کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

آپؐ روح القدس کی تائید اور روشنی سے مؤیّد اور منوّر ہیں

اس جگہ یہ وسوسہ دل میں نہیں لانا چاہئے کہ کیونکر ایک ادنیٰ امتی آں رسول مقبولؐ کے اسماء یا صفات یا محامد میں شریک ہوسکے۔ بلاشُبہ یہ سچ بات ہے کہ حقیقی طور پر کوئی نبی بھی آنحضرت کے کمالاتِ قدسیہ سے شریک مساوی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ تمام ملائکہ کو بھی اس جگہ برابری کا دم مارنے کی جگہ نہیں۔ چہ جائیکہ کسی اور کو آنحضرت کے کمالات سے کچھ نسبت ہو۔ مگر اے طالبِ حق! ارشدک اللّٰہتم مُتوجّہ ہوکر اس بات کو سنو کہ خداوند کریم نے اس غرض سے کہ تا ہمیشہ اس رسول مقبول کی برکتیں ظاہر ہوں اور تا ہمیشہ اس کے نور اور اس کی قبولیت کی کامل شعاعیں مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرتی رہیں۔ اس طرح پر اپنی کمال حکمت اور رحمت سے انتظام کررکھا ہے کہ بعض افراد امت محمدیہ کہ جو کمال عاجزی اور تذلل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اختیار کرتے ہیں اور خاکساری کے آستانہ پر پڑکر بالکل اپنے نفس سے گئے گزرے ہوتے ہیں۔ خدا ان کو فانی اور ایک مصفّا شیشہ کی طرح پاکر اپنے رسول مقبول کی برکتیں ان کے وجود بے نمود کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ منجانب اللہ ان کی تعریف کی جاتی ہے یاکچھ آثار اور برکات اور آیات ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ حقیقت میں مرجعِ تام ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام برکات کا رسول کریم ہی ہوتا ہے اور حقیقی اور کامل طور پر وہ تعریفیں اسی کے لائق ہوتی ہیں۔ اور وہی ان کا مصداق اَتَم ہوتا ہے۔ مگر چونکہ متبع سنن آں سرور کائنات کا اپنے غایت اتباع کے جہت سے اس شخص نورانی کے لئے کہ جو وجود باجود حضرت نبوی ہے مثل ظل کے ٹھہر جاتا ہے۔ اس لئے جو کچھ اس شخص مقدس میں انوار الٰہیہ پیدا اور ہویدا ہیں۔ اُس کے اس ظل میں بھی نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں۔ اور سایہ میں اس تمام وضع اور انداز کا ظاہر ہونا کہ جو اُس کے اصل میں ہے ایک ایسا امر ہے کہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں۔ ہاں سایہ اپنی ذات میں قائم نہیں اور حقیقی طور پر کوئی فضیلت اس میں موجود نہیں بلکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ اس کے شخص اصلی کی ایک تصویر ہے جو اس میں نمودار اور نمایاں ہے۔ پس لازم ہے کہ آپ یا کوئی دوسرے صاحب اس بات کو حالت نقصان خیال نہ کریں کہ کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار باطنی ان کی امت کے کامل متبعین کو پہنچ جاتے ہیں اور سمجھنا چاہئے کہ اس انعکاس انوار سے کہ جو بطریق افاضہ دائمی نفوس صافیہ امت محمدیہ پر ہوتا ہے۔ دو بزرگ امر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدرجہ غایت کمالیت ظاہر ہوتی ہےکیونکہ جس چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوسکتا ہے اور ہمیشہ روشن ہوتا ہے۔ وہ ایسے چراغ سے بہتر ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہ ہوسکے۔ دوسرے اس امت کی کمالیت اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت اس افاضۂ دائمی سے ثابت ہوتی ہے اور حقیت دین اسلام کا ثبوت ہمیشہ تروتازہ ہوتا رہتا ہے۔ صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ گذشتہ زمانہ پر حوالہ دیا جائے۔ اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس سے قرآن شریف کی حقانیت کے انوار آفتاب کی طرح ظاہر ہوجاتے ہیں اور دین اسلام کے مخالفوں پر حجت اسلام پوری ہوتی ہے اور معاندین اسلام کی ذلّت اور رُسوائی اور رُوسیاہی کامل طور پر کھل جاتی ہے کیونکہ وہ اسلام میں وہ برکتیں اور وہ نور دیکھتے ہیں جن کی نظیر کو وہ اپنی قوم کے پادریوں اور پنڈتوں وغیرہ میں ثابت نہیں کرسکتے۔ فتدبر ایّھا الصادق فی الطلب ایدک اللّٰہ فی طلبک۔ …حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر شان بزرگ ہے۔ اور اس آفتاب صداقت کی کیسی اعلیٰ درجہ پر روشن تاثیریں ہیں۔ جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے۔ کسی کو عارف کے درجہ تک پہنچاتا ہے۔ کسی کو آیت اللہ اور حجّت اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامد الٰہیہ کا مورد ٹھہراتا ہے۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 268تا271 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت جس قدر بعض مقامات پر فروتنی اور انکساری میں کمال پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے وہاں معلوم ہوتا ہے کہ اسی قدر آپؐ روح القدس کی تائید اور روشنی سے مؤیّد اور منوّر ہیں جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اور فعلی حالت سے دکھایا ہے۔ یہاں تک کہ آپؐ کے انوار و برکات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ابدالآباد تک اس کا نمونہ اور ظل نظر آتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی جو کچھ خدا تعالیٰ کا فیض اور فضل نازل ہو رہا ہے وہ آپؐ ہی کی اطاعت اور آپؐ ہی کی اتباع سے ملتا ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہےقُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔(اٰلِ عمران:32)

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 203-204۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button