قرآن کریممتفرق مضامین

قرآن کریم اور ترقی علوم و فنون

(ابن فضل الرحمٰن)

یاالہٰی! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے

جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اسماعیل (علیہ السلام )کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان نبی مبعوث فرمایا جس کی امت کو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِکہا کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو کیونکہ وہ لوگ جن کو شریعت قصے کے رنگ میں ملی تھی وہ دماغی علوم کی کتاب و شریعت کے ماننے والوں کے کب برابر ہو سکتے ہیں؟ پہلے صرف قصص پر راضی ہو گئے اور ان کے دماغ اس قابل نہ تھے کہ حقائق و معارف کو سمجھ سکتے مگر اس امت کے دماغ اعلیٰ درجہ کے تھے اسی لئے شریعت اور کتاب علوم کا خزانہ ہےجو علوم قرآن مجید لے کر آیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں پائے نہیں جاتے اور جیسے شریعت کے نزول کے وقت وہ اعلیٰ درجہ کے حقائق و معارف سے لبریز تھی ویسے ہی ضروری تھی ترقی علوم و فنون سب اسی زمانہ میں ہوتا بلکہ کمال انسانیت بھی اسی میں پورا ہوا۔ ‘‘

(الحکم 24؍جنوری 1903ء بحوالہ تفسیر مسیح موعود جلد 3 صفحہ 194)

تخلیق کائنات، تسخیر کائنات اور کائنات کی صف لپیٹ دینے کا قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ذکر ملتا ہے اس سلسلے میں سائنسدانوں نے ریسرچ کر کے جتنی بھی تھیوریز بنائی ہیں وہ سب قرآن سے ثابت ہوتی ہیں۔

وہ دَور جو تاریخ میں اسلامک گولڈن پیریڈ(Islamic Golden Period)کہلاتا ہے اس میں مسلمان ان امور پر ریسرچ کرتے رہے اور ان کی ریسرچ کا ماخذ قرآن کریم تھا جس کے اہل یورپ بھی قائل ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جان ڈیون پورٹ کے حوالے سے اپنی تصنیف ’’شحنہ ٔحق‘‘ میں تحریر فرمایا ہے:

’’…انگریزوں کا اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ انگلستان میں علوم و فنون کا پودہ عرب کے عالیشان مدارس سے آیا ہے اور دسویں صدی میں جب کہ یورپ جہالت میں پڑا ہواتھا۔ اہل یورپ کو تاریکی سے جہالت سے علم و عقل کی روشنی میں لانے والےمسلمان ہی تھے۔ ‘‘

(شحنۂ حق، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 362)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کی تحریروں سےاستفادہ کرتے ہوئے چند معروضات پیش ہیں۔

وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ۔

تخلیق کائنات

سورۃ المؤمن آیت 58میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ۔

یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے بہت بڑھ کر ہے۔ لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ترجمہ قرآن کے حاشیہ صفحہ 1126پر درج ہے:

’’خدا تعالیٰ نے آسمان کی تخلیق فرمائی جو حیرت انگیز اور عظیم قدرتوں پر مبنی ہے اس کے مقابل پر انسان کی تخلیق کی کوئی بھی حیثیت نہیں …‘‘

آج کل سائنسدان کائنات کی تخلیق کے لیےبگ بینگ تھیوری پیش کرتے ہیں اس کا ماخذ سورۃ الانبیاء کی آیت 31 ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے جن کے جوہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونوں کے جوہر ظاہر کر دیئے‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ17)

رَتَقَ: close up mass۔ساری کائنات مضبوطی سے بند کیے ہوئے ایک گیند کی شکل میں تھی جس میں سے کوئی چیز باہر نہیں نکل سکتی تھی۔

فَتَقَ: پھاڑا explosion۔پھر ہم نے اس کو پھاڑا اور اچانک کائنات اس میں سے پھوٹ پڑی۔

(ماخوذ از تعارف سورۃ الانبیاء از ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ541)

کم و بیش یہی definitionبگ بینگ تھیوری کی ہے۔

مشہور سائنس دان موریس بکائے نے اپنی کتاب ’’بائبل قرآن اور سائنس‘‘میں اس کا اعتراف کیا ہے۔

تسخیر کائنات

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔

(آل عمران: 191تا192)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف میں دانشمندوں کے لئے صانع عالم کی ہستی اور قدرت پر کئی نشان ہیں۔ دانشمند وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو خدا کو بیٹھے، کھڑے اور پہلو پر پڑے ہونے کی حالت میں یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین اور آسمان اور دوسری مخلوقات کی پیدائش میں تفکر اور تدبر کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل اور زبان پر یہ مناجات جاری رہتی ہے کہ اے ہمارے خدا وند تو نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کو عبث اور بیہودہ طور پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ ہر یک چیز تیری مخلوقات میں سے عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہےکہ جو تیری ذات با برکات پر دلالت کرتی ہے۔ ‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 305تا306حاشیہ نمبر 11)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:

’’ہر سائنسی انکشاف (scientific discovery) سے پتہ لگتا ہے کہ کتنا عظیم اعلان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا تھا:

وَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مِّنۡہُ(الجاثیہ:14)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍اپریل 1977ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد7صفحہ69)

دو امریکی ہوا باز نیل آرم سٹرانگ اور بز ایلڈرن سپیس فلائٹ اپالو11کے ذریعے 20؍جولائی 1969ء کو چاند پر اترے اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’سال رواں 21؍جولائی (1969ء۔ ناقل) کو زمین سے باہر نکل کر انسان کا پہلا قدم چاند پر پڑا اس میں شک نہیں کہ تسخیر عالَم کی عظیم جد و جہد میں انسان کا یہ بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ستمبر1969ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد2صفحہ826)

سورۃ الرحمٰن کی آیت

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡاؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ

کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس سورت کے تعارفی نوٹ میں فرماتے ہیں:

’’…کون سوچ سکتا تھا کہ بڑے لوگ بھی اور چھوٹے لوگ بھی

اَقۡطَارُالسَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ

کو پھلانگنے کی کوشش کریں گے۔ اس کوشش کا آغاز انسان کے چاند تک پہنچنے سے ہو چکا ہے اور اس سے بلند تر سیاروں تک پہنچنے کی کوشش جاری ہے۔ ‘‘

(تعارف سورۃ الرحمٰن از ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ974)

کائنات کا عدم میں ڈوبنا اور نئی کائنات کا پیدا ہونا

سورۃ الانبیاء آیت 105میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ۔

حضرت مسیح موعودؑ اس آیت کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’ ہم اس دن آسمانوں کو ایسا لپیٹ لیں گے جیسے ایک خط متفرق مضامین کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے۔ اور جس طرز سے ہم نے اس عالم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی انہیں قدموں پر پھر یہ عالم عدم کی طرف لوٹایا جائے گا…‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 152تا153حاشیہ درحاشیہ)

اس آیت کے اگلے حصے کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

’’…یہ ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ اسی کائنات سے جو ایک دفعہ ڈوب جائے گی، نئی کائنات پیدا کی جائےگی۔ ‘‘

(تعارف سورۃ الانبیاءاز ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ542)

چنانچہ اسی حقیقت کو سائنسدان Big BounceTheoryکے نام سے منسوب کرتے ہیں۔

سورۃ الزمر آیت 68میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

السَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ

’’دنیا کے فنا کرنے کے وقت خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ152حاشیہ در حاشیہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

’’… دائیں ہاتھ سے مراد یدِ قدرت ہے… اور لپیٹے جانے کا جو ذکر ملتا ہے یہ فی زمانہ سائنسی نظریات سے قطعی طور پر صحیح ثابت ہوتا ہے۔ یعنی زمین و آسمان اس طرح ایک فنا کے بلیک ہول (Black Hole) میں داخل کر دئیے جائیں گے جیسے وہ لپیٹےجا چکے ہوں۔ ‘‘

(ترجمۃ القرآن تشریحی نوٹ صفحہ826)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button