متفرق

پیدائشی معذور بچوں کو کس عمل کی سزا ملتی ہے؟

سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے بیٹے کی بیماری کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ جب سب کچھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو وہ میرے بیٹے کو ٹھیک کیوں نہیں کر دیتا۔ اگر کہا جائے کہ انسان کو اس کے اعمال کی سزاملتی ہے۔ تو میرا بیٹا تو پیدا ہی ایسا ہوا تھا، اس نے کونسا گناہ کیا ہے؟ یہ سب میری سمجھ سے باہر ہے۔ مجھے یہ سب سمجھائیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 04؍فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطافرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: خدا تعالیٰ جو کامل علم والی ہستی ہے، اس کے مقابلے پر انسان کا علم بہت ہی ناقص اور نامکمل ہے۔ اس لیے انسان کےلیے خداتعالیٰ کے ہر فعل کی حکمت سمجھنا ناممکن ہے۔ لہٰذا انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ایسا اعتراض کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس سے اس کے احسانات کی ناشکری کا اظہار ہوتا ہے۔ کیونکہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں وہ اَن گنت ہیں اور اگر ان کا انسان شکر ادا کرنا چاہے تو نا ممکن ہے۔ اسی لیے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ انسان کے جسم کے ہر جوڑ پر ہر روز ایک صدقہ واجب ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ جوڑ نہ ہوں تو اس کا سارا جسم بے کار ہو جائے۔ پھر ایک اور نصیحت حضورﷺ نے ہمیں یہ فرمائی کہ تم میں سے کوئی جب ایسے شخص کو دیکھے جو مال یا جسمانی ساخت میں اس سے بہتر ہے تو اسے اس شخص پر بھی نظر ڈالنی چاہیے جو مالی لحاظ سے یا جسمانی لحاظ سے اس سے کمزور ہے۔ ان نصائح پر عمل کرنے سے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا حقیقی شکر پیدا ہو تا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کاموں میں بھی انسان کی ہی ترقی کے بہت سے راز مضمر ہیں۔ اگر یہ دکھ، تکالیف اور بیماریاں نہ ہوتیں تو انسان میں سوچنے اور ترقی کرنے کی تحریک ہی پیدا نہ ہوتی اور وہ ایک پتھر کی طرح جامد چیز بن کر رہ جاتا۔ یہ تکالیف ہی ہیں جو انسان میں تحقیق اور جستجو کے مادہ کو متحرک رکھتی ہیں۔ چنانچہ اکثر سائنسی تحقیقات اور ایجادات کے پیچھے انسانی تکالیف اور بےآرامی سے چھٹکارا پانے کی ایک مستقل جدو جہد کار فرما نظر آتی ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ جو تکالیف انسان کو پہنچتی ہیں وہ انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو چلانے کےلیے ایک قانون قدرت بنایا اور دنیا میں بہت سی چیزیں پیدا کر کے انسان کو ان پر حاکم بنا دیا ہے۔ اب اگر انسان بعض چیزوں سے فائدہ نہ اٹھائے یا ان چیزوں کا غلط استعمال کر کے نقصان اٹھائے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ چنانچہ میڈیکل سائنس سے ثابت ہے کہ ماں باپ کی بعض کمزوریوں کا ان کی اولاد پر اثر پڑتا ہے۔ حمل میں اگر پوری طرح احتیاط نہ برتی جائے تو بعض اوقات اس کا پیدا ہونے والے بچےکی صحت پربُرا اثر پڑتا ہے، جو مائیں ڈائٹنگ کرتی ہیں ان کے بچے بعض اوقات کمزور پیدا ہوتے ہیں، جن بچیوں کو بچپن میں مٹی چاٹنے کی عادت ہو بعض اوقات ان کی اولاد معذور پیدا ہوتی ہے۔ پس تکالیف خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اس قانون قدرت کے غلط استعمال یا اس میں کمی بیشی کرنے کے سبب سے ہیں جو انسانوں کے فائدہ کےلیے بنایا گیا تھا۔ البتہ اللہ تعالیٰ انسان کی بہت سی غلطیوں سے درگزر فرماتے ہوئے اسے ان کے بد نتائج سے بچاتا رہتا ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ

’’اور تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس سبب سے ہے جو تمہارے اپنے ہاتھوں نے کمایا۔ جبکہ وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔‘‘

(سورۃ الشوریٰ: 31)

پھر خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون قدرت میں ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ ہر چیز دوسرے سے اثر قبول کرتی ہے۔ اسی قانون کے تحت بچے اپنے والدین سے جہاں اچھی باتیں قبول کرتے ہیں وہاں بُری باتیں بھی قبول کرتے ہیں، صحت بھی ان سے لیتے ہیں اور بیماری بھی ان سے لیتے ہیں۔ اگر بیماریاں یا تکالیف ان کو ماں باپ سے ورثہ میں نہ ملتیں تو اچھی باتیں بھی نہ ملتیں۔ اور اگر ایسا ہوتا تو انسان ایک پتھر کا وجود ہوتا جو بُرے بھلے کسی اثر کو قبول نہ کرتا اور اس طرح انسانی پیدائش کی غرض باطل ہو جاتی اور انسان کی زندگی جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتی۔

چوتھی بات یہ ہے کہ دنیوی زندگی دراصل عارضی زندگی ہے اور اس کی تکالیف بھی عارضی ہیں۔ اور جن لوگوں کو اس عارضی زندگی میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ایسے شخص کی اخروی زندگی جو دراصل دائمی زندگی ہے، کی تکالیف دور فرما دیتا ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک مومن کواس دنیا میں رستہ چلتے ہوئے جو کانٹا بھی چبھتا ہے اس کے بدلے میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اجر لکھتا ہے یا اس کی خطا ئیں معاف کر دیتا ہے۔

اس دنیوی زندگی کے مصائب میں اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو سب سے زیادہ ڈالتا ہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے انبیاء پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں پھر رتبے کے مطابق درجہ بدرجہ باقی لوگوں پر آزمائش آتی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کسی آدمی کو حضورﷺ سے زیادہ درد میں مبتلا نہیں دیکھا۔

چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ آپﷺ کے کئی بچے فوت ہوئے، حالانکہ صرف ایک بچہ کی وفات کا دکھ ہی بہت بڑا دکھ ہوتا ہے۔

پس دنیوی تکالیف اور آزمائشوں میں بہت سی الٰہی حکمتیں مخفی ہوتی ہیں، جن تک بعض اوقات انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ پس انسان کو صبر اور دعا کے ساتھ ان کو برداشت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’بعض وقت مصلحت الٰہی یہی ہوتی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہوتی۔ طرح طرح کے آفات، بلائیں، بیماریاں اور نامرادیاں لاحق حال ہوتی ہیں مگر ان سے گھبرانا نہ چاہئے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 23، ایڈیشن 2016ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ بنگلا دیش کی Virtual ملاقات مورخہ 14؍نومبر2020ء میں لجنہ اور ناصرات کی تربیت کے بارے میں حضور انورنے فرمایا: لجنہ کی تربیت اس طرح کریں کہ لجنہ کو عادت ڈالیں کہ ایک تو ان کاباقاعدہ حیادار لباس ہو، وہ پردہ کرتی ہوں اور گھر سے باہر نکلیں توان کا لباس ایسا نہ ہو کہ غلط قسم کے مردوں کی اس پر نظریں پڑیں، اور پردہ کر کے باہر نکلا کریں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ احمدی لڑکی اور احمدی عورت کا دوسروں سے ایک فرق ہونا چاہیے۔ اور عادت ڈالیں کے ہر لجنہ ممبر جو ہے وہ روزانہ پانچ وقت نمازیں پڑھنے والی ہو۔ یہ کوشش کریں کہ ہر لجنہ ممبر جو ہے وہ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرنے والی ہو۔ اور یہ بھی کوشش کریں کہ آپ کی جو نوجوان لڑکیاں ہیں ان کو اپنے احمدیوں میں ہی رشتے کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہو بجائے اس کے کہ باہر رشتے کریں۔ اور جو نوجوان لڑکیاں کام کرتی ہیں یا جو عورتیں کام کرتی ہیں ان کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنے کام کی جگہ پراپنا ایسا لباس پہنیں جو حیا دار لباس ہو اور پردہ میں رہ کر کام کیا کریں۔ اسی طرح تربیت کے سیمینار بھی کیا کریں اور ان سیمینار میں نوجوانوں کو بلایا کریں اور ان کو سمجھایا کریں کہ اللہ اور رسول کے کیا حکم ہیں اور اس کے مطابق اپنی تربیت کریں۔

اسی ملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے ناصرات کی تربیت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:

ان کےلیے تربیت کے پروگرام ایسے بنائیں کہ ناصرات کی تربیت اچھی طرح کر دیں، ان کو نمازیں پڑھنے کی عادت پڑ جائے، ان کو قرآن کریم پڑھنے کی عادت پڑ جائے، ان کو دعائیں کرنے کی عادت پڑ جائے، ان کو میرا ایم ٹی اے پہ جو خطبہ آتا ہے اس کو سننے کی عادت پڑ جائے، ناصرات کی اگر اچھی طرح تربیت کر دیں گی تو وہی ناصرات لجنہ میں جا کے پھر زیادہ اچھا کام کریں گی۔ اگر ناصرات کی آپ ٹریننگ کر دیں گی تو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کی لجنہ بھی بڑی اچھی ہو جائے گی۔ اس لیے کوشش کریں کہ ناصرات کی زیادہ سے زیادہ اچھی تربیت کر سکیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button