متفرق مضامین

حقیقتِ نزول از روئے قرآن

(سید حاشر۔ جامعہ احمدیہ کینیڈا)

احادیث میں امتِ محمدیہ میں آنے والے مسیح موعودؑ کے لیے نزول کا ذکر ملتا ہے۔ جیسا کہ صحیح البخاری میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ

کَیفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ

(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم علیھما السلام)

یعنی تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا۔

(ترجمہ حدیث از دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد 7 صفحہ 354)

اور بد قسمتی سے علماء لفظ ’نزول‘ یا ’نَزَلَ‘ وغیرہ سے مسیح ناصریؑ کا آسمان سے زمین پر اترنا مراد لیتے ہیں۔

قبل اس کے کہ لفظ نزول کی بحث میں غیر احمدیوں کے حوالے پیش کروں ذیل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحریر درج کرتا ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں:

’’اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے سارا دھوکہ اس امر سے کھایا ہے کہ حدیث میں نزول کا لفظ ہے اور اس لفظ سے سمجھ لیا گیا ہے کہ مسیح اول ہی دوبارہ دنیا میں نازل ہوں گے حالانکہ نزول کے وہ معنی نہیں ہیں جو لوگ سمجھتے ہیں بلکہ جب ایک ایسی چیز کی پیدائش کا ذکر کرتے ہیں جو مفید ہو یا پھر ایک ایسے تغیر کا ذکر کرتے ہیں جو بابرکت ہو یا جلال الٰہی کا اظہار کرنے والا ہو تو اسے عربی زبان میں نزول کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ‘‘

(دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد 7صفحہ 356)

قرآن کریم میں ’ن ز ل‘ کے مختلف صیغہ جات بے شمار جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ اور جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی حقیقت بیان فرمائی بعینہٖ اسی طرح ان علماء نے جو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں نزول کے یہی معنی کیے ہیں۔

چنانچہ سورۃ الزمر آیت 7 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ

اور اس نے تمہارے لئے چوپایوں میں سے آٹھ جوڑے نازل کئے۔

اس کے ترجمہ میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:

’’اور اسی نے تمہارے لئے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کئے۔ ‘‘

(تفہیم القرآن سورۃ الزمر آیت 7)

قابل توجہ امر یہ ہے کہ مودودی صاحب نے ’’انزل‘‘جس کا مطلب ’’اس نے اتارا‘‘یا بعض کے نزدیک ’’اس نے آسمان سے اتارا‘‘کا ترجمہ ’’پیدا کئے‘‘کیا ہے۔

اسی آیت کی تفسیر میں دیوبندی عالم علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں:

’’تمہارے لئے نفع اٹھانے کے لئے چوپایوں میں آٹھ نر و مادہ پیدا کئے۔ ‘‘

(تفسیر عثمانی سورۃ الزمر آیت 7، از علامہ شبیر احمد عثمانی، مطبع اطہر پریس، ناشر دار الاشاعت کراچی، فروری 2007ء)

امام فرقہ بریلوی احمد رضا خان بریلوی نے جو ترجمہ قرآن کیا ہے اور اس کی تفسیر جو علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی نے کی ہے اس میں زیر آیت لکھا ہے:

’’تمہارے لئے چوپایوں سے آٹھ جوڑے اتارے۔‘‘

تفسیر: ’’یعنی پیدا کئے۔ ‘‘

(کنز الایمان مع تفسیر خزائن العرفان سورۃ الزمر آیت 7، از علامہ احمد رضا خان بریلوی و علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، ناشر مکتبۃ المدینہ (دعوت اسلامی)

اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے پہلے کی تفاسیر دیکھیں تو اس آیت کی تفسیر کے تحت امام القرطبی لفظ ’انزل‘ کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں کہ

’’أَنْزَلَ أَنْشَأَ وَ جَعَلَ‘‘

یعنی ’انزل‘کا مطلب ہے اس نے پیدا کیا اور اس نے بنایا۔

(الجامع لاحکام القرآن معروف بہ تفسیر القرطبی، سورۃ الزمر آیت 7، از حضرت علامہ القرطبی)

سورۃ الاعراف آیت 27میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا

یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے

اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام القرطبی فرماتے ہیں کہ

أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ أَیْ خَلَقْنَا لَکُمْ

(جامع لاحکام القرآن سورۃ الاعراف آیت 27)

ہم نے تم پر اتارا یعنی ہم نے تمہارے لیے پیدا کیا۔

یہی معنی اس آیت کے علامہ القاضی محمد ثناء اللہ مظہری نے بھی کیے ہیں۔

(تفسیر المظہری، سورۃ الاعراف آیت 27، دار الاحیاء التراث العربی بیروت لبنان)

اب دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو یہ کہے کہ آٹھ جوڑے چوپایوں کے اور لباس آسمان سے گر تے ہیں یا میں نے ان کو آسمان سے گرتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر چونکہ جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں غیر احمدی اصرار کرتے ہیں کہ نزول اور اس کے مختلف صیغے آتے ہی آسمان سے زمین پر اترنے کے ہیں تاکہ حضرت عیسیٰؑ کو زبردستی آسمان سے اتاریں اور وہ جماعت احمدیہ کی تفسیر کو مضحکہ خیز کہتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے غیر احمدی علماء کے نزول کے عقیدے کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ بالا آیت کے حوالے سے فرمایا:

’’اس آیت کی دیگر علماء کے نزدیک غیر مضحکہ خیز تاویل یہ ہوگی کہ اے آدم کے بیٹو! تم دیکھتے نہیں کہ ہمیشہ تمہارے سارے لباس آسمان سے گرتے ہیں کبھی کرتوں کی بارش ہوتی ہے، کبھی شلواروں کی بارش ہو رہی ہوتی ہے، کبھی بنیانیں گر رہی ہوتی ہیں اور کبھی آسمان سے تمہاری پگڑیاں اتر رہی ہوتی ہیں۔ اے بیوقوفو ! ان نشانات کو دیکھنے کے باوجود تم نصیحت کیوں نہیں پکڑتے؟‘‘

(خطبات طاہر جلد 4صفحہ 328)

پھر ایک اور جگہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ

وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ (الحدید: 26)

اور ہم نے لوہا اتارا

اس آیت کی تفسیر میں علامہ مودودی لکھتے ہیں کہ

’’لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیدا کرنا ہے…چونکہ زمین میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں آیا ہے، خود بخود نہیں بن گیا ہے، اس لئے ان کے پیدا کئے جانے کو قرآن مجید میں نازل کئے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ‘‘

(تفہیم القرآن سورۃ الحدید آیت 26)

یہ وہی مودودی صاحب ہیں جو جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ اور جو لوگ خدائی جماعتوں کی مخالفت میں حد سے بڑھتے ہیں ان کے دلوں (یعنی عقلوں ) پر پھر خدا تعالیٰ بھی مہر کر دیتا ہے جیسا کہ فرمایا خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْاور اس کی نظیر مودودی صاحب کی اس تحریر سے ملتی ہے۔ اپنے ایک کتابچے میں نزولِ مسیح کی احادیث تحریر کر کے لکھتے ہیں کہ

’’اس مقام پر یہ بحث چھیڑنا بالکل لاحاصل ہے کہ وہ (حضرت عیسیٰؑ۔ ناقل) وفات پاچکے ہیں یا زندہ کہیں موجود ہیں۔ بالفرض وہ وفات ہی پاچکے ہوں تو اللہ انہیں زندہ کر کے اٹھا لانے پر قادر ہے وگرنہ یہ بات بھی اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو اپنی کائنات میں کہیں ہزار سال تک زندہ رکھے اور جب چاہے دنیا میں واپس لے آئے، بہر حال جو شخص حدیث کو مانتا ہے اسے یہ ماننا پڑے گا کہ آنے والے وہی عیسیٰ ابن مریم ہوں گے۔ وہ پیدا نہیں بلکہ نازل ہوں گے۔ ‘‘

(رسالہ ختمِ نبوت صفحہ 41)

اب مولانا ایک طرف تو فرماتے ہیں کہ قرآن میں پیدا ہونے کو نازل کیے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسری جگہ کہتے ہیں کہ پیدا نہیں نازل ہوں گے (یعنی آسمان سے اتریں گے)۔ اور پھر اوپر سے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر حضرت عیسیٰؑ فوت شدہ ہیں تب بھی خدا تعالیٰ ان کو زندہ کر کے لانے پر قادر ہے۔ اگر قادر ہے تو ایک عظیم الشان امتی کو اتباع نبویﷺ کے طفیل امتی نبی اور مثیلِ مسیح بنانے پر بھی تو قادر ہے۔ اور شاید مولانا صاحب وہ واقعہ بھول گئے تھے جو اس حدیث میں درج ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيْبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوْسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ، يَقُوْلُ لَقِيَنِي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عِيَالاً وَدَيْنًا قَالَ أَفَلاَ أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللّٰهُ بِهِ أَبَاكَ قَالَ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللّٰهِ قَالَ مَا كَلَّمَ اللّٰهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا فَقَالَ يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَىَّ أُعْطِكَ قَالَ يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيةًقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لاَ يُرْجَعُونَ‘‘

(جامع الترمذی کتاب التفسیر القرآن عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم سورۃ آل عمران)

حضرت جابر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں نبی اکرمﷺ کی ملاقات مجھ سے ہوئی۔ آپ نے مجھ سے دریافت کیا: ’’اے جابر کیا وجہ ہے؟ میں تمہیں شکستہ حال دیکھ رہا ہوں۔‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والد شہید ہو گئے ہیں اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں۔ تو نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ دوں جس کے ہمراہ تمہارے والد کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ملاقات کی۔ ‘‘تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! جی ہاں۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے ساتھ حجاب کے پیچھے سے کلام کیا لیکن تمہارے والد کو زندہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ حجاب کے بغیر گفتگو کی اور اس نے یہ فرمایا: ’’اے میرے بندے! میرے سامنے آرزو کر! میں تمہیں عطا کروں گا‘‘تو انہوں نے عرض کی: اے میرے پروردگار! تو مجھے زندہ کر دے تاکہ مجھے دوبارہ تیری راہ میں قتل کیا جائے تو پروردگار نے ارشاد فرمایا: ’’اس بارے میں ہمارا فیصلہ ہو چکا ہے کہ لوگ (دنیا میں ) واپس نہیں جائیں گے۔ ‘‘اب صاف ظاہر ہے کہ جو ایک بار اس دنیا سے چلا گیا تو واپس نہیں آتا کیونکہ یہ سنت اللہ کے خلاف ہے۔

پس مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عیسیٰؑ وفات بھی پاگئے ہیں تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو زندہ کر کے واپس لائے گا کس طرح مان لیا جائے۔ اور اگر خدا تعالیٰ نے کسی کو زندہ کر کے ہی واپس لانا تھا تو کیوں نہ ہم سب کے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو واپس لاتا۔

اب بھی اگر کوئی نہ مانے کہ نزول کس لیے استعمال ہوتا ہے تو قرآن کریم کا ایک آخری حوالہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے جو اوپر دیے گئے سب حوالوں سے افضل ترین ہے کیونکہ اس میں افضل الرسل سید الاصفیاء خاتم الانبیاء حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے نزول کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ سورۃ الطلاق آیات 11تا 12 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

قَدْ أَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَّسُوْلًا

یعنی اللہ نے تمہاری طرف ایک عظیم ذکر نازل کیا ہےایک رسول کے طور پر۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ

’’ذکر بمعنی ذاکر ہو تو خود رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مراد ہوں گے۔ ‘‘

(تفسیر عثمانی سورۃ الطلاق آیت 11)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بطور ذکر نازل فرمایا۔ نیز علامہ محمد واحد بخش جنہوں نے تفسیر مدارک التنزیل کا ترجمہ کیا ہے، تفسیر مدارک میں اس آیت کی تفسیر کا اردو ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف نصیحت و خیر خواہی کرنے والے رسول کو نازل فرمایا۔ ‘‘

(تفسیر مدارک التنزیل مع اردو ترجمہ قرآن المسمیٰ بہ برکات القرآن، سورۃ الطلاق آیات 11تا 12، از علامہ حافظ محمد بخش، مطبع رومی پبلیکیشنز لاہور)

اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے نازل کیا جانا فرمایا ہے۔ کیا حضورﷺ حضرت آمنہ کے ہاں پیدا نہیں ہوئے تھے؟ مگر جیسا کہ پاکستان کے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع لفظ نزول کی بحث میں تحریر کرتے ہیں کہ

’’حقیقت شناس نگاہ میں یہ سب حق تعالیٰ ہی کا ایسا عطیہ ہے جیسے آسمان سے اتارا گیا ہو۔ ‘‘

(معارف القرآن سورۃ الاعراف آیت 27، از مفتی محمد شفیع، مطبع شمس پرنٹنگ پریس کراچی، ناشر مکتبہ معارف القرآن کراچی)

اور خدا تعالیٰ کا انتہائی عظیم عطیہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ اس لیے آپؐ کو اللہ نے نازل فرمایا۔ مگر پیدا فرما کر نہ کہ آسمان سے جسم کے ساتھ اتار کر۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ

’’کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ایک ہی لفظ رسول کریمﷺ کی نسبت اور مسیح علیہ السلام کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے مگر آنحضرتﷺ کی نسبت اس کے معنی اور کر دئیے جاتے ہیں اور مسیح کی نسبت اس کے اور معنی کر دئیے جاتے ہیں جب آنحضرتﷺ اسی زمین پر پیدا ہوئے اور آپؐ کی نسبت نزول کا لفظ استعمال کیا گیا تو کون سے تعجب کی بات ہے اگر یہی لفظ آنے والے مسیح کی نسبت استعمال کیا جائے اور اس سے مراد اس کی پیدائش اور بعثت ہو۔ ‘‘

(دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد7صفحہ 357)

نزولِ مسیح والی احادیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ

اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ

یعنی تمہارا امام تمہی میں سے ہوگا۔ اور وہ امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذات بابرکت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمادیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’نزول سے مراد در حقیقت مسیح بن مریم کا نزول نہیں۔ بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے جس کا مصداق حسب اعلام و الہام یہی عاجز ہے۔ ‘‘

(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد3صفحہ51)

پھر ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’ہاں یہ امر کہ آنے والے مسیح سے پھر کیا مراد ہے تو یاد رکھو جو کچھ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا اور اپنی تائیدوں اور نصرتوں اور نشانوں کے ساتھ اسے ثابت کیا۔ وہ یہی ہے کہ آنے والا اسی امت کا ایک فردِ کامل ہے اور خدا تعالیٰ کی کھلی کھلی وحی نے ظاہر کیا ہے کہ وہ آنے والا مَیں ہوں جو چاہے قبول کرے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ 132، ایڈیشن1988ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button