متفرق مضامین

کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی مسلمان باقی بچ گیا ہے؟

(ابو نائل)

رسالہ ’’الاعتصام‘‘میں جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے اعتراضات کے مدلل جوابات

’’جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابل قبول اور قابل عمل ہو سکتی ہے جو قرآن کریم سے قطعی طور پر ثابت ہو اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر مروی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں اس پر عمل ثابت ہو۔‘‘

دائود ارشد صاحب کے مضامین پر تبصرہ تحریر کرنے میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ انہوں نے ان مضامین کو اس لیے لکھنا شروع کیا تھا کہ وہ کتاب ’’ خصوصی کمیٹی میں کیا گذری ‘‘پر تبصرہ کریں اور اس کتاب میں درج دلائل اور تبصروں کا جواب دیں ۔لیکن افسوس کہ انہوں نے تیرہ اقساط تو شائع کروادیں مگر کسی وجہ کی بنا پر انہوں نے اس موضوع کی طرف کم ہی توجہ فرمائی اور ہر کوئی ان کے مضامین کو دیکھ کر خود جائزہ لے سکتا ہے کہ انہوں نے وہی طرز اختیار کی جو کہ 1974ء میں جماعت احمدیہ کے مخالفین نے اختیار کی تھی یعنی اصل موضوع سے احتراز کرو اور غیر متعلقہ موضوعات پر بحث کر کے وقت گذارو۔ بلکہ دائود ارشد صاحب کے مضامین میں تو 1974ء میں ہونے والی کارروائی کا ذکر بھی کبھی کبھی ملتا ہے۔

موضوع سے احتراز

بہر حال انہوں نے جب بھی اس موضوع کا رخ کیا۔ہم ان مقامات کا جائزہ قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔چوتھی قسط میں دائود ارشد صاحب تحریر کرتے ہیں:’’ڈاکٹر مرزا سلطان احمد نے اپنی کتاب میں اس بات پر زور دیا ہے کہ جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہے ، اسے کافر کہنا جائز نہیں۔ہر انسان کا حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو اور کوئی شخص یا ادارہ اسے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔‘‘

(الاعتصام18تا24؍جون2021ءصفحہ16)

یہ ایک اہم موضوع تھا۔ جماعت احمدیہ کے محضرنامہ میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی ۔ اور جس کتاب پر تبصرہ کیا جا رہا ہے اس میں اس موضوع پر بحث کی گئی تھی۔لیکن مضمون نگار نہ تو جماعت احمدیہ کے محضرنامہ میں بیان کردہ موقف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے جواب میں جماعت احمدیہ کے مخالفین نے جوموقف پیش کیا تھا اس کا کوئی حوالہ بھی درج نہیں کرتے۔اور نہ اس موضوع پر اپنے نظریات بیان کرتے ہیں ۔ بلکہ ایک بار پھر موضوع تبدیل کر کے ربوہ کے اسٹیشن پر ہونے والے واقعہ پر بحث شروع کر دیتے ہیں۔

مسلمان کی تعریف کے بارےمیں جماعت احمدیہ کا موقف

اب ہم یہ بیان کریں گے کہ مضمون نگار اس اہم ترین موضوع کی طرف رخ کرنے سے گریز کیوں کر رہے ہیں؟جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیے گئے محضرنامہ کا دوسرا باب اسی موضوع کے بارے میں ہے۔اس باب میں یہ نکتہ اُٹھایا گیا ہے کہ اگر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون مسلمان نہیں ہے تو سب سے پہلے ہمیں ’’مسلمان ‘‘ کی تعریف کرنی پڑے گی۔ اگر مسلمان کی جامع تعریف کر دی جائے تو پھر اس کو معیار بنا کر ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم۔اور اس بارے میں جماعت احمدیہ کے محضرنامہ میں یہ اہم سوالات اُٹھائے گئے:

’’ا۔ کیا کتاب اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہےجس کا اطلاق خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا گیا ہو۔ اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے؟

ب۔ کیا اس تعریف کو چھوڑ کر جو کتاب اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اس کا اطلاق ثابت ہو کسی زمانہ میں کوئی اور تعریف کرنا کسی اور کے لئے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟‘‘

(محضرنامہ صفحہ 13)

اس اہم سوال کے بارے میں محضرنامہ میں جماعت احمدیہ کا یہ موقف بیان کیا گیا :’’جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابل قبول اور قابل عمل ہو سکتی ہے جو قرآن کریم سے قطعی طور پر ثابت ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر مروی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اس پر عمل ثابت ہو۔‘‘

(محضرنامہ صفحہ16)

جماعت احمدیہ کے مخالفین کا اعتراض

کتنا واضح اور غیر مبہم موقف ہے کہ اب جو فیصلہ کرنا ہے اس کی بنیاد قرآن کریم ، سنت نبوی ﷺو خلفائے راشدین اور احادیث نبویہ پر ہونی چاہیے۔سمجھ میں نہیں آتی کہ کوئی مسلمان اس موقف سے کس طرح اختلاف کر سکتا ہے۔ چاہیے تھا کہ تمام ممبران اسمبلی بیک زبان یہ کہتے کہ ہمارا جو بھی اختلاف ہو ہم اس اصول کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں۔

لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ مولوی عبد الحکیم صاحب نے اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ کے اس اصولی موقف پر یہ طنز کیا :’’اب جبکہ ملک میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبے میں بیس سال کے بعد پھر طاقت آئی ہے تو مرزائیوں کو بھی مسلمان کی تعریف کا شوق چرایا ۔تاکہ ہم کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں شمار ہو جائیں۔اس عنوان کے تحت صفحہ 15 پر مرزائی محضرنامہ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی تعریف کو جائز نہیں سمجھتے جو کتاب اللہ اور خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی تعریف کے بعد کسی زمانہ میں کی جائے۔‘‘

(کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ 2364)

ملاحظہ فرمائیں کہ جماعت احمدیہ کا موقف ہے کہ جو فیصلہ کرو اس کی بنیاد قرآن ، سنت اور حدیث پر ہونی چاہیے۔ کسی انسان کے فیصلہ کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔اور جماعت احمدیہ کے مخالف مولوی صاحبان یہ طنز کر رہے ہیں کہ احمدیوں کو دیکھو وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے علاوہ کسی اور کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔

اس کے بعد عبد الحکیم صاحب نے اپنی طرف سے کچھ آیات پیش کیں جن میں ان کے نزدیک مسلمان کی تعریف بیان کی گئی تھی ۔ ان میں سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔

وَ لَقَدۡ کَذَّبَ اَصۡحٰبُ الۡحِجۡرِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔(الحجر:81)

یعنی اصحاب حجر نے رسولوں کو جھٹلا دیا ۔

کَذَّبَ اَصۡحٰبُ لۡـَٔـیۡکَۃِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔(الشعراء:177)

جھٹلایا بن کے رہنے والوں نے پیغمبروں کو

وَ اَخِیۡ ہٰرُوۡنُ ہُوَ اَفۡصَحُ مِنِّیۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡہُ مَعِیَ رِدۡاً یُّصَدِّقُنِیۡۤ ۫ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ۔(القصص:35)

اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔ اس کو میرے ساتھ رسول بنا دیں (مددگار) جو میری تصدیق کریں۔مجھے خطرہ ہے وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے۔

(کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ2372)

ظاہر ہے کہ ان آیات کریمہ میں مسلمان کی قانونی تعریف نہیں بیان کی جا رہی۔یہ بات نا قابل فہم ہے کہ عبد الحکیم صاحب کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے ؟ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ممبران اسمبلی جماعت احمدیہ کے موقف پر تو اعتراض کر بیٹھے تھے لیکن اب ان کو خود سمجھ نہیں آ رہا کہ اس مسئلہ سے کس طرح نمٹیں؟

کیا قومی اسمبلی کا فیصلہ رسول اللہ ﷺکے فیصلے سے زیادہ جامع ہے؟

عبد الحکیم صاحب نے تو یہ کارنامہ سرانجام دیا کہ جماعت احمدیہ کے اس موقف پر طنز کر دیا کہ قانون میں مسلمان کی جو بھی تعریف کی جائے اس کی بنیاد قرآن، سنت اور حدیث پر ہونی چاہیے اور مفتی محمود صاحب ان سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کر دیا کہ اس میں مسلمان کی جو تعریف بیان کی گئی ہے وہ جامع و مانع تعریف نہیں ہے۔ مفتی محمود صاحب نے کہا :’’وہ حدیث کے اسلوب و انداز سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہاں مسلمان کی کوئی قانونی اور جامع و مانع تعریف نہیں کی جا رہی ۔‘‘

(کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ1992)

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس اعتراض کا کیا مطلب ہوا؟ یعنی پاکستان کی قومی اسمبلی مسلمان کی جو تعریف گھڑے گی وہ تو قانونی طور پر صحیح ہو گی لیکن حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی جو تعریف بیان فرمائی وہ قانونی طور پر صحیح نہیں ہو گی۔اور پاکستان کے چند سیاستدان مسلمان کی جو تعریف کریں گے وہ تو جامع تعریف ہو گی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعریف بیان فرمائی وہ جامع تعریف نہیں ہو گی ۔ جماعت احمدیہ کا موقف یہ تھا کہ خدا اور رسول کے فیصلہ کی طرف آئو اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین اس بات پر بضد تھے کہ ہم خدا اور رسول کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے بلکہ اپنا فیصلہ مسلط کریں گے۔

کیا قومی اسمبلی نےمسلمان کی کوئی تعریف پیش کی تھی؟

بہر حال ایک ممبر اسمبلی غلام نبی چودھری صاحب نے اس عزم کا اظہار کیا :’’جناب والا !میری استدعا ہے ہمیں اس بات کا فیصلہ، ایک مسلمان کی definitionکا فیصلہ جو ہمارے ذمہ ہوا ہے اس کو ہم انشاء اللہ نہایت بہتر اور اس انداز میں اس کمیٹی سے اس ایوان سے کر کے اُٹھیں گے جس انداز میں کہ ہم نے اس ملک کے کروڑوں عوام کو مشترکہ طور پر اور متحدہ انداز میں ایک کانسٹی ٹیوشن دیا ہے۔‘‘

( کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ2812)

اس کے بعد مفتی محمود صاحب ایک بار پھر میدان میں آئے اور بجائے مسلمان کی تعریف بیان کرتے یہ مسئلہ لے بیٹھے کہ مرزائیوں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوئوں کی تعریف کی جائے ۔ اور ’’ مسلمان‘‘ کی تعریف کے بارے میں انہوں نے کہا کہ’’اس کے علاوہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں ، جیسا کہ بعض چیزیں ہمارے سامنے آئی ہیں کہ دستور میں مسلمان کی تعریف کی جائے، تعریف با معنی اور جامع ہو جائے گی تو وہ لوگ سمجھتے کہ اس طرح مرزائی مسلمان کی تعریف میں جب شامل نہیں ہو گا تو خود بخود غیر مسلم قرار دے دیا جائے گا ۔بعض یہ سمجھتے ہیں کہ غیر مسلم کی تعریف کی جائے اور غیر مسلم کی تعریف میں اس کی تعریف ایسی نہیں بلکہ اس میں یہ فرقہ بھی آ جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج مسلمانوں کا مطالبہ جو ہے اور یہ پورے ملک کا مطالبہ ہے وہ مسلمان کی تعریف کا مطالبہ نہیں ۔‘‘

(کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ 2922)

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مفتی محمود صاحب اس بات سے گریز کر رہے تھے کہ آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کی جائے ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن، سنت اور احادیث کے فیصلے کو ترک کر کے وہ اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکتے ۔

اس کے بعد قومی اسمبلی ’’مسلمان ‘‘ کی تعریف کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ اور نہ ہی دوسری آئینی ترمیم میں ’’مسلمان ‘‘کی کوئی تعریف شامل ہے۔یہ تعریف بعد میں جنرل ضیاء صاحب نے حکم نامہ جاری کرکے آئین میں شامل کی تھی ۔

’’مسلمان‘‘کی تعریف کا مسئلہ تحقیقاتی عدالت میں

1974ءکی کارروائی میں شامل مولوی صاحبان جانتے تھے کہ جب 1953ء کے فسادات پر قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت میں جج صاحبان نے جید علماء سے دریافت کیا ’’مسلمان‘‘کی تعریف کیا ہے تو ہر عالم نے دوسرے سے مختلف تعریف بیان کی۔اس پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں یہ تبصرہ کیا گیا :’’ان متعدد تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں ۔ اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں توہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرےتمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے ۔‘‘

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء صفحہ 235و236)

اوراس باہمی اختلاف کا مظاہرہ اس خصوصی کمیٹی کی کارروائی کے دوران بھی ہو گیا ۔ کیونکہ اس کارروائی کے دوران ایک ممبر ملک محمد جعفر صاحب نے مسلمان کی ایک تعریف پیش کی (صفحہ 2660)اور اسلام پر ایمان لانے کی ایک تعریف عبد الحکیم صاحب نے پیش کی (صفحہ 2374)یہ دونوں تعریفیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ یہ دونوں تعریفیں نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف تھیں بلکہ ان تعریفوں سے بھی مختلف تھیں جو کہ 1953ء میں مختلف علماء نے پیش کی تھیں۔

مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو چیلنج

یہ تو مسلمان کی تعریف کا مسئلہ تھا لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ مضمون نگار اس بات پر پیچ و تاب کھا رہے ہیں کہ یہ کیوں لکھا گیا کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اسے غیر مسلم کہنا مناسب نہیں ہے۔یہاں ایک سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ جب بھی اس مطالبے نے زور پکڑا کہ احمدیوں کو کافر قرار دو تو کیا یہ شوق احمدیوں تک محدود رہا۔ اس کےکیا نتائج برآمد ہوئے؟

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی اس مسئلے پر احمدیوں کے خلاف تحریک چلائی گئی تو جلد ہی دوسرے فرقے بھی اس مطالبے کی لپیٹ میں آئے اور فتنوں اور فسادوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ہم سب جانتے ہیں کہ 1953ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے ایک پر تشدد تحریک چلائی گئی ۔ لیکن جب ان فسادات پر تحقیقاتی عدالت نے کام شروع کیا تو وہ گروہ جو ان فسادات کے دوران شیر و شکر ہو رہے تھے ایک دوسرے کو کافر قرار دینے لگ گئے ۔

کسی وجہ سے جسٹس کیانی صاحب اور جسٹس منیر صاحب نے اپنی رپورٹ میں سے اصل کارروائی کے بعض ایسے حصے شامل نہیں کیے تھے یا حذف کر دیے تھے جن کی اشاعت کے نتیجے میں گواہی دینے والے کئی علماء بہت بڑی مشکل میں پڑ سکتے تھے۔ان علماء نے یہ گواہی تو دی تھی کہ ان کے نزدیک احمدی کافر اور غیر مسلم ہیں لیکن عدالتی کارروائی کے دوران یہ تکفیر اس سے بہت آگے بڑھ گئی تھی اور ان علماء نے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یہ تحریک چلا رہے تھے ایک دوسرے کو بھی کافر قرار دینا شروع کر دیا تھا۔ اس کی چند مثالیں پیش ہیں:

1۔3؍ستمبر 1953ء کو صدر جمعیت العلماء پاکستان سید ابو الحسنات قادری صاحب بحیثیت گواہ نمبر 13 عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے اہل حدیث کو کافر قطعی قرار دیا اور کہا کہ ایک ایسا فتویٰ بھی موجود ہے کہ دیوبندی بھی کافر ِ قطعی ہیں۔ اور ایک اور فتویٰ میں شیعہ احباب کو فقہی کافر قرار دیا گیا ہے۔

2۔ عبد الحامد بدایونی صاحب نے کہا کہ میں تو ہر دیوبندی کو کافر نہیں سمجھتا لیکن بعض علماء نے ان میں سے بعض کو کافر قرار دیا ہے۔

3۔ 21؍اکتوبر 1953ء کو مولانا محمد علی کاندھلوی صاحب گواہ نمبر 76کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے حلفیہ گواہی دی کہ میرے نزدیک معتزلہ اور اہل قرآن کافر ہیں۔

4۔گواہ نمبر 17 مولوی شفیع دیوبندی صاحب تھے۔ جج صاحبان نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو علم ہے کہ احمد رضا خان بریلوی صاحب نے اور سید محمد احمد قادری صاحب نے دیوبندیوں کو کافر قرار دیا ہے۔پہلے انہوں نے کہا کہ یہ فتویٰ غلط ہے اور غلط خیالات کی بنا پر دیا گیا ہے ۔ پھر جج صاحب کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایک حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو کسی مسلمان کو غلط کافر قرار دے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔

5۔اسی طرح جماعت اسلامی کے مولانا طفیل محمد صاحب 14؍اکتوبر 1953ءکو گواہی کے لیے پیش ہوئے ۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اہل قرآن کو کیا سمجھتے ہیں تو پہلے انہوں نے ان کے عقائد سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جب جج صاحب نے کہا کہ اگر وہ سنت اور حدیث پر یقین نہیں کرتے ۔ اس پر انہوں نے کہا پھر تو میں انہیں کافر سمجھوں گا۔

حقیقت یہ تھی کہ کسی وجہ سے جسٹس کیانی صاحب اور جسٹس منیر صاحب نے کارروائی کا بہت بڑا حصہ اپنی رپورٹ میں شامل نہیں کیا تھا ۔ اگر کارروائی کا یہ حصہ اس وقت شائع ہوجاتا تو جماعت احمدیہ کے مخالفین کو بہت بڑ ا دھچکا پہنچ سکتا تھا۔ کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ جو مخالفین جماعت 1953ء میں ایک دوسرے سے مل کر تحریک چلا رہے تھے ان میں سے کئی ایک دوسرے کو بھی کافر قرار دے رہے تھے۔میرا خیال ہے کہ ان علماء کو ان جج صاحبان سے ناراض ہونے کی بجائے ان کا مشکور ہونا چاہیے۔

بھٹو صاحب خود فتوے کی زد میں

جب 1974ء میں آئین میں ترمیم کر کے قانون اور آئین کی اغراض کے لیے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تو کچھ عرصے کے لیے بھٹو صاحب کو اس نام نہاد کارنامے کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ۔ لیکن جلد ہی وہ بھی اسی عمل کی زد میں آ گئے۔ میں 18؍مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے سنائے جانے والے ایک فیصلے کی مثال پیش کرتا ہوں۔اُس وقت سابق وزیر ِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب پر نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔ مولوی مشتاق صاحب اس بینچ کی سربراہی کر رہے تھے اور فیصلہ جسٹس آفتاب صاحب نے لکھا تھا۔ اس مقدمہ کا جو فیصلہ سنایا گیا وہ تو سب جانتے ہیں یعنی بھٹو صاحب کو سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن اس فیصلہ کے پیراگراف 611 میں بھٹو صاحب کے بارے میں یہ بھی لکھا گیا کہ وزیرِ اعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو قرآن و سنت پر مکمل ایمان رکھتا ہو ۔ اسے صرف نام کا مسلمان نہیں ہونا چاہیے۔ جب بھٹو صاحب سپریم کورٹ کے سامنے اپنی زندگی کی آخری تقریر کر رہے تھے تو انہوں نے خاص طور پر عدالتی فیصلے کےاس حصے پر احتجاج کیا۔ بھٹو صاحب نے عدالت میں کہا کہ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مجھے نام کا مسلمان قرار دے ۔ ایک اسلامی ریاست میں اور پھر ایک کلمہ گو کے لیے یہ بڑی غیر معمولی بات ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے۔ میرے خیال میں اسلامی تہذیب میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مسلم لیڈر، ایک مسلم صدر، ایک مسلم وزیراعظم جس کو مسلمانوں نے منتخب کیا تھا یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ میں آج بھی اسلامی سربراہی کانفرنس کا صدر ہوں ۔ بھٹو صاحب نے چیف جسٹس صاحب کو مخاطب کر کے کہا مائی لارڈ آپ میری جگہ نہیں ہیں۔آپ نہیں جانتے کہ عدالت کے ریمارکس نے مجھے کتنا دکھ پہنچایا ہے۔ ایسی توہین سے تو بہتر ہوتا کہ مجھے پھانسی دے دی جاتی یا کسی فوجی ٹریبونل کے ذریعہ ختم کردیا جاتا۔

(تفصیلات کے لیے ملاحظہ کریں ’بھٹو کا عدالتی قتل‘از مجاہد لاہوری، عدالت عظمیٰ سے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی خطاب مترجم ارشاد رائو)

بہر حال سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے یہ حصے تو ختم کر دیے لیکن سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ 4؍اپریل 1979ء کو بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی۔ لیکن مرنے کے بعد بھی ان کی مذہبی حیثیت کا فیصلہ کرنے کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ کرنل رفیع صاحب جو وہاں ڈیوٹی پر تھے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی تو یہ دیکھنے کے لیے ان کی لاش کی تصویریں لی گئیں کہ ان کے ختنے ہوئے ہیں کہ نہیں اور لکھتے ہیں کہ اس سے حکام کا یہ شک دور ہو گیا کہ ان کے ختنے نہیں ہوئے تھے۔اس فعل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن جب ہر کوئی اپنے دائرہ کار سے تجاوز کر رہا ہو تو اس کا انجام اس قسم کی بیہودگیوں پر ہی ہوتا ہے۔بہر حال 1974ء کے ہیرو بھٹو صاحب کو بھی سپریم کورٹ میں یہ کہنا پڑا کہ کسی کو حق نہیں کہ وہ کلمہ گو کو کافر قرار دے۔

حضرت امام جماعت احمدیہ کا انتباہ اور مخالفین کا جواب

اور بعد میں تکفیر کے اس جنون نے وہ شدت اختیار کی جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ 1974ءمیں جماعت ِاحمدیہ کی طرف سے محضرنامہ پیش کیا گیا تھا۔اس محضر نامہ میں واضح انتباہ کیا گیا تھا کہ ابھی بظاہر صرف جماعت ِاحمدیہ کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہےورنہ حقیقت یہ ہے کہ بہت وسیع سازش تیار ہو چکی ہے۔ اور گاہے بگاہے اس کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔اصل منصوبہ یہ ہے کہ اس مرحلے کے بعد بہت سے دوسرے فرقوں پر کفر کے فتوے لگائے جائیں گے۔ اور یہ عمل اتنا آگے بڑھ جائے گا کہ کچھ کو کافر اور مرتد اور کچھ کو واجب التعزیر اور واجب القتل قرار دیا جائے گا۔اور اس طرح عالم اسلام کا اتحاد تباہ کر دیا جائے گا اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں ان گنت فسادات کا راستہ کھل جائے گا۔امام جماعت ِاحمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے اس کے معین ثبوت قومی اسمبلی میں پیش کیے تھے۔

(ملاحظہ کیجیے محضرنامہ صفحہ167تا172)

حضرت امام جماعت احمدیہ نے قومی اسمبلی کے ممبران کے سامنے یہ حقائق پیش کر کے اتمام حجت کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں مفتی محمود صاحب نے اقبال کی تحریروں کے حوالے پیش کیے تھے کہ عالم ِاسلام کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے ۔ اور پھر تفصیلی موقف پیش کیا کہ عالم ِاسلام میں باہمی فتاویٰ کفر تو چند غیر اہم علماء کی طرف سے پیش کیے گئے تھے۔ ورنہ ہر اہم معاملہ میں تمام فرقوں کے علماء متحد ہیں ۔ مختصراََ یہ کہ مفتی محمود صاحب کا دعویٰ تھا کہ اس فیصلہ سے عالم ِاسلام میں اتحاد پیدا ہوگا اور کوئی فتنہ و فساد پیدا نہیں ہوگا۔اب اس فیصلہ کو چالیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا 1974ءمیں اس فیصلے کے بعد عالم ِاسلام میں اتحاد میں اضافہ ہوا یا ان گنت فسادات کا رستہ کھل گیا اور یہ اتحاد پارہ پارہ کر دیا گیا۔کیا جماعت ِاحمدیہ کے خدشات درست ثابت ہوئے یا جماعت ِاحمدیہ کے مخالفین کے دعوے صحیح نکلے۔اس موضوع پر بہت سے نامور محققین اظہار خیال کر چکے ہیں۔ ہم اپنی رائے لکھنے کی بجائےان میں سے چند معروف کتب کے حوالے درج کریں گے۔ جن سے حقیقت روز ِروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔

تکفیر کا جنون پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے

حقیقت یہ ہے کہ جس ضلع سے 1974ءمیں جماعتِ احمدیہ کے خلاف فسادات کے عمل کو شروع کرنے کا آغاز کیا گیا تھا اسی ضلع سے دوسرے فرقوں کے خلاف تکفیر کے عمل کو نئے سرے سے وسیع کرنے کے منحوس عمل کا آغاز بھی کیا گیا۔مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں:’’اور پنجاب کے وسطی شہر جھنگ میں با اثر شیعہ جاگیرداروں کے خلاف ایک مقامی خطیب مولانا حق نواز جھنگوی نے بعض عقائد کی وجہ سے شیعہ فرقہ کی تکفیر کا نعرہ بلند کر دیا۔اگر چہ بر صغیر میں دیوبندی اور اہل ِحدیث مکاتبِ فکر کی طرف سے اہل ِتشیع پر کفر کے فتاویٰ ملتے ہیں جبکہ دیگر مکاتب ِفکر بھی ایک دوسرے کے بارے میں تکفیر کے فتاویٰ جاری کرتے رہے ہیں لیکن ان فتاویٰ کی روشنی میں قتل و غارت گری کا بازار کہیں گرم نہیں ہوا تھا۔جھنگ میں فرقہ وارانہ فسادات نے زور پکڑا اور اطراف کے لوگ قتل ہونے لگے۔‘‘

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ29)

محققین یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جو شدت پسند علماء شیعہ احباب کے خلاف کفر کے فتوے دیتے ہیں ان کے نزدیک بھی دوسری آئینی ترمیم ان کے فتاویٰ کی تصدیق کرتی ہے کہ شیعہ احباب دائرہ اسلام سےخارج ہیں۔حالانکہ دوسری آئینی ترمیم احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے لائی گئی تھی اور شیعہ ممبران نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔

(Sectarian War, by Khaled Ahmed, published by Oxford 2013 p20)

چنانچہ بعد میں برملا یہ فتاویٰ جاری ہوئے کہ قادیانیوں کی طرح شیعہ بھی ختم نبوت کے منکر ہیں۔ چنانچہ ’’خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ‘‘میں لکھا ہے:

’’شیعہ اثنا عشریہ اپنے عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں ، اس بارے میں جو کچھ بھی استفتاء میں لکھا گیا ہے امید ہے کہ اسی کے مطالعہ سے ناظرین کو اس بارے میں اطمینان و یقین حاصل ہو جائے گا۔اور عقیدۂ ختم نبوت کا قطعیات اور ضروریات دین میں سے ہونا کسی وضاحت کا محتاج نہیں ، قادیانیوں کو خاص کر عقیدہ ٔختم نبوت کے انکار ہی کی وجہ سے کافر اور خارج از اسلام قرار دیا گیا ہے ، اگرچہ وہ اپنے اس انکار کی تاویل کرتے ہیں ، اور اپنے تراشے ہوئے معنی کے لحاظ سے حضور کو خاتم النبیین بھی کہتے ہیں ، بالکل یہی حال اثنا عشریہ کا ہے، جیسا کہ استفتاء میں وضاحت سے لکھ دیا گیا ہے ۔‘‘

(خمینی اور اثناء عشریہ کے متعلق علماء کرام کا متفقہ فیصلہ۔ماہنامہ بینات خصوصی اشاعت صفحہ21)

اس طرح جلد ہی دوسری آئینی ترمیم کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ نہ صرف کفر کے باہمی فتاویٰ میں تیزی آگئی بلکہ قتل و غارت کا بازار بھی گرم ہو گیا۔یہ آگ صرف ایک ضلع تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک خون ریز جنگ کا روپ دھار لیا۔جیسا کہ مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں:’’فرقہ وارانہ جنگ پاکستان میں اپنا رنگ دکھانے لگی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کا سلسلہ طویل ہوتا گیا۔جنگ میں سپاہ ِصحابہ کے سربراہ مولانا حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد فرقہ وارانہ فسادات شدت اختیار کر گئے۔جھنگ کے اہل ِتشیع جاگیر داروں اور آباد کار سنیوں کے درمیان قتل و غارت کا سلسلہ آہستہ آہستہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔‘‘

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ31)

بالآخر شیعہ احباب کی تحریک ِنفاذِ فقہ جعفریہ کو ایک میٹنگ میں جو ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے بلائی گئی تھی یہ کہہ کر مذاکرات کو ختم کرنا پڑا کہ کسی اسمبلی ، کسی عدالت یا کسی اور فورم کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کے ایمان کا فیصلہ کرے۔یاد رہے یہی موقف جماعت ِاحمدیہ نے اپنے محضرنامہ میں پیش کیا تھا۔

(Sectarian War, by Khaled Ahmed, published by Oxford 2013 p22)

مفتی محمود صاحب اور ان کی جماعت جمعیت العلماء اسلام 1974ءمیں جماعت ِاحمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش تھی۔اور حقیقت یہ ہے کہ مفتی محمود صاحب کی جماعت کے اراکین نہ صرف ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کا باعث بنے بلکہ ایسا ماحول پیدا ہوا جس سے برادر مسلم ممالک میں کشیدگی پیدا ہوئی۔اسی کتاب کا ایک اور حوالہ پیش ہے۔

’’سپاہ ِصحابہ نے شیعہ اقلیت کے متعدد افراد کو قتل کیا اور انہیں پاکستان میں اپنے عقائد کی وجہ سے غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔پاکستان کو ایک سنی ریاست بنانے اور یہاں خلافت قائم کرنے کی خواہشمند اس تنظیم کی نظریاتی وابستگی تحریک ِطالبان پاکستان سے ہے ۔پاکستان میں شیعہ اور ایرانی مفادات کو نشانہ بنانا اس کے اہم مقاصد میں شامل رہا ہے۔یہ تنظیم ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دینے میں بھی ملوث رہی ہے سپاہ ِ صحابہ در اصل جمعیت علماء ِاسلام کی ایک ذیلی شاخ کی طرح ہے…‘‘

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ180)

مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنانے کی دھمکیاں

یہ شدت پسندی صرف زبانی کفر کے فتاویٰ تک محدود نہیں رہی۔ بلکہ پھوٹ ڈالنے کی اس مہم نےایسا خوفناک رنگ اختیار کیا کہ جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مجاہد حسین صاحب نے اپنی کتاب میں ایک اشتہار کی نقل شائع کی ہے، جس میں ایک شدت پسند تنظیم نے مسلمانوں کے ایک فرقےکو یہ دھمکی دی ہے کہ وہ اسلام کی آڑ میں دین اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اب انہیں ان میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہو گا ۔ یا تو وہ اسلام قبول کر لیں، یا جزیہ دیں، یا یہاں سے ہجرت کر جائیں۔ورنہ ان کی جائیدادوں اور عبادت گاہوں پر قبضہ کر لیا جائے گا اور ان کی عورتوں کو کنیزیں بنا لیا جائے گا۔ اور ان کے بچوں کو غلام بنا کر یا تو مسلمان کر لیا جائے گا یا پھر ان سے بیگار لیا جائے گا۔

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ101)

اس دیدہ دلیری سے خوف و ہراس کی فضا قائم کی جا رہی ہے کہ پنجاب کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کے ایک فرقہ سے منسلک افراد کے گھر وں میں ایسے خطوط بھی بھیجے گئے جن میں یہ لکھا گیا تھا کہ وہ کافر ہیں۔یا تو وہ اسلام کی طرف لوٹ آئیں۔ ورنہ ان کے مردوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلایا جائے گا۔ان کی عورتوں کو کنیزیں اور ان کے بچوں کو غلام بنایا جائے گا اور ان کی جائیدادوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ103)

اور یہ فرقہ وارانہ تصادم صرف زبانی فتاویٰ یا فسادات کی صورت تک محدود نہ رہا بلکہ جنرل ضیاء صاحب کی آشیر باد سے اس نے پارا چنار جیسے علاقوں میں کھلم کھلا جنگ کی صورت اختیار کر لی۔

(Sectarian War, by Khaled Ahmed, published by Oxford 2013 p35)

دہشت گردوں کی دیدہ دلیری اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ ملک کے سربراہ حکومت کو بھی دھمکیاں بھجواتے ہیں کہ اگر انہوں نے ان کی تنظیموں کے خلاف اقدامات بند نہ کیے تو انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ113)

شدت پسندی کا یہ سرسام کبھی بھی ایک یا دو فرقوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک کےبعد دوسرا فرقہ اس کی زد میں آتا رہتا ہے۔1974ءمیں جماعت ِاحمدیہ نے اپنے محضرنامہ میں اس حقیقت کی نشاندہی کر دی تھی اور بعد میں ظاہر ہونے والے حالات نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ جماعت احمدیہ کے خدشات سو فیصد صحیح ثابت ہوئے۔مجاہد حسین اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتےہیں:’’…قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یہ بحث ہونے لگی کہ کون سا فرقہ کافر ہے اور ایک مذہبی جماعت نے اپنے مخالف فرقہ کی تکفیر کے لیے ایوان میں باقاعدہ بل پیش کر دیا ۔جواب میں دوسرے مسلک کی طرف سے بھی ایسا ہی ایک بل سامنے آگیا اور یوں1974ءکے بعد ایک بار پھر یہ محسوس کیا جانے لگا کہ سیاسی فوائد کے حصول کے لیے حکمران سیاسی جماعت ایک مکتبہ فکر کے افرادکی ’’قانونی تکفیر ‘‘پر آمادہ ہو چکی ہے۔‘‘

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ190)

’’…پاکستان میں اہل تشیع اپنے مخالفین سے بہت کمزور ہیں اور تعداد سے لے کر عسکری طاقت اور جنگی تربیت تک کے معاملات میں ان کی پسماندگی بہت واضح ہے…1974ءمیں جیسے احمدیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا تقریباََ اسی طرح 1997ءمیں انہیں بھی کافر قرار دلوانے کی تحریک زور پکڑ گئی تھی لیکن ایران کی بر وقت مداخلت اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ’’بزدلی‘‘کے باعث ایسا نہ ہو سکا ۔سپاہِ صحابہ نے جس طرح چابکدستی کے ساتھ ناموس ِصحابہ بل تیار کیا تھا اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس پر بحث کی اجازت دے دیتے تو اکثریتی فیصلہ شیعوں کو اقلیت قرار دینے پر منتج ہوتا ۔یہ ایک بات ہے کہ مخالف علماء نے جہاں تک ان کی رسائی ہے اہل تشیع کے ساتھ کفر کے فتوے کو چسپاں کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین، ناشر سانجھ لاہور مارچ 2011ء صفحہ305تا306)

’’پنجاب میں تحریک ِ طالبان کے ورثاء جو تتر بتر شیعہ تنظیموں کو تقریباََ شکست فاش دے چکے ہیں، اب ان کے اگلے اہداف بریلوی مسالک کی تنظیمیں ہیں جبکہ پنجاب میں دیوبندیوں کے درمیان بھی واضح تقسیم دیکھی جا سکتی ہے جو تیزی کے ساتھ حیاتی اور مماتی کی عقیدہ جاتی شناختوں کو واضح کر رہے ہیں…‘‘

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ275)

’’اگر ان سخت گیر اسلام کے نفاذ کے داعیوں کے خصوصی اجتماعات یا خطبات کو سنا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شدت ِجذبات کا کیا حال ہے۔ان خطبات میں صوفیاء کے مزاروں اور خانقاہوں پر زائرین کے جانے کو شرک سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مشرک کو بد ترین شخص قرار دیا جاتا ہے ، جس کی سزا موت سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘

(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ296)

احمدیوں کی مخالفت کی آگ بھڑکانے کا یہ انجام ہوا۔اگر یہ تمام مطالبات تسلیم کر لیے جائیں تو پاکستان میں یہ سوال نہیں اُٹھے گا کہ کس کو غیر مسلم قرار دینا ہے بلکہ شاید ایک روز ان میں سے کوئی گروہ ایک مختصر سی فہرست شائع کر دے کہ پاکستان میں صرف یہ لوگ مسلمان رہ گئے ہیں باقی تمام لوگ اپنے آپ کو کافر اور مرتد سمجھیں اور اس تنگ نظر گروہ کے نزدیک مرتد کی سزا کیا ہے۔ ان کے نزدیک مرتد واجب القتل ہے۔اب سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں کون غیر مسلم ہے ؟ اب سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کتنے ایسے بچے کھچے لوگ بچ گئے ہیں جو تمام فرقوں کے نزدیک مسلمان کہلا سکتے ہیں۔یا شاید اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی بھی مسلمان باقی نہیں رہا۔ انا لله وانا اليه راجعون۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button