مسلمانوں کی حکومت میں اسلام کی تبلیغ نہیں ہو سکتی
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ18تا19، حمامۃالبشریٰ،روحانی خزائن جلد7صفحہ229تا231اور نورالحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد8 صفحہ6 میں تحریر فرمایا ہے کہ جو مذہبی آزادی ہمیں اس وقت دولت برطانیہ کے تحت میسّر ہے وہ کسی اسلامی ملک میں نہیں مل سکتی تھی اور اگر ہم کسی اسلامی ملک میں اپنی دعوت کا آغاز کرتے تو ہمارے دشمن ہماری تکہ بوٹی کردیتے۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ احمدیت کا آغاز سلطنت برطانیہ کے تحت ہوا ہے جو تمام لوگوں کو مذہبی آزادی فراہم کرتی ہے۔ حضورؑ کی کتاب نورالحق کی عبارت کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’اور اگر انگریزی سلطنت کی تلوار کا خوف نہ ہوتا تو ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتے، لیکن یہ دولت برطانیہ غالب اور باسیاست جو ہمارے لئے مبارک ہے خدا اس کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے۔ کمزوروں کو اپنی مہربانی اور شفقت کے بازو کے نیچے پناہ دیتی ہے پس ایک کمزور پر زبردست کچھ تعدی نہیں کرسکتا سو ہم اس سلطنت کے سایہ کے نیچے بڑے آرام اور امن سے زندگی بسر کررہے ہیں اور شکرگزار ہیں اور یہ خدا کا فضل اور احسان ہے جو اس نے ہمیں کسی ایسے ظالم بادشاہ کے حوالہ نہیں کیا جو ہمیں پیروں کے نیچے کچل ڈالتا اور کچھ رحم نہ کرتا بلکہ اس نے ہمیں ایک ایسی ملکہ عطا کی ہے جو ہم پر رحم کرتی ہے اور احسان کی بارش سے اور مہربانی کے مینہ سے ہماری پرورش فرماتی ہے اور ہمیں ذلت اور کمزوری کی پستی سے اوپر اٹھاتی ہے۔‘‘
حسب عادت مخالفین نے اس منصفانہ اور عادلانہ موقف کا مذاق اڑایا اور حکومت برطانیہ کی خوشامد کا الزام لگایا۔ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ آخرکار دیگر باتوں کی طرح علماء اور دینی راہ نماؤں کو سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ماتحتی میں یہی موقف اپنانا پڑا کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام غیرمسلم حکومت میں تو ممکن ہے لیکن کسی مسلمان حکومت کے تحت اور کسی مسلمان ملک میں نہیں ہوسکتی۔ بانیٔ جماعت اسلامی سیّد ابوالاعلیٰ مودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’جیسی مسلم اکثریت اس مجوزہ پاکستان میں ہے، ویسی ہی، بلکہ عددی حیثیت سے بہت زیادہ زبردست اکثریت افغانستان، ایران، عراق، ٹرکی اور مصر میں موجود ہے، اور وہاں اس کو وہ ’’پاکستان‘‘حاصل ہے جس کا یہاں مطالبہ کیا جارہا ہے۔ پھر کیا وہاں مسلمانوں کی خودمختار حکومت کسی درجہ میں بھی حکومتِ الٰہیہ کے قیام میں مددگار ہے یا ہوتی نظر آتی ہے؟ مددگار ہونا تو درکنار، میں پوچھتا ہوں، کیا آپ وہاں حکومتِ الٰہی کی تبلیغ کرکے پھانسی یا جلاوطنی سے کم کوئی سزا پانے کی امید کرسکتے ہیں ؟ اگر آپ وہاں کے حالات سے کچھ بھی واقف ہیں تو آپ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرأت نہ کرسکیں گے۔‘‘
(تحریک آزادئ ہند اور مسلمان حصہ دوم مشتمل بر ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘حصہ سوم صفحہ141)
’’پھر ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اس انقلابی دعوت کے پنپنے کی امید صرف ایسے ملک میں کی جاسکتی ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں امریکہ میں تو ہم آٹے میں نمک کی حیثیت رکھتے ہیں ! واقعہ یہ ہے کہ یہ دلیل بھی عذرلنگ اور معروضی حقائق کے بالکل خلاف ہے۔ مسلمان اکثریت والے ممالک میں فرقہ پرستی اور سیاسی حوصلہ مندی اور طالع آزمائی دو لعنتیں ایسی ہیں جو صحیح اسلامی دعوت کے پنپنے میں سدِّسکندری کی طرح حائل ہیں اور اس پر مستزاد نفس پرستی اور طلب دنیا کی ہوس اور سب سے بڑھ کر مغرب کی مرعوبیت اور اس کی اندھی نقالی ایسے مہلک امراض ہیں، جبکہ غیر مسلموں کو دعوت دینے میں ان میں سے کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے بشرطیکہ دعوت کے تقاضے پورے کئے جائیں اور اس کی دھن سوار ہوجائے! اور وقت اور قوت اور ذرائع و وسائل کا بیشتر حصہ اس کے لیے وقف کیا جائے!‘‘
(ڈاکٹر اسرار احمد۔ میثاق فروری 2003ء)
(مرسلہ:انصر رضا۔ واقفِ زندگی۔ کینیڈا)
٭…٭…٭