حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

معاشرے میں مرد و عورت کا کردار

زندگی کے ساتھی اور اولاد کے حق میں دعائیں

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق خاص طور پر نصائح فرماتے ہوئے اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس بھی پیش فرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ دن بدن دلیراور بے باک ہوتے جاتے ہیں …یادرکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اَقْرَب تعلقات کو نہیں سمجھتا، جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امیداس سے کیاہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پرقرآن میں بیان فرمایاہے:

رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا

یعنی خدا تعالیٰ تو ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما دے۔ اور یہ تب ہی میسر آ سکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسرنہ کرتے ہوں بلکہ عبادالرحمن کی زندگی بسرکرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پرمقدم کرنےوالے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا

اولاد اگرنیک اور متقی ہو تویہ ان کاامام ہی ہوگا۔ اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ 562تا563جدید ایڈیشن)

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 26؍جولائی2003ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍اگست 2003ء)

والدین میں باہمی محبت اور پیار کے فقدان کا بچوں پر بد اثر

حضورِا نور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزپُرسکون خانگی زندگی گزارنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’میرے ایک جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن گھروں میں ماں باپ کا آپس کا محبت اور پیار کا سلوک نہیں ہے اُن کے بچے زیادہ باہر جاکر سکون تلاش کرتے ہیں۔ اس لئے میں ماں باپ سے بھی کہوں گا کہ اپنی ذاتی اناؤں کی وجہ سے اور اپنی ادنیٰ خواہشات کی وجہ سے گھروں کا سکون برباد کرکے اپنی نسلوں کو برباد نہ کریں اور حقیقی طور پر متقیوں کا امام بننے اور اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے بننے کی کوشش کریں اور اپنے عہد کو اور وعدے کو پورا کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر آپ نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘

(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب مستورات فرمودہ15؍اگست2009ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍مئی 2014ء)

السلام علیکم کہنےکی برکات

اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور نے السلام علیکم کہنے کی عادت اور اس کی افادیت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا:

’’…یہ عمومی حکم بھی ہے کہ جب تم گھروں میں داخل ہو، چاہے اپنے گھروں میں داخل ہو توسلامتی کا تحفہ بھیجو، کیونکہ اس سے گھروں میں برکتیں پھیلیں گی کیونکہ یہ سلامتی کا تحفہ اللہ کی طرف سے ہے جس سے تمہیں یہ احساس رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تحفے کے بعد میرا رویہ گھر والوں سے کیسا ہونا چاہئے۔

اللہ فرماتا ہے

فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ۔ (النور: 62)

پس جب تم گھروں میں داخل ہو اکرو تو اپنے لوگوں پراللہ کی طرف سے ایک بابرکت پاکیزہ سلامتی کا تحفہ بھیجا کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل کرو۔

ایسے گھروں میں رہنے والے جب ایک دوسرے پر سلامتی کا تحفہ بھیجتے ہیں تو یہ سوچ کر بھیج رہے ہوں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے۔ تو آپس کی محبتوں میں اضافہ ہو گا اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گی۔ گھر کے مرد سے، اس کی سخت گیری سے، اگر وہ سخت طبیعت کا ہے تو اس سلامتی کے تحفے کی وجہ سے، اس کے بیوی اور بچے محفوظ رہیں گے۔ اس معاشرے میں خاص طور پر اور عموماً دنیا میں باپوں کی ناجائز سختی اور کھردری(سخت) طبیعت کی وجہ سے، بعض دفعہ بچے باغی ہو جاتے ہیں، بیویاں ڈری سہمی رہتی ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ باوجود سالوں ایک ساتھ رہنے کے میاں بیوی کی علیحدگیوں تک نوبت آجاتی ہے، علیحدگیاں ہو رہی ہوتی ہیں، بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ خاندانوں کو ان کی پریشانی علیحدہ ہو رہی ہوتی ہے۔ تو اس طرح اگر سلامتی کا تحفہ بھیجتے رہیں تو یہ چیزیں کم ہوں گی۔ اسی طرح جب عورتیں سلامتی کا پیغام لے کر گھروں میں داخل ہوں گی تو اپنے گھروں کی نگرانی صحیح طور پر کر رہی ہوں گی اور اپنے خاوندوں کی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوں گی۔ جب بچوں کی اس نہج پر تربیت ہو رہی ہو گی تو جوانی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اپنے گھر، ماں، باپ اور معاشرے کے لئے بدی کا باعث بننے کی بجائے سلامتی کا باعث بن رہے ہوں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍مئی2007ءبمقام بیت الفتوح لندن

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍جون2007ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 55تا58)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button