حضرت مصلح موعود ؓ

دنیا میں ترقی کرنے کے گُر

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(فرمودہ 12 ستمبر 1931ء بمقام مسجد احمدیہ سیالکوٹ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ تقریر 12؍ ستمبر 1931ء کو مسجد احمدیہ سیالکوٹ میں بعد نماز مغرب فرمائی۔ حضورؓ نے سورۃ الفرقان کی آیت 78 کی تلاوت فرماتے ہوئے اس کے حصہ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ کی انتہائی لطیف تفسیر بیان فرمائی اور اس سے دنیا میں ترقی کرنے کے گر بیان فرمائے۔ یہ تقریر قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

ابھی ایک دوست نے قرآن کریم کا ایک رکوع تلاوت کیا ہے جس کی آخری آیت یہ ہے

قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ(الفرقان:78)

یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے رسولﷺ تو ان لوگوں کو میری طرف سے یہ پکار کر سنا دے کہ تمہارے رب کو تمہاری پرواہ کرنے کی کیا ضرورت ہے اگر تمہاری طرف سے دعا کا سلسلہ جاری نہ ہو۔انسان اگر اپنی ہستی پر غور کرے تو آسانی سے معلوم کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔عام طور پر بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا نماز پڑھنا صدقہ دینا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا خدا تعالیٰ پر احسان ہے۔چنانچہ دیکھا گیا ہے بعض نادان جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو کہتے ہیں معلوم نہیں خدا نے ہمیں کیوں مصیبت میں ڈالا۔ہم تو نمازیں پڑھتے اور دوسرے مذہبی احکام پر عمل کرتے ہیں۔گویا وہ اپنے دل میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان سے بدسلوکی کی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے۔کسی شخص کا بیٹا مر گیا اور اس کا ایک دوست تعزیت کے لئے اس کے پاس گیا۔تو وہ چیخ مار کر رو پڑا اور اس سے کہنے لگا خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔گویا اس کے خیال میں اس کا کوئی حق خدا تعالیٰ نے مار لیا تھا۔مگر سوچنا چاہئے وہ کونسا حق ہے جو بندہ نے خدا تعالیٰ پر قائم کیا ہے۔مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی نماز،روزہ،زکوٰۃ، حج اور تقویٰ طہارت پر فخر کیا کرتے ہیں وہ تو کسی تکلیف کے موقع پر چلا اٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر ظلم کیا۔لیکن ہندوستان کا وہ شرابی شاعر جو دین سے بالکل غافل تھا۔ایک سچائی کی گھڑی میں باوجود شراب کا عادی ہونے کے خدا تعالیٰ کا الہام اس کے دل پر نازل ہوتا ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے۔

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

غور کرنا چاہئے جو چیز بھی انسان کے پاس سے جاتی ہے وہ آئی کہاں سے تھی۔ذرا اپنی حیثیت کو تو دیکھو وہ کونسی چیز ہے جسے اپنی کہہ سکتے ہو۔انسان کہتا ہے میری بیوی ہے مگر وہ کہاں سے آئی؟ بچے جنہیں اپنے کہا جاتا ہے، کہاں سے آئے ہیں؟ اسی طرح مکان، زمین اور سب دوسری اشیاء جنہیں اپنی سمجھا جاتا ہے، کہاں سے آتی ہیں؟ اگر ان چیزوں کی حقیقت پر غور کیا جائے تو بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ یہ چیزیں انسان کی نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے موہبت اور عطیہ ہیں اور عطیہ دینے والے کا حق ہے کہ جب چاہے واپس بھی لے لے۔بلکہ عطیہ بھی اسے کہتے ہیں جو کبھی واپس نہ لیا جائے۔مگر دنیا میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے، وہ آخر لے لیا جاتا ہے۔اس سے معلوم ہوا دنیا میں انسان کو حقیقی عطیہ بھی نہیں ملتا۔بلکہ تمام اشیاء عاریتاً استعمال کے لئے دی جاتی ہیں اور اس طرح چیز دینے والے کا حق ہوتا ہے کہ جب چاہے، واپس لے لے۔

تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے

مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ

یعنی تم اپنی ہستی کو سمجھتے کیا ہو۔آخر انسان ہے کیا چیز کہ خداتعالیٰ اس کی پرواہ کرے۔دنیا میں جو چیز بھی ہے۔اس کی انتہاء خدا تعالیٰ پر ہی جا کر ہوتی ہے۔جیسا کہ فرمایا۔

اِلٰی رَبِّکَ مُنۡتَہٰٮہَا (النّٰزعات:45)

یعنی کوئی چیز اور کوئی نفس ایسا نہیں جس کی کڑی خدا تعالیٰ پر جا کر نہ ختم ہوتی ہواور جب ہرچیز کی انتہاء خدا تعالیٰ پر ہے تو پھر اگر خدا تعالیٰ انسان کو خود ہی بطور احسان نہ بلائے تو انسان چیز کیا ہے کہ اس کی پرواہ کرے۔

لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ

کے دو معنی ہیں۔یعنی اگر خدا تعالیٰ تم کو نہ پکارے اور یہ کہ اگر تم اس کو نہ پکارو۔اگر پہلے معنی لئے جائیں۔تو اس صورت میں اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اگر اس نے اپنی طرف سے یہ لازم نہ کر لیا ہوکہ میں تمہیں پکاروں گا یعنی بڑھائوں گا اور ترقی دوں گا،تو تم پورا نہیں کر سکتے۔اس نے خود بطور احسان اپنے پر یہ واجب کر رکھا ہے وگرنہ انسان کا کوئی حق نہیں۔دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہےاگر تم عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کے آگے جھک کر یہ نہ کہو کہ ہمارا کوئی حق تو نہیں۔اگر تو احسان کر دے تو تیری ذرہ نوازی ہے۔

دراصل یہی دو چیزیں ہیں جن سے انسان کو تقویٰ، ترقی اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔اور دنیا میں ساری ترقیات انہی دو طریق سے حاصل ہوتی ہیں۔یہ دعا نہیں کہ انسان ہاتھ اٹھائے اور کہہ دے یا اللہ! مجھے فلاں ترقی عطا کر یا ساری عمر ہاتھ میں تسبیح لے کر بیٹھا اللہ اللہ کرتا رہے۔بلکہ دعا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو ذرائع پیدا کئے ہیں ان کو استعمال کرے۔مثلاً اولاد حاصل کرنے کے لئے اس نے یہ ذریعہ مقرر کیا ہے کہ انسان حسب پسند شادی کرے۔اب اگر کوئی شخص شادی تو نہ کرے اور دعا کرتا رہے کہ خدایا مجھے اولاد عطا کر، تو یہ دعا قبول نہیں ہو سکتی۔کیونکہ دعا کے معنی ہی یہ ہیں کہ پہلے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع پر عمل کیا جائے اور پھر خدا تعالیٰ سے کامیابی کے لئے مدد مانگی جائے۔دیکھو حکومت نے منی آرڈر فارم مقرر کر رکھے ہیں اور جو شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ پہنچانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس فارم کو پُر کرکے دے۔یہ ایک مدد ہے جو گورنمنٹ اپنی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ بھیجنے کے لئے دیتی ہے۔اس نے یہ طریق مقرر کر رکھا ہے۔لیکن جو شخص اس طریق کو استعمال نہ کرے بلکہ خود ہی کوئی طریق ایجاد کر لے۔مثلاً شعروں کی کسی کتاب میں نوٹ رکھ کر ڈاک خانہ میں دے آئے کہ اسے فلاں جگہ پہنچا دو۔تو وہ گورنمنٹ کی امداد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔کیونکہ حکومت سے روپیہ دوسری جگہ پہنچانے میں جو مدد حاصل کی جا سکتی ہے اس کا طریق یہی ہے کہ یا تو منی آرڈر کر دیا جائے اور یا بیمہ یا مثلاً عدالت میں دیوانی دعویٰ کے لئے ایک شروح کورٹ فیس کی مقرر ہے۔فرض کرو ایک مقدمہ میں 25 روپیہ کورٹ فیس لگتی ہے۔لیکن کوئی شخص یہ تو نہ لگائے۔لیکن پچاس روپیہ کے نوٹ جلا کر کہے میں نے تو دوگنا خرچ کر دیا میرے مقدمہ کی سماعت ہونی چاہئے۔تو یہ درخواست ہرگز قبول نہ ہوگی۔کیونکہ اس نے وہ طریق اختیار نہیں کیاجو حکومت نے مقدمہ کی سماعت کا مقرر کر رکھا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ہر کام کے لئے علیحدہ علیحدہ ذرائع اور طریق رکھے ہیں۔دعا کے الگ طریق ہیں تربیتِ اولاد کے الگ اور تجارت و ملازمت کے لئے علیحدہ علیحدہ۔دعا کے لئے جو طریق ہیں، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جب بندہ خدا کو پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے۔یعنی جب کوئی بندہ ان ذرائع کو جو خدا تعالیٰ نے ترقی کے لئے مقرر کر رکھے ہیں۔استعمال میں لاتا ہے تو وہ اسے ترقی دیتا ہے اس کی مثال یورپ کے لوگوں میں مل سکتی ہے۔انہوں نے علوم سیکھے، تحقیقاتیں کیں، محنت کی، ایجادیں کیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو دنیوی ترقیات عطا کر دیں۔کیونکہ ان کے لئے اس نے یہ ایک ذریعہ مقرر کر رکھا ہے کہ محنت کرو اور کوشش سے مخفی باتیں معلوم کرو۔اہل یورپ نے اس ذریعہ سے اس سے مدد مانگی اور اس نے ان کی دعا کو سنا۔یعنی حکومت، دولت، شہرت، رعب، شوکت سب کچھ ان کو عطا کر دیا کیونکہ انہوں نے اس ذریعہ پر عمل کیا جو ان چیزوں کے حصول کے لئے اس نے مقرر کر رکھا ہے۔لیکن جو شخص اس ذریعہ پر عمل نہ کرے وہ خواہ کسی دوسرے طریق سے کتنی سخت مصیبت کیوں نہ اٹھائے اور محنت کیوں نہ کرے، اسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ایک قلندر جو دن بھر دربدر بندر کو لئے پھرتا ہے۔یقیناً ایک تاجر سے زیادہ محنت کرتا ہے۔مگر اس کے برابر آمد پیدا نہیں کر سکتا کیوں ؟اس لئے کہ دولت کمانے کا جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اسے وہ استعمال میں نہیں لاتا۔تو دنیا میں ترقی کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ بندہ خدا کو پکارے۔یعنی ان ذرائع کو کام میں لائے جو دنیوی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں۔

پھر اس آیت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ بندہ کو نہ پکارتا تو اس کا کیا حشر ہوتا۔بندوں کے خدا کو پکارنے کی مثال تو اہلِ یورپ میں دی جا چکی ہے یا ہندوستان میں ہندوئوں کی ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی اور خدا کے بندوں کو پکارنے کی مثال اس کے نبیوں کی ہے۔رسول کریمﷺ گوشہ گمنامی میں پڑے تھے اور غار ِحرا میں عبادتیں کیاکرتے تھے۔آپؐ نے وہ تمام ذرائع جو دنیوی ترقی کے ہیں ترک کر کے رکھے تھے۔مگر آپ کے پاس خدا تعالیٰ کا فرشتہ آیا اور اس نے کہا اٹھ خدا تجھے بلاتا ہے۔اور پھر اس گوشہ ٔگمنامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بادشاہ بنا دیا اور ایسی ترقی عطا کی کہ مذہب و ملک اور تمدن و معاشرت سب پر آپؐ کا رنگ چھا گیا۔حتیٰ کہ آپؐ کے غلام یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کئے بغیر اور لیبارٹیریز میں تجربات کرنے کے بغیر ہی ہر فن میں دنیا کے استاد بن گئے اور جس میدان میں بھی انہوں نے قدم رکھا، تمام دنیا سے آگے بڑھ گئے۔ایک صحابی کا بیان ہے رسول کریمﷺ نے مجھے ایک اشرفی دی کہ قربانی کے لئے بکری ہی لے آئو میں نے سوچا مدینہ میں تو اس رقم سے ایک ہی بکری ملے گی۔مگر کسی گائوں سے دو مل جائیں گی اس لئے میں نے ایک گائوں سے ایک اشرفی میں دو بکریاں خریدیں۔جب واپس آیا تو مدینہ میں کسی نے پوچھا۔کیا بکری فروخت کرو گے میں نے کہا۔ہاں۔اور ایک بکری ایک اشرفی میں اس کے پاس فروخت کر دی۔پھر رسول کریمﷺکے پاس جا کر بکری اور اشرفی بھی پیش کر دی اور آپﷺ کے دریافت فرمانے پر سب حال کہہ سنایا۔آپﷺ نے اس کی ہوشیاری کو دیکھ کر اس کے لئے دعا فرمائی۔نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود یہ کہ عرب ایرانیوں اور رومیوں جیسے تاجر نہ تھے مگر وہ صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ اگر مَیں نے مٹی بھی خریدی تو وہ سونے کے بھائو بک گئی۔لوگ زبردستی روپیہ میرے پاس تجارت کے لئے چھوڑ جاتے تھے اور میں لینے سے انکار کرتا رہتا تھا۔

(بخاری کتاب المناقب باب28حدیث نمبر3642صفحہ611 مطبوعہ 1999ء مکتبہ دارالسلام الریاض)

یہ لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ کے دوسرے معنی ہیں۔اس میں اپنے کسی ہنر یا محنت کا دخل نہ تھا۔یہ خدا تعالیٰ کی اپنی آواز تھی۔جس کے ذریعہ رسول کریمﷺ بڑھے اور آپﷺ کے ساتھ ہی آپﷺ کے وابستگان دامن بھی بڑھتے چلے گئے۔جیسے اگر کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو تو اس کا کوٹ، پاجامہ اور دوسرے پارچات بھی سوار ہو جائیں گے۔ان لوگوں نے یہاں تک ترقی کی کہ ایک واقعہ لکھا ہے۔حضرت ابوہریرہؓ کسی علاقہ کے گورنر مقرر ہوئے۔یہ کسریٰ کے خزانوں کی فتوحات کا زمانہ تھا۔جس میں ابوہریرہؓ کو ایک رومال ملا جو کسریٰ دربار میں آتے ہوئے زینت کے طور پر ہاتھ میں رکھاکرتا تھا۔ابوہریرہؓ کو جو چھینک آئی تو اس رومال سے ناک صاف کر لیا اور پھر فرمایا۔واہ ابوہریرہؓ کبھی تو وہ دن تھے کہ تو بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو جایا کرتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مرگی کا دورہ ہو گیا ہے تیرے سر میں جوتیاں مارا کرتے تھے اور آج یہ دن ہے کہ کسریٰ کے رومال میں تو تھوکتا ہے۔(ترمذی ابواب الزھد باب ماجاء فی معیشۃ اصحاب النبیﷺ وبخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبیﷺواصحابہ)حضرت ابوہریرہؓ بہت بعد میں ایمان لائے تھے۔یعنی رسول کریمﷺ کی وفات سے صرف تین سال قبل۔اس کمی کو پورا کرنے کے لئے آپؓ مسجد سے باہر نہیں نکلتے تھے۔تا رسول کریمﷺکی ہر ایک بات سن سکیں۔اس وجہ سے ان کو بعض اوقات سات سات فاقے آ جاتے۔لوگ سمجھتے انہوں نے کھانا کھا لیا ہوگا۔اور ان سے دریافت نہ کرتے۔وہ شدت بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے اور لوگ مرگی کا دورہ سمجھ کر جوتیاں مارتے کیونکہ اہل عرب میں یہ رواج تھا۔تو کبھی یہ حال تھا اور پھر اس قدر ترقی حاصل ہوئی کہ کسریٰ جیسے زبردست حکمران کی زینت و آرائش کا رومال آپؓ کے ناک صاف کرنے کے کام آتا تھا۔یہ

لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ

کی دوسری مثال ہے۔جب رسول کریمﷺ آگے بڑھے تو آپؐ کے وابستگان دامن بھی ترقی کر گئے۔جیسے وائسرائے کے دربار میں بڑے بڑے رئوسا اور معززین بھی بعض اوقات نہیں جا سکتے لیکن اس کا بہرہ جا سکتا ہے۔اسی طرح خدا تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والے بھی ترقی کر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے

کونو مع الصادقین(التوبہ:119)

کی تاکید فرمائی ہے۔کیونکہ جب صادقین کے لئے پھاٹک کھلتا ہے تو ساتھ ہی ان کے ساتھ رہنے والے داخل ہو جاتے ہیں۔اس لئے دنیا میں ترقی کے لئے ضروری ہے کہ یا تو انسان پوری پوری محنت اور کوشش کرے اور یا پھر خدا تعالیٰ سے ایسی لو لگائے کہ وہ اس کے لئے ترقی کے سامان خود بخود پیدا کر دے۔

(الفضل 27 ستمبر 1931ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button