حاصل مطالعہ

پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر تبصرہ

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیر خارجہ عزت مآب جناب شاہ محمود قریشی صاحب نے جرمنی کا دورہ کیا۔ اس دوران ان کی جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس بھی ہوئی۔ پریس کانفرنس میں موصوف سے پاکستان میں اقلیتوں خصوصاً احمدیوں، مسیحیوں وغیرہ کے حقوق کے حوالے سے ایک سوال پوچھا گیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے احمدیوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جبکہ مسیحی آسیہ بی بی صاحبہ کا اشارۃً حوالہ دیا اور کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ قبل ہی اِس کیس میں خاتون کو بری قرار دیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کا نظام عدل کچھ کام کررہا ہے۔ نیز دعوت دی کہ صحافی حضرات پاکستان آکر خود حالات کا مشاہدہ کریں۔

پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے متعلق صورت حال

محترم وزیرخارجہ صاحب پاکستان کی خدمت میں عرض ہے کہ اکتوبر ۲۰۲۰ء میں جرمن حکومت کی جانب سے دنیا میں مذہبی آزادی کے حوالے سے جو رپورٹ شائع کی گئی اس میں پاکستان کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ آسیہ بی بی کا کیس بھی پوری جزئیات کے ساتھ اس میں درج ہے۔ احمدیوں کے حقوق کی مسلسل اور ظالمانہ پامالی اور پاکستان میں ان کے خلاف قوانین کی تفصیل بھی درج ہے۔ اس سے چند ماہ قبل، جولائی ۲۰۲۰ء میں جرمن وزارت داخلہ نے پاکستان پر جو خاص رپورٹ شائع کی اس میں پاکستان میں اہل تشیع اور احمدیوں کے حقوق کی پامالی کا ذکر تفصیل سے موجود ہے۔ پس حقائق تسلیم نہ کرنے سے وہ بدل نہیں جایا کرتے۔

محترم وزیر خارجہ صاحب نے صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آ کر بچشم خود حالات کا مشاہدہ کریں۔ ماضی میں ایسا بھی ہو چکا ہےاور بار بار ہو چکا ہے۔ سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، برطانیہ وغیرہ سے خصوصی ’’فیکٹ فائنڈنگ‘‘ مشنز پاکستان جاکر تمام حالات کا مشاہدہ کر کے اپنی رپورٹس مرتب کر چکے ہیں۔ جرمنی، امریکہ، برطانیہ یا دیگر ممالک کی حکومتوں نے پاکستان میں انسانی حقوق پر جو رپورٹس شائع کی ہیں وہ پاکستان میں موجود ان کے سفارت خانوں کے اہلکاروں نے پاکستان کے طول و عرض میں سفر کر کے خود حالات کا جائزہ لینے اور متعلقہ و متاثرہ لوگوں سے مل کر حقائق کو جمع کرنے کے بعد ہی مرتب کی تھیں۔

محض اسی ہفتہ کے حالات جس میں موصوف نے یہ بیان دیا پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے آئینہ دار ہیں: ایک احمدی مسجد کے مناروں اور محراب کو پولیس کی نگرانی بلکہ سرپرستی میں شہید کیا گیا، دو مسیحی نرسوں کو توہین رسالت کے الزام کے نتیجہ میں بپھرے ہجوم کے غضب سے بمشکل بچایا گیا اور اس وقت وہ سرکاری تحویل میں ہیں۔ ایک کمسن ہندو لڑکی، جسے زبردستی مسلمان بنا کر زبردستی شادی کر دی گئی تھی بمشکل اپنے والدین کے پاس واپس پہنچی۔ ملک کے طول و عرض میں تحریک لبیک والوں نے فساد برپا کر رکھا ہے جس سے عوام کے معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور ابھی بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں !

کیا یہ امور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں کہ جب چاہا جس کو چاہا توہین رسالت کا جواز بنا کر قتل کر دیا، جس کو چاہا مارا پیٹا؟ پاکستان کے گلی کوچوں میں شیعہ کافر، شیعہ کافر کے نعرے انسانی حقوق کا مظہر ہیں؟ ہزارہ کے بے شمار مقتولین کے قبرستان اور ہر چند ماہ بعد ان کے سڑکوں پر نعشیں رکھ کر ہونے والے احتجاج آپ کی نظروں سے اوجھل ہیں؟ ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنانے اور ان کی زبردستی کی شادیوں کی اطلاع ابھی نہیں پہنچی؟ چلیں مذکورہ بالا معاملات کے بارے میں تو کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں موجود بعض شدت پسند عناصر ان کارروائیوں میں ملوث ہیں اگرچہ اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن احمدیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہیں باقاعدہ آئین پاکستان میں غیر مسلم قرار دے کر تعزیرات پاکستان میں ان کے متعلق مخصوص قوانین مقرر کیے گئے ہیں۔ نتیجۃً ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی پشت پناہی پاکستان کی حکومتی انتظامیہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی میں شمار نہیں ہوتا؟

محترم وزیر خارجہ صاحب نے فرمایا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی ملک بھی پرفیکٹ یعنی کامل نہیں ہے۔ اور سوال کرتے ہیں کہ کیا جرمنی میں صورت حال پرفیکٹ ہے؟ اس پر اور کیا کہا جائے کہ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا! گویا پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں مذہبی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے مقتولین جرمنی میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نوکری یا رہائش حاصل کرنے کے حوالہ سے مشکل میں مبتلا ہونے والے لوگوں کے برابر ہیں؟ کیا یہ موازنہ کسی بھی صورت مناسب ہے؟ سفارتی رکھ رکھاؤ کی وجہ سے منہ پر صاف جواب نہ بھی دیا جائے تو متعلقہ سفارت کار اور حکام بعد میں ہر ملنے والے پاکستانی کو صاف بتاتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب بیانات غلط تھے۔ صحافی بھی اس حقیقت سے خوب آشنا ہیں۔

مخلصانہ مشورہ

بیرون ِملک پاکستانی نژاد جرمن پاکستان کا بھلا ہی چاہتے ہیں۔ اس لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ بجائے اس کے کہ حقائق کا انکار کیا جائے مسائل کو تسلیم کر کے ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر موجودہ حالات میں حکومتی انتظامیہ کوئی بڑا قدم اٹھانے سے قاصر ہے تو بعض چھوٹے چھوٹے اقدامات کر لینے سے بھی حالات کی درستگی کی جانب قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ناموس رسالت اور نفرت انگیز مواد کی اشاعت سے متعلقہ قوانین کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون مصنف کے ذاتی خیالات پر مشتمل ہے۔ ادارے کا اس کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ قارئین اپنی قیمتی آرا حسب ذیل ای میل پر بھیج سکتے ہیں۔ شکریہ۔

dawoodmajoka@googlemail.com

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button