یادِ رفتگاں

محترم ماسٹر عمر حیات صاحب مرحوم

(شریف خان نیازی۔ لندن)

شہر میں اک چراغ تھانہ رہا

محترم ماسٹر عمر حیات صاحب مکرم حکیم محمد صدیق صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔آپ 16؍اپریل 1949ء کوشاہ پور ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ماسٹر عمر حیات صاحب کا سانحہ ارتحال برسوں یاد رہے گا اور قلب و ذہن ان کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کر کے غم کے حصار میں رہیں گے۔ انہوں نے 72 برس کی عمر میں سفرِ آخرت اختیار کیا۔میرا ان کا تعلق 55 برس کے عرصے پر محیط ہے۔یہ نصف صدی کا قصّہ ہے ،دو چار برس کی بات نہیں۔وہ 1965ءکی پاک بھارت جنگ سے کچھ عرصہ پہلے ربوہ تشریف لائے تھے اور میرے محلے فیکٹری ایریا ہی میں سکونت پذیر ہوئے۔اسی سال انہوں نے تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخلہ لیا اور 1970ء تک اس کالج میں رہ کر بی۔اےتک تعلیم مکمل کی۔ 1972ء میں وہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوئے اور تادم آخر یہ سلسلہ جاری رہا۔اسی دوران انہوں نے پرائیویٹ طور پر امتحان دے کر تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔بطورِ استاد ملازمت آپ کی پہلی تقرری پرائمری سکول دارالرحمت وسطی ربوہ میں ہوئی۔بعد میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ا اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی پڑھاتے رہے۔

گورنمنٹ کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو ناصر ہائیر سیکنڈری سکول ربوہ میں تعینات تھے ۔ اور ایک نیک نام استاد کی حیثیت سے معروف تھے۔ میرے ذہن میں ماسٹر عمر حیات صاحب کی شخصیت کی جو تصویر بنتی ہے وہ ایک بے تکلف ،بے ریا ،سادگی پسند، خلوص و محبت سے سرشار ، خدمتِ خلق پر ہر دم مستعد، ہمدرد اور انسانیت پرست انسان کی تصویر بنتی ہے۔ تحمل اور برداشت ان کا خاص وصف تھا۔اولاد کی کسی بھی بات پر وہ آپے سے باہر ہونے والے نہیں تھے۔ تحمل اور برداشت ان کا طرہ امتیاز تھا۔اپنے بہت محدود مالی وسائل اور قلیل آمدنی میں جس طرح انہوں نے نفاست اور سلیقہ شعاری سے اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہوئے زندگی گزاری اور بڑے باعزت طریق پر خاندانی تعلقات نبھاتے ہوئے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور اعلیٰ روزگار کے سامان کیے، وہ بذات خودایک سچے احمدی اور مثالی گھرانے کی ایک تابندہ مثال ہے۔

انہوں نے اپنے جواں سال بھائی انوار احمد کی موت کو جس حوصلہ اور صبر سے جھیلا وہ ایک مثال ہے۔وہ عمر بھر اس صدمے کو ساتھ لیے پھرتے رہے بھائی کی پیدائش اور وفات کے دن کو یاد رکھتے تھے اور اس کے بچوں اور بیوہ کا بہت خیال رکھتے تھے۔

مرحوم ایک صاحب علم اور وسیع مطالعہ رکھنے والی شخصیت تھے۔ اپنے موضوع پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ خاص طور پر اسلامی تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے۔اسلامی تاریخ کے اہم ادوار انہیں ازبر تھے۔ کبھی تاریخ کے موضوع پر گفتگو کرتے تو بے تکان بولتے جاتے اور بڑی روانی سے تاریخ کے اوراق الٹتے جاتے۔ اسی طرح آپ علم و ادب کے دیگر موضوعات شعر و شاعری ، سیاست اور جماعتی تاریخ کا ایک انمول خزانہ تھے۔مَیں نے جب بھی انہیں دیکھا کوئی نہ کوئی کتاب ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ہر وقت پڑھتے اور کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے۔ وہ مجلس انصاراللہ پاکستان کے علمی مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ خاص طورپرمقالہ تحریر کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور اکثر پہلی یا دوسری پوزیشن حاصل کرتے۔انہوں نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ، حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام کا سفر ِلاہور و سیالکوٹ ،نظام وصیت ،اسلام کا فلسفہ جہاد اور ہستی باری تعالیٰ کے موضوعات پر گراں قدرمقالے تحریر کیے جنہیں جماعتی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ حال ہی میں ہستی باری تعالیٰ کے حوالے سے ’’اللہ اکبر ‘‘کے عنوان پر مقالہ لکھ کر فارغ ہوئے تھے کہ انہیں 31؍جنوری 2021ء کو اللہ کی طرف سے بلاوہ آگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں خاص مقام عطا فرمائے آمین۔

میرے نزدیک بڑا پن یہ ہے کہ انسان بدلہ لینے کی طاقت اور قوت رکھتا ہو لیکن وہ بدلہ نہ لے اور معاف کر دے اور اس میں تکبر اور غرور نہ ہو۔انکساری، عاجزی ،خاکساری اور احقری اس کی زندگی کا جزو ہو۔وہ ہمدردی، پیارومحبت اور دوسروں کی مدد کرنے کے جذبات سے لبریز ہو۔ میرے نزدیک پیارے عمر حیات صاحب مرحوم کی زندگی ان تمام صفات سے مزیّن تھی۔ یہ محبتوں کے رشتے اور خدمتوں اور قربانی کے جذبے امام الزماں مسیحِ دوراں علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ یہ اسی پنیری کی پھلواریاں ہیں جو آقا کی عنایتوں کے عرقِ جگر اور اشک آلود دعاؤں سے سیراب ہوئیں اور آپ کے بے شمار غلاموں کی طرح ہمارے اس پیارے خدمت گذارعاجز بھائی عمرحیات کے کردار کی یادوں کے آنگن میں بھی ایک خوبصورت گلدستہ چھوڑ گئیں۔

خدا تعالیٰ رہتی دنیا تک اس کی تروتازگی اور مہک قائم رکھے آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button