کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

زندہ خدا …اپنی ہستی کو تازہ بتازہ معجزات اور طاقتوں سے ثابت کرتا رہتا ہے

ہزار ہزار شکر اُس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدادانی اور خدا ترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانہ میں نہیںپائی گئی۔ اور ہزارہادروداُس نبیٔ معصوم پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے۔ اور ہزارہا رحمتیں نبی ٔکریم کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اِس باغ کی آب پاشی کی۔

اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگرکوئی شخص سچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کاربند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا۔ وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے اس کی شناخت کے لیے بجز قرآنی تعلیم کے اور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور اس میں ایک برکت اور قوتِ جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دمبدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اوراطمینان بخشتی ہے اورقرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہیے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لاشَے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔

انسانی فطرت ایک ایسے درخت کی طرح واقع ہے جس کے ایک حصہ کی شاخیں نجاست اور پیشاب کے گڑھے میں غرق ہیں اور دوسرے حصہ کی شاخیں ایک ایسے حوض میں پڑتی ہیں جو کیوڑہ اور گلاب اور دوسری لطیف خوشبوئوں سے پُر ہے اور ہر ایک حصے کی طرف سے جب کوئی ہوا چلتی ہے تو بدبو یاخوشبو کو جیسی کہ صورت ہو پھیلا دیتی ہے۔ اِسی طرح نفسانی جذبات کی ہوا بدبو ظاہر کرتی ہے اور رحمانی نفحات کی ہوا پوشیدہ خوشبو کو پیرایہ ظہور و بروز پہناتی ہے۔ پس اگر رحمانی ہوا کے چلنے میں جو آسمان سے اُترتی ہے روک ہو جائے تو انسان نفسانی جذبات کی تندو تیز ہوائوں کے ہرطرف سے طمانچے کھاکر اور اُن کی بدبوؤں کے نیچے دب کر ایسا خدائے تعالیٰ سے منہ پھیر لیتاہے کہ شیطان مجسم بن جاتا ہے اور اسفل السافلین میں گرایا جاتا ہے اور کوئی نیکی اُس کے اندر نہیں رہتی اور کفر اور معصیت اور فسق و فجور اور تمام رذائل کے زہروں سے آخر ہلاک ہو جاتا ہے اور زندگی اُس کی جہنمی ہوتی ہے اور آخر مرنے کے بعد جہنم میں گرتا ہے اور اگر خدائے تعالیٰ کا فضل دستگیر ہو اور نفحاتِ الٰہیہ اُس کے صاف اور معطّر کرنے کے لیے آسمان سے چلیں اور اُس کی روح کو اپنی خاص تربیت سے دمبدم نورانیت اور تازگی اور پاک طاقت بخشیں تو وہ طاقت بالا سے قوت پاکر اس قدر اوپر کی طرف کھینچا جاتا ہے کہ فرشتوں کے مقام سے بھی اوپر گذر جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ انسان میں نیچے گرنے کا بھی مادہ ہے اور اوپر اُٹھائے جانے کا بھی ۔ اور کسی نے اس بارے میں سچ کہا ہے۔

حضرتِ انساں کہ حدِ مشترک راجا مع است

می تواند شد مسیحا مے تواند خر شدن

لیکن اس جگہ مشکل یہ ہے کہ نیچے جانا انسان کے لیے سہل امر ہے گویا ایک طبعی امر ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو ایک پتھر اوپر کو بہت مشکل سے جاتا ہے اور کسی دوسرے کے زور کامحتاج ہے لیکن نیچے کی طرف خود بخود گر جاتا ہے اور کسی کے زور کا محتاج نہیں۔ پس انسان اوپر جانے کے لیے ایک زور آو ر ہاتھ کا محتاج ہے۔ اِسی حاجت نے سلسلہ انبیاء اور کلام الٰہی کی ضرورت ثابت کی ہے۔ اگرچہ دنیا کے لوگ سچے مذہب کے پرکھنے کے معاملہ میں ہزارہا پیچ در پیچ مباحثات میں پڑ گئے ہیں اور پھر بھی کسی منزل مقصود تک نہیں پہنچے لیکن سچ بات یہ ہے کہ جومذہب انسانی نابینائی کے دُور کرنے اور آسمانی برکات کے عطا کرنے کے لیے اس حد تک کامیاب ہوسکے جو اس کے پیروکی عملی زندگی میں خدا کی ہستی کا اقرار اورنوع انسان کی ہمدردی کا ثبوت نمایاں ہو وہی مذہب سچا ہے اور وہی ہے جو اپنے سچے پابند کو اس منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے جس کی اُس کی روح کو پیاس لگادی گئی ہے۔ اکثر لوگ صرف ایسے فرضی خدا پر ایمان لاتے ہیں جس کی قدرتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور جس کی شکتی اور طاقت صرف قصوں اور کہانیوں کے پیرایہ میں بیان کی جاتی ہے۔ پس یہی سبب ہوتا ہے کہ ایسا فرضی خدا اُن کو گناہ سے روک نہیں سکتا بلکہ ایسے مذہب کی پیروی میں جیسے جیسے اُن کا تعصّب بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے فسق و فجور پر شوخی اور دلیری زیادہ پیدا ہوتی جاتی ہے اور نفسانی جذبات ایسی تیزی میں آتے ہیں کہ جیسے ایک دریا کا بند ٹوٹ کر ارد گرد پانی اُس کا پھیل جاتاہے اور کئی گھروں اور کھیتوں کو تباہ کر دیتاہے۔ وہ زندہ خدا جو قادرانہ نشانوں کے شعاع اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اپنی ہستی کو تازہ بتازہ معجزات اور طاقتوں سے ثابت کرتا رہتا ہے وہی ہے جس کاپانا اور دریافت کرنا گناہ سے روکتا ہے اور سچی سکینت اور شانتی اور تسلی بخشتا ہے اور استقامت اور دلی بہادری کو عطا فرماتا ہے۔ وہ آگ بن کر گناہوں کو جلا دیتا ہے اور پانی بن کر دنیا پرستی کی خواہشوں کو دھو ڈالتا ہے مذہب اسی کا نام ہے جو اُس کو تلاش کریں اور تلاش میں دیوانہ بن جائیں۔

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 25تا28)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button