتا ہے اور اسی کے حضوراپنی حاجات اور مرادیں پیش کرتا ہے۔

اس تعلق میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رذائل سے منزّہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے۔ کیونکہ خدا تعا لیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کاموصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے۔ اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لیے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پر مشتمل ہے۔ ‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 436، حاشیہ نمبر11)

دعا کے آغاز میں رَبِّ یا رَبَّنَاکے الفاظ کہنے کی حکمت

جہاں تک دعا کے آغاز میں ’’رَبِّ‘‘ یا ’’ رَبَّنَا‘‘کے الفاظ کا تعلق ہے تو اللہ تعا لیٰ چونکہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہے اس لیے دعا کے وقت ’’رَبِّ ‘‘ یا ’’رَبَّنَا ‘‘کے الفاظ میں اس کی ربوبیت کا واسطہ دے کر اور اس کی ربوبیت کو ذریعہ بنا کر دعا کی جاتی ہے۔ اور چونکہ رب العالمین خدا ہی تمام مخلوقات اور موجودات کا خالق و مالک، ان کا سہارا اور پرورش کرنے والا ہے، اس کی ربوبیت کل عالم کے ذرہ ذرہ پر ہر وقت کام کر رہی ہے اور وہ ان کی ضرورتوں اور حاجتوں سے بھی آگاہ ہے اس لیے ہر شئ اپنی بقا اور قیام کے لیے اس کی ربوبیت کی محتاج ہے۔ اس لیے دعا کے وقت ’’رَبِّ ‘‘ یا ’’رَبَّنَا ‘‘کے الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تعلق میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ربوبیت الٰہی اگر چہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مربی ہے۔ لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہنچتا ہے کیونکہ خدا تعا لیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے اس لیے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خدا رب العالمین ہے تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لیے خدا تعا لیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالمِ اسباب ظہور میں لا سکتا ہے۔ ‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 248)

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَ صَلّی اللّٰہ تَعَا لیٰ عَلیٰ حَبِیْبِہِ الْکَرِیْمِ وَ عَلیٰ آلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ آمین یٰا رَبَّ الْعٰلَمِیْن!

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button