متفرق مضامین

نظام جماعت کی برکات اور ہمارا فرض

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت))

(تقریر بر موقع جلسہ سالانہ یوكے 2021ء)

نظام کی کامیابی کا اور ترقی کا انحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی پرہوتا ہے(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ

(آل عمران :104)

ترجمہ:اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر (کھڑے) تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ شاید تم ہدایت پا جاؤ۔

خاکسار کو اِس وقت آپ کے سامنے ’’نظام جماعت کی برکات اور ہمارا فرض ‘‘کے موضوع پر کچھ عرض کرنا ہے۔

جماعت اُن افراد کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو ایک امام کی ماتحتی میں متحد ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کر چکے ہوں اور ایک متحدہ پروگرام کے مطابق کام کر بھی رہے ہوں۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب اسّی کروڑ سے زائد ہے۔لیکن کیا اِس وقت دنیا کے مسلمان کسی ایک شخص کے ماتحت ہو کر اور آپس میں مل کر کام کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں؟یا ان کاکوئی متحدہ پروگرام ہے؟

جماعت احمدیہ مسلمہ سے باہر دوسرے مسلمان کہلانے والے فرقوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ وہ اتنے فرقوں اور گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور ان کے درمیان ایسے شدید اختلاف پائے جاتے ہیں کہ ان کے باہمی اتحاد کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اور اس عدم ِاِتّفاق اور تفرقہ و اختلاف کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان غیروں کے رحم و کرم پر ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ذلّت و مَسکنت ان کے ساتھ لازِم کر دی گئی ہے۔ وہ مختلف سیاستوں میں بٹے ہوئے اور الگ الگ حکومتوں میں تقسیم ہیں۔ اُن میں باہمی اتحاد کی ہر کوشش مزید افتراق پرمنتج ہوتی ہے۔اُن میں سب کی آواز کو ایک جگہ جمع کرنے والی کوئی طاقت نہیں۔

جہاں تک متحدہ پروگرام کا تعلق ہے تو ان غیر احمد ی مسلمانوں کا کوئی متحد ہ پروگرام بھی نہیں۔ نہ سیاسی، نہ تمدّنی، نہ مذہبی۔ غرض پروگرام کے لحاظ سے بھی غیر احمدی مسلمان ایک جماعت نہیں۔ وہ انسانوں کا ایک اَنبوہِ عظیم تو کہلا سکتا ہے لیکن انہیں ایک جماعت نہیں کہا جا سکتا۔

کہنے کو تو عالم اسلام میں وحدت پیدا کرنے کے لیے ‘رابطہ’جیسی تنظیمیں بھی موجود ہیں اور اتحاد بین المسلمین کے نام پر بھی کئی نام نہاد جماعتیں قائم ہیں۔ لیکن حقیقی وحدت عنقاہے۔زبانوں پر اِتّفاق،اِتّفاق ہے۔ مگر دل باہمی بغض، کینے اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔

تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی

کا مضمون ان پر صادق آتا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک گروہ کا دائرہ عمل محدود ہے اورقوّتِ عمل مفقود۔

آج رُوئے زمین پر خلافت حقّہ اسلامیہ سے وابستہ صرف جماعت احمدیہ ہی وہ واحد عالمی جماعت ہے جو ایک امام اور خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر بیعت کر کے للّہی محبت اور حقیقی اسلامی وحدت کی لڑی میں اِس طرح پروئی ہوئی ہے کہ خلیفہ ٔ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ اور ایک ہی وجود کے دو زاویے۔ اُن کا باہمی اِتّحاد اور اتِّصال اور تعلق بڑا گہرا، مضبوط اور مستحکم ہے۔

آج تمام عالَم میں جماعت احمدیہ ہی ایک جماعت ہے جو 213؍ممالک میں پھیلی ہوئی ہونے کے باوجود ایک جمعیت رکھتی ہے، ایک مرکز رکھتی ہے اور دُور دُور پھیلے ہوئے احمدیوں کے دل بھی آپس میں اِس طرح جُڑے ہوئے ہیں کہ گویا وہ ایک ہی وجود کے مختلف اعضاء ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں کسی احمدی کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور اس تکلیف کی خبر جب دنیا میں پھیلتی ہے تو ساری جماعت اس تکلیف میں شریک ہوتی اور اس کے ازالے کے لیے اپنے امام کی ہدایت کے تابع متحرک ہو جاتی ہے۔ یہ للّہی اُلفت ومحبّت اور ہمدردی و اخوت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈالی ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو زمین و آسمان کے خزانوں کے عوض بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ باہمی محبّت و مودت کا یہ رشتہ جماعت کا سرمایہ بھی ہے اور جماعت کی ناقابل تسخیر طاقت بھی۔

جماعت احمدیہ کا نظام ملکی، قومی یا علاقائی حدود میں مقید نہیں۔ یہ جماعت نہ مشرقی ہے، نہ مغربی۔ بلکہ رحمت للعالمین ﷺ کے فیضان سے اور آپ ﷺ کی دی ہوئی بشارات کے طفیل قائم ہونے والی ایک عالمی جماعت ہے۔ اس کا دائرہ کار اور دائرہ فیض تمام ملکوں اور سب قوموں اور سارے زمانوں کے لیے ہے۔

جماعت احمدیہ کا نظام ہر قسم کے قومی و نسلی تفاخر، لِسانی تعصّبات اور اَمارت و غربت کے امتیازات سے پاک، حقیقی اسلامی مساوات پر قائم ہے۔ یہاں کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، یا کسی اَسْوَد کو اَحْمر پر یا اَحْمر کواَسْوَد پر محض اپنی قومیت یا زبان یا رنگ و نسل کی بنا پر کوئی فضیلت نہیں دی جاتی بلکہ اِس نظام میں وجہِ فضیلت صرف تقویٰ ہے۔ چنانچہ اس نظام میں آپ کو ہزار ہا ایسے احمدی دکھائی دیں گے جو اگرچہ دنیوی لحاظ سے کوئی غیر معمولی علم وفضل اوروجاہت یا مال و دولت اور شان وشوکت نہیں رکھتے لیکن اپنے اخلاص اور فدائیت اور دین سے محبّت اور تقویٰ و صلاحیت کی وجہ سے جماعت کے اندر خدمت کے مقامات ِمحمودہ پر فائز ہیں۔

پروگرام کے لحاظ سے بھی جماعت احمدیہ مسلمہ ہی ایک متحدہ پروگرام رکھتی ہے۔اس کا دائرہ کار تمام دنیا ہے اور دینِ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے صرف یہی ایک جماعت ہے جو اپنے امام کے تابع اپنی تمام قوتیں صرف کرتے ہوئے نہایت درجہ منظّم طور پر کامیابی و کامرانی کے ساتھ ایک مقدس جہاد کر رہی ہے۔

یہ نظامِ خلافت کی ہی برکت ہے کہ ساری دنیا کے احمدی مسلمان جو نظام جماعت سے وابستہ ہیں باوجود رنگوں اور نسلوں کے اختلاف کے،سبھی ایک ہی رنگ یعنی رنگِ تقویٰ سے آراستہ ہیں اور باجود مختلف قوموں اور مختلف زبانوں کے خدا تعالیٰ کی توحید کے تابع اِس طرح مومنانہ اخوت میں پروئے گئے ہیں کہ گویا ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ اُن کی سوچ کےدھارےاپنے امام کی سوچ کے تابع ایک ہی طرف بہتے ہیں۔اور اُن کے قدم ایک ہی منزل کی طرف بڑھتے ہیں جو تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کی سچی اور خالص اور چمکتی ہوئی توحید کے قیام اور حجت اور برہان اور آسمانی روشن نشانات کے ذریعہ عالمگیر غلبۂ اسلام کی منزل ہے۔

احمدیت کسی سوسائٹی کا نام نہیں جو ایک اصلاحی پروگرام کے ماتحت قائم کی گئی ہو۔ اور نہ وہ دنیا کے نظاموں میں سےایک نظام ہے جس کا مقصد کسی خاص سکیم کا اجرا ہو۔بلکہ یہ ایک خالصۃ ًالٰہی تحریک ہے جو اُسی طریق اور منہاج پر قائم کی گئی ہے جس طرح قدیم سے الٰہی سلسلے قائم ہوتے آئے ہیں۔ اور اصولی رنگ میں اس کا وہی نظام ہے جو ہر الٰہی سلسلہ کا ہو ا کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی یہ سُنّت ہے کہ جب بھی بنی نوع انسان اپنے خالق و مالک کو بھلا کر ضلالت اور گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک جاتے ہیں تو وہ زمانے کو تاریک اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے ان کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے اپنے کسی بندے کو منتخب کر کے، جو اُس کی نظر میں سب سے زیادہ متقی اور پارسا ہوتا ہے،منصبِ نبوّت پر فائز فرماتا ہے تاکہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے۔

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اِس زمانہ میں جب کہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالَمِ آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق سیّد الاوّلین والآخرین، خاتَم النبیین حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی کامل پیروی اور آپؐ کی مُہرخاتمیت کے فیض سے ظلّی و بروزی طور پر اُمتی نبوت کے مقام کو پانے والے،آپ کے غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی وحی و الہام کے تابع سلسلہ احمدیہ کی بنیاد رکھی۔

پس یہ جماعت چشمۂ نبوت سے سیراب اوراُن تمام برکات سے فیضیاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی نبی کے ساتھ وابستہ فرما رکھی ہیں۔ یعنی اِس زمانے میں ایک دفعہ پھر بڑی شان کے ساتھ محمدی فیوض و برکات کا دروازہ کھولا گیا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جب سلسلۂ بیعت کا آغاز فرمایا تو اِس جماعت کے قیام کی غرض و غایت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا

’’یہ سلسلۂ بیعت محض بمرادفراہمی طائفۂ متقین،یعنی تقویٰ شِعار لوگوں کی جماعت جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے۔ اور اُن کا اِتّفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائجِ خیر کا موجب ہو اور وہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک اور مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مَصرف مسلمان نہ ہوں۔ اور نہ اُن نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ اور نااتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے۔ اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں۔ بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشقِ زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں۔ اور تمام تر کوشش اِس بات کے لئے کریں کہ اُن کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبّت الٰہی اور ہمدردیٔ بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے۔‘‘

(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 561تا562)

آپؑ نے فرمایا:

’’بیعت سے اصل مدّعا یہ ہے کہ اپنے نفس کو اپنے رہبر کی غلامی میں دے کر وہ علوم اور معارف اور برکات ا س کے عوض میں لیوے جن سے ایمان قوی ہو اور معرفت بڑھے اور خدا تعالیٰ سے صاف تعلق پیدا ہو۔‘‘

(ضرورۃ الامام،روحانی خزائن جلد 13صفحہ498)

چنانچہ آپ کی قوت قدسیہ، درمندانہ دعاؤں، اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید سے، اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ کی مصداق اور آنحضرت ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی مثیل اور ان کے ہم رنگ سعید فطرت اور تقویٰ شِعار لوگوں کی جماعت وجود میں آئی جنہوں نے اُن تمام بر کات سے حصہ پایا جو مسیح موعود اور مہدی معہود کے وجود کے ساتھ وابستہ کی گئی تھیں۔ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بہ تازہ تائیدات سے نُور اور یقین کو پایا۔ اُنہوں نے خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور قطعِ رِحم وغیرہ کے صدمات بھی اٹھائے مگر اُن کے ایمان متزلزل نہیں ہوئے اور ان کے پایہ ٔثبات میں کوئی لغزِش نہیں آئی۔

الٰہی جماعت کا طُرّۂ امتیاز یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک واجب الاطاعت امام کے تابع ہوتی ہے۔ امام کے بغیر جماعت کا تصوّر ہی غلط ہے۔ جب تک نبی زندہ ہے نبی اُن کا امام ہوتا ہے اور نبی کی وفات کے بعد اُس کا خلیفہ ان کا امام ہوتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کا نظام ’’خلافت علی منہاج نبوت‘‘ پر اُستوار ہے۔ خلیفہ ٔوقت اِس نظام کا مستقل اور مرکزی نقطہ ہے۔وہ اِس کا دل اور اِس کا دماغ ہے۔ اِس کا مرکز و محور اور اِس کی رُوح ِرواں ہے۔

یاد رہے کہ یہ خلافت انسانوں کی بنائی ہوئی نہیں۔ بلکہ اِسے خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ النور کی آیت 56 میں مذکور اپنے وعدے اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی بشارت ثُمَّ تَکُونُ الْخِلَافَۃُ عَلیٰ مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ کے مطابق قائم فرمایا ہے۔

یہ خلافت حقہ وہ عظیم الشان اور بابرکت، پاک اور مقدس،روحانی سیادت و اِمامت ہے جسے آسمانی تائیدات حاصل ہیں اور جس کی برکت سے ہم اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں کے تازہ بہ تازہ نشانات کو دیکھتے اور اُن سے اپنے ایمانوں میں تقویت حاصل کرتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس سلسلہ کے قیام سے وابستہ جو خواہش تھی کہ اس کے افراد ایسے ہوں جو’’اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشقِ زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں۔ اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردیٔ بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے۔‘‘

ہمارا مشاہدہ اور روز مرّہ کا تجربہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی یہ مبارک خواہش خلافت ِحقّہ اسلامیہ احمدیہ کے تابع قائم نظامِ جماعت کے ذریعہ بڑی عظمت ا ورشان سے پوری ہو رہی ہے۔

تمکنت ِدینِ اسلام اور خدمت انسانیت کے ان کاموں کی تفصیل تو بہت طویل اور سو سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔

اِس وقت نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند امور کا ذکر کرتا ہوں۔

آج مِنَصّۂ عالم پر مسلم جماعت احمدیہ عالمگیرہی وہ واحد جماعت ہے جسے تنِ تنہا دنیا کی 76؍زبانوںمیں مکمل قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت کی توفیق اور سعادت حاصل ہے اور یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔

خدا تعالیٰ کی سچی توحید اور حقیقی عبادت کے قیام کے لیے مساعی کے تحت ہزارہا مساجد تعمیر کی جا چکی ہیں اور ہر سال ان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

قرآنی حقائق و معارف پر مشتمل تفاسیر، احادیث نبویہ اور مختلف اسلامی موضوعات پر مشتمل نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا لٹریچر دنیا کی کم و بیش 125؍زبانوںمیں طبع ہو چکا ہے اور مزید زبانوں میں تراجم کا سلسلہ جاری ہے۔

مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے جماعتی اخبارات و رسائل کے علاوہ،جماعتی ویب سائٹس، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے،اور اسی طرح مختلف EXHIBITIONS اور بُک فئیر زمیں شامل ہو کر،اور بک سٹالز لگا کر، اور انفرادی طور پر ذاتی رابطوں کے ذریعہ اور بہت سے مقامات پر گھر گھر جاکر داعیان الیٰ اللہ کے ذریعہ اسلام کا پیغام بڑے وسیع پیمانے پر پہنچایا جا رہا ہے۔

اسی غرض سے مبلغین و معلمین اور واعظین و مربیان کی تیاری کے لیےجامعات کا ایک مربوط عالمی نظام قائم ہے۔

پھر کئی ممالک میں جماعت کے قائم کردہ ریڈیو اسٹیشنز کے علاوہ،ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے آٹھ چینلز کے ذریعہ روزانہ 24گھنٹے،دنیا کے تمام براعظموں میں،مختلف زبانوں میں، اسلام کی تبلیغ کا کام جاری ہے۔

الغرض اسلام احمدیت کا تعارف غیر معمولی طور پر دنیا کے ہر طبقے میں، ہرسطح پر ہو رہا ہے اور صرف عوام الناس ہی نہیں بلکہ دنیا کی حکومتوں کےسر کردہ لوگوں اور ایوانوں میں بھی یہ پیغام نہایت ہی مؤثر رنگ میں پہنچ رہا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے قبولیت بھی حاصل ہو رہی ہے اور ہر سال لاکھوں افراد حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:’’یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ تبلیغ اسلام کا وہ کام جو اِس وقت دنیا میں کوئی اورجماعت نہیں کر رہی،صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍اکتوبر 1956ء)

آپؓ نے فرمایا:’’تم دیکھ لو ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کرسکتے۔‘‘

اسی طرح خلافت احمدیہ کے زیر ہدایت و نگرانی جماعت میں ہمدردی بنی نوع انسان اور خدمت خلق کے متعددمنصوبےاور تحریکات جاری ہیں۔

چنانچہ متعدد غریب اور پسماندہ ممالک میں بیسیوں تعلیمی و طبّی ادارے، اسپتال اورکلینکس اورہومیو پیتھک ڈسپنسریز قائم ہیں۔

اسی طرح یتامیٰ کی خبر گیری کےلیے دارالاکرام جیسے ادارے موجود ہیں۔

اسی طرح مختلف قدرتی آفات، زلازل،سیلاب، قحط اور وباؤں کے موقع پر، یاجنگوں یا دیگر حوادث کے نتیجے میں متاثرین کی امداد کے لیے ہمیشہ نظامِ جماعت خدمتِ انسانیت میں پیش پیش ہوتا ہے۔

خدمت خلق کے لیے جماعت کی قائم کردہ تنظیم Humanity First یو این اوکے کئی اداروں کے علاوہ دنیا کے 60 ممالک میں رجسٹرڈ ہو چکی ہے اور اس کے تحت بھی سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر، میڈیکل کیمپس کے قیام،مستحق طلباء کے لیے تعلیمی وظائف، اسی طرح مختلف ہنر سکھانے کے ادارے اور Water for life, Feed a Village, Orphan Care Food Banks, Gift of Sight,،Disaster relief، وغیرہ متعدد پراجیکٹس جاری ہیں۔

اسی طرح احمدی آرکیٹیکٹس اور انجنیئر ز کی ایسو سی ایشن اور جماعت کی ذیلی تنظیموں کے تحت بھی خلیفۂ وقت کی زیر ہدایت خدمتِ خلق اور خدمتِ انسانیت کے بہت سےکام ہو رہے ہیں جن سے ہر سال لاکھوں افراد مستفید ہوتے ہیں۔

الغرض اشاعتِ اسلام اور خدمتِ بنی نوع انسان کے لیے خلیفہ وقت کی طرف سے جو بھی منصوبے اورپروگرام جماعت کے سامنے رکھے جاتے ہیں افرادِ جماعت ان پر والہانہ لبیک کہتے ہیں۔ اور دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے جان، مال، وقت اور عزت کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے اور نہایت روشن اور درخشندہ قربانیوں کی زرّیں داستانیں رقم کرتے ہوئے قرب الٰہی کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔

احمدیت سے باہر دیگر مسلمانوں میں مروّج تراجمِ قرآن کریم اور تفاسیر اور احادیث کی تشریحات میں کئی ایسی باتیں ملتی ہیں جو قرآنی تعلیمات کے منافی اور اس سے متصادم ہیں اور ان میں ایسے اعتقاد ات اپنائے گئے ہیں جو قرآن مجید کے محکمات کے خلاف ہیں۔مثلاً بعض لوگ قرآن مجید میں نسخ کے قائل ہیں۔ بعض حدیث کو قرآن پر قاضی قرار دیتے ہیں۔ اُن کی کتب میں اللہ تعالیٰ کی ہستی، ملائکۃ اللہ، انبیاء کرام علیہم السلام، جنّ و شیطان، تقدیر، بعث بعد الموت، نعمائے جنت وغیرہ امور سے متعلق ایسی باتیں درج ہیں جو بہت ہی مضحکہ خیز، توہین آمیز اور عقل، تاریخ، مشاہدہ اور حقائقِ ثابتہ کے صریح مخالف ہیں۔

لیکن اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے اور حضرت مسیح موعود ؑاور نظام خلافت اور نظام ِجماعت سے وابستگی کی برکت ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث میں مذکور احکامات و تعلیمات کا صحیح فہم و اِدراک حاصل ہوتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کی بیان فرمودہ تفاسیرِقرآن اور احادیث نبویہ کی تشریحات،حق و حکمت سے پُر، نہایت درجہ بصیرت افروز، اطمینان بخش،قلوب و اذہان کو نورِ معرفت سے روشن کرنے والی اور قرآن و حدیث کی عظمت کو ظاہر کرنے والی ہیں۔

پھر یہ نظام جماعت کی ہی برکت ہے کہ غیر احمدی مسلمانوں میں تعویذ گنڈوں، پیر پرستی، قبروں پر سجدے کرنے، پیدائش اور وفات، خوشی و غمی اور شادی بیاہ وغیرہ مواقع پر رائج بہت سی بدعات اور فضول اور بیہودہ رسومات سے ہم محفوظ ہیں۔ اور جماعت احمدیہ مسلمہ میں خلافت کے تابع ایک ایسا نظام قائم ہے جو مسلسل اس بات کی نگرانی اور راہ نمائی کرتا ہے کہ کوئی احمدی ان لغویات میں نہ پڑے اور اس کا قدم صراطِ مستقیم سے دُور نہ ہو بلکہ وہ قرآن و سنّت کی تعلیمات کے عین مطابق ہمیشہ توحیدِ خالص پر قائم رہتے ہوئے ایک سچا اور حقیقی مسلمان بنے۔

احمدیت سے باہر دوسرے مسلمان بہت سے فروعی معاملات مثلاً نماز میں رفع یدین، آمین بالجہر، سینے پر ہاتھ باندھنے، شلوار یا تہبند وغیرہ کے ٹخنوں سے اوپر ہونے وغیرہ امور کے بارے میں اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر بازی اور مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔

لیکن رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے موعود امام مہدی،حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت اور نظام ِخلافت سے وابستگی کی برکت سے ہم ایسے تمام فتنوں اور شور و شر سے محفوظ و مصئون ہیں۔اور ہر مسئلے کے حل کے لیے اور اللہ و رسول کےاحکامات کی حقیقی روح کو سمجھنے کے لیےمسلسل ہمیں ایک راہ نمائی میسر ہے۔

بظاہر یہ باتیں معمولی دکھائی دیتی ہیں لیکن اگر آپ غیر احمدیوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ وہ بیچارے کس قسم کی جہالتوں میں مبتلا ہیں اور کس طرح ان باتوں نے ان کی زندگیوں کو عملاً جہنم بنا رکھا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر فرمایا:’’آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور ہم اس نظام میں پروئے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف بھی توجہ دلاتا رہتا ہے اور ہم دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح بکھرے ہوئے نہیں بلکہ خلافت کی برکت کی وجہ سے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍جون 2006ء)

پس نظام جماعت کی ایک بہت بڑی برکت یہ ہے کہ ہم ایک والی رکھتے ہیں۔ ہمارا ایک امام ہے جو خدا داد تقویٰ اور بصیرت اور نورِفراست سے افراد جماعت پر گہری نظر رکھتا ہے۔ ہمارے امام افراد جماعت کو ہر قسم کی معاشرتی و اخلاقی کمزوریوں اور سماجی برائیوں سے بچاؤ اور دنیا میں پھیلے ہوئے مختلف امراض ِجسمانی و روحانی سے حفاظت اور ہر قسم کی آفات و مصائب سے بچانے اور اصلاح نفوس کے لئے نہ صرف بار بار توجہ دلاتے اور اس غرض کے لیے قرآن و سنّت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں تفصیل سے راہ نمائی عطا فرماتے ہیں بلکہ افرادِ جماعت کو جادۂ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے بار گاہ اَحَدِیّت میں اپنی متضرّعانہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ نظام جماعت میں قائم متفرق شعبہ جات کو متحرک کرتے اور عملی اقدامات بھی فرماتے ہیں۔

چنانچہ احمدیت کی عالمی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی خلیفۂ وقت کی طرف سے کسی بارہ میں توجہ دلائی جاتی ہے تو فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کے مصداق،مومنینِ خلافت کی طرف سے اپنی حالتوں کو سنوارنے اور کمزوریوں کو دُور کرنے کے لیے ایک مقدس جہاد شروع ہو جاتا ہے اور خلیفۂ وقت کی دعا اور توجہ اور بابرکت تعلیمی و تربیتی پروگراموں اور دردمندانہ نصائح اور ہمدردی اور پاکیزہ صحبت کے نتیجے میں افرادِ جماعت کے دلوں میں تقویٰ کا بیج تیزی سے نشو ونما پاتا ہے۔ اور جماعت اپنے کریمانہ اخلاق، اپنی عبادات اور جذبہ اطاعت اور خدمت ِخلق اور ہمدردی بنی نوع انسان اور اخلاص و ایثار اور انفاق فی سبیل اللہ جیسے اوصاف حسنہ میں نئی بلندیوں کو سر کرتی ہے اور اسے دوسروں کے مقابل پر ایک نمایاں امتیاز اور روشن فرقان عطا ہوتا ہے۔

حضور ایدہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ بھی فضل اور احسان ہے کہ جب خلیفۂ وقت کی کسی مضمون کی طرف توجہ ہوتی ہے تو وہ اگر اصلاحی پہلو ہے تو جماعت کا بڑا حصہ اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍فروری2014ء)

بلا شبہ اس زمانہ میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی عظیم نعمت اور برکت ہے جو صرف احمدیت سے خاص ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ بھی احسان ہے کہ جماعت کی برکت سے،ایک نظام کی برکت سے ہمیں جماعتی اور ذیلی تنظیموں کا نظام میسّر ہے۔ تربیتی کلاسیں ہیں۔ اجتماع ہیں، جلسے وغیر ہ ہوتے ہیں جہاں بچوں کی تربیت کا انتظام بھی ہے۔لیکن یہاں بھی وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو بچوں کو اجلاسوں وغیرہ میں بھیجیں اور جن کا نظام کے ساتھ مکمل تعاون ہو اور جو اپنے بچوں کو نظام کے ساتھ، مسجد کے ساتھ،مشن کے ساتھ مکمل طور پر جوڑ کے رکھتے ہیں….اس لئے غلط ماحول سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو جماعتی نظام کے ماحول سے باندھ کر رکھیں۔‘‘

(الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اول صفحہ 10)

نظام خلافت سے وابستگی کی ایک عظیم برکت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ خلیفہ پر اپنی مشیّت کو ظاہر فرماتا ہے اور اُس کے مطابق وہ قدم قدم پر جماعت کی راہ نمائی کرتے ہیں۔

جماعت کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی جماعت کے خلاف کوئی یورش بپا کی گئی خواہ وہ فتنہ انکارِ خلافت کی صورت میں ہویا 1934ء میں احرار کی طرف سے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے ارادوں سے حملہ آور ہونے،یا 1953ء میں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑکانے،یا 1974ء میں قومی اسمبلی کے فیصلے کی آڑ میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے،یا 1984ء میں احمدیوں کے بنیادی انسانی و مذہبی حقوق کو سلب کرنے اور احمدیت کو(نعوذ باللہ) ایک کینسر قرار دے کر جڑ سے اکھاڑ ڈالنے کی تعلّی پر مشتمل ایک فوجی آمر کی طرف سے نہایت ظالمانہ آرڈی نینس کا اجرا،یا 2010ء میں لاہور (پاکستان) میں جمعہ کے روز ایک ہی دن میں دو احمدیہ مساجد پر حملہ کر کے 100 کے قریب افراد کی شہادت اور بیسیوں افراد کو زخمی کرنے کی دہشت گردانہ کارروائی، ہمیشہ، ہر موقع پر خلیفۂ وقت کی بروقت راہ نمائی اور آسمانی روشنی سے منوّر فیصلوں کے نتیجے میں جماعت بڑی کامیابی سے ان تمام امتحانوں سے اور مخالفت اور ظلم و ستم کے شدید طوفانوں سے، ہر قسم کی قربانیاں بڑی بشاشت سے دیتے ہوئے، اور اپنے مولیٰ کی رضاپر راضی، ہنستےمسکراتے، نہایت کامیابی سے سر خرو ہو کر نکلی اور اس کا قدم ہمیشہ آگے ہی بڑھتا رہا۔اور ہمارامخالف اپنی ناکامیوں اور نامرادیوں پر سٹپٹا کر اور ذلّت اور عبرت کا نشان بن کر رہ گیا۔اور دنیا نے دیکھا کہ

ہمارے گھر میں اُس نے بھر دیا نور

ہر اک ظلمت کو ہم سے کر دیا دُور

ملایا خاک میں سب دشمنوں کو

کیا ہر مرحلے میں ہم کو منصور

حقیقت کھول دی اُن پر ہماری

مگر تاریکیٔ دل سے ہیں مجبور

ہماری فتح و نصرت دیکھ کر وہ

غم و رنج و مصیبت سے ہوئے چُور

ہماری رات بھی ہے نُور اَفشاں

ہماری صبح خوش ہے،شام مسرور

خدا نے ہم کو وہ جلوہ دکھایا

جو موسیٰ کو دکھایا تھا سرِ طُور

ملے ہم کو وہ استاد و خلیفہ

کہ سارے کہہ اٹھے نُورٌ عَلیٰ نُور

خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی

فَسُبْحَانَ الَّذِی اَوْفَی الْاَمَاِنی

(کلام محمود)

الغرض یہ اور اس کے علاوہ اَور کئی قسم کی بے انتہا برکتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت علیٰ منہاج نبوت پر قائم نظام ِجماعت سے وابستہ افرادکو حاصل ہیں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں احمدی اس پر گواہ اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمتِ عظمیٰ پر اس کے شکر گزار ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’نظام کی کامیابی کا اور ترقی کا انحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی پرہوتا ہے۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اگست 2003ء)

آپ نے فرمایا:’’اِس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظامِ جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اگست 2003ء)

پس جہاں تک ہمارے فرض کا تعلق ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم ارشادِ ربّانی

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ

کو ہمیشہ پیش ِنظر رکھیں۔ اور ہم سب مل کر اُس حبل اللہ کو،جو اُس نے خلافت کی صورت میں ہمیں عطا فرمائی ہے، دونوں ہاتھوں سے،مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ یعنی اعتقادی پہلو سے بھی خلیفہ ٔوقت سے کُلّی موافقت ہو اور عملی طور پر بھی ہم اطاعتِ نظام اور اطاعتِ امام کےمعیاروں کو بڑھاتے چلے جائیں۔اور ہر قسم کے تفرقہ و انتشار سے بچتے ہوئے اُس وحدت کی حفاظت کریں جو اعتصام بحبل اللہ کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم خلیفۂ وقت کے زندگی بخش خطبات و خطابات، آپ کے انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں میں فرمودہ کلمات طیّبات، مختلف خطوط، پیغامات و مکتوبات، مجالسِ عرفان اور مجالسِ سوال و جواب میں بیان فرمودہ ارشادات و ہدایات سے علمی وعملی اور مادّی و روحانی طور پر فیضیاب ہوتے ہوئےاپنی دنیا و عاقبت کو سنوارتے چلے جائیں۔

اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ کی اِس نعمت کی قدرکرتے ہوئے اِس کی برکات کے ذکر سے بھی اپنی زبانوں کو تَر اور اپنے ماحول کو ہمیشہ معطر رکھیں تا کہ اِ س نعمت کی شکرگزاری کے نتیجے میں ہم اور ہماری نسلیں قیامت تک اللہ تعالیٰ کےمزید فضلوں اور برکتوں کو حاصل کرتے چلے جائیں۔ آمین۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button