متفرق مضامین

اولاد کے حقوق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوہ

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ بہترین ہے اور میں تم میں سے اپنے اہل کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔(آنحضرتﷺ)

اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارےنبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کوکامل نمونہ قرار دے کر تمام امت کو آپؐ کی پیروی کا حکم دیا۔(الاحزاب: 22)۔ حقوق العباد کی بات ہوتووالدین، ازواج اور اولاد کی ذمہ داریاں نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے یہ حق خوب ادا کیے اور ہمارے لیےکامل نمونہ قائم فرمایا۔ فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ بہترین ہے اور میں تم میں سے اپنے اہل کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔

(ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبیؐ )

بچوں کے حقوق کے بارے میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےراہ نما اصول

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ

اَکْرِمُوْااَوْلَادَکُمْ وَاَحْسِنُوا اَدَبَھُمْ

اپنے بچوں سے عزت سے پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو۔

(ابن ماجہ ابواب الادب باب برالوالدبحوالہ حدیقۃ الصالحین صفحہ 416ایڈیشن 2003ء)

اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا مشاہدہ کریں توہمیں آپؐ کی تعلیم اور اسوے میں بہترین نمونہ نظر آئے گاکہ آپؐ کیسے بچوں کےحقوق کا خیال رکھتےتھے اور تربیت کے معاملے میں کیسے چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال فرماتے۔بےحد مصروفیت کے باوجود اُن کی دلچسپیوں میں حصہ لیتے نیز بحیثیت گھر کے سربراہ اور بہترین نگران کےوہ اسوہ پیش کیا جو قیامت تک تمام انسانیت کے لیے نمونہ ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جاہلیت کے اس دَور میں ہوئی جب ہر قسم کے انسانی حقوق پامال کیے جارہے تھے۔ اولاداور بچوں کے حقوق کا یہ حال تھاکہ اگرکچھ بچے غربت کی وجہ سے پیدائش سے قبل قتل کردیے جاتے تھے تو بعض قبائل میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا۔ رحمت عالمؐ نے آکر اولاد کے عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق قائم فرمایا۔ آپؐ جب عورتوں سے بیعت لیتے تو یہ عہد بھی لیتے کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ پھر شادی کے وقت جوڑے کے انتخاب میں تقویٰ کو بنیادی شرط بتا کر اگلی نسلوں کے نیک مستقبل کی ضمانت دی اور میاں بیوی کو ملتے وقت اولاد کے نیک نصیب کےلیے دعائیں کرنے کا فرمایا۔

آپؐ نےارشادفرمایا:

مَثَلُ الَّذِي يَتَعَلَّمُ الْعِلْم فِي صِغَرِه ِکَالنَّقْشِ عَلَی الحَجَر۔

(الجامع الصغیر سیوطی جلد 2-3صفحہ 153)

بچپن کا سکھایا ہواپتھر پر نقش کی طرح ہوجاتا ہے۔

اسی حدیث مبارکہ کے مطابق پیدائش کےفوراً بعد یہ پرحکمت تعلیم فرمائی کہ بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔

(الجامع الصغیر جلد2صفحہ 182)

تاکہ پیدائش کے ساتھ ہی تربیت کا سلسلہ شروع ہواور بچے کے ذہن پر پہلا اثر توحید کا قائم ہو۔ پھر فرمایا: بچے کا اچھا نام رکھا جائے، اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے، اس کا عقیقہ کیا جائے۔

(مسند احمد بن حنبل حدیث عبداللہ بن عامر۔ جلد 3صفحہ 447 مطبوعہ بیروت)

آپؐ نے ارشاد فرمایا: جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو اسے کلمہ سکھاؤ۔ سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز پڑھنے کےلیے کہا کرو۔ اس وعظ و نصیحت کے لیے تین سال کا عرصہ دیا اور فرمایا کہ اگردس سال کی عمرمیں بچّے نماز نہ پڑھیں تو سزا بھی دے سکتے ہو۔ (ابودائود کتاب الصلاۃ)

رسول کریمؐ کا اپنا نمونہ یہ تھا کہ کبھی تربیت کی خاطر بچوں کو سزا نہیں دی بلکہ محبت اور دعا کے ذریعہ ہی ان کی تربیت کی۔ ہمیشہ اولادبلکہ زیر تربیت بچوں کے لیے بھی دعا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ (بخاری ،کتاب المناقب باب 18)

آپؐ نے بچوں کو کبھی نہیں مارا تھا۔ دوسروں کو بھی منع فرماتے کہ بچوں کو مارنا نہیں چاہیے۔ خاص طور پر چہرے پرمارنے سے منع فرمایا۔

تربیت کےلیے قرآن شریف کا بنیادی اُصول یہ ہے

قُوْااَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم: 7)

یعنی اپنے نفس اور اپنے گھروالوں کو آگ سے بچائو۔ نبی کریمؐ نے اس ارشاد کی تعمیل میں اپنا عملی نمونہ پیش کر کے اپنے اہل خانہ کی تربیت فرمائی۔

حضرت ایوبؓ اپنے والد اور اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہو۔ ‘‘

(ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب فی ادب الولد)

فرمایا: ’’اپنی اولاد کی ایسے رنگ میں تربیت کرو کہ یہ تین خوبیاں بطور عادت و خصلت کے اُن میں راسخ ہوجائیں۔ اپنے نبی کی محبت، اہل بیت کی محبت، قرآن کریم کا پڑھنا۔ ‘‘

(الجامع الصغیر للسیوطی جز اوّل 18)

رسول کریمؐ نے اپنی اولاد کی تربیت کی بنیاد محبت الٰہی پر رکھی تاکہ وہ اللہ کی محبت میں پروان چڑھیں اور یہ محبت ان کے دل میں ایسی گھر کرجائے کہ وہ غیراللہ سے آزاد ہوجائیں۔ چنانچہ نبی کریمؐ حضرت حسنؓ و حسینؓ کو گود میں لے کر دعاکرتے تھے کہ ’’اے اللہ! میں ان سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت کر۔ ‘‘

(مسنداحمد،جلد2 صفحہ 263)

آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کی شادی پرکمال سادگی سے انہیں ضرورت کی چند چیزیں عطافرمائیں۔ بعد میں انہوں نے خادم کا مطالبہ کیا تو ذکرالٰہی کی طرف توجہ دلا کر سمجھایا کہ خدا کی محبت میں ترقی کرو۔ اللہ خود تمہاری ضرورتیں پوری فرمائے گا۔ تم خداکو نہ بھولو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا۔

ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم زمانہ جاہلیت کے اس معاشرے میں رحمت بن کر مبعوث ہوئے جس کے بارے میں قرآن فرماتاہے: ’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر ملتی ہے تو اُس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور سخت غمگین ہوجاتا ہے…‘‘ (النحل: 60)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کے برعکس بیٹیوں کوجہنم سے نجات کا ذریعہ فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ’’ اللہ تعالیٰ جس شخص کو لڑکیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالے اور وہ ان سے بہتر سلوک کرے وہ اس کے لیے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔ ‘‘

(بخاری ،کتاب الزکوٰۃ ،باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ)

دوسری جگہ بیٹیوں کی اچھی تربیت و پرورش پر ثواب اور جنت میں اپنے قرب کی بشارتیں دیں۔

(ترمذی، ابواب البر والصلہ)

ایک اور حدیث میں فرمایا: جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اُس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں اے گھر والو !تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اُس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اُس کے شامل حال رہے گی۔

عرب کے بعض قبائل میں غیرت و حمیت کے باعث لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا ظالمانہ رواج تھا۔ ایک دفعہ نبی کریمؐ کے سامنے ایک شخص نے زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹی کو گڑھے میں گاڑ دینے کا دردناک واقعہ سنایاکہ یارسول اللہؐ ! ہم جاہلیت کے زمانے میں بس رہے تھے۔ بتوں کی پرستش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی۔ جب وہ میری بات سمجھنے اور جواب دینے کے قابل ہوئی تو میرے بلانے پر بھاگی بھاگی آتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے بلایا تو وہ میرے ساتھ چل پڑی۔ مَیں اپنے خاندان کے ایک کنویں کے پاس پہنچا اور اس معصوم بچّی کو پکڑکراُس میں پھینک دیا۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ مَیں نے اس کی دلدوزچیخیں سنیں۔ وہ مجھے پکارتی رہی ہائے میرے ابّا، ہائے میرے ابّا…رسول کریمؐ نے یہ سنا تو بےاختیار آبدیدہ ہوگئے۔ آپؐ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ اس دوران مجلس میں سے حضورؐ کے ایک صحابی اُس شخص سے مخاطب ہوئے کہ تم نے اللہ کے رسول کو غمگین کردیا ہے۔ رسول کریمؐ نے اس صحابی کو یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ یہ بے چارہ تو اپنے اس گناہ کی تلافی کی بابت پوچھنا چاہتا ہے۔ پھر اس شخص سے فرمایا کہ دوبارہ اپنی ساری بات سنائو۔ اس نے پھر یہ دلدوز کہانی سنائی تو رسول کریمؐ روپڑے اور آنسوؤں کی برسات سے آپؐ کی ریش مبارک بھی گیلی ہوگئی۔ پھر آپؐ نے اس سائل سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے زمانے کے گناہ معاف کردیے ہیں۔ اب اسلام میں اپنے نئے نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرو۔ (سنن الدارمی ،جلد 1صفحہ 3)

رسول کریمؐ نے یہ تعلیم دی کہ جس شخص کے گھر بیٹی ہو اور وہ اسے زندہ درگور کرے، نہ اسے ذلیل کرے اور نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

(مسنداحمد جلد1صفحہ223)

حضرت ابوہریرہؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا۔ اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا بچہ تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ چمٹانے لگا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر رحم کرتا ہے؟ اس پر اس نے کہا جی حضور! تو حضورؐ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ تجھ پر اس سے بہت زیادہ رحم کرے گا جتنا تو اس پر کرتا ہے اور وہ خدا ارحم الراحمین ہے۔

(الادب المفرد للبخاری باب رحمۃ العیال)

عَنْ اَبِی سَعِیدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ وُلِدَ لَہٗ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنْ اِسْمَہٗ وَاَدَبَہٗ فَاِذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہُ فَاِنْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْہُ فَاَصَابَ اِثْمًا فَاِنَّمَا اِثْمُہُ عَلٰی اَبِیْہِ

(مشکوۃ المصابیح کتاب النکاح باب الولی فی النکاح واستئذان المراۃ)

حضرت ابو سعیدؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کرے۔ اگر وہ بچہ بالغ ہو جاتا ہے اور وہ اس کی شادی نہیں کرتا اور بچہ سے کوئی گناہ سر زد ہو جاتا ہے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا۔

رسول کریمؐ قرآنی ہدایت کے مطابق اولاد کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کی دعا بھی فرماتے تھے اور دلی محبت کے جوش سے ان کی تربیت فرماتے تھے۔

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے بڑھ کر بچوں کے ساتھ شفقت کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی جلد1صفحہ 316)

ایک دفعہ آپؐ اپنے بچوں کو پیارسے چوم رہے تھے کہ ایک بدوی سردار نے کہا آپ بچوں کوچومتے بھی ہیں؟ میرے دس بچے ہیں میں نے تو کبھی کسی کو نہیں چوما۔ آپؐ نے فرمایا اللہ نے تیرے دل سے رحمت نکال لی ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے اس سردار سے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

فرمایا: اَکثِروا قبلۃ أولادکُمْ فاِنَّ لکم بِکل قبلۃ درجۃ فی الجنۃ۔ (صحیح بخاری الادب المفرد باب رحمت العیال )

اے لوگو! اپنی اولاد کو چوما کرو کیونکہ ان کے چومنے کے بدلے میں تم کو جنت میں ایک درجہ ملے گا۔

بچوں کے ساتھ حضورؐ کی شفقت اور محبت کا یہ عالم تھا کہ بسااوقات ان کی تکلیف دیکھ کر نماز مختصر کردیتے اور فرماتے تھے کہ میں نمازکے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور نماز لمبی کرنا چاہتا ہوں مگراچانک کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں اور نماز مختصر کردیتا ہوں کہ اس بچے کارونا اس کی ماں پر بہت گراں ہوگا۔ (بخاری کتاب الصلوۃ باب من اخفّ الصلاۃ عندالبکاء الصبی)

نبی کریمؐ اولاد کے لیے اپنے اصحاب کو بھی عمدہ نمونہ پیش کرنے کےلیے ہدایت فرماتے تھے۔ مثلاً یہ کہ خود سچائی پر قائم ہوکر بچوں کو اس کا نمونہ دیا جائے اورتکلّف سے یا مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولا جائے۔

عبداللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ ایک دفعہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں اس وقت کمسن بچہ تھا۔ میں کھیلنے کے لیے جانے لگا تو میری امی نے کہا عبداللہؓ اِدھر آئو میں تمہیں چیز دوں گی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا :آپ اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہاہاں کھجوردوں گی۔ آپؐ نے فرمایا: اگر واقعی تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا(اور صرف بچے کو بلانے کی خاطر ایسا کہا ہوتا )تو تمہیں جھوٹ بولنے کا گناہ ہوتا۔

(مسند احمد جلد 3صفحہ447مطبوعہ بیروت)

آپؐ نے تمام اولادکے ساتھ ایک جیسے سلوک کی تعلیم دی۔ ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے بیٹے کو کوئی قیمتی تحفہ دیا اور اپنی بیوی کی خواہش پر رسول کریمؐ کو اس پر گواہ بنانے کے لیے حاضر ہوا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا سب بچوں کوایساہی ھبہ کیا ہے۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا :پھر ظلم کی اس بات پرمیں گواہ نہیں بن سکتااوریوں آپؐ نے اولاد میں بھی عدل کرنے کا سبق دیا۔

(بخاری کتاب الھبۃ باب الاشھاد فی الھبۃ2398)

آپؐ کوبچوں کی تعلیم کا بھی بے حدخیال تھا ۔ فرمایا: جنگِ بدر کے پڑھے لکھے قیدی مدینہ کے دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں توانہیں آزاد کردیا جائے گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد

رسول کریمؐ کی زندہ رہنے والی اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے چار بیٹیاں تھیں۔ جو بالترتیب حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضر ت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمۃ الزھراءؓ ہیں۔ حضرت خدیجہؓ سے بیٹے بھی ہوئے جن کے نام قاسمؓ، طاہرؓ، طیبؓ، عبداللہؓ مشہور ہیں۔ صاحبزادہ قاسمؓ کی نسبت سے آپؐ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے صاحبزادہ ابراہیمؓ ہوئے جو 9ھ میں 16ماہ کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ رسول کریمؐ نے تمام اولاد سے نہایت محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا۔ ان کی پرورش اور اعلیٰ تربیت کے حق ادا کیے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت زینبؓ اوردیگربیٹیوں نے اپنی والدہ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعدجلد 8صفحہ36 مطبوعہ بیروت)

شادی کے بعد بیٹیوں سے تعلقات محبت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹیوں سے محبت وشفقت کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا۔ آپؐ نہ صرف ان کی ضروریات کا خیال رکھتےبلکہ گاہے بگاہے خوشگوارعائلی زندگی کے لیے راہ نمائی فرماتے رہتے۔ بیٹیوں کی وفات کے ذکر میں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود اپنی بیٹیوں کے آخری سفر کی تیاری میں جس طرح حصہ لیا اور ان سے دلی محبت کا اظہار فرمایاشاید ہی ایسی کوئی مثال دنیا میں ملتی ہوگی۔ آپؐ جو اسوہ کامل تھے اور جو اسوہ کامل ہو، وہی اتنی گہرائی میں جا کرکسی کا خیال رکھ سکتا ہے۔

حضرت زینبؓ سے محبت

حضرت زینبؓکی شادی مکہ ہی میں حضورؐ کے دعوے سے قبل حضرت خدیجہؓ کی تجویز پر اُن کے بھانجے ابو العاص ابن ربیع سے ہو گئی تھی۔ اس لیے حضرت زینبؓ مدینہ ہجرت نہ کر سکیں۔ غزوۂ بدر میں حضرت زینبؓ کے شوہر ابوالعاص کفار مکہ کی طرف سے شامل ہو کر قید ہوئے تو حضرت زینبؓ نے حضرت خدیجہؓ کی طرف سے اپنی شادی پر تحفے میں ملنے والا ہار، ان کے فدیہ کے طور پر بھجوایاجسے دیکھ کر نبی کریمؐ کا دل بھر آیا اور آپؐ کی خواہش پر ابو العاص کو فدیہ لیے بغیر قید سے آزاد کر دیا گیا۔ اس معاہدے کے ساتھ کہ وہ حضرت زینبؓ کو جو مسلمان تھیں مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دیں گے۔

(ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی فداء الاسیر بالمال)

آنحضرتؐ کی اس شفقت اور حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ ابو العاص نے یہ وعدہ خوب نبھایا اور مکہ جا کر حضرت زینبؓکو مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔ کفار مکہ کو پتہ چلا تو انہوں نے تعاقب کیا۔ ایک مشرک ھبار بن اسود نے حضرت زینبؓ کی اونٹنی پر حملہ آور ہو کر انہیں اونٹ سے گرا دیاجس سے ان کاحمل ساقط ہو گیا۔ (تاریخ الصغیرامام بخاری زیر لفظ زینبؓ )

رسول اللہؐ اپنی بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد کمزوری اور مظلومیت کے عالم میں رہنے پر بے چین تھے۔ وعدے کے مطابق اُن کے شوہر ابوالعاص کی انہیں مدینہ بھجوانے کی کوشش نا کام ہو چکی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تکلیف دہ انتظار کی بجائے حضرت زیدؓ کو اپنی ایک خاص انگو ٹھی نشانی کے طور پر دے کر مکہ بھجوایا کہ کسی طرح حضرت زینبؓکو مدینہ لے آئیں۔ حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ اور ابو العاص کے چرواہے کے ذریعے وہ انگوٹھی حضرت زینبؓتک پہنچا دی۔ اسی رات حضرت زینبؓ حضرت زیدؓ کی معیت میں اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ کےلیےروانہ ہوئیں۔ ان کے مدینہ پہنچنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میری اس بیٹی نے میری وجہ سے بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ یہ باقی بیٹیوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں۔

(تاریخ الصغیر از امام بخاری زیر لفظ زینبؓ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے داماد ابو العاص کے حسن سلوک کی تعریف فرماتے تھے کہ اس نے وعدہ کے مطابق حضورؐ کی بیٹی کو مدینے بھجوادیا۔

(بخاری کتاب النکاح باب شروط النکاح)

حضرت زینبؓکی وفات8ھ میں ہوئی۔ نبی کریمؐ نے ان کے غسل اور تجہیز وتکفین کے لیے خود ہدایات فرمائیں۔ حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمیں فرمایا کہ زینبؓکوتین یا پانچ مرتبہ بیری کے پتے والے پانی سے غسل دو۔ اگر تم ضروری سمجھو تو پانچ سے بھی زیادہ مرتبہ نہلا سکتی ہو۔ آخر پر کافور بھی استعمال کرنا۔ جب فارغ ہو جائو تو مجھے اطلاع دینا۔ وہ کہتی ہیں جب ہم فارغ ہوئے تو حضورؐ کو اطلاع دی۔ حضورؐ نے اپنا تہہ بند ہمیں دیا اور فرمایا کہ یہ چادر اُن کو بطور زیر جامہ پہنائو۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ اس کے بالو ں کی تین مینڈھیاں بنانا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب یجعل الکا فور فی الاخیرہ)نیز فرمایا کہ اسے دائیں پہلو سے اور وضو کی جگہوں سے غسل شروع کرنا۔ (بخاری کتاب الوضوء باب التیمن)

حضرت زینبؓکی وفات پر حضورؐ ان کی قبر میں اُترے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غم زدہ تھے۔ جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم قبر سے باہر نکلے تو غم کا بوجھ کچھ ہلکا تھا۔ فرمایا :مَیں نے زینبؓکی کمزوری کو یاد کر کے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! اس کی قبر کی تنگی اور غم کو ہلکا کر دے، تو اللہ نے میری دعا قبول کر لی اور اس کے لیے آسانی پیدا کر دی ۔

حضرت رقیہؓ سے حسن سلوک

دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح نبی کریم ﷺ نے اپنے بہت عزیز صحابی حضرت عثمان بن عفانؓ سے فرمایا اور نصیحت فرمائی کہ عثمانؓ کا خاص خیال رکھنا ۔وہ اپنے اخلاق میں دیگر اصحاب کی نسبت زیادہ میرے مشابہ ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ حضورؐ صاحبزاد ی رقیہؓ کے ہاں گئے تو وہ حضرت عثمانؓ کا سرد ھو رہی تھیں۔

(مجمع الزوائد و منبع الفوائد الجزءالتاسع صفحہ58، کتاب المناقب باب ماجاءفی خلقہ حدیث نمبر14500، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2001ء)غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رقیہؓ بیمار ہوگئیں اور نبی کریمؐ نے حضرت عثمانؓ کو اپنی اہلیہ کی تیمار داری کے لیے مدینہ رہنے کی ہدایت فرمائی اور بدر میں فتح کے بعد مال غنیمت سے اُن کا حصہ بھی نکالا۔

(بخاری کتاب المغازی باب تسمیۃ من سمی اھل بدر)

نبی کریمؐ کی ایک لونڈی ام عیاش تھی جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو وضو وغیرہ کر واتی تھیں۔ حضورؐ نے بطور خادمہ یہ لونڈی حضرت رقیہؓ کی شادی کے وقت گھریلو کام کاج میں اُن کی مدد کے لیے ساتھ بھجوائیں۔

(ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب الرجل یستعین علی وضوئہ383)

حضرت رقیہؓ نے حضرت عثمانؓ کے ساتھ حبشہ ہجرت کی۔ جب کچھ عرصہ ان کی کوئی خبر نہ آئی تو رسول کریمؐ حبشہ سے آنے والے لوگوں سے فکر مندی کے ساتھ اپنی صاحبزادی اور داماد کا حال دریافت فرماتے۔ ایک قریشی عورت نے آکر بتایا کہ اُس نے حضرت عثمانؓ کے ساتھ حضرت رقیہؓ کو خچر پر سوار جاتے دیکھا تھا۔ رسول اللہؐ نے دعا کی کہ اللہ ان دونوں کا حامی وناصر ہو۔

(البدایۃ والنھایۃ لابن اثیرجز 3صفحہ66مکتبۃ المعارف بیروت)

حضرت رقیہؓ کے اکلوتے بیٹے عبداللہؓ دو سال کی عمر میں چہرے پر مرغ کے چونچ مارنے سے زخمی ہو کر وفات پا گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کا جنازہ خود پڑھایا۔

(الطبقات الکبریٰ ابن سعد جلد8صفحہ36بیروت)

حضرت رقیہؓ کی وفات 2ھ میں ہوئی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کا بہت صدمہ تھا ۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضرت رقیہؓ کے جنازے میں رسول کریمؐ ان کی قبر کے پاس بیٹھے آنسو بہا رہے تھے۔

( بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی بعد المیت بکا ء اھلہ )

رسول کریمؐ اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کو لے کر حضرت رقیہؓ کی قبر پر آئے تو فاطمہؓ قبر کے پاس رسول کریمؐ کے پہلو میں بیٹھ کر رونے لگیں۔ رسول اللہؐ دلاسہ دیتے ہوئے اپنے دامن سے ان کے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔

(سنن الکبریٰ للبیھقی کتاب الجنا ئر باب سیاق اخبارعلی جواز البکاء بعد الموت)

حضرت ام کلثومؓ سے شفقت

صاحبزادی رقیہؓ کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی ام کلثومؓ بھی حضرت عثمانؓ سے بیاہ دی۔ اس موقع پر آپؐ نے اپنی خادمہ اُمّ ایمنؓ سے فرمایا کہ میری بیٹی کو تیار کرو اور اسے دلہن بنا کر عثمانؓ کے پاس لے جائو اور اس کے آگے دف بجاتی جانا، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیسرے دن اُم کلثومؓ کے پاس آئے اور استفسار فرمایا کہ آپؐ نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ عرض کیا بہترین شوہر۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ! امر واقعہ یہ ہے کہ تمہارے شوہر لوگوں میں سے سب سے زیادہ تمہارے جد امجد ابراہیمؑ اور تمہارے باپ محمدؐ سے مماثلت رکھتے ہیں۔

( کامل لابن عدی جلد5صفحہ134)

حضرت ام کلثومؓ 9ھ میں فوت ہوئیں۔حضورؐ نے ان کا جنازہ خود پڑھایا اور قبر کے کنارے تشریف فرما ہو کراپنی موجودگی میں تدفین کر وائی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی اُم کلثومؓ کی وفات پر تجہیز وتکفین کا انتظام اپنی نگرانی میں کروایا۔ حضرت لیلیٰ الثقفیہ روایت کرتی ہیں کہ میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے حضرت ام کلثومؓ کو ان کی وفات پر غسل دیا۔ رسول کریمؐ نے تہ بند کے لیے کپڑا دیا پھر قمیص، اوڑھنی اوراُوپر کا کپڑا۔ اس کے بعد اُن کو ایک اور کپڑے میں لپیٹ دیاگیا۔ وہ بتاتی تھیں کہ غسل کے وقت رسول کریمؐ دروازے کے پاس کھڑے تھے۔ حضورؐ کے پاس سارے کپڑے تھے اور آپؐ باری باری ہمیں پکڑا رہے تھے۔

حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریمؐ کی بیٹی ام کلثومؓ قبر میں رکھی گئی تو رسول خداؐ نے یہ آیت تلا وت کی

مِنْھَا خَلَقْنَا کُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی (طٰہٰ: 56)

یعنی اس سے ہی ہم نے تم کو پیدا کیا اور اس میں تمہیں دوبارہ لو ٹائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری دفعہ نکالیں گے۔

حضرت فاطمہؓ سے محبت و شفقت

نبی کریمؐ اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزھراءؓ سے بھی شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھری تربیت کا اثر تھا کہ حضرت فاطمہؓ میں بھی وہی رنگ جھلکتا نظرآتا تھا۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ’’میں نے چال ڈھال، طور اطوار اور گفتگو میں حضرت فاطمہؓ سے بڑھ کر آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کوئی نہیں دیکھا۔ فاطمہؓ جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے تھے ۔محبت سے ان کا ہاتھ تھام لیتے تھے اور اسے بوسہ دیتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے اور جب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی احترام میں کھڑی ہو جاتیں ۔آپؐ کا ہاتھ تھام کر اسے بوسہ دیتیں اور اپنے ساتھ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بٹھاتیں۔ ‘‘

(ابو داؤد کتاب الادب باب ماجاء فی القیام4540)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے رخصت ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہؓ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ہی آکر ملتے۔

(مسند احمدجلد3صفحہ455)

نبی کریمؐ فرماتے تھے کہ فاطمہؓ میرے بدن کا ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

آپؐ کی نیک تربیت کا اثر تھا کہ آپ کی بیٹیاں بغیر کہے بات سمجھ جاتی تھیں۔ مثلاً ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ دروازے پر ایک رنگین پردہ لٹکا ہوا ہے اور حضرت فاطمہؓ کے ہاتھ میں چاندی کے دوکنگن ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ دیکھ کر واپس لوٹ گئے۔ حضرت فاطمہؓ کو جب رسول اللہ ؐکی ناراضگی کا اندازہ ہوا تو فوراً دونوں چیزوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں بھجوادیا اور کہا کہ میں نے انہیں راہ خدا میں دے دیا۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہت خوش ہوئے اور اپنی بچی کے حق میں خیروبرکت کی دعا مانگی اور ان اشیا کو بیچ کر قیمت اصحاب صفہ کے اخراجات میں ڈال دی۔

(خاتون جنت فاطمۃ الزہراء صفحہ 16)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیشہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے تعلقات میں خوشگواری پیدا کرنے کی کوشش فرماتےتھے۔ اگر کبھی کسی گھریلومعاملے میں دونوں کے درمیان ناراضگی پیدا ہوجاتی تو دونوں میں صلح کروادیتے۔

(خاتون جنت فاطمۃ الزہراء صفحہ19)

حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ ( حضورؐ کی بیماری میں ) آئیں۔ نبی کریمؐ نے فاطمہؓ کو خوش آمدید کہا اور اپنے دائیں طرف یا شاید بائیں طرف بٹھایا۔ حضرت فاطمہؓ کو بھی رسول کریمؐ سے بے حدمحبت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات پر حضرت فاطمہؓ کی زبان سے جو جذباتی فقرے نکلے، ان سے بھی آپؐ سے گہری محبت کا اظہار ہوتا ہے۔آپؓ نے حضرت انسؓ سے کہا کہ وائے افسوس میرے اباؐ! ہم آپؐ کی موت کا افسوس کس سے کریں؟ کیاجبریلؑ سے؟ وائے افسوس ! ہمارے اباؐ ! آپؐ اپنے رب کے کتنے قریب تھے! ہائے افسوس ! ہمارے اباؐ ہمیں داغ جدائی دے کر جنہوں نے جنت الفردوس میں گھر بنا لیا۔ ہائے افسوس! میرے اباؐ ! جنہوں نے اپنے ربّ کے بلانے پر لبیک کہا۔ اور اس کے حضور حاضر ہوگئے۔

(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ذکر وفاتہ و دفنہ1620)

اولا دسے حقیقی پیار اور اعلیٰ تربیت

نبی کریمؐ کو اپنی اولاد کی تربیت کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ تہجد کے وقت حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کو سوتے پایا تو جگا کرتنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ہو۔ حضرت علیؓ نے نیند کے غالب آنے کا عذر کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تعجب کرتے ہوئے واپس تشریف لائے اور سورت کہف کی وہ آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ انسان بہت بحث کرنے والا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الکہف)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو دین داری کا کس قدر خیال تھا کہ رات کے وقت پھر کر اپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے۔ اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک بات کے سمجھانے کے لیے تحمل سے کام لیا کرتے تھے اور محبت اور پیار سے کسی کو اس کی غلطی پر آگاہ فرماتے تھے۔ اس لیے آپؐ نے صرف یہ کہہ دیا کہ انسان بات مانتا نہیں جھگڑتا ہے۔ یعنی تم کو آئندہ کے لیے کوشش کرنی چاہیے تھی کہ وقت ضائع نہ ہو۔ چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں۔ میں نے پھر کبھی تہجد میں ناغہ نہیں کیا۔

(ماخوذ از سیرۃ النبیؐ، انوار العلوم جلد 1 صفحہ 588 تا 590)

حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چھ ماہ تک با قاعدہ حضرت فاطمہؓ کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں صبح نماز کے لیے جگاتے اور فرماتے تھے کہ اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ تمہیں مکمل طور پر پاک وصاف کرنا چاہتا ہے۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ کچھ غلام آئے۔ حضرت فاطمہؓ گھر کی ضرورت کے لیے خادم مانگنے آئیں۔ نبی کریمؐ گھر پر نہیں تھے۔ جب تشریف لائے اور انہیں پتہ چلا کہ فاطمہؓ آئی تھیں تو سردی کے موسم میں اسی وقت حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم بستر میں جا چکے تھے۔ حضورؐ میرے پاس تشریف فرما ہوئے۔ میں نے آپؐ کے پاؤں کی ٹھنڈک محسوس کی۔ آپؐ فرمانے لگے خادم تو زیادہ ضرورت مندوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ پھرحضرت فاطمہؓ اورحضرت علیؓ کو تسلی دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جو خادم کا مطالبہ کیا تھاکیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ تم لوگ جب سونے لگو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر اور تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اورالحمدللہ کا ورد کیا کرو۔ یہ تمہارے لیے اس سے کہیں بہتر ہے جو تم نے مانگا ہے۔

(بخاری کتاب الجہاد باب الدلیل علی ان الخمس لنوائب رسول اللّٰہؐ )

حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ کو فرزند عطا فرمایا۔ اس کا نام آپؐ نے ابراہیمؓ اپنے جدامجد کے نام پررکھا۔ حضورؐ کے نواسوں حسن و حسین سے بھی کم سن تھے۔ آخری عمر کی اس اولاد سے آپؐ بے حد محبت فرماتے تھے۔ اس بچے کو پرورش کےلیے ام سیف کے سپرد کیا گیا۔ نبی کریمؐ ان کے گھر گاہے بگاہے بچے سے ملاقات کرنے اورحال دریافت کرنے تشریف لے جاتے تھے۔ ابراہیمؓ کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتے۔ اُسے چومتے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتے۔

(بخاری کتاب الجنائز باب قول النبیؐ ان بک لمحزونون )

کم سنی میں اس بچے میں اعلیٰ صلاحیتوں کے جو ہر دیکھ کر آپؐ خوش ہوتے تھے۔ رسول اللہؐ کا یہ جگر گوشہ16ماہ کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اس کی وفات پر اس کی خداداد صلاحیتوں کے بارہ میں فرمایاکہ’’ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔ ‘‘

(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلوۃ علی ابن رسول اللّٰہ)

اس پیارے بیٹے کی جدائی پر آپؐ نے کمال شان صبر دکھایا۔ ابراہیمؓ کا جنازہ دیکھ کر آپؐ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ ایک صحابی نے عرض کیا حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ بھی روتے ہیں؟ فرمایا یہ تو اولاد سے محبت کا جذبہ ہے کہ آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگین ہے مگر ہم کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جس سے ہمارا ربّ ناراض ہواور اے ابراہیم سچی بات تو یہ ہے کہ تیری جدائی پر ہم بہت غمگین ہیں۔

(بخاری کتاب الجنائز باب 42)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوہر حالت میں خدا کی رضا مطلوب ہوتی تھی۔ چنانچہ اتفاق سے صاحبزادہ ابراہیمؓ کی وفات پر سورج گرہن بھی ہوا۔ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ رسول اللہؐ کے اتنے عظیم الشان بیٹے کی وفات پر سورج بھی گہنا گیا ہے۔ رسول کریمؐ سے بڑھ کر صاحبزادہ ابراہیمؓ سے کسے محبت ہوسکتی تھی مگر آپؐ نے یہ حق بات کھول کر بیان فرمادی کہ چانداور سورج اللہ کے نشانات میں سے ہیں۔ کسی کی موت یاپیدائش پر ان کو گرہن نہیں لگا کرتا۔ البتہ اس نشان کو دیکھ کراللہ سے ڈرتے ہوئے صدقہ وغیرہ دینا چاہیے۔

(بخاری کتاب الکسوف)

اسی طرح حضرت زینبؓ کے ایک بیٹے کم سنی میں وفات پا گئے ان کی حالت نزع کے وقت حضرت زینبؓ نے حضورؐ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میرے بیٹے کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ آپؐ تشریف لے آئیں۔ نبی کریمؐ نے ہر قسم کے مشرکا نہ خیال سے بچنے کے لیے یہ پیغام بھیجا کہ زینبؓ کو میرا سلام پہنچادو اور کہو جو کچھ اللہ لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جو وہ عطا کرے اس کا بھی وہی مالک ہے اور ہر شخص کے لیے اللہ کے پاس ایک میعاد مقرر ہے اس لیے صبر کرو اور اپنے خیالات خدا کی خاطر پاک کر لو۔ (بخاری کتاب الجنائزباب 32)

بیٹیوں کی اولاد سے شفقت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اپنی بیٹیوں سے محبت فرماتےتھے ویسے ہی آپ کو اپنے دامادوں اور نواسوں سے بھی محبت تھی۔

حضورؐ اپنے نواسوں اور گھر میں پلنے والےبچوں سے پیار اور شفقت سے پیش آتے، ان کے ساتھ کھیلتے، ہنسی مذاق کرتےاور سلام کرنے میں پہل کرتے۔ آپ بچوں کو دائیں ہاتھ سے اور سامنے سے کھانے کی نصیحت فرماتےتھے۔

حضرت براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا۔حضرت حسنؓ آپؐ کے کندھے پر تھے اور فرمارہے تھے اے اللہ! میںاس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ (بخاری کتاب المناقب باب مناقب الحسن )

حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز کے انتظار میں تھے۔ بلالؓ نے رسول اللہؐ کی خدمت میں نماز کی اطلاع کی۔ آپؐ تشریف لائے، آپؐ کی نواسی امامہ بنت ابی العاص آپؐ کے کاندھے پر تھی۔ رسول اللہؐ اپنے مصلّے پر کھڑے ہوئے۔ ہم پیچھے کھڑے تھے اور وہ بچی حضورؐ کے کندھے پر ہی تھی۔ حضورؐ کے تکبیر کہنے کے ساتھ ہم نے بھی تکبیر کہی۔ رکوع میں جاتے وقت حضورؐ نے ان کو کندھے سے اتار کر نیچے بٹھا دیا۔ رکوع اور سجدہ سے فارغ ہوکر دوبارہ اٹھا کراسے کندھے پر بٹھالیا۔ نماز کی ہر رکعت میں ایسے ہی کیا یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوئے۔ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب العمل فی الصلوۃ)

حضرت ابولیلیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر تھے۔ کم سن حضرت حسنؓ یا حسینؓ میں سے کوئی آپؐ کی گود میں چڑھا ہواتھا۔اچانک بچے نے پیشاب کردیااور میں نے حضورؐ کے پیٹ پر پیشاب کے نشان دیکھے۔ ہم لپک کر بچے کی طرف آگے بڑھے تاکہ اسے اُٹھالیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا میرے بیٹے کو میرے پاس رہنے دو اور اسے ڈرائو نہیں۔ پھر آپؐ نے پانی منگواکراس پر انڈیل دیا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد4صفحہ348دارالفکر بیروت)

حضرت یعلیٰ عامریؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہؐ کے ساتھ ایک دعوت پر جارہے تھے کہ سامنے سے کم سن حسینؓ دیگربچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ رسول اللہؐ نے کھیل کھیل میں ان کو پکڑنا چاہا تووہ ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ رسول کریمؐ اس طرح ان کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ ان کو پکڑلیا۔ پھر آپؐ نے اپنا ایک ہاتھ ان کے سر کے پیچھے اور دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اورا پنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر انہیں چومنے لگے اور فرمایا حسینؓ مجھ سے اور میں حسینؓ سے ہوں (یعنی میرا ان سے گہرادلی تعلق ہے) جو شخص حسینؓ سے محبت کرتا ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔ حسینؓ ہماری نسل ہے۔

(مستدرک حاکم جلد3صفحہ177طبعہ اولیٰ1978بیروت)

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ کی پشت پر حسنؓ اور حسینؓ سوارتھے اور آپؐ اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کے بل چل رہے تھے اور ان بچوں سے باتیں کررہے تھے کہ تمہارا اونٹ کتنا اچھا ہے اورتم دونوں سوار بھی کیسے خوب ہو۔

(مجمع الزوائد لھیثمی جلد9صفحہ182 بیروت)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :اکرموااولادکم فان اکرام الاولاد ستر من النار ولاکل معھم برآۃمن النار۔

(سنن ابن ماجہ ابواب الادب)

اپنے بچوں کی عزت کیا کرو کیونکہ ان کی عزت کرنا دوزخ کا پردہ ہے اور ان کے ساتھ مل کر کھانا جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔

حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے رسول اللہؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ تشریف لائیں ان کے صاحبزادے حسنؓ وحسینؓ ہمراہ تھے۔ حضرت فاطمہؓ ہنڈیا میں کچھ کھانا حضورؐ کے لیے لائی تھیں، وہ آپؐ کے سامنے رکھا۔ آپؐ نے پوچھا :ابوالحسنؓ یعنی حضرت علیؓ کہاں ہیں حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ گھر میں ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کو بلا بھیجا اور پھر سب اہل بیت بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ حضرت اُم سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے کھانے سے فارغ ہوکر ان اہل بیت کے حق میں یہ دعا کی ’’اے اللہ! جواِن اہل بیت کا دشمن ہو تواُس کا دشمن ہو جا اور جوا نہیں دوست رکھے تو اسے دوست رکھنا۔ ‘‘

(مجمع الزوائدلھیثمی جلد 9صفحہ166مطبوعہ بیروت)

ایک دفعہ رسول کریمؐ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسنؓ اور حسینؓ آگئے انہوں نے سرخ قمیص پہنے تھے اور چلتے ہوئے ٹھوکریں کھارہے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منبر سے اتر آئے اور ان کو اٹھا لیا، اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا :اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے۔ میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے اور گرتے دیکھاتو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اپنی بات روک کر ان کو اُٹھا لایا۔

(ترمذی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین )

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تربیت اولاد کے معاملے میں نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال فرماتے تھے۔

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میں لیٹا ہوا تھا۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے پینے کےلیے کچھ مانگا۔ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم اٹھے، ہمارے گھر میں ایک بکری تھی جس کا دودھ دوہا جا چکا تھا۔ آپؐ اس کا دودھ دوہنے لگے تو دوبارہ بکری کو دودھ اتر آیا۔ حسنؓ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کو پیچھے ہٹا دیا اور اُن کی بجائے حسینؓ کو دودھ دیا۔ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ یہ آپ کو زیادہ پیارا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :نہیں بلکہ پہلے اس نے مانگا ہے۔

(مجمع الزوائد لھیثمی جلد9صفحہ169بیروت بحوالہ مسند احمد)

حضرت زید بن حارثہؓ حضر ت ام المومنین خدیجہؓ کے غلام تھے، جو انہوں نے نبی کریمؐ کی خدمت کےلیے پیش کردیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا اور اس قدرشفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کہ جب زیدؓ کے حقیقی والدین ان کو لینے کےلیے آئے تو باوجودیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو اختیار دے دیا کہ آپ والدین کے ساتھ واپس وطن جانے کی لیے آزاد ہومگر زیدؓ نے ان کے ساتھ جانے سے ا نکار کردیا۔ اور بزبان حال ثابت کیا کہ ہزا ر آزادی رسول اللہؐ کی غلامی پر قربان ہے۔ نبی کریمؐ نے عربوں کے دستور کے خلاف معزز قبیلہ قریش کی خاتون اپنی پھوپھی زاد بہن زینبؓ کی شادی اس آزادکردہ غلام سے کر کے ثابت کردیا کہ آپؐ کے نزدیک عزت کا معیار تقویٰ تھا۔ اگرچہ اختلافِ مزاج کے باعث یہ شادی کامیاب نہ ہوسکی تو آپؐ نے حضرت امّ ایمنؓ سے زیدؓ کی شادی کروائی۔ جن سے اسامہؓ پیدا ہوئے۔

(البدایۃ والنھایۃ لابن اثیرجز 3صفحہ66مکتبۃ المعارف بیروت)

رسول اللہؐ کو حضرت اسامہؓ سے بھی بہت محبت تھی۔ گھر میں بسااوقات ایسا ہوا کہ اسامہؓ کی ناک بہ رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ناک صاف کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ دیکھ کر عرض کرتی ہیں۔ حضورؐ میں جو حاضر ہوں آپؐ رہنے دیں میں اس کا ناک صاف کردیتی ہوں۔ آپؐ فرماتے نہیں اور پھر خود اسامہؓ کا ناک صاف کرتے۔ اپنے نواسے امام حسینؓ اور غلام زادے اسامہؓ کو گود میں لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔

(بخاری کتاب النکاح باب شروط النکاح)

آپؐ کمال محبت سے فرمایا کرتے کہ اسامہؓ لڑکی ہوتی تو میں اسے زیور پہناتا۔ عمدہ عمدہ کپڑے پہناتا۔

(السیرہ النبویۃ لابن ہشام جز2صفحہ312مطبوعہ بیروت)

حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نماز پڑھتے ہوئے جب سجدہ میں جاتے تھے تو بعض دفعہ حضرت حسنؓ آپؐ کی پشت یا گردن پرچڑھ جاتے۔ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم بہت نرمی سے ان کو پکڑ کر اُتارتے تاکہ گریں نہیں۔

صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ حضرت حسنؓ کے ساتھ آپؐ جس طرح محبت سے پیش آتے ہیں ایسا سلوک کسی اور کے ساتھ نہیں کرتے۔ فرمایا:یہ دنیا سے میری خوشبو ہے۔ میرا یہ بیٹا سردار ہے جو دوگروہوں میں صلح کروائے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ سجدے کی حالت میں تھے کہ حسنؓ پشت پر آکر بیٹھ گئے آپؐ نے اُن کو نہیں اتارا اور سجدے میں رہے یہاں تک کہ وہ خود اُترے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5صفحہ37تا38)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت باپ اولاد سے حسن سلوک اور حسنِ تربیت کے لیے ہمارے لیے بہترین اور خوبصورت نمونہ پیش کیاہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ کے اسوہ کی کامل پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button