متفرق مضامین

اللہ تعالیٰ خلیفہ کیسے منتخب فرماتا ہے؟ (قسط دوم۔ آخری)

(الاستاذ مصطفیٰ ثابت صاحب مرحوم)

(ترجمہ: محمد اظہر خان منگلا۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

(عربی رسالہ ’’التقویٰ‘‘ کے خلافت احمدیہ صدسالہ جوبلی نمبر (2008ء) میں شائع شدہ مضمون کا اردو ترجمہ)

چوتھا سوال : انتخاب خلیفہ کے عمل میں تمام احباب جماعت شریک کیوں نہیں ہوتے ؟

انتخاب خلیفہ کا عظیم کام تمام افرادِ جماعت کے لیے عام نہیں ہے۔ اس میں ہر کوئی شریک نہیں ہو سکتا اور نہ ایسا ہے کہ جس کی عمر سولہ یا اٹھارہ سال ہو وہ شریک ہو گا اور نہ اس کے لیے کسی خاص مُلک کا شہری ہونا ضروری ہے۔ نہیں ! انتخاب خلافت کا نظام دنیاوی جمہوری انتخابوں سے مختلف ہے۔ مومنین کی جماعت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہے کہ اُن کے لیے متقیوں میں سے امام بنائے اور اُن میں سے متقیوں کے لیے امام بنائے۔ اور متقیوں کا امام وہ ہو گا جو سب سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ راست باز ہو گا۔ پس جو متقیوں کے امام کے لیے ووٹ دے اُس کا اپنا متقیوں میں سے ہونا لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی جاتی ہے کہ جماعتِ مومنین کے لیے اُس کو چُنے جو لوگوں میں سے سب سے بہتر ہو۔ تو یہ لازمی ہوا کہ اللہ سے یہ فریاد کرنے والا خود بھی دوسرے لوگوں سے بہتر ہو۔ بالکل اُسی طرح جیسے موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے بہترین آدمیوں میں سے ستر آدمیوں کو چُنا تا کہ اللہ تعالیٰ سے عفو اور مغفرت طلب کریں۔ (سورۃ الاعراف: 156)

لہٰذا متقیوں میں سے بہترین لوگ ہی اس شرف کے حقدار ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ہاتھوں سے اپنے ارادہ کا اظہارفرمائے۔ متقیوں میں سے بہترین لوگوں سے صرف وہ لوگ مراد ہیں جن کو خدا تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے اور اُنہیں بتادیتا ہے کہ وہ کسے خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ لوگ جو انتخاب خلیفہ کے بابرکت عمل میں شریک ہوتے ہیں تقویٰ کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوتے ہیں۔ اور جب اپنے تعلق باللہ کی وجہ سے یہ لوگ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن پر اپنی منشاء کا اظہارفرمائے تو اللہ تعالیٰ عملاً ایسا کرتا ہے اور اُن کے دلوں اور ذہنوں کو اُس کی طرف مائل کر دیتا ہے جسے وہ امام المتقین بنانا چاہتا ہے۔

جمہوری انتخابات اور انتخاب خلیفہ

انتخاب خلیفہ کا عمل، مغربی جمہوری انتخابات سے کلیةً مختلف ہے۔ جمہوری انتخابوں میں تمام تر انحصار لوگوں کی رائے پر ہوتا ہے۔ لیکن انتخابِ خلیفہ کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اور اس انتخاب میں تمام تر انحصار اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ جمہوری انتخابات میں تو لوگ خود اپنا نام پیش کرتے ہیں تا لوگ اُن کو منتخب کریں۔ لیکن اپنے آپ کو پاک صاف قرار دینا حکم الٰہی کے خلاف ہے۔

فَلاَ تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ

پس اپنے آپ کو (یونہی) پاک نہ ٹھہرایا کرو۔

جمہوری انتخابات میں جو شخص خود کو پیش کرتا ہے وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ اس دوسرے شخص سے بہتر ہے جس نے اس کے بالمقابل اپنا نام پیش کیا ہے اور وہ بزبانِ حال یہ کہتا ہے جیسا کہ اس سے قبل ابلیس نے کہا تھا کہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ۔ یعنی میں اس سے بہتر ہوں۔

اگر تقویٰ نہیں تو خلافت ربّانیہ بھی نہیں

اگر انتخاب کے عمل میں تقویٰ نہ ہو تو تمام نظام در ہم برہم ہو جاتا ہے اور تقویٰ سے دور جا پڑنے والوں کے لیے اللہ کے ارادے کا ظہور نہیں ہوتا۔ اور تمام معاملہ لوگوں کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے تا جسے چاہیں اپنے ووٹوں کے ذریعہ منتخب کر لیں۔ لہٰذا یہ بھی ضروری نہیں کہ لوگوں کا ہر انتخاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو۔

پس جب مومنوں کی ایسی جماعت موجود ہو جسے نبی نے اللہ کے حکم سے قائم کیا ہو، اور یہ جماعت تقویٰ پر قائم ہو، اور ایمان اور عمل صالح کی شرائط کو پورا کرنے والی ہو، اور جب کسی قسم کی ذاتی خواہشات اور خلیفہ بننے کی تمنا نہ ہو، اور جب کوئی بھی فرد اپنا نام پیش نہ کرے، اور جب انتخاب کے عمل میں ایسے مومن شریک ہوں جو تمام لوگوں سے تقویٰ میں زیادہ ہوں، اور جب یہ لوگ خدا کے آستانہ پر گرنے کے بعد اور اس سے ہدایت طلب کرنے کے بعد ووٹ دیں اور اس طرح اُس شخص کو منتخب کیا جائے جو تقویٰ میں سب سے زیادہ ہو تا متقیوں کا امام بن سکے تو تب ہی …اور محض تب ہی …یہ شخص اللہ کا چنیدہ کہلائے گا۔

پس جبکہ دنیاوی حکمرانوں کا انتخاب ربّانی نظام کی طرح نہیں ہوتا تو لازماً ایسا شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نہیں ہو گا۔ ہاں !ہو سکتا ہے کہ یہ انتخاب جمہوری ہو لیکن ربّانی نہیں ہو سکتا کیونکہ ربّانی نظام کی شرائط کے تحت عمل میں نہیں آتا۔ ہٹلرؔ کو بھی حکومت کا اقتدار جمہوری انتخاب کے ذریعہ ملا تھا لیکن یہ ربّانی نظام کے مطابق نہیں تھا اور نہ ہی اس انتخاب میں تقویٰ کو مدِّنظر رکھا گیا تھا اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہٹلر کو خدا نے کھڑا کیا تھا۔ لہٰذا جب تقویٰ نہیں ہو گا تو اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل حال نہیں ہو گا۔

پانچواں سوال : وہ کون لوگ ہیں جو خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں ؟

انتخابی کمیٹی

انتخاب کے تمام عمل کا دارو مدار تقویٰ پر ہے۔ اگر تقویٰ نہیں ہو گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس انتخاب میں دخل نہیں دے گا۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انتخاب خلیفہ کے عمل میں کون لوگ شریک ہوتے ہیں ؟ اور ہم کس طرح یقین کر لیں کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کام کے لیے ایک معین کمیٹی ہے جو ’’انتخاب خلافت کمیٹی ‘‘کہلاتی ہے۔ یہ کمیٹی انتخاب خلیفہ کے بابرکت عمل میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کرتی ہے۔ اس کی تعداد معیّن نہیں ہے۔ لیکن ایک شرط کا ہر فردِ کمیٹی میں پایا جانا لازمی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں۔ جب رسول اللہﷺ اپنے رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے تو مہاجرین اور انصار میں سے ایسے ذمہ دار شخص جمع ہوئے جو تقویٰ کی چوٹی پر قائم تھے اور انہوں نے باہمی مشورہ سے (حضرت)ابو بکرؓ کو خلیفہ اول منتخب کیا۔ اور ابو بکرؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپؓ ہر اُس شخص سے جس میں راست بازی اور تقویٰ دیکھتے اُس سے مشورہ مانگتے کہ آئندہ خلیفہ کے لیے کون زیادہ مناسب ہو گا۔ یہاں تک کہ آپ مطمئن ہو گئے کہ تمام متقی مومن اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عمر بن الخطابؓ کو آپ کے بعد خلیفہ بنائیں۔ لہٰذا حضرت ابو بکرؓ نے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے کے بعد حضرت عمرؓ کا نام خلیفہ کے لیے پیش کر دیا۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو آپ نے انتخابی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا جو کہ انتخاب خلیفہ کے عمل کی نگرانی کرے۔ یہ کمیٹی چھ کبار صحابہ پر مشتمل تھی۔ اور یہ صحابہ اُن دس صحابہ میں سے تھے جن کو رسول اللہﷺ نے جنّت کی بشارت دی تھی۔

احیائے اسلام کے دورِ ثانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی انتخابی کمیٹی بنانے کا حکم دیا جو انتخاب خلیفہ کے عمل میں شریک ہو۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے حالات کے بدلنے کے پیشِ نظر اس کے قواعد میں بعض اہم تبدیلیاں فرمائیں۔ یہ کمیٹی ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے جنہوں نے اسلام اور جماعت احمدیہ کے لیے اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ نمایاں خدمات سر انجام دی ہوں۔ یہ کمیٹی خلیفہ وقت کی وفات کے بعد اپنا کام شروع کر تی ہے، خلیفہ وقت کی وفات سے پہلے کوئی کام نہیں کرتی۔ خلیفہ کی وفات کے بعد اس کمیٹی کے ممبران مرکزخلافت میں جمع ہو جاتے ہیں۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ فون یا فیکس یا انٹرنیٹ کے ذریعہ ووٹ دے سکے، مرکز خلافت میں باقی ممبران کے ساتھ حاضر ہونا لازمی ہے۔ اس طرح وہ وہاں پہنچ کر خلیفہ کی وفات کے غم و الم میں شریک ہوتا ہے جو کہ یقینا ًاسے اللہ کے قرب میں بڑھا دیتا ہے۔ اور وہ دعا کرتا ہے اور دعا کرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اے میرے ربّ …اے میرے ربّ !مجھے ہدایت دے تا کہ میں اسی شخص کا انتخاب کروں جسے تو امام المتقین بنانا چاہتا ہے۔ پس طبعاً جو شخص انتخابی کمیٹی میں شریک ہوتا ہے وہ تقویٰ کے اعلیٰ مراتب تک پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کمیٹی کے ہر فرد کو بتائے کہ آئندہ خلیفہ کون ہو گا، لیکن ان میں سے غالب اکثریت کو اللہ تعالیٰ ضرور ہدایت دے دیتا ہے اور اُن کے دل اُس شخص کی طرف مائل کر دیتا ہے جسے وہ خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔

انتخاب کون کرتا ہے ؟

انتخابی کمیٹی میں شریک تقویٰ والے لوگ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کسے منتخب کرنا چاہتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ اُن میں سے غالب اکثریت کے دلوں کو اس شخص کی طرف مائل کر دیتا ہے جسے وہ خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔ پس در اصل خلیفہ خدا ہی بناتا ہے وہ تو محض ووٹ دیتے ہیں۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ فرض کریں کہ آپ کے پاس ایک تھال ہے جس میں مختلف پھل پڑے ہوئے ہیں مثلاً مالٹے، سیب اور کیلے وغیرہ۔ آپ سے کوئی یہ کہے کہ اس میں سے کوئی ایک پھل اٹھاؤ اور اپنے والد صاحب کی خدمت میں پیش کرو۔ اب آپ اپنی مرضی کا پھل بھی پیش کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنے والد کے پاس جا کر اُن کی مرضی پوچھتے ہیں اور اس کے مطابق پھل پیش کرتے ہیں تو اس پھل کا انتخاب کس نے کیا؟ کیا یہ انتخاب آپ کا ہے جس نے پھل پیش کیا ؟ یا اُس کا ہے جس نے آپ کو اپنی پسند کے متعلق آگاہ کیا؟

بالکل یہی معاملہ خلافت کے انتخاب کا ہے۔ خلیفہ کے انتخاب کا تمام تر انحصار اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ مومنین جو انتخاب کے عمل میں شریک ہوتے ہیں وہ تو اللہ کی منشا کے مطابق کام کر رہے ہوتے ہیں۔

عظیم سعادت …اور عظیم خوف

یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا فائدے سے خالی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو انتخاب خلیفہ کے عمل میں شریک کر کے انہیں بہت بڑا شرف بخشا ہے۔ نبی کے انتخاب کے وقت تو مومنوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ خود نبی کو بلا واسطہ منتخب کر لیتا ہے۔ لیکن بعد اس کے کہ نبی اپنا فرض منصبی ادا کر چکتا ہے اور مومنین کی ایک جماعت تیار کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ انتخاب خلیفہ کے اس بابرکت عمل میں مومنوں کو بھی شریک کر لیتا ہے تا کہ وہ بھی اس انتخاب میں شامل ہو کر برکتیں اور فیوض حاصل کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو شریک کیے بغیر بھی خلیفہ منتخب کر سکتا ہے لیکن یہ محض اللہ تعالیٰ کی مومنوں کی جماعت سے محبت ہے کہ اُن کو بھی اس میں شریک کر کے شرف بخشتا ہے اور انہیں برکات عطا فرماتا ہے۔ پس اُن کی زبانوں سے …اور اُن کے ہاتھ کھڑا کر نے سے …اللہ تعالیٰ کا ارادہ ظہور پذیر ہوتا ہے اور خلیفہ کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔

یقیناً یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس کے ساتھ ایک خوف اور انذار کا پہلو بھی شامل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر مومنوں کی جماعت کا معیارِ تقویٰ گر گیا یا انہوں نے خلیفہ کی کامل اطاعت نہ کی، تو اللہ تعالیٰ اُن سے یہ سعادت واپس لے لے گا۔ اور وہ انتخاب کے عمل میں اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ نہیں پائیں گے تا کہ مناسب شخص کو بطور خلیفہ منتخب کر سکیں۔

چھٹا سوال : کیا خلیفہ کوئی غلطی کر سکتاہے ؟ خلیفہ سےکس قسم کی غلطی ہونا ممکن ہے ؟

خلافت کے موضوع میں یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے کہ خلیفہ سے کس قسم کی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ یا خلیفہ بھی انبیاء کی طرح غلطیوں سے پاک ہوتا ہے۔ غلطیوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی (1)دنیاوی کاموں کے متعلق غلطیاں (2)جماعت کے مصالح اور امن کے متعلق غلطیاں (3)شرعی امور کے متعلق غلطیاں۔

دنیاوی کاموں کے متعلق غلطیاں

جب نبی اور خلیفہ دونوں کو اللہ تعالیٰ ہی منتخب کرتا ہے تو اگر ان میں سے کسی ایک سے غلطی ہو سکتی ہے تو ممکن ہے کہ دوسرے سے بھی ویسی ہی غلطی سر زد ہو جائے۔ اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی غلطیاں ہیں جو نبی سے سر زد ہو سکتی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نبی کو لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجتاہے۔ اس لیے نہیں بھیجتا کہ دنیوی کاموں میں مہارت حاصل کرے۔ پس اگر دنیوی معاملات میں نبی کوئی غلطی کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ عام انسانوں کی طرح اگر نبی سے بھی دنیوی امور میں غلطی ہو جاتی ہے تو یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ بعض احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ سے زراعت کے بعض معاملات میں غلطی ہوئی مثلاً آپؐ نے صحابہ کو کھجور کی پولینیشن سے منع فرمایا۔ لیکن اس سے آپ کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ضروری نہیں کہ دنیاوی معاملات میں بھی نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پاوے جیسا کہ آنحضورﷺ نے فرمایا :

اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ (مسلم)

دنیاوی معاملات کو تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔

پس اگر نبی سے دنیاوی معاملات میں غلطی سر زد ہو سکتی ہے تو خلیفہ سے بھی دنیاوی معاملات میں غلطی ہو سکتی ہے۔

جماعت کے مصالح اور امن کے متعلق غلطیاں

غزوہٴ بدر میں رسول پاکﷺ مسلمانوں کی لشکر کی قیادت کر رہے تھے۔ چونکہ آپ ہی اس لشکر کے سپہ سالار تھے اس لیے تمام مسلمانوں کی سلامتی اور امن کے متعلق بعض ضروری اقدامات کرنا آپ کے لیے لازمی تھا۔ آپ نے لشکر کے پڑاؤ کرنے کے لیے ایک جگہ کا انتخاب کیا۔ لیکن یہ انتخاب درست نہ تھا۔ لشکر کا ایسی جگہ پڑاؤ کرنا جو پانی سے دور ہو بعید از مصلحت تھا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ لشکر کو کسی ایسی جگہ پڑاؤ کرنا چاہیے جو پانی کے قریب ہو۔ آپؐ کو صحابی کی رائے بہت عمدہ لگی اور لشکر کو پانی کے قریب پڑاؤ کرنے کا حکم دے دیا۔ پس رسول اللہﷺ سے ایک غلطی ہوئی گو صحابی کی رائے سے فوراً اس کی تصحیح ہو گئی۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نبی یا خلیفہ سے جماعت مومنین کی مصلحت کے متعلق بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس غلطی کی فوراً تصحیح ہو جانا لازمی ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ کسی کو بھی غلطی کا پتہ نہ لگے۔ تو اللہ تعالیٰ تمام معاملات کی خود نگرانی فرماتا ہے اور اس غلطی کے ایسے نتائج ظاہر فرماتا ہے جو جماعت کے لیے خیر و برکت کا موجب ہوتے ہیں۔ اور اس غلطی میں ہی اللہ تعالیٰ جماعت کے لیے کوئی عظیم مصلحت مقدّر کر دیتا ہے۔ یہ محض عقیدت کی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جو وضاحت کے ساتھ رسول اللہﷺ کی زندگی میں ظاہر ہوئی۔ ایک دفعہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہو رہے ہیں اور صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ اس خواب کی تکمیل کے لیے میرا جانا لازمی ہے لہٰذا1500صحابہ کی معیت میں آ پ مدینہ سے مکہ مکرمہ کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن قریش نے ان کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ بلکہ چیتوں کی کھالیں پہن کر سامنے آگئے جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے خواہ انہیں جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو بھیجا تا اہل مکہ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ مسلمانوں کو امن کے ساتھ طواف کی اجازت دے دیں۔ لیکن وہ اپنے بغض و عناد پر مُصر رہے بلکہ یہ خبر پھیلا دی کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے تا مسلمانوں کے دلوں میں اپنا رُعب بٹھا سکیں۔ جب رسول کریمؐ نے عثمانؓ کے قتل کی خبر سنی توآپ نے مسلمانوں سے اس بات پر بیعت لی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لیں گے یا مر جائیں گے۔ چنانچہ مسلمانوں نے بیعت کی۔ اور وہ سب اس یقین پر تھے کہ اللہ نے اپنے رسول کو جو روٴیا دکھائی ہے وہ ضرور پوری ہو گی اور مسلمان سر منڈواتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوں گے۔ حالات ایسی تیزی سے بدلے کہ مسلمانوں اور اہل مکہ میں سخت جنگ کا اندیشہ پیدا ہو گیا …اور محض روٴیا کی تعبیر نہ سمجھنے کی وجہ سے ممکن تھا کہ دونوں طرف سینکڑوں خون ہو جاتے۔ کسی کو بھی اس غلطی کی طرف توجہ نہ ہوئی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت عثمانؓ صحیح سلامت واپس آگئے۔ اور مکہ والوں نے صلح کی پیش کش کی مگر اس بات پر کہ اس سال کوئی مسلمان مسجد حرام میں داخل نہیں ہو گا۔ لیکن مسلمانوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور وہ واپس جانے پر راضی نہ تھے اس لیے وہ رسول اللہؐ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ اللہ نے تو ہم سے مسجد حرام میں داخل ہونے کا وعدہ کیا ہے۔ رسول اللہؐ نے اللہ کے وعدے کا اقرار فرمایا لیکن اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اللہ نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ضرور اِسی سال یہ وعدہ پورا ہو گا۔ پس یقیناً رسول اللہﷺ کو خواب کی تعبیر سمجھنے میں غلطی لگی۔ اس غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک لمبے سفر کی مشقت اٹھانا پڑی اور پھر مسجد حرام میں داخل ہوئے بغیر واپس آنا پڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی غلطی کو مسلمانوں کے لیے خیرو برکت کا موجب بنا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ کا قیام عمل میں آیا۔ جسے بعد میں آنے والے دنوں نے ثابت کر دیا کہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک عظیم مصلحت پنہاں تھی۔

اس واقعے سے ہمیں کامل اطاعت کا سبق ملتا ہے۔ یقیناً مسلمان آگ کے گڑھے پر تھے جب انہوں نے رسول اللہؐ کا حکم ماننے میں تردّد کیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ رسول کریمﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں جو تم ساتھ لائے ہو یہیں ذبح کر دو اور احرام کھول دو۔ لیکن کسی بھی صحابی نے اس پر عمل نہ کیا۔ یہاں تک کہ آپ اپنی زوجہ ام سلمہؓ کے پاس گئے اور فرمایا کہ

’’ھَلَکَ الْقَوْمُ‘‘

یعنی قوم ہلاک ہو گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس ہلاکت سے بچا لیا۔ اور ام سلمہؓ نے رسول اللہ کو نصیحت کی کہ وہ اپنی قربانی ذبح کریں اور احرام کھول دیں۔ پس جب آپ نے ایسا کیا تو تمام مسلمان آپ کی اطاعت کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے لگے قربانیاں کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے اور احرام کھولنے لگ گئے۔ اگر اس وقت مسلمان اطاعت کرنے میں ذرا سی بھی اور دیر کرتے تو اس کے بہت خطرناک نتائج پیدا ہو سکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور تمام امور کو اس طرح چلا دیا کہ آخر کار مسلمانوں کے حق میں بہتر نتائج پیدا ہوئے۔

شرعی امور کے متعلق غلطیاں

یعنی ایسی غلطیاں جن کا تعلق شرعی امور کی خلاف ورزی سے ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پانچ فرض نمازیں ہیں۔ فجر کی دورکعات اور ظہر کی چار رکعات …وغیرہ۔ اور یہی ہمیں رسول کریمﷺ نے شریعت کے مطابق سکھایا ہے۔ لیکن ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے، آپ نے دو رکعات پڑھانے کے بعد سلام پھیر دیا۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا نماز چھوٹی کر دی گئی ہے ؟ پس جب رسول اللہﷺ کو علم ہوا کہ آپ سے غلطی ہو گئی ہے آپ کھڑے ہوئے اور مزید دو رکعات ادا کروائیں۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ شریعت کے احکام میں بھی اس قسم کی غلطی نبی یا خلیفہ سے سر زد ہو سکتی ہے۔ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ انسان سے بھول چوک ہو ہی جاتی ہے۔ اور نبی اور خلیفہ بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی غلطیوں کی فوراً تصحیح ہو جانا لازمی ہے۔ جیسے امام الصلوٰة اگر نماز کے دوران قراء ت میں غلطی کرے تو اسے لقمہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس قسم کی غلطی کی بھی فوراً تصحیح ہو جانی چاہیے۔

لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ہے کہ نبی یا خلیفہ شرعی امور میں ارادةً اور بد نیتی سے کوئی غلطی کرے۔

عصمت (یعنی گناہ سے پاک ہونا)کے معنی

اکثر ہم یہ سنتے ہیں کہ نبی معصوم ہوتا ہے۔ یعنی گناہوں اور معاصی کے ارتکاب سے پاک ہوتا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ نبی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں فنا ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کو محسوس کرتا ہے۔ اللہ کے وجود کا مسلسل احساس اُس کی حفاظت کرتا ہے اور اُسے گناہوں کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ اسے عصمت الٰہیہ کہتے ہیں۔ پس نبی اللہ کے احکام کی نافرمانی کا ارادہ کیسے کر سکتا ہے ؟ ایساہونا یقیناً محال ہے۔

اسی طرح خلیفہ ایک ایسا وجود ہے جسے اللہ نے جماعت مومنین کی نگرانی کے لیے چُنا ہے اور وہ ایک ایسا شخص ہے جسے اللہ نے متقیوں کا امام بنایا ہے اور وہ زمین کے تمام لوگوں سے تقویٰ اور راست بازی میں بڑھ کر ہے اور مسلمانوں کی جماعت کو تقویٰ اور راست بازی کے اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچانا اس کی ذمہ داری ہے پس ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کا ارادہ کیسے کر سکتا ہے ؟ ایسا ہر گزنہیں ہو سکتا۔

جب اللہ تعالیٰ ایک شخص کو اس لیے چُنتا ہے کہ جماعت کی روحانیت کی حفاظت کرے، تویہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ اُس سے علیحدہ ہو جائے اور اپنی عصمت سے اُس کو محروم کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے سچے مومنوں کو وعدہ دیا ہے کہ وہ شیطانِ لعین سے محفوظ رہیں گے۔ جیسا کہ فرمایا:

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ (الحجر:43)

یقینا ً(جو) میرے بندے (ہیں ) ان پر تجھ کو غلبہ نصیب نہ ہو گا۔

اگر متقی بندوں پر شیطان کو کوئی غلبہ نہیں ہے تو متقیوں کے امام پر اُسے کیسے غلبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ایسا قطعاً نہیں ہو سکتا۔ اس لحاظ سے نبی اور خلیفہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر وہ خطا جو نبی سے سر زد ہو سکتی ہے وہ خلیفہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ جب ہم یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں گے تب ہی ہمیں خلافت کی عظمت اور شان کا صحیح معنوں میں ادراک حاصل ہو گا۔ خلافت نبوت کے جاری فیض کے سوا اور کچھ نہیں۔ احمدی مسلمان کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے انہیں یہ نعمت عطا فرمائی ہے۔ وہ خوشی، وہ تازگی، وہ شرح صدر، وہ رضا اور وہ اطمینان جو انتخاب خلافت کے بعد ان کو حاصل ہوتا ہے اس کا مقابلہ کوئی اور خوشی نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔

آخری سوال

بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر خلیفہ گناہوں سے پاک ہے اور اس بات سے بھی کہ شرعی احکام کی عمداً مخالفت کرے۔ تو پھر عہد میں ہم یہ کیوں دہراتے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی ’’معروف‘‘فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنا ضروری سمجھوں گا۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ خلیفہ غیر معروف حکم بھی دے سکتا ہے …یعنی ایسا حکم جو شریعت کے مخالف ہو؟ اور کیا ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ اس معروف حکم کی اطاعت کرنی ہے اور یہ غیر معروف ہے اس کی اطاعت نہیں کرنی ؟

یہ فقرہ

’’یُطِیْعُنِیْ فِیْ کُلِّ مَا اٰمُرُہٗ بہٖ مِنْ مَعْرُوْفٍ‘‘

جس کا ترجمہ ہے ’’میرے ہر معروف حکم کی اطاعت کرے گا ‘‘آنحضرتﷺ نے پہلی بیعت کے وقت استعمال فرمایا جس میں مدینہ کے ستر آدمی اور دو عورتیں شامل تھیں۔

قرآن کریم بھی معروف بات میں اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ آیت استخلاف سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ (النور:54)

مراد یہ ہے کہ معروف بات میں اطاعت کرنی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

يَـٰٓأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَآءَكَ الۡمُؤۡمِنَٰتُ يُبَايِعۡنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشۡرِكۡنَ بِاللَّهِ شَيۡـٔٗا وَلَا يَسۡرِقۡنَ وَلَا يَزۡنِينَ وَلَا يَقۡتُلۡنَ أَوۡلَٰدَهُنَّ وَلَا يَأۡتِينَ بِبُهۡتَٰنٖ يَفۡتَرِينَهُۥ بَيۡنَ أَيۡدِيهِنَّ وَأَرۡجُلِهِنَّ وَلَا يَعۡصِينَكَ فِي مَعۡرُوفٖ فَبَايِعۡهُنَّ… (الممتحنة:13)

اے نبی! جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں (اور) اس (امر) پر تیری بیعت کریں کہ وہ کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی (کسی پر) کوئی جھوٹا الزام لگائیں گی جسے وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے سامنے گھڑ لیں اور نہ ہی معروف (امور) میں تیری نافرمانی کریں گی تو تُو اُن کی بیعت قبول کر۔

لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوفٍ(معروف (امور) میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی )کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ جب تو معروف حکم دے گا تو نافرمانی نہیں کریں گی اور اگر غیر معروف حکم دیا تو پھر اُن پر تیری اطاعت فرض نہیں رہے گی اور اُن کو حق حاصل ہو جائے گا کہ تیری نافرمانی کریں۔

اللہ، رسول اور خلیفہ کی معروف حکم میں اطاعت کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یا رسول یا خلیفہ غیر معروف حکم بھی دے سکتے ہیں۔ ہر گز نہیں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ اور رسول اور خلیفہ کوئی غیر معروف حکم دیں۔ پس جب بھی اللہ یا رسول یا خلیفہ کی طرف سے کوئی حکم صادر ہو تو ہمیں یقین ہو کہ لازماً یہ معروف حکم ہے اور معروف سمجھ کر ہی اس کی اطاعت کریں۔ پس جب مومن اللہ کے حکم یا رسول کی تعلیم یا خلیفہ کے فرمان کی اطاعت کرتا ہے تو وہ مطمئن ہوتا ہے کہ وہ معروف بات میں اطاعت کر رہا ہے۔

یہ بات خلافت کے مقام کو اور بھی بڑھا دیتی ہے۔ پس یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ ہر حکم جو خلیفہ سے صادر ہوتا ہے وہ معروف ہوتا ہے۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافت کو ’’قدرت ثانیہ‘‘کا نام دیا ہے۔ پہلی قدرت، انتخاب نبی ہے اور دوسری قدرت، انتخاب خلیفہ۔ ایک بلاواسطہ خلافت ربّانی ہے اور دوسری بالواسطہ خلافت ربّانی ہے۔ ان دونوں میں محض اتنا فرق ہے کہ ایک کو اللہ تعالیٰ رحمانیت کے تحت منتخب کرتا ہے اور دوسری کو رحیمیت کے تحت۔

ہم میں سے اکثر نے ایسے علاقے دیکھے ہوں گے جہاں خود بخود درخت اُگے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر جہاں انسان جا کر لگا ہی نہیں سکتا۔ مثلاً اُونچے اُونچے پہاڑوں پر اور چٹانوں کے درمیان اور ایسے جزیروں پر جس کے چاروں طرف پانی ہو بڑے بڑے درخت اُگے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ درخت کس نے لگائے ہیں ؟ یقیناً اللہ تعالیٰ نے۔ اور بعض ایسے درخت ہیں جو انسان نے اپنے ہاتھ سے لگائے ہیں اور یہ درخت اُنہی درختوں کی مانند ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود لگائے ہیں۔ دونوں درختوں میں فرق محض اتنا ہے کہ ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ خود اُگاتا ہے اور دوسروں کو انسان کے ذریعہ سے اُگاتا ہے۔ اسی طرح نبی کے انتخاب میں اور خلیفہ کے انتخاب میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ نبی کا انتخاب بلاواسطہ ہوتا ہے اور خلیفہ کا انتخاب انسانوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔

نبی اور خلیفہ کے کاموں میں ایک فرق ہے۔ نبی وہ بنیاد تیار کرتا ہے جس پر عمارت کھڑی ہوتی ہے اور خلیفہ اُسی بنیاد پر عمارت کھڑی کرتا ہے۔ دونوں کا کام ایک عظیم الشان عمارت تیار کرنا ہے۔ نبی اس عمارت کی مضبوط بنیاد رکھتا ہے پھر پہلا خلیفہ آتا ہے اور پہلی منزل تیار کرتا ہے پھر دوسرا خلیفہ آکر دوسری منزل تیار کرتا ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک عظیم الشان عمارت تیار ہو جاتی ہے۔ اور یہ عمارت اس مبارک درخت کی مانند ہوتی ہے:

اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ۔ تُوٴْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا۔

جس کی جڑ مضبوط ہو اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہوں۔ اوریہ درخت اپنے رب کے اذن سے ہر وقت پھل دیتا ہو۔

ایک عظیم شخصیت

ایک مرتبہ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک سوال پوچھا گیا …آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ اور تقویٰ اور روحانیت میں نمونہ تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کی طویل تاریخ میں دنیا کے اعلیٰ مناصب حاصل کیے۔ محض تیس سال سے کچھ زائد عمر میں وزیر کے منصب پر فائز ہوئے، حکومت پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ مقرر ہوئے۔ عالمی عدالت انصاف میں قاضی مقرر ہوئے اور پھر قاضی القضاة(چیف جسٹس) کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ کی ساری تاریخ کا میابیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ایک کامیابی کے بعد دوسری کامیابی آپ کے لیے مقدر ہوتی چلی گئی…سوال جو آپ سے پوچھاگیا وہ یہ تھا کہ’’آپ کی ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابیاں عطا فرمائیں۔ ان کامیابیوں کا کیا راز ہے ؟‘‘بغیر کسی تردّد اور توقّف کے آپؓ نے فرمایا: ’’کیونکہ میں ساری زندگی خلافت کا فرمانبردار رہا ہوں۔ ‘‘

کیا ہی عظیم جواب ہے ! اور کیا ہی عظیم شخص ہے !

خلافت ربّانی اللہ تعالیٰ کی ایک رسی ہے، اگر تمام افراد جماعت اس کو مضبوطی سے تھام لیں تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اُن کا حامی و ناصر ہو گا اور ان کا دفاع کرنے والا ہو گا۔ یقینا ًافراد جماعت کی نجات اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لینے میں ہے۔ اور اُن کی تمام تر ترقیات اور کامیابیوں کا انحصار اس رسی سے چمٹ جانے میں ہے جسے اللہ نے ان کے لیے لٹکایا ہوا ہے۔ اور اس رسی سے چمٹ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اُن پر اپنی نعمتیں اور برکتیں نازل فرماتا چلا جائے گا۔ اور اُن کے لیے اُن کے دین کو جسے اُس نے اُن کے لیے پسند کیا ہے ضرورتمکنت عطا کرے گا اور اُن کے خوف کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں برکاتِ خلافت سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں خلافت کے مقام اور عظمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس بات کی بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کو مضبوطی سے تھام لیں اور ہمیشہ ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اور اس کے خلیفہ کی اخلاص کے ساتھ اطاعت کرنے والے ہوں۔ آمین ثم آمین۔

و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button