حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (قسط ششم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(نوٹ:گذشتہ قسط کے لیے ملاحظہ فرمائیں شمارہ 12؍ مارچ)

چہارم۔ یہ اعتراض تھا کہ قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلق

اَلَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ

آیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں پر ویسا ہی عذاب نازل کرے گا۔ جیسا ان لوگوں پر کیا جو قرآن کے بعض حصوں پر عمل کرتے ہیں اور بعض پر نہیں کرتے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں کافروں اور منافقوں کا ذکر ہے۔ اور اگر یہی معنے کئے جائیں کہ قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے تو یہ بھی ہمارے لئے مفید ہے۔ کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اس وقت جمع تھا۔ اس لئے دشمن اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے۔ مسلمانوں کے پاس قرآن محفوظ تھا مگر منافق اس کے ٹکڑے ٹکڑے رکھتے تھے۔

پنجم۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اَن پڑھ تھے۔ اس لئے کاتب جو چاہتے لکھ دیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے ہی اس کا انتظام کر لیا تھا۔ اور وہ یہ کہ جب وحی نازل ہوتی تو کاتب کو کہتے لکھ لو اور چار آدمیوں کو کہتے یاد کر لو۔ اس طرح لکھنے والے کی غلطی یاد کرنے والے درست کرا سکتے تھے۔ اور یاد کرنے والوں کی غلطی لکھنے والا بتا سکتا تھا۔ فرض کرو لکھنے والے نے لفظ غلط لکھ لیا مگر یاد کرنے والے اس غلطی کے ساتھ کیونکر متفق ہو سکتے تھے،اس طرح فوراً غلطی پکڑی جا سکتی تھی۔

ششم۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کے پڑھنے میں بہت اختلاف ہو گیا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحیح روایت سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کے متعلق اختلاف ہو گیا تھا۔ بلکہ صاف لکھا ہے کہ قراءت میں اختلاف تھا۔ اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ سات قراءتوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھا۔ چونکہ بعض قوموں کے لئے بعض الفاظ کا ادا کرنا مشکل تھا۔ اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلایا جاتا کہ ان الفاظ کو اس طرح بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اس بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے بیان کیا کہ حضرت عثمانؓ نے انہیں بلا کر کہا کہ مختلف قبائل کے لوگ کہتے ہیں کہ ہماری قراءت صحیح ہے اور اس پر جھگڑا پیدا ہو رہا ہے۔ اس لئے اس کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ حضرت علیؓ نے کہا آپ ہی فیصلہ کر دیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ مسلمان ہو کر اب سب ایک ہو گئے ہیں اس لئے ایک ہی قراءت ہونی چاہئے اور وہ قریش والی قراءت ہے۔

ہفتم۔ اگر قراءتوں میں اختلاف نہ تھا تو حضرت ابوبکرؓ کے وقت کے قرآن جلائے کیوں گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی صریح طور پر غلط ہے۔ وہاں تو یہ لکھا ہے کہ حضرت حفصہؓ کے پاس حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانہ کا قرآن تھا۔ وہ ان سے منگوایا گیا اور کہا گیا کہ نقل کرنے کے بعد واپس کر دیں۔ چنانچہ واپس کر دیا گیا۔ اور جلائے مختلف قراءتوں والے قرآن گئے تھے تا کہ قراءتوں کا اختلاف نہ رہے۔

ہشتم۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ قرآن کی اصلیت پر صرف زیدؓ کی گواہی ہے، یہ بھی غلط ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کے ساتھ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو رکھا اور مسجد کے دروازہ پر بٹھا دیا۔ اور حکم دیا کہ کوئی تحریر ان کے پاس ایسی نہ لائی جائے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی نہ ہو اور جس کے ساتھ دو گواہ نہ ہوں جو یہ کہیں کہ ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھوائی تھی۔

نہم۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اختلاف نہیں تھا تو حضرت عثمانؓ کے وقت دوبارہ تحقیق کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قراءتوں کی تحقیق کرائی گئی تھی عبارتوں اور سورتوں کی تحقیق نہیں کروائی گئی۔

دہم۔ اس طرح یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر اختلاف نہ تھا تو ایک کے سوا باقی کاپیاں کیوں جلائی گئیں۔ اس کا بھی وہی جواب ہے کہ مختلف قراءتوں والی کاپیاں جلائی گئی تھیں۔ پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے خلیفہ ہونے کے وقت بہت قرآن تھے مگر ان کے بعد ایک رہ گیا۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ انہوں نے مختلف قراءتوں کو اڑا دیا اور پھر جن قوموں کی قراءتوں کو مٹایا گیا انہوں نے یہ اعتراض کیا۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ قرآن وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

محکمات اور متشابہات

اب میں متشابہات کے متعلق مختصر طور پر کچھ بیان کر دیتا ہوں۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں محکمات بھی ہیں اور متشابہات بھی، پھر قرآن کا کیا اعتبار رہا۔

اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے متشابہات پر غور ہی نہیں کیا گیا۔ سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ (آل عمران:8)

کہ وہ خدا ہی ہے جس نے اس قرآن کو اپنے رسول پر اتارا۔ اس میں کچھ تو محکمات ہیں جو ام الکتاب ہیں اور کچھ متشابہات ہیں۔

اس کے متعلق لوگ کہتے ہیں۔ ہمیں کیا معلوم کہ کونسی آیت محکم ہے اور کونسی متشابہ۔ اس کے مقابلہ میں سورۃ ہود میں آتا ہے۔

کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ(ھود:2)

کہ یہ کتاب وہ ہے جس کی ساری آیات محکمات ہیں۔ اس سے بظاہر اوپر کی بات غلط ہو گئی کہ قرآن کی بعض آیات متشابہ ہیں اور بعض محکم۔ تیسری جگہ آتا ہے۔

اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ (الزمر : 2)

یعنی خدا ہی ہے جس نے بہتر سے بہتر بات یعنی وہ کتاب نازل فرمائی ہے جو متشابہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی ساری آیتیں ہی متشابہ ہیں۔ حالانکہ پہلے ساری آیات کو محکم قرار دیا گیا تھا۔

اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ محکم اور متشابہ کا مطلب اور تھا جو سمجھا نہیں گیا۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ متشابہ کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جس سے شکوک پیدا ہوں۔ حالانکہ قرآن متشابہ کی یہ تفسیر کرتا ہے۔

تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ (الزمر : 2)

کہاس کے مضامین نہایت اعلیٰ ہیں اور جو لوگ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کے جسم کا روآں روآں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں۔ یعنی ان کے قلوب میں خدا تعالیٰ کی محبت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اب بتائو۔ کیا کسی شکی بات سے اس طرح ہو سکتا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ متشابہ کا اور مطلب ہے اور وہ یہ کہ متشابہ کے معنی ہیں جو دوسری سے ملتی ہو۔ یعنی متشابہ وہ تعلیم ہے جو پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی ہو۔ مثلاً روزہ رکھنا ہے۔ یہ حکم اپنی ذات میں متشابہ ہے کیونکہ یہ تعلیم پہلے بھی پائی جاتی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ (البقرہ:184)

پس مجرد روزہ رکھنے کا حکم متشابہ ہے۔ اسی طرح قربانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا(الحج:35)

یعنی ہر قوم کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریق مقرر کیا ہے۔ پس قربانی کا حکم بھی متشابہ ہے۔ دراصل قرآن نے اس میں ان لوگوں کو جواب دیا ہے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ قرآن نے دوسری کتابوں سے چوری کر کے سب کچھ پیش کر دیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ

کہ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کچھ تعلیمیں تو جدید ہیں اور کچھ تعلیمیں ایسی ہیں جو لازماً پچھلی تعلیموں سے ملنی چاہئیں۔ مثلاً پہلے نبیوں نے کہا سچ بولا کرو۔ کیا قرآن یہ کہتا ہے کہ سچ نہ بولا کرو۔ جھوٹ بولا کرو؟ غرض فرمایا قرآن میں بعض تعلیمیں ایسی ہیں جو پہلی تعلیموں سے ملتی ہیں۔ مگر آگے فرماتا ہے۔

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ(آل عمران:8)

بیوقوف لوگ جدید تعلیموں پر نظر نہیں ڈالتے اور پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی تعلیموں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن نے یہ نقل کی ہے۔ وہ محض فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے اور اس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے ایسا کرتے

ہیںوَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ (آل عمران:8)

حالانکہ ان کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور وہی سمجھ سکتا ہے کہ کتنی تعلیم دوبارہ نازل کرنی ضروری ہے۔ انسان کے ہاتھ میں اس نے یہ کام نہیں رکھا۔ کیونکہ گو وہ تعلیم پہلے نازل ہو چکی ہوتی ہے مگر پھر بھی اس کی وہ مقدار جو آئندہ کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اور یا پھر خدا تعالیٰ کے علم دینے کے بعد وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی کتب کا حقیقی علم رکھنے والے ہیں سمجھ سکتے ہیں کہ کس حد تک اس تعلیم کو قائم رکھا جانا ضروری تھا اور کسی امر کو کیوں بدلا گیا؟

اس کی اور تشریحات صحیحہ بھی ہو سکتی ہیں۔ مگر ان میں محکم اور متشابہ کو معین نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ہی آیت ایک وقت میں محکم اور ایک وقت میں متشابہ ہو جاتی ہے۔ یعنی جو آیت کسی کی سمجھ میں آ گئی وہ محکم ہو گئی اور جو نہ آئی متشابہ ہو گئی مگر پھر اختلاف ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ایک معنی کے لحاظ سے کسی آیت کو محکم قرار دے دے اور دوسرا اسے درست نہ سمجھتے ہوئے اسے متشابہ کہہ دے مگر ان معنوں میں محکم آیات بالکل ظاہر ہو جاتی ہیں۔ یعنی وہ تعلیمات قرآنیہ جو پہلی کتب سے زائد ہیں وہ سب محکم ہیں اور دوسری متشابہ۔

سارے قرآن کو محکم اور سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے

باقی رہا یہ سوال کہ پھر ایک جگہ سارے قرآن کو محکم اور دوسری جگہ سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے۔ تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم کی اصطلاح میں محکم تعلیم وہی ہے جس میں قرآن کریم نے تجدید کی ہے۔ اور جس امر میں وہ پہلی کتب سے ملتا ہے وہ متشابہ ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے سارا ہی قرآن محکم ہے۔ کیونکہ اصولاً کسی تعلیم کو دیکھتے ہوئے اس کے کسی ایک ٹکڑے کو نہیں بلکہ مجموعہ کو دیکھتے ہیں۔ اور احکام کی مختلف اجناس کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اسلامی تعلیم بالکل جدا ہے۔ کسی حصہ تعلیم میں بھی اس نے اصلاح کو ترک نہیں کیا۔ اور وہ پہلی کتب کے بالکل مشابہ نہیں ہے، اس لئے وہ سب محکم ہے۔ لیکن اسی طرح چونکہ سب اصول شریعت کا پہلی کتب میں پہلے لوگوں کے درجہ کے مطابق نازل ہونا بھی ضروری تھا تا کہ پہلے زمانہ کے لوگ بھی اپنے اپنے دائرہ میں تکمیل حاصل کریں اس لئے ہر قسم کے احکام جو قرآن کریم میں ہیں کسی نہ کسی صورت میں پہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لحاظ سے قرآن کریم سب کا سب متشابہ ہے۔ نماز بھی پہلے مذاہب میں ہے۔ روزہ بھی ہے۔ حج بھی ہے، زکوٰۃ بھی ہے اور اس تشابہ کو دیکھ کر بعض لوگ دھوکے میں پڑ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا پھر کیا فائدہ ہوا۔ عیسائیوں میں سے ’’ینابیع الاسلام‘‘ وغیرہ کتابوں کے مصنف اسی گروہ میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دوسری کتب سے مشابہت ثابت کر کے قرآن کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے پہلے سے اس اعتراض کا ذکر کر کے اس کا نہایت واضح جواب دے دیا ہے۔ حق یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ ایک زبردست حقیقت بتائی ہے کہ ہر ایک آسمانی صحیفہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر کچھ محکم ہو اور کچھ متشابہ۔ متشابہ اس لئے کہ جو صحیفہ پہلی تعلیمات سے بکلی جدا ہو جاتا ہے وہ خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ اس سے پہلے کوئی شخص خدا کا برگزیدہ ہوا ہی نہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے کسی کو ہدایت دی ہی نہیں، اور یہ باطل ہوگا۔ اور محکم اس لئے کہ اگر وہ کوئی جدید خوبی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتا تو اس کی آمد کی ضرورت کیا ہے،پہلی تعلیم تو موجود ہی تھی۔ اور کون ہے جو اس اصل کی خوبی کا انکار کر سکے یا اس کی سچائی کو رد کر سکے۔

مفسرین نے محکم اور متشابہ کی تاویل میں بہت کچھ زور لگایا ہے۔ مگر اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انہوں نے بہت کچھ دھوکا کھایا ہے۔

اب چونکہ سردی بڑھ رہی ہے اور بادل بھی گھرے ہوئے ہیں اس لئے میں اسی پر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(اس تقریر کے بعد حضور نے تمام مجمع کے ساتھ مل کر دعا کی اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور اس امر پر سجدہ شکر ادا کیا کہ اس نے حضور کو کمزوری صحت کے باوجود جلسہ میں شامل ہو کر تقریر کرنے اور پھر سب کے ساتھ مل کر دعا کرنے کی توفیق بخشی۔ فالحمدللہ علی ذالک)

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button