یادِ رفتگاں

زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغ خوش نوا

مکرم احتشام البدر صاحب کا ذکر خیر

2013ء میں جب جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے دن تھے تو سوچتے تھے کہ کہاں پوسٹنگ ہوگی۔ ذہن میں وہی روایتی تصور تھا کہ فیلڈ میں کسی جگہ تعیناتی ہوگی جہاں نمازیں پڑھائیں گے، تعلیمی و تربیتی کلاسز لیں گے اور دورہ جات کریں گے، لیکن خداتعالیٰ کے اپنے کام ہیں۔ دفتری امور سے فراغت کے بعد پہلی پوسٹنگ نظارت تعلیم میں ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ نظارت تعلیم کے تعلیمی ادارہ جات میں پہلی دفعہ مربیان اساتذہ کی تعیناتی ہورہی ہے۔ اسکول یا کالج میں تدریسی فرائض کا سوچ کر خوف سا آتا تھا، کہ خود ابھی چار دن قبل تک طالب علم تھے، اب یکلخت استاد بن کر کیا ہوگا۔ کلاس سنبھالنا ہی بڑی بات ہے، پڑھانا تو جوئے شیر لانا ہے۔ خیر مقررہ روز مربیان کا گروپ نظارت تعلیم میں حاضر ہوا، محترم ناظر صاحب تعلیم سے ہمارا تعارف ہوا، چائے وغیرہ سے مہمان نوازی کی گئی اور ناصر ہائیر سیکنڈری اسکول دارالیمن چلے گئے جہاں ہمیں مزید ہدایات اور ذمہ داریاں تفویض ہونی تھیں۔

ناصر ہائیر سیکنڈری اسکول!یہ ادارہ نری محبت ہے۔ یہاں تعلیم پانے والا اور تعلیم دینے والا دنیا میں کہیں بھی چلا جائے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا۔ یہاں پہنچنے کے بعد پرنسپل صاحب سے ابتدائی ملاقات اور ہدایات کے بعد ہم ایک ایسی شخصیت کے سپرد کیے گئے جن کا تذکرہ کرنے کو یہ سطور لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ مکرم احتشام البدر صاحب مرحوم!ان کے ساتھ مرحوم کا لاحقہ لگاتے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے، لیکن

جو خدا کو ہوئے پیارے، مرے پیارے ہیں وہی

ایک ہنستا مسکراتا دل ربا وجود۔ دل نواز شخصیت۔ بلا کے خوش لباس اور ’’میٹھے بول میں جادو‘‘کی عملی تصویر۔ ان تمام اوصاف کے ساتھ وقف نے ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے تھے۔ کتاب دوست اور مطالعہ کے شائق۔ کہنے کو اسکول میں نائب پرنسپل تھے، لیکن انگریزی، کمپیوٹر اور اردو کے مضامین پہ ان کی دسترس ایسی کہ بوقتِ ضرورت تینوں مضامین ہی کی تدریس پہ قادر۔ احتشام البدر صاحب سے پہلی ملاقات ہی ایسی دوستی میں بدل گئی جو ان کی وفات تک قائم رہی۔ حیف کہ ایک غیر محسوس بیماری نے جوانی میں ہی ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا، لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے بھلا۔

احتشام البدر صاحب ایک صاحبِ حیثیت خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن اس کے باوجود انہیں ہر طرح کے تفاخر سے دور دیکھا۔ اپنے ماتحت اساتذہ کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ دوستانہ رہا۔ ان کے سارے قریبی دوست اسکول سے ہی تعلق رکھتے تھے اور انہی کی طرح واقف زندگی تھے۔ انہیں سفروحضر میں ہمیشہ انہی دوستوں کے جھرمٹ میں دیکھا۔ اسکول کے ساتھ ان کا تعلق اس قدر تھا کہ گاہے محسوس ہوتا تھا اسکول سے باہر ان کی کوئی زندگی ہی نہیں ہے۔ صبح اسکول کے اوقات میں نائب پرنسپل کی ذمہ داریاں اور شام کو کالج میں تدریس کی ڈیوٹی۔ اس کے بعد وہیں کھیل میں حصہ اور رات کو نمازوں کی ادائیگی کے بعد گھر واپسی اور صبح دم پھر اسکول میں بروقت حاضری۔ ان کے اوقات کار سے وقف کی روح جھلکتی تھی۔ اسکول کی لائبریری کے لیے کتب کی خریداری ہو یا پھر کھیلوں کا سامان لینے کے لیے کہیں جانا ہو، طلباءکو کسی مطالعاتی دورہ پہ لے جانا ہو یا پھر سائیکل سفر، احتشام البدر صاحب کو ہمیشہ آگے ہی پایا۔

جونیئر اساتذہ کی ہر ممکن راہ نمائی کرتے۔ اسکول میں تعیناتی کے بعد مجھے اردو اور دینیات پڑھانے کی ذمہ داری سپرد ہوئی تو لائبریری سے حصولِ کتب اور ٹائم ٹیبل بہم پہنچانے کا سارا کام احتشام صاحب نے ہی کیا بلکہ یہاں تک کیا کہ بجائے کسی مددگار کارکن کے ذمہ لگانے کے خود ہی مجھے مارکر اور ڈَسٹر تک مہیا کیا۔ کچھ عرصے بعد میری ڈیوٹی کالج میں لگ گئی تو وہاں بھی احتشام صاحب ہی راہ نمائی کو موجود تھے۔ گو وہ ان کی انتظامی ذمہ داری نہیں تھی، لیکن مکمل گائیڈ کیا۔ کسی بھی طرح کی مدد کے لیے وہ ہمیشہ موجود ہوتے تھے۔ کسی طرح کا تکلف روا نہیں رکھتے تھے اس لیے ہر کسی کے دوست بن جاتے تھے اور یہ دوستی محض نام کو نہیں تھی وہ دوستی کے تقاضوں کو بھی نبھانے والوں میں سے تھے۔ ربوہ میں تقرری ہوئی تو پہلی عید کے موقع پہ ہمارے گھر عید مبارک کہنے آنے والوں میں ان کا پہلا نمبر تھا۔ مع فیملی! اگر کبھی صبح اسکول میں کسی کام سے جانا ہوتا تو مہمان نوازی کیے بغیر جانے دینا ان کی سرشت کے خلاف تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ مجھے چائے سے لگاؤ ہے، اس لیے خاص اہتمام کرتے۔ اسی طرح ان کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا تو راستے میں کسی ڈھابے پہ رکنے کا جواز یہ بتلاتے کہ ہمارے ساتھ ایک سندھی بھی ہمسفر ہے اسے چائے پلائے بغیر سفر کا مزہ نہیں آئے گا۔ اسکول میں تقرری کے بعد جب پہلی دفعہ رخصتوں پہ سندھ گیا تو وہاں ایک حادثہ پیش آگیا جس کی وجہ سے فوری طور پہ کچھ رقم کی ضرورت پڑگئی۔ فوری طور پہ میرے ذہن میں صرف ایک ہی نام آیا اور میں نے احتشام صاحب کو میسج کردیا۔ اگلے دن چھٹی تھی، لیکن انہوں نے خاص کوشش کرکے پیسو ں کی منتقلی یقینی بنائی۔ واپسی پر جب پیسے واپس کرنے گھر پہنچا تو بغیر گنے ہی جیب میں رکھ لیے اور کھانا کھلانے کے بعد ہی رخصت کیا۔ حق مغفرت کرے !

احتشام البدر صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ یک رخے نہیں تھے۔ جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی سے خصوصی لگاؤ اور شغف تھا وہیں ادب سے بھی بھرپور علاقہ تھا۔ 2013ء میں مجلس مشاورت میں فروغِ اردو سے متعلق تجویز پیش ہوئی تو اس کی تعمیل میں نظارت تعلیم کے ادارہ جات میں خصوصی کام ہوا۔ اسی سلسلے میں ناصر ہائیر سیکنڈری اسکول سے ایک جریدہ کی اشاعت کا انتظام ہوا۔ اس کی ادارت مکرم احتشام البدر صاحب کو تفویض ہوئی۔ اس دوران مجھے ان کے نائب کے طور پر انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جریدہ کانام رکھنے سے لے کر ڈیزائننگ تک اور مواد کے انتخاب سے لے کر طباعت تک سارا کام انہوں نے خود کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں پہلا شمارہ منظرعام پہ تھا۔ اس دیدہ زیب جریدے کو بہت خوب صورت اور حوصلہ افزا فیڈبیک ملا۔ اس کا سہرا احتشام البدر صاحب کے سر تھا، لیکن وہ مجھ جیسے نو آموز کی اس طرح حوصلہ افزائی کرتے کہ خود ان کی اپنی نفی ہوتی تھی۔ صاحب کردار اور صاحب حوصلہ کیا یونہی نہیں کیا کرتے!جب تک ادارت کی ذمہ داری ان کے سپرد رہی جریدہ بروقت زیورطباعت سے آراستہ ہوتا رہا۔ انہیں کام کرتا دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ اس دوران ان کی مصروفیات بڑھ گئیں تو ادارت خاکسار کو سپرد ہوئی اور پہلا شمارہ ہی تاخیر سے شائع ہوا تب بار دگر احساس ہوا کہ بظاہر معمولی نظر آنے والے جریدہ کے پیچھے ان کی جانفشانی اور مسلسل محنت کو کس قدر دخل تھا۔ گذشتہ شمارہ جات کی سوفٹ کاپیز، فارمیٹ اور موصول ہوئے مضامین مجھے سپرد کیے اور ساتھ ہی ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی اور جب تک یہ رسالہ شائع ہوتا رہا ان کا تعاون شامل حال رہا۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔

ناصر ہائیر سیکنڈری اسکول میں لمبا عرصہ خدمات بجالانے کے بعد ان کی تقرری بطور نگران شعبہ امتحانات نظارت تعلیم میں ہوگئی جس کی وجہ سے انہیں اسکول سے شعبہ امتحانات کے دفتر شفٹ ہونا پڑا۔ یہ گھڑی ان پہ بہت گراں گزری اور خود اسکول کے لیے بھی یہ ایک چیلنج تھا، لیکن وقف کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے انہوں نے اسکول کو خدا حافظ کہا، لیکن اسکول سے پیشہ ورانہ تعلق کے ساتھ انہوں نے ذاتی تعلق بھی برقرار رکھا، کیونکہ ان کا دل یہیں کہیں اٹکا ہوا تھا۔ رخصتی کے بعد انہوں نے اسکول کی یاد میں ایک مضمون تحریر کیا جس میں یہاں گزرے شب و روز کے احوال کے ساتھ ہم کار اساتذہ کا تذکرہ بھی شامل تھا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہ مضمون دوستوں کے ساتھ شیئر کرنے سے قبل انہوں نے مجھے پڑھنے کے لیے دیا بلکہ فون کرکے اپنے دفتر بلایا، چائے پلائی اور مضمون پڑھنے اور اس پہ تبصرہ کرنے کو کہا۔ ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہنے والا یہ مضمون اپنی ذات میں ایک شاہکار ہے جس میں بہت محبت سے انہوں نے دوستوں کو یاد کیا۔ یہ مضمون پڑھ کر میں نے انہیں عرض کی تھی کہ آپ کو باقاعدہ قلم کاری کی طرف آنا چاہیے، لیکن موت نے اس کی فرصت نہیں دی۔

جا او یار حوالے رب دے

گذشتہ چند برسوں سے تعلیم کی وجہ سے میں بیرون ربوہ مقیم ہوں، اس لیے ان سے اس تواتر کے ساتھ ملاقاتیں نہ ہوسکیں جس طرح ربوہ میں مستقل قیام کے دنوں میں ہوتی تھیں، لیکن چھٹیوں وغیرہ میں ملاقات ہوجاتی تھی۔ 2019ء کے اکتوبر میں کچھ عرصہ ایک ساتھ کالج میں چند لیکچرز لینے کا اتفاق ہوا، لیکن یہ سلسلہ بہت مختصر رہا۔ اس کے بعد کورونا کی وبا نے دنیا بدل دی اور محصوری کی کیفیت ہوگئی۔ میری خوش قسمتی کہ ان کی وفات سے تھوڑا پہلے سر راہ ملاقات کی سبیل نکل آئی اور وہ بھی شاید کورونا کے صدقے۔ ہم ایک ہی میڈیکل اسٹور سے ماسک خرید رہے تھے۔ حال احوال اور سلام دعا کے بعد بہت جلد اسکول کے دوستوں کے ساتھ میرے گھر دعوت میں آنے کے وعدے پہ رخصت ہوئے، لیکن ماسک وہیں بھول گئے۔ میں نے فون کیا کہ سر ماسک بھول گئے ہیں تو ہنس کے کہنے لگے بڑھاپے کے آثار ہیں۔ میں نے کہا اور شاید پروفیسری کے بھی۔ اس پہ ان کا قہقہہ ابھی تک سماعتوں میں تازہ ہے۔ بازار میں ٹریفک کی وجہ سے ان کے لیے واپس آنا مشکل تھا۔ میں نے انہیں وہی انتظار کا کہا اور ماسک انہیں پہنچا دیے۔ شکریہ اور جزاک اللہ کہنے کے بعد مسکراتے رخصت ہوئے اور تھوڑے دنوں بعد ہی ان کی وفات کی خبر پہنچی۔

حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد

مسیح پاکؑ کی نصیحت دل کو تسلی دیتی ہے:؎

دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑےگا جو ملا ہے

گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے

شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے

یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ

دوست کی جواناں موت کا غم ایک اور حوالے سے بھی ہلکا ہوا۔ الفضل انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پہ مکرم آصف محمود باسط صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نےحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ سے جماعتی بزرگان کی جدائی کے صدمے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کاتذکرہ کیا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس کا جواب، جدائی کا صدمہ برداشت کرتے ہر انسان کے زخموں کے لیے ایک پھاہا ہے۔ آصف صاحب لکھتے ہیں:

’’20؍فروری کی صبح حضرت صاحب نے ملاقات کا وقت عطا فرمایا۔ مبارک طاہر صاحب کی وفات کو ابھی ایک آدھ دن ہی ہوا تھا۔ اور محترم خالد محمود الحسن بھٹی صاحب کی وفات بھی کچھ ہی روز قبل ہوئی تھی۔ اظہار تعزیت کے بعد عرض کی کہ ’’حضور، عام آدمی تو ایک عزیز کی وفات کی خبر سے صدمے میں چلا جاتا ہے۔ حضور کو پچھلے دنوں میں پے در پے جماعت کے خدمت گاروں کی وفات کی خبریں ملی ہیں۔ انہیں برداشت کرنے کا حوصلہ کیسے ملتا ہے؟ ‘‘حضرت صاحب نے جو جواب عطا فرمایا، وہ ہدیۂ قارئین ہے۔ فرمایا:

’’خدا تعالیٰ کی مرضی کے آگے تو کوئی زور نہیں چلتا۔ جانا تو ہر کسی نے ہے۔ کسی نے پہلے کسی نے بعد میں۔ ہمیشہ تو کسی نے بھی نہیں رہنا۔ اس لیے اصل بات تو یہی ہے کہ

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

تو اس میں صبر بھی آجاتا ہے اور توکل بھی بڑھتا ہے۔ میں نے چودھری حمیداللہ صاحب کے ذکر کے بعد خطبہ میں یہ دعا بھی تو کی تھی کہ اللہ تعالیٰ خلافت کو اَور سلطانِ نصیر عطا فرمائے۔ تو دعا ہی ہےجو انسان کرسکتا ہے۔ ‘‘

کچھ توقف کے بعد فرمایا:

زندگی انساں کی ہے مانند مرغِ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا کوئی دم، چہچہایا، اڑ گیا

تو زندگی تو اسی طرح ہے۔ اور وہ بھی سنا ہے تم نے، جو کہتے ہیں کہ

زندگی کی دوسری کروٹ ہے موت

زندگی کروٹ بدل کر رہ گئی‘‘

احتشام البدر صاحب تو عملی طور پہ ایک خوش نوا مرغ تھے جن کی چہچہاہٹ سے ان کے سارے رفقائے کار واقف ہیں اور انہیں بجا طور پر یاد کرتے ہیں۔ یہ طائر اگلی منزل کو شاخ سے اڑچلا، لیکن ہم سارے ہی اڑنے والے ہیں۔ یہ گھر ہی بے بقا ہے۔

وَ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ۔

(اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button