متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عورتوں پر احسانات

(لیڈی امۃ الباسط ایاز۔ لندن)

آج جس موضوع پر لکھنے کےلیے میں نے اپنا قلم اٹھایا ہے وہ ہے ’’حضرت مسیح موعودؑ کے عورتوں پر احسانات‘‘۔ آپ میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جو حضرت مسیح موعودؑ کے احسانات کے نیچے دبا ہوا نہ ہوگا۔ ایسا ہی میرے خیال میں آپ میں سے کوئی شخص ایسا بھی نہ ہوگا جو اپنے رنگ میں حضرت مسیح موعودؑ کو بہتر سے بہتر طریق پر بیان نہ کر سکتا ہو۔ اس لیے میں تو یہی کہوں گی مجھ سے حضرت مسیح موعودؑ کے احسانات بیان نہیں ہو سکیں گے۔ مجھ میں ان کے بیان کرنے کی طاقت ہی نہیں۔ اور میں اُن کے بیان کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ کے کسی خاص قوم، کسی خاص مقام، کسی خاص علاقے کسی خاص ملک پر ہی احسان نہیں بلکہ مشرق و مغرب پر، شمال و جنوب پر، گورے کالے پر، شاہ وگدا پر، غرض کوئی فرد دنیا کا ایسا نہیں ہے جو آپؑ کے احسانوں کے نیچے دبا ہوا نہ ہو۔ پھر ان بے شمار و لاتعداد احسانات کا بیان کرنا کیونکر ممکن ہے۔ اس لیے میں تو یہی کہوں گی کہ

وہ زباں لائوں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار

پھر کس احسان کو پہلے لکھوں اور کس کو بعد میں؟ کونسے احسان کو مقدم کروں اور کونسے احسان کومؤخر؟

چند دن قبل ہی ہماری اس قسم کی ایک محفل میں ہمارے پیارے آقا حضرت رسول اکرمﷺ کی سیرت کا بکثرت ذکر ہوا۔ اور مجھے حضرت رسول اکرمﷺ کے عورتوں پر احسانات کے موضوع پر کچھ لکھنے کو کہا گیا۔ حتی المقدور کوشش سے میں نے اُس پیاری ہستی کے احسانوں کا ذکر کچھ اس طرح کیا تھا کہ حضورﷺ کا یہ احسان بھی کسی طرح کم نہیں کہ ہم عورتوں کے وجود کو زندہ درگور کرنے سے منع کیا اور پھر ہمارے حقوق کی حفاظت کی۔ اور بحیثیت ماں، بیٹی، بہو اور بہن کے سب کے حقوق الگ الگ بیان فرمائے۔ پھر ایک وقت آیا کہ زمانہ اپنی باتوں کو دوہراتے اوریاد کرتے ہوئےگزر گیا، سو خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا جو قادیان کی گمنام بستی سے ہمارے لیے احمدیت کا پیغام لے کر کھڑے ہوئے۔ اور پھر وہی بات کہ صنف نازک کی بقا اور حفاظت اور تعلیم و تربیت کا فکر دامنگیرہوا۔ حضورؑ نے اپنی ساری زندگی عورتوں کی اصلاح کےلیے مختلف مواقع پر مختلف ارشادات فرمائے۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف کشتی نوح میں فرماتے ہیں:

’’سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو یقیناًیاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے سو خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے۔ اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ۔ سو اِن صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو۔ تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہر ایک جو تم میں سست ہوجائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا دیکھو مَیں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے اگرچہ سب اُسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اُس شخص کو چن لیتا ہے جو اُس کو چنتا ہے وہ اُس کے پاس آ جاتا ہے جو اُس کے پاس جاتا ہے جو اُس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو عزت دیتا ہے۔

تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجاؤکہ وہ تمہیں قبول کرے گا‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)

بزرگان دین کو عام طور پر عورتوں کو ہی اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت پیش آ ئی ہے۔ دراصل ہم عورتوں کے صنف نازک ہونے کی حیثیت سے جہاں ذمہ داریاں کچھ زیادہ ہیں وہاں روز مرہ زندگی کے تجربے سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم عورتوں سے ہی دن رات کئی قسم کے واقعات اور غلطیاں سر زد ہو کر گھر کا ماحول نا خوشگوار ہو جاتا ہے۔ اور اسی طرح کئی بد رسموں کے پیچھے معاشرے میں برائیاں پیدا ہونے کا ڈر تھا۔ تبھی تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:

’’(9)ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ شادیوں میں صدہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونوں باتیں عندالشرع حرام ہیں۔ اور آتش بازی چلوانا اور کنجروں اور ڈوموں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہیں۔ ناحق روپیہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اور گناہ سر پر چڑھتا ہے۔ صرف اتنا حکم ہے نکاح کرنے والا بعدنکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے۔

(10)ہمارے گھروں میں شریعت کی پابندی کی بہت سستی ہے۔ بعض عورتیں زکوٰۃ دینے کے لائق ہیں اور بہت سا زیور اُن کے پاس ہے وہ زکوٰۃ نہیں دیتیں۔ بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کوتاہی رکھتی ہیں۔ بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں جیسے چیچک کی پُوجا۔ بعض فرضی بیویوں کی پو جا کرتی ہیں۔ بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگادیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں کوئی مرد نہ کھاوے۔ یا کوئی حقہ نوش نہ کھاوے۔ بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں۔ ہم صرف خالص اللہ کے لئے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ آؤ خدا تعالیٰ سے ڈرو۔ ورنہ مرنے کے بعد ذلت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضب الٰہی میں مبتلا ہو جائو گے جس کی انتہا نہیں۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 70تا71)

ایک اور اہم بات ہم عورتوں کی اصلاح کےلیے یہ بیان کی، فرمایا:

’’ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے با لکل خلاف ہے۔ بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں۔ رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیاجاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کاکچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ(الحجرات: 14)

یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ ترپرہیز گار ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 46، ایڈیشن 1985ء)

کتنی عمدہ تعلیم رشتہ ناطہ کرنے کی ہمیں دی۔ یہ ہم پر بڑا احسان ہے۔ کاش ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔ پھر آگے لکھا ہے کہ عورتوں میں ایک یہ بھی بد عادت ہوتی ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند اپنی کسی مصلحت کےلیے دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے اپنی حکمت کاملہ سے جس میں صدہا مصالح ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں۔ پھر جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں برا کہا جاوے۔

(ماخوذ ازملفوظات جلد9صفحہ45، ایڈیشن1985ء)

پھر فرمایا کہ عورتوں میں ایک خراب عادت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں۔ اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ برا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں۔ ایسی عورتیں اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک لعنتی ہیں۔ اُن کا نماز، روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں۔ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری خاوند کی فرماں برداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم نہ بجا لائے اور پس پشت اس کےلیے خیر خواہ نہ ہو۔ اور پیغمبر خداﷺ نے فرمایا کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں۔ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کوئی بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر بھی باز نہیں آتی تو خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں۔ عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چرائیں اور نا محرم سے اپنے تئیں بچائیں، اور یاد رکھنا چاہیے کہ بجز خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں اُن سے پردہ کرنا ضروری ہے۔ جو عورتیں نامحرم مردوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ہے۔

(ماخوذ ازملفوظات جلد9صفحہ44، ایڈیشن1985ء)

عورتوں کےلیے یہ مضمون بھی واضح کرنا ضروری تھا کہ اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے گو وہ عورت جوان ہی ہو تو دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیساکہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اورتمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہو گئی ہوں۔ حالانکہ اس کے لیے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔ عورتوں کےلیے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا بہت ثواب کی بات ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرے اور نا بکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔ ایسی عورتیں جو خدا اور اس کے رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے۔ جس عورت کو رسول اللہﷺ سے پیار ہے اسے چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے۔ اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد درجہ بہتر ہے۔

(ماخوذ ازملفوظات جلد9صفحہ43تا44، ایڈیشن1985ء)

چونکہ عورت کمزور ہے اس کو زیادہ نصائح کی جاتی ہیں۔ چنانچہ رنج و غم کے مواقع کے لیے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونا، بے صبری کے کلمات زبان پر لانا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جن کو کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوئوں سے لی گئی ہیں۔ جاہل لوگوں نے اپنے دین کو بھلا دیااور ہندوئوں کی رسمیں اختیار کر لیں۔ کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں ……قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ صرف انا للہ و انا الیہ راجعون کہیں یعنی ہم خدا تعالیٰ کا مال ہیں اورمِلک ہیں۔ اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے۔ ‘‘

(بدرجلد2نمبر30مورخہ 26؍جولائی 1906ء صفحہ 12)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عائلی زندگی کے بارے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’میں نے اپنے ہوش میں نہ کبھی حضور علیہ السلام کو حضرت ام المومنین سے ناراض دیکھا نہ سنا بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک idealجوڑے کی ہونی چاہیے۔ ‘‘

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ مرتبہ حضرت شیخ محمود احمد عرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 231)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورحضرت اماں جانؓ کی شادی ایک الہامی شادی تھی جو اذن الٰہی کے تابع ہوئی۔ اس بارے میں سیرت حضرت اماں جانؓ میں مذکور ہے:

’’یہ شادی 1884ءمیں ہوئی۔ یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اپنے دعویٰ مجدد یت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جانؓ …حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتہا درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دل داری فرماتے تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے منشا کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جانؓ کو مخصوص نسبت ہے چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں:

’’میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے۔ ‘‘

اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسکرا کر فرماتے تھے:

’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔ ‘‘

(از سیرت و سوانح حضرت اماں جانؓ مصنفہ پروفیسرسیدہ نسیم سعید صاحبہ صفحہ 107)

حضرت اماں جانؓ بیان فرماتی ہیں کہ

’’میں پہلے پہل جب دہلی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت ( مسیح موعودؑ ) کو گُڑ والے چاول بہت پسند ہیں۔ مَیں نے بڑے شوق سے ان کے پکانے کا انتظام کیا۔ تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا۔ وہ بالکل راب بن گئے۔ جب دیگچی چولہے سے اُتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اورصدمہ ہواکہ یہ تو خراب ہوگئے۔ ادھرکھانے کا وقت ہوگیا تھا۔ حیران تھی کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں حضرت صاحب آگئے۔ میرے چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا۔ آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا:

’’کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟ ‘‘

پھر فرمایا:

’’نہیں یہ تو بہت مزیدار ہیں۔ میری پسند کے مطابق پکے ہیں۔ ایسے ہی زیادہ گڑ والے تومجھےپسند ہیں۔ یہ تو بہت ہی اچھے ہیں۔ ‘‘

اور پھر بہت خوش ہوکر کھائے۔ حضرت اماں جانؓ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کو اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہوگیا۔ ‘‘

(سیرت حضرت اماں جانؓ مصنفہ صاحبزادی امۃالشکور صاحبہ صفحہ6تا7)

ازواج سے حسن و احسان کا ذکر کرتے ہوئے بطورنصیحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سےلطف اور نرمی کا برتائو کریں۔ ‘‘

(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صفحہ 18)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کسی سفر میں تھے۔ سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبد الکریم صاحبؓ جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں۔ آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبد الکریم صاحبؓ خود حضرت صاحبؑ کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایاجاؤجی میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں۔

(سیرۃ المہدی جلد اول، حصہ اول صفحہ56)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک روایت لکھی ہےکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندرون خانہ جس دالان میں عموماً سکونت رکھتے تھے، جس کی ایک کھڑکی کوچہ بندی کی طرف کھلتی ہے اور جس میں سے ہو کر بیت الدعا کو جاتے ہیں۔ اس کمرے کی لمبائی کے برابر اس کے آگے جنوبی جانب ایک فراخ صحن ہواکرتا تھا۔ گرمی کی راتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اہل و عیال سب اس صحن میں سویا کرتے تھے۔ لیکن برسات میں یہ دقت ہوتی کہ اگر رات کو بارش آجائے تو چارپائیاں یا تو دالان کے اندر لے جانی پڑتی تھیں یا نیچے کے کمروں میں۔ اس واسطے حضرت اُمّ المومنین نے یہ تجویز کی کہ اس صحن کے ایک حصہ پر چھت ڈال دی جائے تاکہ برسات کے واسطے چارپائیاں اس کے اندر کی جا سکیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تبدیلی کے واسطے حکم صادر فرمادیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ کو جب اس تبدیلی کا حال معلوم ہوا تو وہ اس تجویز کی مخالفت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

حضرت مولوی صاحبؓ نے عرض کی کہ ایسا کرنے سے صحن تنگ ہو جائے گا، ہوا نہ آئے گی، صحن کی خوبصورتی جاتی رہے گی وغیرہ وغیرہ۔ دیگر احباب نے بھی مولوی صاحبؓ کی بات کی تائید کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی باتوں کا جواب دیا۔ مگر آخری بات جو حضورؑ نے فرمائی اور جس پر سب خاموش ہوئے وہ یہ تھی کہ

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدوں کے فرزند اس بی بی سے عطا کئےہیں جو شعائراللہ میں سے ہیں۔ اس واسطے اس کی خاطر داری ضروری ہے اور ایسے امور میں اس کا کہنا ماننا لازمی ہے۔ ‘‘

یہی روایت حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اپنی سیرت اور حضرت عرفانی صاحبؓ نے اپنی سیرت حصہ سوم کے صفحہ 368پر لکھی ہے۔ مگر اس میں کچھ لفظی تغیر ہے۔ جو یوں ہے۔ فرمایا:

نفس روایت یا موضوع کی روح میں کوئی فرق نہیں۔ بہر حال یہ ایک واقعہ ہےکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ اس وفد کی پروا کی نہ ان دلائل کو وزنی قرار دیابلکہ ان سب چیزوں کے مقابل میں عملی طور پر حضرت اُمُّالمومنین کی بات اور منشا کو ترجیح دی۔

ایک دفعہ حضرت اُمُّ المومنین نے اس سیڑھی کے بدلنے کی ضرورت محسوس کی جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے مکان کی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اسے اس بالا خانہ کے ساتھ رکھنا تھا جس میں مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے اور نیچے مولوی سیّدمحمد احسن صاحب رہتے تھے۔ مولوی محمداحسن صاحب نے اس سیڑھی کے وہاں رکھنے کی مخالفت کی کہ میرے حجرہ کو اندھیرا ہو جائے گا۔ حضرت اُمُّالمومنین نے حکم دیا کہ سیڑھی وہیں رکھی جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسکرا کر فرمایا:

’’مولوی صاحب ! آپ کیوں جھگڑتے ہیں۔ میر صاحبؓ کو جو حکم دیا گیا ہے ان کو کرنے دیجئے۔ روشنی کا انتظام کر دیا جائے گا۔ آپ کو تکلیف نہیں ہوگی۔ ‘‘

اس طرح پر حضرت اُمُّالمومنینؓ کی خواہش کو پورا کر دیا گیا۔ الغرض کبھی بھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جس میں حضرت اقدسؑ کی طرف سے حضرت اُمُّالمومنینؓ کی دل شکنی ہوئی ہو۔

حضرت ام ناصر صاحبہؓ نے ایک دفعہ ذکر کیا کہ

’’حضرت اماں جانؓ ایک بار بیمار تھیں اور حضرت اقدسؑ تیمارداری فرمارہے تھے،کھڑے دوائی پلارہےتھےاور حالت اضطراب میں حضرت اماں جانؓ کہہ رہی تھیں ہائے میں مرجاؤں گی آپ کا کیا ہے، بس اب میں مرچلی ہوں تو حضرت صاحبؑ نے آہستہ سے فرمایاتو تمہارے بعد ہم زندہ رہ کرکیا کریں گے؟ ‘‘

(سیرت حضرت اماں جانؓ مصنفہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صاحبہ صفحہ 117)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب کشتی نوح میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ‘‘

(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد19صفحہ19)

سیرۃ المہدی میں ایک روایت ہے کہ

’’سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضورؑ اپنی مجلس میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کو چاہیے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آیا کریں۔ اور عورتوں کو فرمایا کرتے کہ عورتوں کو اپنے گھر کو جنت بنا کر رکھنا چاہیے اور مردوں کے ساتھ کبھی اونچی آواز سے پیش نہیں آنا چاہیے اور میں جب کبھی حضرت صاحب کے گھر آتی تو میں دیکھا کرتی کہ حضور ہمیشہ ام المومنین کو بڑی نرمی کے ساتھ آواز دیتے: ’’محمود کی والدہ‘‘ یا کبھی ’’محمود کی اماں ! یہ بات اس طرح سے ہے‘‘اور اپنے نوکروں کے ساتھ بھی نہایت نرمی سے پیش آتے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ حضور کبھی کسی کے ساتھ سختی سے گفتگو کرتے، ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بولتے۔

(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1576صفحہ 319ایڈیشن اگست 2008ء)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعودؑ پر اپنی ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے آکر اسلام کی عمدہ تعلیم کو اپنے کردار اور اپنے اسوے سے زندہ کر دیا اور ہماری رہنمائی فرمائی کہ ہم سبھی گھروں کو جنت بنا لیں اور خدا کے حضور سر خرو ہو کر حاضر ہو سکیں۔ خدا تعالیٰ ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button